Tag: تاریخ

  • برطانیہ میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر

    برطانیہ میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر

    لندن: برطانیہ میں مہنگائی کی شرح 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، رواں ماہ ملک میں افراط زر کی شرح 11 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں افراط زر کی شرح 11.1 فیصد تک پہنچ گئی، یہ افراط زر برطانیہ میں 40 سال کی نئی بلند ترین سطح کی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افراط زر کی شرح اس سے بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے، ملک میں سالانہ مہنگائی کی شرح اکتوبر میں بلوں میں اضافے کے بعد بڑھی۔

    دفتر برائے قومی شماریات (او ایل این) کی جانب سے جاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ رواں برس مارچ میں افراط زر کی شرح 7 فیصد تھی، اپریل میں یہ 9 فیصد تک پہنچ گئی، اس کے بعد ستمبر میں یہ 10.1 فیصد پر جا پہنچی۔

    او ایل این کے مطابق ملک میں اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سب سے بڑا سبب بجلی، گیس اور دیگر ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جس سے مکانات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

    معمول کے مطابق برطانیہ میں، اپریل میں توانائی کی قیمتوں میں 54 فیصد اور موٹر ایندھن کی قیمتوں میں 31.4 فیصد اضافہ دیکھا گیا، اس سے ٹرانسپورٹ لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    مئی کے اوائل میں، بینک آف انگلینڈ نے پیشن گوئی کی تھی کہ برطانیہ کی افراط زر اس سال بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔

    اس میں سال کی چوتھی سہ ماہی میں 10 فیصد تک اضافہ دیکھا جائے گا کیونکہ یوکرین میں جاری روسی فوجی آپریشن کی وجہ سے خوراک اور توانائی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

    بینک آف انگلینڈ نے شرح سود میں مزید 2 فیصد اضافے کی درخواست کی ہے۔

  • آئی فون 14 کے لانچ کی تاریخ کا اعلان

    آئی فون 14 کے لانچ کی تاریخ کا اعلان

    امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے 7 ستمبر کو آئی فون 14 متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے، نئے میکس، کم قیمت اور بیش قیمت آئی پیڈز اور ایپل واچز کے 3 نئے ماڈل بھی متعارف کروائے جائیں گے۔

    ایپل ٹیکنالوجی کی صنعت کے لیے ایک غیر یقینی صورتحال میں اپنی فلیگ شپ مصنوعات کی جدید شکلیں متعارف کرارہی ہے۔ البتہ اس نے غیر متزلزل معیشت میں اپنی معاصر کمپنیوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

    آئی فون گزشتہ سہ ماہی میں نمایاں طور پر فروخت ہوا ہے اور کمپنی نے سپلائرز کو اشارہ دیا ہے کہ اس کی طلب میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

    کمپنی اس تقریب کو آن لائن اسٹریم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

    کمپنی نے جون میں اپنی گزشتہ تقریب منعقد کی تھی، اس میں اس نے سافٹ ویئر اپ ڈیٹس کے اگلے سیٹ آئی او ایس 16، آئی پی اے ڈی او ایس 16، واچ او ایس 9 اور میک او ایس وینٹورا کا اعلان کیا تھا اور پریس اور ڈویلپرز کو پیشکش کی ویڈیو دیکھنے کے لیے اپنے کیمپس میں مدعو کیا تھا۔

    پیر کو کمپنی نے اپنے کارپوریٹ عملے کو بتایا کہ انہیں مصنوعات کے طے شدہ اعلان سے 2 دن قبل 5 ستمبر سے ہفتے میں تین دن ذاتی طور پر کام کرنا ہوگا۔

    نیا معیاری آئی فون 14 آئی فون 13 کی طرح نظر آئے گا، اگرچہ کمپنی 5.4 انچ منی ورژن کو ختم کرے گی اور 6.7 انچ سکرین کے ساتھ ایک ماڈل شامل کرے گی، نیز ایپل پہلی مرتبہ اس سائز کے ڈسپلے کے ساتھ ایک غیر پرو آئی فون لانچ کرے گی۔

    کمپنی آئی فون 14 پرو لائن کے لیے بڑی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایپل فرنٹ فیسنگ کیمرے کے کٹ آؤٹ کی جگہ لے گا۔ اسے نوچ کے نام سے جانا جاتا ہے، فیس آئی ڈی سینسرز کے لیے گولی کی شکل کا سوراخ اور کیمرے کے لیے ہول پنچ سائز کی جگہ ہوگی۔ اس سے صارفین کو قدرے بڑی سکرین ملے گی۔

    کمپنی آئی فون 14 پرو میں تیز رفتار چپ بھی شامل کر رہی ہے، ایپل آئی فون 14 کے ماڈلز میں آئی فون 13 والی اے 15 چپ برقرار رکھے گی۔

    آئی فون 14 پرو میں سب سے اہم تبدیلیاں کیمرا سسٹم میں ہوں گی، جو صارفین کو قدرے بڑا نظر آئے گا۔ پرو ماڈلز کو 12 میگا پکسل الٹرا وائڈ اور ٹیلی فوٹو سینسرز کے ساتھ 48 میگا پکسل کا وائیڈ اینگل کیمرا ملے گا۔

    ایپل ویڈیو ریکارڈنگ اور بیٹری کی میعاد میں بہتری کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔

    سیریز 8 کے نام سے مشہور تازہ ترین ایپل واچز کے لیے ایپل خواتین کی صحت کے لیے فیچرز اور باڈی درجہ حرارت سینسر بھی شامل کرے گی۔

    نئی معیاری گھڑی سیریز 7 کی طرح نظر آئے گی، لیکن ایک نیا پرو ماڈل بھی اس کے بعد متعارف کروائے گی۔ اس میں ایک بڑا ڈسپلے، نئی فٹنس ٹریکنگ فیچرز اور بیٹری زیادہ وقت نکالنے والی ہوگی۔

    کمپنی تیز رفتار چپ کے ساتھ اپنی کم قیمت اسمارٹ واچ ایپل واچ ایس ای کی نئی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔

    اس کے علاوہ ستمبر میں کمپنی بعض اور مصنوعات بھی متعارف کروا رہی ہے ان میں: آئی او ایس 16 سافٹ ویئر ہے جو اگلے آئی فونز پر چلے گا، واچ او ایس 9، اگلا ایپل واچ آپریٹنگ سسٹم اور کمپنی آئی پیڈ او ایس، آئی پیڈ کے آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ اکتوبر میں میک او ایس وینٹورا لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

  • ریلوے اسٹیشن پر کھڑے شخص کی اچانک موت اور طاعون کا انجیکشن

    ریلوے اسٹیشن پر کھڑے شخص کی اچانک موت اور طاعون کا انجیکشن

    کلکتہ: ہندوستان کی تاریخ میں ایک سنسنی خیز واقعہ ایسا بھی گزرا ہے جس نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کر لی تھی، اس میں ایک سوتیلے بھائی نے بھائی کو مارنے کے لیے طاعون کا انجیکشن استعمال کیا، جس سے وہ نہایت تکلیف دہ موت مر گیا۔

    واقعہ کیسے پیش آیا؟

    یہ 26 نومبر 1933 کی ایک دوپہر کا واقعہ ہے، ریاست جھارکھنڈ کے ایک زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ 20 سالہ امریندر چندر پانڈے کولکتہ (کلکتہ) سے اپنی خاندانی زمین کی طرف جا رہے تھے، کہ ریلوے اسٹیشن پر ایک پستہ قد اجنبی اسے چھو کر گزرا، عین اسی لمحے انھیں اپنے دائیں بازو میں سوئی کی تیز چھبن محسوس ہوئی۔

    امریندر پانڈے سمجھ گیا کہ کسی نے انھیں کچھ چبھویا ہے، اُن کے ساتھ موجود رشتے داروں نے مشورہ دیا کہ وہ رُکیں اور خون کا ٹیسٹ کروائیں مگر بن بلائے اسٹیشن پر پہنچنے والے دس سال بڑے سوتیلے بھائی بینوئیندر نے کہا یہ معمولی بات ہے، سفر جاری رکھو۔

    ہوا یوں کہ تین دن بعد امریندر کو بخار ہوا، انھیں کولکتہ واپس آنا پڑ گیا، ڈاکٹر کے معائنے کے دوران معلوم ہوا کہ بازو پر ٹیکے کی سوئی جیسا نشان ہے، علاج شروع ہوا لیکن مرض بڑھتا گیا، چند دنوں میں بخار تیز ہو گیا، بغلوں میں سوجن پیدا ہو گئی، اور پھیپھڑوں کی بیماری کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے لگیں، پھر 3 دسمبر کی رات وہ کومے میں چلے گئے اور اگلی صبح موت واقع ہو گئی۔

    ابھی لیبارٹری رپورٹس نہیں آئی تھیں، ڈاکٹروں نے موت کی وجہ نمونیا کو قرار دے دیا، لیبارٹری رپورٹس آئیں تو انکشاف ہوا کہ امریندر پانڈے کے خون میں طاعون کا سبب بننے والا ہلاکت خیز بیکٹیریا ’یرسینیا پیسٹِس‘ موجود تھا۔

    واقعہ کیوں پیش آیا؟

    اس کیس کو سنسنی خیز شہرت حاصل ہو گئی تھی، کیوں کہ موت ایک دولت مند گھرانے کے نوجوان کی تھی۔ کولکتہ پولیس نے تفتیش شروع کی، تو معلوم ہوا کہ جرم کی بنیاد دراصل خاندان کی دولت پر جھگڑا تھا، ان دو سوتیلے بھائیوں کے درمیان کوئلے اور پتھر کی کانوں کے حوالے سے مشہور ضلع پاکڑ میں اپنے والد کی وسیع و عریض جائیداد پر 2 سال سے تنازع چل رہا تھا۔

    خبروں میں اس لڑائی کو نیکی و بدی کی لڑائی قرار دیا گیا، امریندر کو نفیس، بلند اخلاق، اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کا خواہش مند نیک لڑکا کہا جا رہا تھا، جب کہ بینوئیندر کو ایک بدکار شخص کہا گیا۔

    واقعے کی سازش کیسے کی گئی؟

    پولیس تفتیش میں بڑی منظم منصوبہ بندی کا انکشاف ہوا، معلوم ہوا کہ ہلاکت خیز بیکٹیریا ممبئی (بمبئی) کے ایک اسپتال سے چرایا گیا تھا، عدالتی دستاویزات کے مطابق امریندر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی ممکنہ طور پر 1932 میں کی گئی، جب بینوئیندر کے ایک قریبی دوست ڈاکٹر تارا ناتھ بھٹا چاریہ نے طبی لیبارٹریوں سے طاعون کا سبب بننے والے بیکٹیریا کا ایک نمونہ چرانے کی ناکام کوشش کی۔

    ایک برطانوی طبی اہل کار ڈی پی لیمبرٹ کا بیان سامنے آیا، ان کا کہنا تھا کہ بینوئیندر نے 1932 میں اپنے سوتیلے بھائی کو مارنے کی پہلی کوشش کی تھی، اس نے امریندر کو ایک پہاڑی قصبے میں چہل قدمی کے دوران جراثیم زدہ عینک اتنی قوت سے جمائی کہ ان کی جلد پھٹ گئی، امریندر بیمارے ہوئے اور ٹیٹنس ہو گیا، جو علاج سے ٹھیک ہو گیا، تاہم لیمبرٹ کے مطابق بینوئیندر نے علاج میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔

    طاعون کے بیکٹیریا کی چوری

    بینوئیندر کے دوست ڈاکٹر بھٹا چاریہ نے طاعون کا سبب بننے والا بیکٹیریا چرانے کی کم از کم 4 بار کوشش کی۔ مئی 1932 میں بھٹا چاریہ نے بیکٹیریا کے حصول کے لیے ممبئی کے ہافکائین انسٹیٹیوٹ سے رابطہ کیا، تاہم سرجن جنرل آف بنگال کے اجازت نامے کے بغیر نمونے فراہم نہیں کیے گئے۔

    مئی ہی میں بھٹا چاریہ نے کولکتہ میں ایک ڈاکٹر سے رابطہ کر کے دعویٰ کیا کہ وہ طاعون کا علاج دریافت کر چکے ہیں اور بیکٹیریا کے نمونوں کا استعمال کر کے اس کی آزمائش کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کوشش میں بھی وہ ناکام ہو گئے، پھر 1933 میں بھٹا چاریہ نے ایک مرتبہ پھر کولکتہ میں اُن ڈاکٹر پر زور ڈالا کہ وہ ہافکائین انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کو خط لکھیں کہ طاعون کا علاج آزمانے کے لیے انھیں انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔

    بینوئیندر نے ممبئی جا کر بھٹا چاریہ کے ساتھ مل کر ہافکائین انسٹیٹوٹ سے منسلک دو ویٹرنری سرجنز کو رشوت دینے کی بھی، اس نے بازار سے چوہے بھی خریدے تاکہ وہ خود کو سنجیدہ سائنسدان ظاہر کر سکے۔

    آخرکار ناکامی کے بعد یہ دونوں آرتھر روڈ انفیکشس ڈزیزز اسپتال گئے، یہاں بھی بیکٹیریا کے کلچرز رکھے جاتے تھے، دونوں کو یہاں کام کی اجازت مل گئی، لیبارٹری تک رسائی حاصل کرنے کے کوئی پانچ دن بعد دونوں نے اپنا ’کام‘ اچانک ادھورا چھوڑا اور کولکتہ لوٹ گئے۔

    واقعے کی دنیا بھر میں شہرت

    ایک دولت مند گھرانے کے چشم و چراغ کے سنسنی خیز قتل نے برطانوی انڈیا اور اس سے باہر لوگوں کی بھرپور توجہ حاصل کی، اسے انفرادی سطح کی حیاتیاتی دہشت گردی کا اہم کیس قرار دیا گیا۔

    اخبارات اور جرائد نے اس واقعے کی بہت زیادہ کوریج کی، ٹائم میگزین نے اسے ’مرڈر وِد جرمز‘ یا جراثیم کے ذریعے قتل قرار دیا، جب کہ سنگاپور کے اسٹریٹ ٹائمز نے اسے ’پنکچرڈ آرم مسٹری‘ یعنی بازو کو چبھونے کا راز قرار دیا۔

    دی پرنس اینڈ دی پوائزنر نامی کتاب کے لیے اس قتل پر تحقیق کرنے والے امریکی صحافی ڈین موریسن نے کہا کہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والا یہ قتل ’انتہائی جدید قتل‘ تھا۔

    گرفتاری

    قتل کے 3 ماہ بعد فروری 1934 میں پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا، تفتیش کاروں نے بینوئیندر کے سفری کاغذات، ممبئی میں اُن کے ہوٹل بلز، ہوٹل رجسٹر میں اُن کی اپنی لکھائی میں اندراج، لیبارٹری کو اُن کے پیغامات، اور چوہوں کی دکان کی رسیدیں حاصل کر لیں۔

    عدالتی کارروائی

    ٹرائل کورٹ میں یہ اس سنسنی خیز کیس کی کارروائی 9 ماہ تک چلی، وکیلِ دفاع نے کہا کہ امریندر کو چوہوں کو کاٹنے والی ایک مکھی نے کاٹا تھا۔

    عدالت نے بینوئیندر اور ڈاکٹر تارا ناتھ بھٹا چاریہ کو قاتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ممبئی کے اسپتال سے طاعون کے جراثیم چرائے تھے، جو کلکتہ لائے گئے اور قتل کے دن تک انھیں زندہ رکھا جا سکتا تھا، اور انھوں نے کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کرایا، عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنا دی۔

    تاہم، جنوری 1936 میں کلکتہ ہائی کورٹ نے مجرمان کی اپیل پر اُن کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔

    کرائے کا قاتل

    کلکتہ کے ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے اس قتل کے 90 سال بعد بھی، اب تک اس جوان زمیندار کا قاتل اور اس قتل میں استعمال ہونے والی سوئی آج تک نہیں مل پائی۔

  • سندھ کا پیر پٹھو: محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور کی داستان کیا ہے؟

    سندھ کا پیر پٹھو: محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور کی داستان کیا ہے؟

    وادیاں، بستیاں اور شہر زندگی کا نشان ہوتے ہیں، یہاں کبھی زندگی اپنے عروج پر ہوتی ہے، ہر چڑھتا دن، ہر نئی صبح ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے جب ان بستیوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگی ان کے لیے کچھ نیا لے کر آتی ہے۔

    لیکن وقت بے رحم ہوتا ہے، وہ ایسی چال چلتا ہے کہ کبھی ویران صحرا آباد ہوجاتے ہیں اور ایسے آباد ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ کبھی صحرا تھا، اور کبھی ایسا وار کرتا ہے، کہ ہنستے بستے شہروں اور وادیوں میں میلوں تک خاموشی اور ویرانی بس جاتی ہے۔

    پیر پٹھو کی وادی بھی ایسی ہی ہے جو اب میلوں تک پھیلا ہوا ایک شہر خاموش لگتی ہے۔

    صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے 119 کلو میٹر کے فاصلے پر مکلی سے جنوب کی طرف پیر پٹھو کی وادی موجود ہے، 120 ایکڑ پر محیط اس وادی میں جابجا مقبرے، مساجد اور قبرستان موجود ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ یہ وادی دراصل وہ دیبل ہے جہاں عرب کمانڈر محمد بن قاسم نے اپنا پڑاؤ ڈالا تھا۔ بعض مقامات پر اس جگہ کو، اور ان بزرگ کو جن کے نام پر یہ وادی ہے، پیر پٹھو دیبلی بھی لکھا گیا ہے۔

    وادی میں جابجا مقبرے، مساجد اور قبرستان موجود ہیں

    اس وادی میں موجود ایک واچ ٹاور، ایک قدیم مسجد اور دو درگاہیں اہم تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔

    ’محمد بن قاسم‘ ٹاور

    پیر پٹھو میں لائٹ ہاؤس کی طرز کا ایک طویل مینار موجود ہے جو محمد بن قاسم سے منسوب ہے، محکمہ سیاحت و ثقافت سندھ کی جانب سے بحالی کے عمل کے بعد اب یہ ٹاور سفید رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔

    ٹاور کی واحد لکڑی کی بالکونی سے پوری وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

    محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور

    مقامی افراد کا ماننا ہے کہ 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے جس دیبل بندر گاہ نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا، وہ یہی جگہ ہے، تاہم مؤرخین اور تاریخ کے طالب علموں کا خیال ہے کہ یہاں پر کھدائی اور قدیم آثار کی دریافت کے بعد ہی اس حوالے سے مستند طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وادی دریائے سندھ کے کنارے پر موجود تھی، کبھی دریائے سندھ یہاں سے گزرتا تھا تاہم کچھ عرصے بعد دریا نے یہاں سے اپنا راستہ بدل لیا، مقامی افراد کے مطابق جس نوعیت کا یہ ٹاور ہے ایسا عموماً بندر گاہوں پر ہی تعمیر کیا جاتا ہے۔

    ٹاور کی بالکونی

    ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ یہ ٹاور اور مسجد محمد بن قاسم کی آمد سے کئی سو سال پہلے تعمیر کیے گئے تھے۔

    دو محرابوں والی مسجد

    ٹاور کے سامنے ایک قدیم مسجد بھی موجود ہے، تاریخی حوالوں کے مطابق یہ مسجد سموں حکمران جام تماچی کی دی گئی رقم اور ہدایت پر تعمیر ہوئی جو چودہویں صدی میں حکمران رہے۔

    دو محرابوں والی مسجد

    تاہم اسے محمد بن قاسم کی تعمیر شدہ مسجد بھی کہا جاتا ہے، اس مسجد کے بارے میں ایک اور روایت ہے جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔

    صوبہ سندھ کے محکمہ سیاحت و ثقافت کے آرکیالوجیکل انجینیئر سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ اس مسجد کو دو محرابوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔

    مسجد کا اندرونی حصہ

    شیخ پیر پٹھو اور جمیل شاہ داتاری

    پیر پٹھو کی وادی ان دو بزرگان شیخ پیر پٹھو اور جمیل شاہ داتاری کی وجہ سے مشہور ہے، سندھ کی تاریخ سے متعلق کتابوں میں پیر پٹھو کا نام حسن بن راجپار بتایا گیا ہے، ان کی وفات سنہ 1248 عیسوی میں ہوئی۔

    جمیل شاہ داتاری جوناگڑھ سے آئے تھے اور پیر پٹھو کی وادی میں ہی وفات پائی، ان کے سخی مزاج کی وجہ سے انہیں سخی داتار (دینے والا) کے نام سے پکارا گیا۔

    درگاہ جمیل شاہ داتاری کے نگران سید شاہ خالد داتاری ان دونوں بزرگوں سے متعلق ایک روایت سناتے ہیں۔

    درگاہ جمیل شاہ داتار ۔ تصویر: ابو بکر شیخ

    کسی زمانے میں اس وادی میں ایک بڑا جادوگر یا سامی رہا کرتا تھا۔ یہ جادوگر ہر جمعے کے روز (موجودہ) پیر پٹھو کی پہاڑی پر ایک میلہ سجایا کرتا تھا جس میں تمام گاؤں والے شرکت کرتے۔

    میلے کے دوران جادوگر کسی ایک شخص کو پکڑتا اور اس کا خون پی جاتا، ہر جمعے کو گاؤں کے کسی نہ کسی شخص کا قتل معمول بن چکا تھا۔

    گاؤں والے جادوگر سے نہایت دہشت زدہ تھے، وہ جانتے تھے میلے میں جانا ان میں سے کسی نہ کسی کی موت ثابت ہوگا لیکن جیسے ہی جمعے کا روز آتا، سب کے سب ایک تنویمی حالت میں میلے کی طرف چل پڑتے، جادوگر نے ان پر سحر طاری کر رکھا تھا۔

    اس وقت شیخ پیر پٹھو سب سے الگ تھلگ عبادت میں مشغول رہتے۔

    گاؤں والے کئی بار ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے فریاد کی کہ وہ انہیں جادوگر سے نجات دلائیں اور ظلم کا یہ سلسلہ ختم ہو، لیکن پیر پٹھو اس شیطان صفت جادوگر کے آگے بے بس تھے۔

    وادی میں بے شمار مقبرے موجود ہیں ۔ تصویر: ابو بکر شیخ

    جب جادوگر کے ظلم و ستم کا سلسلہ دراز ہوگیا اور گاؤں والوں کی آہ و بکا بڑھتی گئی تو پیر پٹھو اس وقت کے صوفی بزرگان دین حضرت بہاؤ الدین زکریا اور حضرت لعل شہباز قلندر کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔

    حضرت بہاؤ الدین زکریا نے انہیں جمیل شاہ داتاری کے بارے میں بتایا جو جونا گڑھ کے ویرانوں میں عبادت میں مصروف تھے۔ شیخ پیر پٹھو کسی طرح وہاں پہنچے اور جمیل شاہ داتاری کو ٹھٹھہ لے کر آئے۔

    سخی داتار نے جادوگر کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔

    شاہ خالد داتاری بتاتے ہیں کہ بعض روایات کے مطابق جادوگر اس کے بعد مسلمان ہو کر سخی داتار کا مرید ہو رہا، لیکن بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ سخی داتار نے جادوگر کو ایک پتھر میں تبدیل کردیا اور اسے تھر پارکر کے لق و دق ریگستان کی طرف پھینک دیا۔

    پیر پٹھو کی وادی اہم تاریخی حیثیت کی حامل ہے

    بعد ازاں مقامی افراد نے شر اور ظلم سے حفاظت کے لیے اس مقام پر مسجد تعمیر کی جس کا نام دو محرابوں والی مسجد ہے۔

    شاہ خالد داتاری کہتے ہیں، اب بھی کسی پر جادو ٹونا کیا گیا ہو، کسی کی کوئی منت ہو، تو وہ یہاں آتا ہے، پریشانی کا حل تو اللہ ہی نکالتا ہے، لیکن ان ولیوں کے صدقے میں لوگوں کی مرادیں بر آتی ہیں۔

    ان دونوں بزرگان کی درگاہوں پر ہر مذہب کے ماننے والے عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے جو اپنی منتیں اور مرادیں لیے یہاں آتے ہیں۔


    اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی:

    مکلی نامہ ۔ میر علی شیر قانع
    قدیم سندھ ۔ بھیرو مل مہرچند آڈوانی

  • افغان خاندان جس نے دہائیوں تک ملتان پر حکومت کی

    افغان خاندان جس نے دہائیوں تک ملتان پر حکومت کی

    ملتان میں سدوزئی خاندان کی حکومت کا آغاز احمد شاہ ابدالی کے تختِ کابل پر براجمان ہونے سے پہلے ہو چکا تھا۔

    تختِ دہلی سے ایک دور دراز صوبہ ہونے کی وجہ سے ملتان 1752ء میں افغان بادشاہوں سے وابستگی رکھنے والا صوبہ بن گیا تھا، لیکن یہ وابستگی برائے نام تھی۔

    ملتان پر زیادہ تر پٹھان نسل کے گورنر حکم ران رہے، یہ وہی پٹھان خاندان تھے جنہوں نے گاہے بہ گاہے افغانستان سے بھاگ کر ملتان میں پناہ لی تھی۔ ملتانی پٹھان کہلوانے والے ان خاندانوں نے آہستہ آہستہ اتنی طاقت پیدا کر لی تھی کہ صوبہ ملتان ان کی دسترس میں آ گیا تھا۔

    یہ ایک ایسی بادشاہت تھی، جو عملی اعتبار سے ہر طرح خود مختار تھی۔ یوں تو ملتان میں سولہویں اور سترہویں صدی کے دوران افغانستان سے بہت سے پٹھان خاندان آ کر پناہ گزین ہوئے لیکن ان خاندانوں میں سدوزئی خاندان اس لیے نمایاں حیثیت کا حامل تھا کہ اسی خاندان میں احمد شاہ ابدالی جیسا سپہ سالار پیدا ہوا۔ دوسرا اس خاندان نے ملتان کو سات حاکم دیے۔

    ملتان میں سدوزئی خاندان کے اقتدار کا زمانہ 50 سال سے زائد بنتا ہے۔ ملتان کا یہ سدوزئی خاندان 1652ء میں مغل حکم ران اورنگزیب عالمگیر کے ہمراہ ملتان آیا۔ اس وقت اس خاندان کا سربراہ شاہ حسین سدوزئی تھا۔ شاہ حسین سدوزئی کے بعد سدوزئی خاندان کا سربراہ نواب عابد خان کو بنایا گیا، نواب عابد خان کی وفات پر ملتان کے سدوزئی خاندان میں سرداری پر جھگڑا ہو گیا لیکن پھر اس خاندان نے نواب زاہد خان کو اپنا سردار تسلیم کر لیا۔ نواب زاہد خان جنہیں نواب زکریا خان، گورنر لاہور نے ملتان میں اپنا نائب مقرر کیا تھا، اپنی قوم پر بڑا مہربان رہا۔

    نواب زاہد خان کے لاہور دربار کے ساتھ دہلی دربار سے بھی تعلقات تھے۔ نواب زاہد خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے وزیرِ دہلی قمر الدین اور معروف شاعر سراج الدین خان آرزو کے توسط سے ملتان کی نظامت کا پروانہ حاصل کیا۔

    نواب زاہد خان کو ابھی اقتدار سنبھالے کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ خواجہ اسحاق کابل سے ملتان کی صوبیداری کا پروانہ لے کر آ گیا، لیکن نواب زاہد خان جلد ہی ملتان کی نظامت پر بحال ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد نواب زکریا خان نے نواب عزیز خان سدوزئی کو ملتان کا گورنر بنا دیا جس پر نواب زاہد خان اور نواب عزیز خان میں جنگ چھڑ گئی۔ مغل فوج نے نواب عزیز خان کا ساتھ دیا لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ نواب زاہد خان کا بڑا بیٹا نواب شاکر خان بھی اس جنگ میں باپ کے خلاف نبردآزما تھا۔ جنگ میں نواب زاہد خان کو شکست ہوئی اور وہ اسی غم میں مر گیا۔

    نواب زاہد خان جسے ساری عمر عیش و عشرت اور سرود سے نفرت رہی، ملتان میں سدوزئی اقتدار کا بنیاد گزار تھا۔ مثنوی مولانا روم اور امام غزالی کی ’کیمیائے سعادت‘‘ ہر وقت اس کے مطالعہ میں رہتی تھی۔

  • خواتین کے عالمی دن کی تاریخ کیا ہے؟

    خواتین کے عالمی دن کی تاریخ کیا ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کا مقصد خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا اور انہیں سراہنا ہے۔

    اس دن کا آغاز آج سے 103 سال قبل سنہ 1908 میں ہوا جب نیویارک کی سڑکوں پر 15 سو خواتین مختصر اوقات کار، بہتر اجرت اور ووٹنگ کے حق کے مطالبات منوانے کے لیے مارچ کرنے نکلیں۔

    ان کے خلاف نہ صرف گھڑ سوار دستوں نے کارروائی کی بلکہ ان پر تشدد بھی کیا گیا اور ان میں سے بہت سی خواتین کو گرفتار کیا گیا۔

    سنہ 1909 میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے خواتین کا دن منانے کی قرارداد منظور کی اور پہلی بار اسی سال 28 فروری کو امریکا بھر میں خواتین کا دن منایا گیا اور اس کے بعد سنہ 1913 تک ہر سال فروری کے آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا رہا۔

    سنہ 1910 میں کوپن ہیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس ہوئی جس میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کلارا زیٹکن نے ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا دن منانے کی تجویز پیش کی جسے کانفرنس میں شریک 17 ممالک کی شرکا نے متفقہ طور پر منظور کیا۔

    سنہ 1911 میں 19 مارچ کو پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیا اور آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں 10 لاکھ سے زائد خواتین اور مردوں نے اس موقع پر کام، ووٹ، تربیت اور سرکاری عہدوں پر خواتین کے تقرر کے حق اور ان کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں میں حصہ لیا۔

    اسی سال 25 مارچ کو نیویارک سٹی میں آگ لگنے کا ایک واقعہ پیش آیا۔ ٹرائی اینگل فائر کے نام سے یاد کی جانے والی اس آتشزدگی میں 140 ملازمت پیشہ خواتین جل کر ہلاک ہو گئیں جس سے نہ صرف امریکا میں کام کرنے والی خواتین کے خراب ترین حالات سامنے آئے بلکہ ان حالات کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کا سارا زور بھی امریکا کی طرف ہوگیا۔

    اس کے بعد فروری سنہ 1913 میں پہلی بار روس میں خواتین نے عالمی دن منایا تاہم اسی سال اس دن کے لیے 8 مارچ کی تاریخ مخصوص کر دی گئی اور تب ہی سے دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    آج کے دن دنیا بھر میں خواتین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مارچ، جلوس اور تقاریب کا اہتمام کیا جائے گا اور دنیا کی ترقی و خوشحالی میں خواتین کے اہم ترین کردار کو سراہا جائے گا۔

  • دمیری کے علامہ کمال الدین کون ہیں؟

    دمیری کے علامہ کمال الدین کون ہیں؟

    تاریخ میں‌ علامہ کمال الدّین دمیری کا نام ماہرِ حیوانات اور عظیم محقق کی حیثیت سے محفوظ ہے۔

    ان کی شہرہ آفاق کتاب "حیوٰۃ الحیوان” کو شاہ کار مانا جاتا ہے۔

    ان کی کنیت "ابوالبقا” ہے، مصر ان کا وطن تھا جہاں انھوں نے 1349 میں "دمیرہ” نامی علاقے کے ایک گھر میں‌ آنکھ کھولی۔

    علامہ کے حالاتِ زندگی پر دست یاب اور مستند معلومات سے ہم جان سکتے ہیں کہ انھوں نے ابتدائی اور اس دور کے مطابق تمام ضروری تعلیم قاہرہ سے حاصل کی، اس کے بعد جامعہ ازہر میں درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔

    کہتے ہیں وہ اپنے وقت کے ایک عابد اور پرہیز گار انسان تھے۔ ان کی زندگی کا کچھ عرصہ مکہ میں بھی گزرا اور اس دورا ن وہاں‌ بھی درس و تدریس میں مصروف رہے۔

    دمیری نے مختلف علوم کی تحصیل میں اپنے وقت کی باکمال اور نام ور شخصیات سے استفادہ کیا۔

    ان کی مذکورہ تصنیف میں جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی نہیں بلکہ ان کی شرعی حلّت، ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی بحث کی گئی ہے۔

    تاریخی کتب میں اپنے وقت کے اس جید عالم کی وفات کا سن 1405 تحریر ہے۔ ان کا انتقال قاہرہ میں ہوا اور مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں تدفین کی گئی۔

  • ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع

    ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع

    اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو ایف بی آر نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں 15 روز کی توسیع کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں 15 روز کی توسیع کر دی گئی۔ ایف بی آر نے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی تاریخ میں چوتھی بار توسیع کی ہے۔

    ایف بی آر کے مطابق شہری اب 31 دسمبر تک اپنے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کراسکتے ہیں۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ 13 دسمبر تک 19 لاکھ ٹیکس ریٹرن جمع کرائے گئے جبکہ سال 2018 میں تقریباََ 27 لاکھ ٹیکس ریٹرن جمع کرائے گئے تھے۔

    شبر زیدی کا امریکا جیسا جدید ٹیکس سسٹم لانے کا عندیہ

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے سسٹم کو زیادہ سے زیادہ خود کار بنانے کی کوشش کررہے ہیں، امریکا کی طرز پر ٹیکس گزاروں کی معلومات جمع کی جائیں گی۔

    چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن اب آن لائن کی جاسکتی ہے، آئندہ سال فیس لیس ای آڈٹ سسٹم متعارف کرائیں گے جس کی مدد سے معلوم ہوگا کہ کون آڈٹ کر رہا ہے، ورلڈ بینک کی معاونت سے ٹیکس قوانین اور ایف بی آر کے پراسیس پیچیدہ ہیں جنہیں آسان بنایا جا رہا ہے۔

  • احمد شاہ ابدالی: تاریخی حقائق، بھارتی فلم اور ناقدین

    احمد شاہ ابدالی: تاریخی حقائق، بھارتی فلم اور ناقدین

    بالی ووڈ فلم ‘‘پانی پت’’ نے سنیما کے اہم ناقدین اور سنجیدہ شائقین کو شدید مایوس کیا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی کا فلمی کردار واضح کرتا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری مخصوص طبقے کو خوش کرنے کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت پر قائم ہے۔ پانی پت کے اہم تاریخی معرکے اور اس کے مرکزی کردار کی غلط انداز سے پیش کاری بھارتی فلم انڈسٹری کی غیرسنجیدگی اور جانب داری کے ساتھ مخصوص ذہنیت کی عکاس بھی ہے۔

    حملے کی اصل وجہ
    احمد شاہ ابدالی کے حملے کی اصل وجہ ہندو مرہٹوں کی جانب سے مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان تھا۔
    احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں پانی پت کی جنگ میں شکست سے مرہٹوں کی طاقت اور زور تو ٹوٹا مگر مغل بادشاہ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھے۔

    مرہٹوں کی برصغیر میں فتوحات جاری تھیں۔ دہلی اور قرب و جوار پر حملہ اور اس کے بعد لاہور سے اٹک تک فتوحات نے مرہٹوں کا حوصلہ بڑھا دیا۔ مغل کم زور اور مرہٹوں کے روپ میں ہندو طاقت ور ہوئے تو دہلی کی شاہی مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مسلمان حاکموں اور علما نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دیتے ہوئے مالی وعسکری مدد کا یقین دلایا۔

    افغان حکم راں احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کے خلاف اس دعوت کو قبول کیا اور اپنے لشکر کے ساتھ یہاں پہنچا اور پانی پت کی تیسری جنگ میں لاکھوں ہندو مرہٹوں کو شکست دے کر ہندوستان میں مسلم اقتدار کو سنبھالا دیا۔

    احمد شاہ ابدالی پر الزامات
    احمد شاہ ابدالی کے بارے میں متعصب تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ وہ اپنی ریاست کو وسعت دینا چاہتا تھا اور ملک و ہوس کا پجاری تھا۔ تاہم مستند اور معتبر تاریخ بتاتی ہے کہ ابدالی افغانستان میں اپنی بادشاہت تک محدود رہا اور طاقت و فوج رکھنے کے باوجود لشکر کشی نہ کی۔ جب ہندو مرہٹوں کی جانب سے جامع مسجد میں مہا دیو کا بت نصب کرنے کا اعلان کیا گیا اور اس سے مرہٹوں کے خلاف لڑائی کی درخواست کی گئی تو احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کا رخ کیا۔

    تاریخ کے صفحات یہ بھی بتاتے ہیں کہ مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد ابدالی واپس وطن لوٹ گیا اور بعض حوالوں میں ملتا ہے کہ یہ حملہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوا مگر مغلوں کے زوال کا سلسلہ نہ تھم سکا۔

    احمد شاہ ابدالی پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ نادر شاہ کے قتل کے بعد قندھار جاتے ہوئے اس کے شاہی مہر اور کوہِ نور ہیرا اس کے ہاتھ سے اتار لیا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہیرا اس کے پوتے کی تحویل میں تھا جس نے اسے احمد شاہ ابدالی کو سونپا تھا۔

    ہندوستانی مؤرخ کی سچائی
    مشہور ہندوستانی مؤرخ ڈنگا سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کی پوری زندگی ملک کی بہتری میں صرف ہوئی اور وہ افغان ہی نہیں خطے کے دیگر مسلمانوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔

    احمد شاہ ابدالی کا مقبرہ قندھار میں ہے۔ بعض تذکروں میں لکھا ہے کہ ابدالی کرشماتی شخصیت کا حامل تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اس دور میں قبیلوں کے مابین کئی جھگڑوں کو اپنے تدبر اور فہم سے نمٹایا اور ایک مضبوط ملک کی بنیاد رکھی۔

  • بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    لندن: ماہرین آثار قدیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا معاملہ جدید دنیا کے ساتھ نہیں جڑا بلکہ اس کا آغاز تو زمانہ قبل از تاریخ سے ہوا۔

    برطانیہ کی برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین نے اس سلسلے میں سائنسی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ کچھ ایسے واضح شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ تاریخ کے آغاز سے قبل بھی مائیں اپنے بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلاتی تھیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ماؤں نے تین ہزار برس سے زاید عرصے قبل اپنے بچوں کو جانوروں کا دودھ بوتل کے ذریعے پلانا شروع کر دیا تھا۔

    اسس سلسلے میں ماہرین آثار قدیمہ نے تین ایسے بوتل نما مٹی کے برتنوں کا معائنہ کیا جو ایک اندازے کے مطابق 12 سو سال قبل از مسیح میں شیرخوار بچوں کے ساتھ دفنائے گئے تھے، ان پر ماہرین کو جانوروں کی چربی اور دودھ کے مولیکیولر فنگر پرنٹ ملے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کروڑوں برس قبل گم ہونے والا براعظم دریافت

    برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل از تاریخ کے بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانے کی یہ پہلی شہادت ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ جب بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانا شروع کر دیا گیا ہوگا تو عورتوں میں مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ گئی ہوگی اور یوں آبادی میں اضافے میں تیزی آ گئی ہوگی۔

    خیال رہے کہ انسان نے دودھ اور اس سے بنی اشیا کا استعمال اندازاً 6 ہزار برس قبل شروع کیا جب کہ انسان نے سات ہزار برس قبل شکار چھوڑ کر کاشت کاری اور جانور پالنا شروع کیا تھا۔