Tag: تاریخ پر نظر

  • اڈیالہ جیل : کن بااثر شخصیات کا مسکن بنی؟ تاریخ پر ایک نظر

    اڈیالہ جیل : کن بااثر شخصیات کا مسکن بنی؟ تاریخ پر ایک نظر

    اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ خاص مقامات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، جن میں لیاقت باغ راولپنڈی، لاہور کا ریگل چوک، کراچی میں شاہراہ فیصل اور نشتر ہال پشاور نمایاں حیثیت رکھتے ہیں لیکن اگر جیلوں کی بات کی جائے تو ان میں اڈیالہ جیل راولپنڈی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔

    اس کی بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ اس میں وطن عزیز کی انتہائی اہم سیاسی اور بااثر شخصیات نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، اسی دوران اس جیل میں ملک کی سیاسی صورتحال میں اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے میں آیا۔

    سابق وزرائے اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف کے بعد ایک اور سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان بھی اب اسی مہمان خانے کے قیدی ہیں۔

    police

     اڈیالہ جیل کا تعارف

    اڈیالہ جیل جسے باضابطہ طور پر مرکزی جیل راولپنڈی کہا جاتا ہے نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کچھ انتہائی ڈرامائی ابواب کا مشاہدہ کیا ہے۔

    یہ جیل راولپنڈی میں واقع ہے اور اسے ایک اعلیٰ اور سہولیات سے آراستہ قید خانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس جیل نے عام مجرموں کے ساتھ ملک کی کچھ انتہائی بااثر اور سیاسی شخصیات کو بھی اپنی دیواروں کے حصار میں رکھا ہے۔

    اڈیالہ جیل کو 1970 کی دہائی کے آخر میں جنرل ضیاء الحق کے فوجی دورِ حکومت میں قائم کیا گیا تھا، جلد ہی یہ جیل سخت حالات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی وجہ سے شہرت حاصل کرگئی۔

    بعد ازاں 1979میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے بعد اس جیل نے قومی یادداشت میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا۔

     

    کون سی مشہور شخصیات اس کی مہمان بنیں؟

    اڈیالہ جیل نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران مختلف قسم کے قیدیوں کی میزبانی کی ہے، جن میں عام مجرموں سے لے کر سیاسی مخالفین اور حتیٰ کہ سابق حکومتی سربراہان تک شامل ہیں، ان مشہور شخصیات میں شامل ہیں۔

    ذوالفقار علی بھٹو : سابق وزیر اعظم جن کی 1979 میں پھانسی پاکستان کی تاریخ کا ایک متنازع واقعہ ہے۔

    یوسف رضا گیلانی : مشرف دور حکومت میں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سنائی گئی سزا کے تحت گیارہ فروری 2001 میں گرفتار کیا گیا اور پانچ برس بعد وہ سات اکتوبر 2006میں اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے۔

    نواز شریف : تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو متعدد بار کرپشن کے الزامات میں اڈیالہ جیل میں قید رکھا گیا۔

    عمران خان : سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی جنہیں 2023 میں کرپشن کے الزامات پر گرفتار کیا گیا اور اڈیالہ جیل میں رکھا گیا اور تادم تحریر اسی جیل میں مقید ہیں۔

    سیاسی ہنگامہ خیزیوں کی علامت

    اڈیالہ جیل میں اعلیٰ سیاسی شخصیات کی بار بار قید پاکستانی سیاست کی ہنگامہ خیز نوعیت کی عکاسی کرتی ہے، یہ جیل ملک میں بدعنوانی، سیاسی عدم استحکام اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد کی علامت بن چکی ہے۔

    عالمی شہرت کیسے ملی؟

    اڈیالہ جیل کو اس وقت عالمی سطح شہرت ملی جب برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے پاکستان کے دورہ کے دوران اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف سے اپنے ایک شہری مرزا طاہر حسین کی پھانسی کو موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔

    یہ برطانوی شہری ایک ٹیکسی ڈرائیور کو قتل کرنے کے الزام میں 1988 سے قید تھا، پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے اسے بےقصور قرار دے دیا تھا مگر پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے اسے مجرم قرار دیا اور پھانسی کی سزا سنائی۔

    Adiala jail

    امید اور مایوسی کا مقام

    مشہور ترین سیاسی مقدمات کے علاوہ اڈیالہ جیل میں ہزاروں عام قیدی بھی موجود ہیں جن کو سخت حالات اور بنیادی ضروریات تک محدود رسائی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ جیل کی تاریخ امید اور مایوسی کے ایک پیچیدہ امتزاج کی عکاسی کرتی ہے جو پاکستان کے نظام انصاف کی وسیع تر مشکلات کی عکاس ہے۔

    جیسا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان اپنے سیاسی اور سماجی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے، ایسے میں اڈیالہ جیل ملک کے ماضی اور حال کی ایک مضبوط علامت بنی ہوئی ہے۔

    اس کا ماضی تنازعات سے بھرپور ہے جو انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور ایک ایسی قوم میں انصاف کی نوعیت کے بارے میں سوالات کو جنم دیتا ہے جو اپنی شناخت کی تلاش میں ہے۔

  • پی آئی اے کے عروج و زوال کی کہانی

    پی آئی اے کے عروج و زوال کی کہانی

    پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ( پی آئی اے ) کسی زمانے میں وطن عزیز کا فخر اور سر کے تاج کا درجہ رکھتی تھی لیکن اس کے ساتھ نجکاری کے نام پر گزشتہ روز جو بھونڈا مذاق کیا گیا وہ افسوسناک ہے۔

    پی آئی اے کی تاریخ پر نظر دہرائی جائے تو یکم فروری 1955 کو پی آئی اے کی پہلی غیر ملکی پرواز نے کراچی سے لندن براستہ قاہرہ کیلئے اڑان بھری، اس ایئر لائن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہے کہ جس نے سب سے پہلے جیٹ طیاروں کو اپنے بیڑے میں شامل کیا۔

    قومی ائیرلائن کیلیے سال 1956ء میں نئے جہاز خریدے گئے، سال 1962ء میں اس ایئرلائن نے تاریخی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے لندن سے کراچی تک کا فاصلہ چھ گھنٹے 43 منٹ میں طے کیا۔

    بعدازاں یہ ایئرلائن ترقی کی منازل طے کرتی رہی، یہاں تک کہ سال 1985ء میں امارات ایئر لائن کا آغاز بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) سے طیارے لیز پر لے کر کیا گیا تھا۔

    پی آئی اے دنیا کی پہلی نان کمیونسٹ ایئر لائن تھی جس نے چین میں لینڈ کیا، پہلی ایئر لائن جس نے ماسکو کے راستے ایشیا کو یورپ سے منسلک کیا، دنیا کی یہ پہلی ایئر لائن ہے کہ جس نے دوران پرواز مسافروں کی تفریح کیلیے موویز اور میوزک کو متعارف کرایا۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی آئی اے نے سال 1967 میں اس وقت آئی بی ایم کمپیوٹر خریدا جب لوگ کمپیوٹر کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔

    اس کے علاوہ روشنیوں کے شہر کراچی کا سنہرا دور جب یہاں 40 ایئر لائنز کمپنیاں لینڈ کیا کرتی تھیں اور ان میں سے 30 کمپنیوں کے فضائی اور زمینی عملے کی تربیت کا کنٹریکٹ پی آئی اے کو ملا۔

    عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے مشہور و معروف نعرہ ’باکمال لوگ لاجواب سروس‘ اور ’گریٹ پیپل ٹو فلائی ودھ‘ پی آئی اے کے نام کیا۔

    پی آئی اے کی نجکاری، اتنی کم بولی لگنے کی کیا وجوہات ہیں؟