Tag: تاریخ ہندوستان

  • حافظ نور اللہ سے نواب سعادت علی خان کی فرمائش

    حافظ نور اللہ سے نواب سعادت علی خان کی فرمائش

    دریا کے دو کناروں پر بسے ہوئے لکھنؤ کو بارہا روندا گیا اور حملہ آور افواج آگے بڑھ گئیں۔ ہندوستان کا یہ مشہور شہر صدیوں تک اجڑتا اور اپنے دامن میں لوگوں بساتا رہا یہاں تک کہ لکھنؤ کو ایرانی نژاد نوابینِ اودھ نے تہذیب و ثقافت کا گڑھ اور علم و ادب کا گہوارا بنا دیا اور اہلِ لکھنؤ پر راج کیا۔

    عبدالحلیم شررؔ بیسویں صدی کی علمی و ادبی شخصیت تھے جنھیں لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب "مشرقی تمدن کا آخری نمونہ: گزشتہ لکھنؤ” ہمیں اُس لکھنؤ کی سیر کراتی ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور اس کتاب کے صفحات رفتگاں کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ اس کتاب کے ایک باب میں عبدالحلیم شررؔ نے لکھنؤ کے چند باکمال خوش نویسوں کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "علوم ہی سے وابستہ کتابت اور تحریر کے فن ہیں۔ مسلمانوں کا پُرانا خط عربی تھا جس کو نسخ کہتے ہیں۔ خلافتِ بغداد کے ازمنۂ وسطی تک ساری دنیائے اسلام میں مشرق سے مغرب تک یہی خط تھا جو ارض حیرہ کے پرانے خط سے، خطِ کوفی اور خط کوفی سے خطِ نسخ بن گیا تھا۔ خاندانِ طاہریہ کے زمانے سے وہ تمام علم و فن جو بغداد میں عروج پا رہے تھے، ایران و خراسان کی طرف آنے لگے۔ اور دیلمیوں اور سلجوقیوں کے زمانے میں بغداد کے اکثر کمالات ایران میں بخوبی جمع ہو گئے۔ خصوصاً دیلمیوں کے علمی ذوق اور تفننِ طبع سے ایران کا مغربی صوبہ آذربائیجان جو قدرۃً عراق عجم و عراق عرب کے آغوش میں واقع تھا، ہر قسم کی خوبیوں اور ترقیوں کا گہوارہ قرار پا گیا۔”

    "اسی علاقے میں پہلے پہل خط نے بھی نئی وضع اختیار کرنا شروع کی۔ کتابت خطاطی کی حدوں سے نکل کے نقاشی کی قلمرو میں داخل ہو گئی اور اس میں مصورانہ نزاکتیں پیدا کی جانے لگیں۔ عجمی نزاکت پسندوں کو خطِ عرب کی پرانی سادگی میں بھدا پن نظر آیا اور پرانی شان اور وضع خود بخود چھوٹنے لگی۔ نسخ میں قلم ہر حرف اور لفظ میں اوّل سے آخر تک یکساں رہا کرتا تھا۔ حرفوں میں غیر موزوں خمی اور غیر متناسب ناہمواری ہوتی تھی۔ دائرے گول نہ تھے بلکہ نیچے اور چپٹے ہوتے اور ادھر اُدھر ان میں کونے پیدا ہو جاتے۔ اب نقاشی کی نزاکت کو خطاطی میں ملا کے تحریر میں نوک پلک پیدا کی جانے لگی۔ حرفوں کی نوکیں، گردنیں، اور دُمیں باریک بنائی جانے لگیں۔ دائرے خوبصورت اور گول لکھے جانے لگے۔ اس جدید مذاق کو پوری طرح پیش نظر رکھ کے سب سے پہلے میر علی تبریزی نے، جو خاص دیلم کا رہنے والا تھا، اس نئے خط کو بااصول و باقاعدہ بنا کے مشرقی بلاد میں رواج دیا اور اس کا نام نستعلیق قرار دیا۔ جو اصل میں نسخ تعلیق یعنی ضمیمۂ نسخ تھا۔”

    "یہ نہیں معلوم کہ میر علی تبریزی کس زمانے میں تھے۔ منشی شمس الدین صاحب جو آج لکھنؤ کے مشہور و مستند خوش نویس ہیں، ان کا زمانہ تیمور سے پہلے بتاتے ہیں۔ لیکن نستعلیق کی کتابیں اتنی پُرانی ملتی ہیں کہ تیمور درکنار، ہم سمجھتے ہیں کہ اس خط کی ایجاد محمود غزنوی سے بھی پہلے ہو چکی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ محمود کے حملوں کے ساتھ ہی ساتھ ہندوستان میں فارسی خوش نویسوں کی بھی آمد شروع ہو گئی ہو گی۔ جس کے اثر سے یہاں اس خط کا رواج شروع ہوا۔ اور ہندوستان کے ہر صوبے اور ہر خطے میں نستعلیق کے خوش نویس کثرت سے پیدا ہو گئے۔ لہٰذا یا تو میر علی تبریزی کا زمانہ بہت قدیم ہے اور یا وہ اصلی موجدِ خط نہیں ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ دہلی و لکھنؤ بلکہ سارے ہندوستان کی موجودہ خوش نویسی اپنا استادِ اوّل میر علی تبریزی کو بتاتی ہے۔ ان کے ایک مدتِ دراز کے بعد ایران میں نستعلیق کی استادی میں میر عماد الحسنی کا نام مشہور ہوا، جو خوش نویسوں میں بڑے ممتاز و نامور کاتب اور استادُ الکُل مانے جاتے ہیں۔ ان کے بھانجے آغا عبد الرشید دیلمی، نادر شاہ کے حملوں کے زمانے میں واردِ ہند ہوئے اور لاہور میں آ کر ٹھہر گئے۔ لاہور میں ان کے صدہا شاگرد پیدا ہوئے جنہوں نے اقطاعِ ہند میں پھیل کے انہیں ہندوستان کی خوش نویسی کا آدم نہیں تو نوح ضرور ثابت کر دیا۔ انہی کے دو شاگرد جو ولایتی تھے، واردِ لکھنؤ ہوئے۔ ان دونوں بزرگوں میں سے ایک حافظ نور اللہ اور دوسرے قاضی نعمت اللہ تھے۔”

    "کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بیگ نامی آغا عبد الرشید کے ایک تیسرے باکمال شاگرد بھی لکھنؤ میں آئے تھے۔ ان حضرت کے آنے کا زمانہ غالباً نواب آصف الدّولہ بہادر کا عہد تھا، جب یہاں کوئی باکمال آ کے واپس نہ جانے پاتا تھا۔ قاضی نعمت اللہ آتے ہی اس خدمت پر مامور ہو گئے کہ شاہ زادوں کو اصلاح دیا کریں اور حافظ نور اللہ کو بھی دربارِ اودھ سے تعلق ہو گیا اور ان دونوں نے یہاں ٹھہر کے لوگوں کو خوش نویسی کی تعلیم دینا شروع کی۔”

    "ان بزرگوں کے علاوہ یہاں اور پرانے خوش نویس بھی تھے جن میں سے ایک نامور بزرگ منشی محمد علی بتائے جاتے ہیں۔ مگر آغا الرشید کے شاگردوں نے اپنا ایسا سکّہ جما لیا کہ خوش نویسی کے تمام شائق بلکہ سارا شہر ان کی طرف رجوع ہو گیا۔ جسے خطاطی کا شوق ہوا، انہی کا شاگرد ہو گیا۔ اور تمام خوش نویسانِ سلف کے نام مٹ کے گمنامی کے ناپیدا کنار سمندر میں غرق ہو گئے۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ بزرگ اپنے کمال کے اعتبار سے اس کے مستحق بھی تھے۔”

    "حافظ نور اللہ کی لکھنؤ میں جو قدر ہوئی اس کا اندازہ اسی سے نہیں ہو سکتا کہ وہ یہاں سرکار میں ملازم ہو گئے تھے بلکہ لکھنؤ کی قدردانی کا صحیح اندازہ اس سے ہوت ہے کہ لوگ ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قطعوں کو موتیوں کے دام مول لیتے۔ یہاں تک کہ ان کی معمولی مشق بازار میں صرف ایک روپیہ حرف کے حساب سے ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھی۔”

    "ان دنوں اُمرا اور شوقین لوگ اپنے مکانوں کو بجائے تصویروں کے قطعات سے آراستہ کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے علی العموم قطعوں کی بے انتہا مانگ تھی۔ اور جہاں کسی اچھے خوش نویس کے ہاتھ کا قطعہ مل جاتا، اس پر لوگ پروانوں کی طرح گرتے اور اسے آنکھوں سے لگاتے۔ اس سے سوسائٹی کو تو یہ فائدہ پہنچتا کہ اکثر اخلاقی اصول اور ناصحانہ فقرے یا اشعار ہمیشہ پیشِ نظر رہتے، اور ہر وقت گھر میں اخلاقی سبق ملتا رہتا اور خوش نویسی کو یہ فائدہ پہنچتا کہ خوش نویسوں اور صاحب کمال خطاطوں نے اپنے کمال کو قطعہ نویسی ہی تک محدود کر دیا تھا۔ جو آب دار اور عمدہ وصلیوں کو لکھ کے تیار کرتے اور اسی میں وہ گھر بیٹھے دولت مند ہو جاتے۔ مگر افسوس اب ہندوستان سے قطعات اور کتبوں کا رواج اُٹھتا جاتا ہے اور ان کی جگہ تصویروں نے لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے اگلے نفیس و مہذب شرعی مذاقِ آرایش کے مٹ جانے کے ساتھ خوش نویسی بھی ہندوستان سے اٹھ گئی۔ اب کاتب ہیں، خوش نویس نہیں ہیں۔”

    "اور جو دو ایک خطاط مشہور بھی ہیں، وہ مجبور ہیں کہ کاپی نویسی اور کتابت سے اپنا پیٹ پالیں جو چیز کہ اصل میں خوش نویسی کی دشمن ہے۔ بہ خلاف اس کے، ان دنوں ایک گروہ قائم ہو گیا تھا جس کا کام فقط یہ تھا کہ خوش نویسی کو اپنے اصول پر قائم رکھے اور اس کو وقتاً فوقتاً مناسب ترقیاں دیتا رہے۔ چنانچہ اگلے خوش نویس، کتابت کو اپنی شان سے ادنا سمجھتے تھے اور خیال کرتے کہ جو شخص پوری پوری کتابیں لکھے گا، وہ غیر ممکن ہے کہ اوّل سے آخر تک اصول و قواعدِ خوش نویسی کو پوری طرح نباہ سکے۔ اور سچ یہ ہے کہ جتنی محنت اور مشقت وہ لوگ ایک ایک وصلی کی درستی میں کرتے تھے، اس کی عشرِ عشیر محنت بھی کاتب کسی پوری کتاب کے لکھنے میں نہیں کر سکتے۔”

    "ان کی محنت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ سے ایک بار نواب سعادت علی خاں نے فرمایش کی کہ "مجھے گلستاں کا ایک نسخہ لکھ دیجیے” نواب سعادت علی خاں، گلستانِ سعدی کے بے حد شائق تھے اور کہتے ہیں کہ گلستاں ہر وقت ان کے سرہانے موجود رہا کرتی تھی۔ اور کوئی ایسی فرمایش کرتا تو حافظ نور اللہ اپنی توہین سمجھ کے اس کا منہ ہی نوچ لیتے مگر فرماں روائے وقت کا کہنا تھا، منظور کر لیا، اور عرض کیا، تو مجھے اسی گڈی کاغذ (ان دنوں رم کو گڈی کہتے تھے) ایک سو (100) قلم تراش چاقو اور خدا جانے کتنے ہزار قلموں کے نیزے منگوا دیجیے” سعادت علی خاں نے حیرت سے پوچھا: "فقط اکیلی ایک گلستان کے لیے اتنا سامان درکار ہو گا؟” کہا "جی ہاں، میں اتنا ہی سامان خرچ کیا کرتا ہوں۔” نواب کے لیے اس سامان کا فراہم کرنا کچھ دشوار تو تھا نہیں، منگوا دیا۔ اب حافظ صاحب نے گلستاں لکھنا شروع کی مگر پوری نہیں ہونے پائی تھی، سات ہی باب لکھنے پائے تھے اور آٹھواں باب باقی تھا کہ انتقال ہو گیا۔”

    "ان کے بعد جب ان کے بیٹے حافظ ابراہیم دربار میں پیش ہوئے اور انہیں سیاہ خلعتِ تعزیت عطا ہوا تو سعادت علی خاں نے کہا: "بھئی، میں نے حافظ صاحب سے گلستاں لکھوائی تھی، خدا جانے اس کا کیا حال ہوا؟” حافظ ابراہیم نے عرض کیا: "ان کے لکھے ہوئے سات باب تیار ہیں، آٹھواں باب باقی ہے، اسے یہ حقیر لکھ دے گا۔ اور اس قدر ان کی شان سے ملا دے گا کہ حضور امتیاز نہ کر سکیں گے۔ لیکن ہاں اگر کسی مُبصر خوش نویس نے دیکھا تو وہ بے شک پہچان لے گا۔” نواب نے اجازت دی اور اس گلستاں کو حافظ ابراہیم نے پورا کیا۔”

    "ان بزرگوں کے تذکرے سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ خوش نویسی میں لکھنؤ کو کوئی ایسا امتیاز حاصل ہو گیا تھا جو ہندوستان میں عدیم النظیر ہو، بہ خلاف اس کے میرا خیال ہے کہ نسخ کے جیسے جیسے باکمال دولتِ مغلیہ سے پہلے ہندوستان میں گزر چکے ہیں، ان کے عشرِ عشیر درجے کو بھی یہ لوگ نہیں پا سکتے بلکہ نسخ کا کمال ان دنوں مٹ چکا تھا۔ نستعلیق کے متعلق اس قدر البتہ کہا جا سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ اور حافظ ابراہیم کے ہاتھ کے قطعات جس ذوق و شوق سے سارے ہندوستان میں مقبول ہوئے اور کسی خوش نویس کے شاید نہ ہو سکے ہوں گے۔ لیکن اس پر بھی خطاطی کے فن میں لکھنؤ کا درجہ قریب قریب وہی تھا جو دیگر متمدن شہروں کا ہو سکتا ہے۔”

  • نور جہاں اور کبوتر

    نور جہاں اور کبوتر

    نورالدّین جہانگیر اپنے والد اور شہنشاہِ ہند جلال الدّین اکبر کی وفات کے بعد 1605ء میں تخت نشین ہوا۔ اس بادشاہ کی چہیتی بیوی کا نام نور جہاں تھا۔

    اکبر بے اولاد تھے اور انھیں ایک بزرگ کی دُعا کے بعد بیٹا عطا ہوا تھا، جس کا نام سلیم رکھا گیا۔ اکبر کے اسی بیٹے نے تخت نشینی کے لیے نورالدّین جہانگیر کا نام اختیار کیا تھا۔ بادشاہ جہانگیر نے متعدد شادیاں کیں اور بادشاہ بننے کے بعد 42 سال کی عمر میں نور جہاں سے بھی شادی کی۔ اس وقت نور جہاں کی عمر 34 سال تھی جس سے ملاقات کا ایک دل چسپ واقعہ تاریخ کی کتب میں موجود ہے۔ ملاحظہ کیجے۔

    روبی لال اپنی کتاب ‘ایمپریس: دی ایشٹانیشنگ رین آف نور جہاں’ میں لکھتی ہیں: ‘جب شہنشاہ جہانگیر باغ میں آئے تو ان کے دونوں ہاتھوں میں کبوتروں کا جوڑا تھا۔ اسی وقت انھیں ایک بہت خوب صورت پھول نظر آیا۔ وہ اسے توڑنا چاہتے تھے، لیکن ان کے دونوں ہاتھ آزاد نہیں تھے۔ اسی دوران ایک خوب صورت عورت وہاں سے گزری۔ جہانگیر نے کبوتر اس خاتون کے دونوں ہاتھوں میں تھما دیے اور پھول توڑنے کے لیے پلٹ گئے۔

    جہانگیر جب واپس آئے تو انھوں نے دیکھا کہ خاتون کے ہاتھ میں صرف ایک کبوتر تھا۔ انھوں نے دوسرے کبوتر کے بارے میں دریافت کیا۔ اس عورت نے جواب دیا ‘اُڑ گیا’، بادشاہ نے پوچھا کہ کیسے۔ اس خاتون نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور دوسرا کبوتر اڑاتے ہوئے کہا، ‘ایسے…’

  • برطانوی راج میں مضحکہ خیز مقدمات اور سزائیں

    برطانوی راج میں مضحکہ خیز مقدمات اور سزائیں

    برصغیر میں تجارت کا پروانہ لے کر آنے والے انگریزوں نے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے اپنے قدم جمائے اور ہندوستان میں برطانوی راج قائم ہوگیا تو انتظامی امور کے ساتھ قانون سازی اور عدالتی نظام بھی متعارف کروایا۔ انگریزی قانون کے ذریعے بااختیار افسر ہندوستانیوں‌ کی تذلیل کر کے خوش ہوتے تھے۔

    غدر کے بعد تو ہر انگریز افسر کو اختیار تھا اور وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو گولی مارنے کا حکم یا پھانسی دینے یا جیل بھیجنے کا حکم دے دیتا تھا۔ باغیوں ہی نہیں عام شہریوں کا بھی قتل کیا گیا اور معمولی جرم پر یا کسی انگریز افسر کی مرضی کے خلاف کام ہوجانے پر سزا سنا دی جاتی تھی۔

    یہاں ہم برطانوی راج میں جرم و سزا سے متعلق کتاب تاریخِ جرم و سزا سے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ اس کے مصنّف امداد صابری ہیں‌ جن کی یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

    امداد صابری ہندوستان کے نام ور صحافی اور مجاہدِ آزادی تھے جنھیں تحریر اور تقریر میں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو ادب اور تاریخ کے موضوع پر بہت مفید اور لائقِ مطالعہ ہیں۔ ان کی کتاب سے اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    طریقۂ عدل
    اس زمانہ میں عدل کا طریقۂ کار انتہائی مہمل اور طفلانہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیسٹنگز نے عدالتوں کا بندوبست کیا۔ اور انگریزی عدالتوں کی بنیاد رکھی۔اور اس نے انگریزی کلکٹروں کے ساتھ پنڈت اور مولوی مقرر کئے جو ان کو دھرم شاستر اور فقہ کے اصول سمجھاتے تھے۔ اس نے کلکتہ میں اپیل کی دو عدالتیں بھی قائم کیں جو دیوانی اور فوجداری مقدمات علیحدہ علیحدہ فیصلہ کرتی تھیں۔ قانون کی ایک کتاب بنائی گئی تھی تاکہ عوام قانون سے واقف ہو جائیں۔

    بنگال کے پہلے سپرنٹنڈنٹ کی ڈائری
    انگریزی قانون پر شروع میں جس طرح عمل درآمد ہوا وہ بہت بھونڈا اور مضحکہ خیز تھا جو شاید کسی بھی حکومت کے دور میں اس بے ڈھنگے طریقے سے شروع نہ کیا گیا ہوگا۔ جب سپریم کورٹ (موجودہ ہائیکورٹ ) قائم ہوا اور اس کی حیثیت یہ تھی کہ چند زیورات تک چوری کے مقدمات ابتدائی سماعت کے لئے وہاں پیش کئے جاتے تھے۔ اور سزائے تازیانہ، تشہیر کرنے اور جوتوں کی سزا دینے اور دریا پار کرنے کا اختیار بطور خود سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تھا۔

    اگر آپ کو وہ مضحکہ خیز منظر دیکھنا ہے تو آئیے کلکتہ کے پہلے سپرنٹنڈنٹ پولیس پلیڈل کی ڈائری کے چند اوراق ملاحظہ کیجئے۔

    بھگوڑے ملازم کی سزا
    4 جون 1775، آج میں ناشتہ سے فارغ ہو کر اپنے برآمدہ میں بیٹھا ہوا حقہ پی رہا تھا کہ مسٹر جان نگول کے ملازم نے رپورٹ کی کہ اس کے آقا کا باورچی رنجن کام چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اور اس کی جگہ جو نیا باورچی رکھا گیا ہے اسے رنجن نے مارا۔ میں نے رنجن کو بلوایا۔ معلوم ہوا وہ پرانا مفسد ہے اور ایسی حرکتوں کی بناء پر اس کا کان بھی کاٹا جا چکا ہے۔ میں نے حکم دیا کہ رنجن کو دس بید لگائے جائیں اور اسے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔

    دھوکہ دہی کی سزا
    کرنل واٹسن نے رپورٹ کی کہ رام سنگھ نے انہیں دھوکہ دیا اور اپنے کو بڑھئی ظاہر کر کے تنخواہ وصول کی حالانکہ وہ حجام ہے اور بڑھئی کے کام سے بالکل واقف نہیں۔ حکم ہوا کہ رام سنگھ کے پندرہ بید لگائے جائیں اور قلی بازار میں کرنل واٹسن کی کوٹھی تک اسے تشہیر کیا جائے۔

    مرمت حسبِ وعدہ نہ کرانے/ لونڈی کے فرار پر سزا
    کپتان اسکاٹ نے شکایت کی کہ بنارسی نے ان کی گاڑی کی مرمت حسبِ وعدہ نہیں کی، حکم دیا گیا کہ بنارسی کے دس جوتے لگائے جائیں۔ اینڈرسن پگی نے رپورٹ کی کہ ان کی لونڈی بھاگ گئی لیکن اسے چوکیدار نے گرفتار کر لیا۔ لونڈی کے دس بید لگائے گئے اور اسے مسٹر اینڈرسن کے حوالے کر دیا گیا۔

    چوری کی سزا
    جیکب جوزف نے شکایت کی کہ اس کے باورچی متھول نے چند برتن چرائے۔ میں نے حکم دیا کہ ملازم کو ہرنگ باڑی میں اس وقت تک قید رکھا جائے جب تک وہ برتن واپس نہ کر دے۔ رام ہری نے فریاد کی کہ رام گوپال اس کے بچے کی گردن سے تلسی دانہ اتار کر بھاگ رہا تھا اسے موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ حکم ہوا کہ مجرم کو پانچ جوتے لگا کر اسے سارے شہر میں تشہیر کیا جائے۔

    سرکاری حکم نہ ماننے کی سزا
    آٹھویں ڈویژن کے سپاہی بائیکس نے ایک لڑکے کے مولیہ کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کیا۔ وہ کئی بار چوری کے الزام میں سزا یاب ہو چکا تھا اور آخری مرتبہ میں نے حکم دیا تھا کہ اسے پندرہ بید لگا کر ہمیشہ کے لئے دریائے ہگلی کے دوسری جانب نکال دیا جائے۔ لڑکا مفسد ہے، میرے حکم کے خلاف دریا کو عبور کیا پھر کلکتہ آیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ میں نے اسے بیس بیدوں کی سزا دی اور دریا پار کرا دیا۔

    راہ گیروں کو چھیڑنے کی سزا
    مسٹر نوملے نے اپنے حقہ بردار کلو کی رپورٹ کی کہ وہ سڑک پر راہگیروں کو چھیڑتا ہے، حکم ہوا پانچ جوتے لگائے جائیں۔

    غلط رپورٹ کرنے کی سزا
    باقر محمد نے مسماۃ رام رجنی کے خلاف شکایت کی کہ اس نے مستغیث کی بیوی کو مغلط گالیاں دی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ باقر محمد کی بیوی بھی مسماۃ رام رجنی سے کم بد مزاج اور جنگجو نہیں ہے۔ دونوں عورتیں آپس میں گالی گلوچ کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ اس فضول شکایت سے میرا وقت خراب ہوا تھا اس لئے باقر محمد اور رام رجنی دونوں کو پانچ پانچ روپیہ جرمانہ کی سزا دی اور کہہ دیا کہ آئندہ اس قسم کی شکایت میرے کانوں تک پہنچی تو رام رجنی اور محمد باقر کی بیوی دونوں کو دریا پار کرا دیا جائے گا۔

    چور کی تشہیر/ کام چور کو جوتوں کی سزا
    مسٹر کینڈل نے اپنی مہترانی کے خلاف شکایت کی کہ وہ آبدار خانہ کی بوتلیں چرا کر ایک کالے (یعنی ہندوستانی) دکاندار بکتا رام کے ہاتھ فروخت کرتی ہے۔ بکتا رام نے اقبال جرم بھی کیا۔ نیٹو (Native) بنیوں کی شرارت کا سدباب کرنے کے لئے حکم دیا گیا کہ بیس بید بکتا رام کے لگائے جائیں۔ اور دس بید مہترانی کے اور دونوں کو پنجرے میں بٹھا کر تشہیر کی جائے۔

    کمپنی کے کلرک مسٹر پیسیج نے شکایت کی کہ خدا بخش اور پیاری نے ان سے پیشگی تنخواہ لے لی ہے مگر دونوں کام نہیں کرتے۔ دونوں کو دس دس جوتوں کی سزا دی گئی۔

    چاول کے عمل سے ملزم کی گرفتاری
    مسٹر ولنکسن کے بنگلہ میں چوری ہوئی، انہوں نے عمل کے ذریعے چور پکڑنے کے لئے ایک ملّا کی خدمت حاصل کی۔ ملّا نے ان کے ملازموں کو چاول چبانے کے لئے دیے۔ ولنکسن کی دائی گوری کے منہ سے سوکھے چاول نکلے اور اس پر شبہ ہوا۔ دائی نے ملّا کو بطور رشوت دس روپے نقد دیے کہ وہ مسٹر ولنکسن سے اس کی چوری کا ذکر نہ کرے۔ مسٹر ولنکسن کو خبر ہو گئی۔ انہوں نے مجھ سے رپورٹ کی۔ حکم دیا گیا کہ دائی کو تفتیش کے لئے تیسرے ڈویژن کے تھانہ میں بند رکھا جائے۔

    جوتا لگانا قانونی سزا تھی
    مسٹر پلیڈل کی ڈائری کے مطالعہ سے ہندوستان میں برطانوی انصاف کی ابتدائی انگریز پرستی کی قلعی کھل جاتی ہے کہ وہ کس طرح رعایا پر انگریزوں کا رعب جمانے کے لئے صرف حسبِ وعدہ مرمت نہ ہونے پر جوتے پڑواتا ہے۔ اس ڈائری سے ان باتوں پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہندوستانی امراء کس طرح انگریزوں کے جلو میں بھی مشعلچی ہوتے تھے۔ اور انگریز حقہ پیتے تھے۔ لونڈی غلام رکھنے کا عام رواج تھا۔ انگریزوں کے قبضہ میں بھی لونڈیاں تھیں۔ اگر کوئی لونڈی اپنے مالک کے ظلم و ستم سے بھاگتی تو اسے سزائے تازیانہ کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔جوتے لگانا ایک قانونی سزا تھی۔ برطانوی نظم و نسق سے پیشترعادی مجرموں کا ایک کان کاٹا جاتا تھا۔

    مولویوں کے عملیات کا زور
    اس زمانہ کے انگریز بھی مولویوں کے عملیات کے قائل تھے۔ اور چوری تک کے معاملات میں مولویوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ اور وہ اٹھارہویں صدی میں مشتبہ چوروں کا پتہ چاول چبوا کر لگاتے تھے۔

    سزائے تشہیر کا طریقہ
    مسٹر پلیڈل کی ڈائری میں بعض مجرموں کے لئے جو سزائے تشہیر تجویز کی ہے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مجرم کو بڑے سے چوبی پنجرے میں بند کر دیتے تھے۔ اور پنجرہ ایک خاص قسم کی بنی ہوئی اونچی گاڑی کے دھرے سے (جس کے پہیے پندرہ سولہ فٹ بلند ہوتے تھے) لٹکا دیا جاتا تھا۔ پولیس کے سپاہی گاڑی کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک شخص ڈھول بجا کر مجرم کے نام، جرم اور نوعیتِ جرم کی تشہیر کرتا تھا۔

  • فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    چندر گپت موریہ نے ہزار ہا سال پہلے خطّۂ ہندوستان میں ایک مستحکم اور وسیع سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ محققین نے قبلِ مسیح کے تہذیبی آثار اور مخطوطات کا جائزہ اور عمیق نظری سے مطالعہ کرنے کے بعد اسے ایک مضبوط نظامِ حکومت کی حامل ترقّی یافتہ سلطنت کہا ہے۔

    اس زمانے میں یونان کا میگستھنیز نامی ایک سفیر وہاں آیا اور اس نے ہندوستانی تہذیب پر اپنی ایک تصنیف انڈیکا کے نام سے چھوڑی ہے۔ اس کے بعد چین کے فاہیان اور ہیون سانگ نامی سیّاحوں کے سفر ناموں سے بھی قدیم ہندوستان کو سمجھنے میں‌ مدد ملتی ہے۔

    قدیم زمانے سے ہی ہندوستان علم و ادب اور تہذیب و مذہب کا گہوارہ رہا ہے۔میگستھنیز کی کتاب انڈیکا کو چندر گپت موریہ کے عہد کا ایک اہم ماخذ تصور کیا جاتا ہے جس کی مدد سے قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ ہندوستان پر سکندرِاعظم کے حملے کی تمام تفصیلات اس میں موجود ہیں۔

    یہ سفر نامہ تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہے۔میگستھنیز کے بعد ہندوستان آنے والے بیرونی سیاحوں میں فاہیان، ہیون سانگ، ابوریحان البیرونی اور ابنِ بطوطہ وغیرہ اہم نام ہیں۔ جنہوں نے اپنے رودادِ سفر میں اس عہد کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی ہندوستان کا نقشہ کھینچا ہے۔

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو پانچویں صدی عیسوی میں بدھ مذہب کی تعلیم کی غرض سے چندر گپت کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ یہاں پندرہ برسوں تک رہا اور مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو فاہیان ژوان (Fahein Zuhan) میں درج کیا ہے جس میں ہندوستان سے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔

    اس نے ہندوستان کے سماجی ڈھانچے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بقول فاہیان: ”ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ راجا نرم دل، مشفق اور رعایا پر مہربان ہے۔ غریبوں کے علاج کے لیے اسپتال بنائے گئے ہیں اور عمّالِ سلطنت کو سالانہ مشاہرے دینے کا رواج ہے۔ شراب نوشی اور گوشت خوری کا رواج نظر نہیں آتا۔قانون نرم اور حصولِ انصاف آسان ہے۔ بدھ مت عام لوگوں کا مذہب ہے لیکن اب اس پر برہمن مت دوبارہ غلبہ حاصل کر رہا ہے۔” (بحوالہ:‌ اردو ادب میں سفر نامہ لاہور، 1989)

    چنڈالوں کا ذکر اس انداز سے کیا ہے:
    ” گندے لوگوں، کوڑھیوں اور اچھوتوں کو چنڈال کہتے ہیں۔ یہ لوگ سب سے الگ تھلگ شہر کے باہر رہتے ہیں یا بازار میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی آمد کا اعلان کرتے جاتے ہیں تاکہ لوگ راستے سے ہٹ جائیں اور ان کے نزدیک نہ آنے پائیں۔ گوشت کا کاروبار صرف چنڈال لوگ کرتے ہیں اور وہ بھی شہر سے باہر۔”
    (بحوالہ: ہمارا قدیم سماج، سیّد سخی حسن نقوی)

    ہیون سانگ ساتویں صدی عیسوی میں ہرش وردھن کے زمانے میں چین سے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے راجا ہرش وردھن کے علاوہ کا مروپ، گاوڑ، مگدھ، چالوکیوں اور پلوؤں کی سلطنتوں کا سفر کیا۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو سیوکی (Sioki) نامی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ ہرش وردھن کے دربار میں 8 برسوں تک رہا۔ اس نے اپنی کتاب میں حکومتِ ہرش کو خاص جگہ دی ہے۔ ہیون سانگ کے بیان کے مطابق قنوج اس وقت ایک قلعہ بند، خوب صورت شہر تھا۔ ہرش وردھن نے 643ء میں ایک بہت بڑی مذہبی مجلس کا انعقاد کیا تھا جس میں بڑے بڑے راجاؤں اور مختلف دھرموں کے عالموں نے شرکت کی تھی۔ اس اجتماع میں ہیون سانگ نے بودھ مت کے فاہیان فرقے کے پیغام کی توضیح کی تھی۔

    ہیونگ سانگ نے یہاں تک لکھا ہے کہ راجا ہرش وردھن ہر پانچ سال کے بعد پریاگ کے مقام پر ایک مذہبی میلہ کا انعقاد کرتا تھا جو تین مہینے تک مسلسل لگا رہتا تھا۔ شاہی خزانے کی ساری دولت غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی حتیٰ کہ ہرش وردھن اپنے جسم کا لباس بھی تقسیم کر دیتا تھا۔

    ہیون سانگ نے اپنی کتاب میں ذات پات کی بھید بھاؤ کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرا اور برہمن عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ شودر لوگ زراعت پیشہ تھے۔ معاشرے میں چھوت چھات جیسی لعنت موجود تھی۔ ایک شہر یا گاؤں میں داخل ہونے سے قبل اچھوتوں کو باآوازِ بلند برہمنوں کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا پڑتا تھا۔

    ہیون سانگ کی تحریروں سے ہمیں نالندہ میں واقع ایک بودھ یونیورسٹی سے متعلق بھی تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اس زمانے کی ایک مشہور درس گاہ تھی اس میں تقریباً دس ہزار طلبا زیرِ تعلیم تھے۔ جس کے اخراجات حکومتِ وقت اور دو سو گاؤں مل کر برداشت کرتے تھے۔

    اس نے اپنے سفر نامے میں بطور خاص متنازع خطّہ وادئ کشمیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس نے کشمیر کے متعلق صرف پندرہ صفحات سیاہ کیے ہیں جس میں بڑی قطعیت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ یہ ہندوستان کی قدیم تاریخ و تمدن کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تہذیب و تمدن کو بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمیں پہلی مرتبہ اس بودھ کونسل کی اطلاع بہم پہنچاتی ہے جس میں بودھ دھرم کے بڑے فرقے (مہایان) فرقے کی مقدس کتاب ترتیب دی گئی۔ یہ بودھ مت کی تیسری کونسل تھی جس کی ادبی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اس کونسل کی تمام کارستانی تانبے کی تختیوں پر نقش کروائی گئی۔

    بقول ڈاکٹر مشتاق حیدر:
    “آج تک یہ شان دار تہذیبی تودہ، مذہبی خزانہ، پُر نور صحیفہ اور پُراسرار امانت کسی جنگل کی گہرائی میں خاموشی سے محوِ آرام ہے جیسے کسی محرمِ راز کا انتظار کر رہا ہو جس کی آنکھوں میں بصیرت کا سرمہ اور سینے میں معرفت کے دیے جگمگا رہے ہوں، جس کے سامنے یہ اپنا ساکت وجود کھولے اور ایک سیلابِ نور بن کر ابھرے۔ اگر ہیون سانگ ہمیں اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے تو عالمی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل گمنامی کی نذر ہو جاتا۔” (اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت از مرتب خواجہ محمد اکرام الدّین)

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو بدھ مت کا پیروکار اور ایک مصلح تھا، اس نے بدھ مت کے ان مقدس مقامات کی زیارت کی غرض سے ہندوستان کا سفر کیا جو آج کے دور میں‌ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کی سرحدوں میں آثار اور کھنڈرات کی صورت موجود ہیں یا ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ہے۔

    فاہیان کا یہ سفر قدیم دور کی تاریخ میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے قبل کسی بھی عالم اور مصنّف کا نشان اور ذکر نہیں‌ ملتا جو چین سے ہندوستان آیا ہو، محققین کا خیال ہے کہ فاہیان 399ء سے 412ء تک ہندوستان میں رہا۔

    (شیخ ظہورعالم کے مضمون سے ماخوذ)

  • لچھمن پور، لکھنؤ اور ہزار سَروں والا سانپ

    لچھمن پور، لکھنؤ اور ہزار سَروں والا سانپ

    ٹھیک کسی کو معلوم نہیں کہ لکھنؤ کی آبادی کی بنیاد کب پڑی، اس کا بانی کون تھا اور وجہ تسمیہ کیا ہے؟ لیکن مختلف خاندانوں کی قومی روایتوں اور قیاس سے کام لے کر، جو کچھ کہا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے۔

    کہتے ہیں، راجا رام چندر جی لنکا کو فتح کرکے اور اپنے بن باس کا زمانہ پورا کرکے جب سریرِ جہاں پناہی پر جلوہ افروز ہو ئے تو یہ سَر زمین انہوں نے جاگیر کے طور پر اپنے ہم سفر و ہمدرد بھائی لچھمن جی کو عطا کر دی۔ چنانچہ انہی کے قیام یا ورود سے یہاں دریا کے کنارے ایک اونچے ٹیکرے پر ایک بستی آباد ہو گئی جس کا نام اس وقت سے لچھمن پور قرار پایا اور وہ ٹیکرا لچھمن ٹیلا سے مشہور ہوا۔

    اس ٹیلے میں ایک بہت ہی گہرا غار یا کنواں تھا جس کی کسی کو تھاہ نہ ملتی تھی اور لوگوں میں مشہور تھا کہ وہ سیس ناگ (ہندو دیو مالا میں‌ سیس ناگ (شیش ناگ) اس ہزار سَر والے سانپ کا نام ہے جو دھرتی کو اپنے پھن پر اٹھائے ہوئے ہے) تک چلا گیا ہے، اس خیال نے جذباتِ عقیدت کو حرکت دی اور ہندو لوگ خوش اعتقادی سے جا جا کے اس میں پھول پانی ڈالنے لگے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ جودھستڑ کے پوتے راجہ جنم جے نے یہ علاقہ مرتاض بزرگوں، رشیوں اور منیوں کو جاگیر میں دے دیا تھا، جنہوں نے یہاں چپے چپے پر اپنے آشرم بنائے اور ہرؔ کے دھیان میں مصروف ہو گئے۔ ایک مدت کے بعد ان کو کمزور دیکھ کے دو نئی قومیں ہمالیہ کی ترائی سے آکے اس ملک پر قابض ہو گئیں جو باہم ملتی جلتی اور ایک ہی نسل کی دو شاخیں معلوم ہوتی تھیں، ایک بھر اور اور دوسری پانسیؔ۔

    انہیں لوگوں کا سید سالار مسعود غازیؔ سے 459 محمدی (1030ء) میں مقابلہ ہوا اور غالباً انہیں پر بختیار خلجی نے 631 محمدی ( 1202ء) میں چڑھائی کی تھی۔ لہٰذا اس سرزمین پر جو مسلمان خاندان پہلے پہل آکے آباد ہوئے وہ انہیں دونوں حملہ آوروں خصوصاً سید سالار مسعود غازی کے ساتھ آنے والوں میں سے تھے۔

    بھرؔ اور پانسیوں کے علاوہ برہمن اور کایستھ بھی یہاں سے پہلے موجود تھے، ان سب لوگوں نے یہاں مل کے ایک چھوٹا سا شہر بسا لیا اور امن و امان سے رہنے لگے۔

    لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بستی کا نام لچھمن پور سے بدل کر لکھنؤ کب ہو گیا۔ اس آخری مروّجہ نام کا پتا شہنشاہ اکبرؔ سے پہلے نہیں چلتا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندو اور مسلمانوں کی کافی آبادی پہلے سے موجود تھی، جس کا ثبوت اس واقعہ سے ہو سکتا ہے، جو شیوخِ لکھنؤ کی خاندانی روایتوں سے بہت پہلے سے موجود ہے کہ 969 محمدی ( 1540ء) میں جب ہمایوںؔ بادشاہ کو شیر شاہ کے مقابل جون پورؔ میں شکست ہوئی تو وہ میدان چھوڑ کے سلطان پور، لکھنؤ، پیلی بھیت ہوتا ہوا بھاگا تھا۔

    لکھنؤ میں اس نے صرف چار گھنٹے دم لیا تھا اور گو کہ شکست کھانے کے بعد آیا تھا اور کوئی قوّت و حکومت نہ رکھتا تھا مگر لکھنؤ کے لوگوں نے محض انسانی ہمدردی اور مہمان نوازی کے خیال سے اُن چند گھنٹوں ہی میں دس ہزار روپیہ اور پچاس گھوڑے اس کے نذر کیے تھے۔ اتنے تھوڑے زمانے میں اس سامان کے فراہم ہو جانے سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان دنوں یہاں معتدبہ آبادی موجود تھی۔ اور ان دنوں کا لکھنؤ آج کل کے اکثر قصبات سے زیادہ بارونق اور خوش حال تھا۔

    (اردو زبان کے نام وَر ناول نگار، مترجم اور کئی کتابوں کے مصنّف عبدالحلیم شرر کی کتاب گزشتہ لکھنؤ سے اقتباسات)

  • سرکاری افسران کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اجازت نامہ

    سرکاری افسران کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اجازت نامہ

    ہندوستان پر انگریز راج کے دوران یہاں کے عوام جن مظالم اور غیرانسانی سلوک کا شکار ہوئے، وہ تاریخ کا ایک بدترین اور شرم ناک باب ہے۔انگریز مؤرخین نے اپنی کتب میں عام طور پر برطانوی افسران اور امرا کے اس ظلم و ستم کو نظر انداز کیا ہے، لیکن بعض مصنّفین نے اس پر بھی قلم اٹھایا ہے۔

    اس زمانے میں دراصل برطانوی فوج کے افسران اور منتظمین سمیت اعلیٰ حکام کا بالخصوص اپنے ہندوستانیوں ملازمین کے ساتھ نامناسب اور توہین آمیز سلوک عام تھا۔ اس کے علاوہ ایسے قوانین نافذ تھے جنھوں نے انسانوں کو گویا غلامی پر مجبور کر رکھا تھا۔

    اس حوالے سے چند سال قبل ہندوستان میں برطانوی دور کی ایسی تصاویر( پوسٹ کارڈز) کی خصوصی نمائش بھی منعقد ہوئی تھی جو انگریز حکم رانوں اور امرا کی ذہینت اور ہندوستانیوں کے ساتھ جانوروں جیسے سلوک کی بدترین مثال ہیں۔

    اس حوالے سے یہاں ہم ایک ایسے قانون یا ہدایت نامے کا ذکر کررہے ہیں جو انگریزوں کی حاکمانہ سوچ کے تحت ہندوستانیوں کی تذلیل کرنے اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے توہین آمیز سلوک کا عکّاس ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    برطانوی نوآبادیاتی عہد میں عام ہندوستانی کو کسی سرکاری آفس میں انگریز افسر کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔

    سرکاری دفتر میں کرسی صرف اسی ہندوستانی کو پیش کی جاتی تھی جس کے پاس اجازت نامہ "کرسی نشیں” ہوتا تھا۔

    اس اجازت نامہ کو جاری کرنے کا اختیار صرف ڈسٹرکٹ کے ڈپٹی کمشنر کے پاس تھا۔ یہ اجازت نامے کمشنر آفس سے جاری ہوتے تھے جو اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے پاس آنے والوں کے مکمل کوائف، سماج میں ان کے مقام و مرتبے اور حیثیت کو دیکھتے ہوئے اجازت نامہ جاری کرتا تھا۔

  • کُشان کون تھے، کہاں‌ سے آئے تھے؟

    کُشان کون تھے، کہاں‌ سے آئے تھے؟

    ہندوستان میں زیادہ تر غیر ملکی قوموں کے قبیلے وسطی ایشیا سے آئے تھے جو سبھی ستیھین تھے۔ کچھ سیتھین قبیلے بکٹریا کی طرف اور کچھ مغرب میں پرتھیا کی طرف چلے گئے جب کہ زیادہ تر درّۂ دانیال سے ہو کر شمالی ہند میں پنجاب اور راجپوتانا کے میدانوں میں بس گئے۔

    اسی طرح سیتھین قبیلوں نے شمال کے بعد مغرب سے بھی دراوڑوں، بھیلوں اور سنتھال وغیرہ کو کھدیڑ کر ان کے ٹھکانوں پر اپنا قبضہ جما لیا اور بعد میں پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔

    سیتھین قبیلوں میں شک اور شکوں کی اولادوں میں ’’کُشان‘‘ مشہور حکم راں ہوئے۔

    شمال مغربی چین میں’’یوہ چی‘‘ نام کی برادری کے کئی قبیلے تھے جنھوں نے وسط ایشیا کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

    پہلی صدی قبلِ مسیح کے آخر تک اس برادری کے ایک طاقت ور قبیلے’’کشان‘‘ نے اپنی برادری کے بقیہ قبیلوں کو شکست دے کر ان پر اپنا قبضہ (بالا دستی) جمالیا۔ اس کے بعد پوری برادری کا نام ہی’’کُشان‘‘ پڑ گیا۔

    کُشان نسل کے لوگوں نے وسطی اشیا میں کاشغر اور کھیتان سے لے کر ہندوستان کے شمال مغرب میں پرتھیا اور بکٹریا پر قبضہ کر کے سندھ، پنجاب اور شمالی ہند میں کاشی تک اپنی حکومت پھیلا دی۔

    کشان شاہی گھرانے کا پہلا شہنشا ہ کڈ فائسِس اوّل تھا اور دوسرا بیٹا بِیم کڈ فائسِس دوم تھا۔ اس نسل کا تیسرا شہنشاہ کَنِشک ہندوستان کے کشان حکم رانوں میں سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ وہ بودھ مذہب کا پیرو تھا۔ ہندوستان میں اس کی حکومت کشمیر، پنجاب، سندھ و موجودہ اتر پردیش کے مغرب سے کاشی اور پاٹلی پُتر تک پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں شمالی ہند کا سنبھل علاقہ بھی شامل تھا۔

    اس کے علاوہ افغانستان، بکٹریا اور وسطی ایشیا کے یار قند، تاشقند، کاشغر اور کھیتان بھی اس کی ریاست میں ملے ہوئے تھے۔ کَنِشک کی راجدھانی پورُشپور (موجودہ پشاور) تھی۔ کَنِشک نے تقریباً 45 سال حکومت کی۔

    (ہندوستان میں بیرونی اقوام کی آمد، از پرنسپل ایم۔ عثمان، اقتباسات)