Tag: تاریخ ہند

  • پاکستان میں‌ میلادُ النّبی ﷺ کی پہلی تقریب اور سفید ریش بزرگ

    پاکستان میں‌ میلادُ النّبی ﷺ کی پہلی تقریب اور سفید ریش بزرگ

    جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران آزادی کے بعد عید میلادالنّبی ﷺ کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔

    خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔

    افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔ میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اﷲ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا، ان سے مخاطب ہو کر بولا ’’بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔

    آپ روتے کیوں ہیں؟‘‘ سفید ریش بزرگ نے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ’’عزیزِ من، یہ رنج کے نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدہ لاشریک کی قسم، محمد رسول اﷲ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ ’چاندنی چوک‘ دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی سَتر پوشی کر رہے ہیں۔

    اس کی دکان کو نذر آتش اور اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔

    اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اﷲ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار و مدد گار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں۔ اپنے کانوں سے سرورِ دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدﷲ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی برضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدُ للہ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔‘‘

    سوال کرنے والا نوجوان یہ سن کر اس عمر رسیدہ بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔

    (نواب مشتاق احمد خان کی خود نوشت ’’کاروانِ حیات‘‘ سے ایک واقعہ)

  • ‘ارتھ شاستر’ وہ مشہور کتاب جس کے مصنّف کو حاسد اور مکّار کہا جاتا ہے

    ‘ارتھ شاستر’ وہ مشہور کتاب جس کے مصنّف کو حاسد اور مکّار کہا جاتا ہے

    زمانۂ قدیم کی معلوم تاریخ کے دو نام وَر کردار اور ایک قابلِ ذکر کتاب انیسویں صدی کے آغاز سے متضاد روایات کی دیگ میں شک و شبہے کی آنچ سے سلگ رہی ہے، لیکن مؤرخین اور محققین آج تک اس حوالے سے تشکیک کا شکار ہیں۔ سو، ایک عام اور گم نام شخص چندر گپت موریا جس نے بعد میں ایک عظیم سلطنت کے بانی کی حیثیت سے شہرت پائی اور اس کے ایک ذہین اور قابل اتالیق وشنو گپت کی زندگی اور اس کا علمی کارنامہ آج بھی قبول و رد کی سرحد پر جھول رہا ہے۔

    قبل از مسیح کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ چندر گپت موریا ایک بے سروسامان اور گم نام شخص تھا جس نے ہندوستان میں موریا سلطنت کی بنیادی رکھی۔ یہ پہلا حکم راں ہے جس نے شمالی ہند کی تمام ریاستوں کو زیر کیا اور سلطنت قائم کرلی۔ اس نے 298 سے 322 قبلِ مسیح‌ میں کئی جنگیں لڑیں، جن میں سب سے اہم جنگ سکندر کے ایک سالار سِلوکس کے ساتھ ہوئی۔ اسے جین مت کا پیروکار لکھا گیا ہے۔

    اسی عظیم شہنشاہ کا ایک اتالیق اور وزیرِ اعظم وشنو گپت تھا۔ کہتے ہیں وہ بڑا دانا تھا۔ ذہین، طبّاع اور ایک عالم تھا جو اس زمانے میں چانکیا کوٹلیا کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بارے میں کئی روایات اور قصّے پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں غالبا مذہب اور معاشرت کے تفاوت کی بنیاد پر اس کی کردار کُشی بھی کی گئی ہے۔ مشہور ہے کہ وہ ایک حاسد انسان تھا اور اسی لیے وہ کوٹلیا مشہور ہوا۔ ذات کا برہمن تھا۔ اسی کی مدد سے چندر گپت نے عظیم الشان سلطنت قائم کی اور تاریخ میں‌ اپنا نام لکھوانے میں‌ کام یاب رہا۔

    چانکیا کو سیاسی مدبّر، منتظم اور عالم فاضل بھی مانا جاتا ہے اور مکّار و سازشی بھی۔ اس کی شخصیت اور کردار سے نظر ہٹا کر جب ’’ارتھ شاستر‘‘ کی بات کی جاتی ہے تو یہ ایک عظیم تصنیف مانی جاتی ہے۔

    یہ اسی وشنو گپت المعروف چانکیا کوٹلیا کی تصنیف ہے جس نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ اس کتاب میں قدیم ہندوستانی تمدّن، علوم و فنون، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسم و رواج، اور ریاستی امور سمیت کئی اہم موضوعات چانکیہ نے اپنی فکر اور علمیت کا اظہار کیا ہے۔

    ماہرین و محققین متفق ہیں کہ یہ کتاب 300 سے 311 قبلِ مسیح کے دوران لکھی گئی۔ اس کتاب کا اصل متن سنسکرت میں تھا اور یہ 1904ء میں دریافت ہوئی۔ 1905ء میں اسے پہلی بار کتابی شکل دی گئی اور بعد کے ادورار میں اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔

    ارتھ شاستر کو چانکیا کا علمی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے جس کے تین بنیادی حصّے ہیں۔ ایک انتظامیہ، دوسرا ضابطہ و قانون اور انصاف کے مباحث پر مشتمل ہے اور تیسرے میں خارجہ پالیسی کا بیان ہے۔ اس کے علاوہ تہذیب اور تمدّن پر نہایت عمدہ مضامین شامل ہیں۔

    چانکیا اور اس کی تصنیف ارتھ شاستر کی نسبت متضاد آرا مشہور ہیں اور اس پر مباحث کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستانی اور مغربی محققین چانکیا جیسے کسی شخص کے وجود اور اس کی کتاب کے متن پر بھی شک و شبہ ظاہر کرتے رہے ہیں اور اس بارے میں اختلافِ رائے موجود ہے، لیکن بعض ممتاز مغربی محققین اور مستشرقین کا کہنا ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کتاب چانکیہ کی تصنیف ہے یا نہیں، لیکن یہ اپنے وقت کی اہم ترین اور لائقِ مطالعہ کتاب ضرور ہے جس نے موجودہ دنیا کو ایک قدیم تاریخ اور تہذیب کی کہانی سنائی ہے۔