Tag: تاریخ

  • ڈی این اے پر جدید تحقیق نے آریائی تاریخ پر انتہا پسند ہندوؤں کے خیالات جھٹلا دیے

    ڈی این اے پر جدید تحقیق نے آریائی تاریخ پر انتہا پسند ہندوؤں کے خیالات جھٹلا دیے

    واشنگٹن: قدیم ڈی این اے پر جدید ترین تحقیق نے بھارت کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پرست انتہا پسند ہندوؤں کو غصے اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جدید جینیاتی علم نے ثابت کر دیا ہے کہ انڈیا کی طرف مختلف خطوں سے متعدد بار ہجرتیں ہوئیں اور انڈین تہذیب صرف آریائی ثقافت پر مبنی نہیں ہے، نہ ہی انڈین تہذیب کا منبع یہی خطہ ہے۔

    [bs-quote quote=”بھارت میں پائی جانے والی تہذیب کی قدیم بنیاد انڈیا میں نہیں بلکہ کہیں اور تھی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    دنیا کے نامور ماہرینِ جینیات نے قدیم ڈی این اے پر تحقیقات کے بعد انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں پائی جانے والی تہذیب کی قدیم بنیاد انڈیا میں نہیں بلکہ کہیں اور تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی تہذیب مختلف نسلوں اور تاریخوں سے مل کر بنی ہے، تاہم دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں کے لیے یہ تحقیقاتی نتیجہ غصے کا باعث بن گیا ہے، ان کا اپنے نسلی طور پر خالص ہونے کے تصور پر اصرار برقرار ہے۔

    ہارورڈ یونی ورسٹی واشنگٹن کے جینیات دان ڈیوڈ ریخ کی قیادت میں ’جنوبی اور وسطی ایشیا میں جینیاتی تشکیل‘ کے موضوع پر تازہ ترین تحقیق مارچ 2018 میں شایع ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے 92 محققین نے حصہ لیا جو جینیات، تاریخ، آرکیالوجی اور انتھراپولوجی کے اہم نام ہیں۔

    [bs-quote quote=”دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں کے لیے یہ تحقیقاتی نتیجہ غصے کا باعث بن گیا ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    تحقیق میں انڈیا کی طرف 2 بڑی ہجرتوں کا انکشاف کیا گیا ہے جو گزشتہ 10 ہزار برس کے دوران کی گئیں، پہلی ہجرت مال مویشی بالخصوص بکریاں پالنے والے لوگوں نے جنوب مغربی ایران کے علاقے زگروز سے کی، یہ علاقہ بکریاں پالنے کے حوالے سے اوّلین خطہ سمجھا جاتا ہے۔

    ماہرینِ جینیات نے کہا ہے کہ یہ لوگ 7 ہزار سے 3 ہزار قبل مسیح کے درمیان یہاں آئے اور جنوبی ایشیا میں پہلے سے آباد افریقا سے 65 ہزار برس قبل آئے لوگوں میں گھل مل گئے، اور یہاں ہڑپہ تہذیب کی بنیاد رکھی۔

    دوسری ہجرت کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ یہ 2 ہزار قبل مسیح کے بعد ہوئی، یہ آریائی لوگوں کی ہجرت تھی جو ماہرین کے مطابق قازقستان سے آئے۔ اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ سنسکرت زبان کی ابتدائی شکل انھی لوگوں کے ساتھ اس خطے میں آئی۔

    ماہرینِ جینیات و نسلیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھی لوگوں کے ساتھ گھوڑے پالنے کے علاوہ جانوروں کی قربانی کی مذہبی روایات بھی آئیں، اور انھی لوگوں نے ہندو مت کی ابتدائی شکل کی بنیاد رکھی۔

    [bs-quote quote=”تحقیق میں انڈیا کی طرف 2 بڑی ہجرتوں کا انکشاف کیا گیا ہے جو گزشتہ 10 ہزار برس کے دوران کی گئیں۔ آریا لوگوں سے بھی قبل یہاں جنوب مغربی ایران سے قبیلے نے ہجرت کی جس نے پہلے سے موجود افریقیوں کے ساتھ مل کر ہڑپہ تہذیب کی بنیاد رکھی۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ماہرین نسلیات نے انڈیا کی جانب ہونے والی اور بھی کئی ہجرتوں کا ذکر کیا ہے، جیسا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے لوگوں کی ہجرت جو اسٹرو ایشیاٹک زبانیں بولتے تھے۔

    محققین کے مطابق آریاؤں کی طرح مغل وغیرہ جیسے مسلمان فاتحین نے بھی دوسرے علاقوں سے یہاں ہجرت کی اور اپنے گہرے تہذیبی آثار چھوڑے۔

    نئی تحقیق نے ہندو قوم پرستوں کو اس بات کی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس حقیقت کو کیسے تسلیم کیا جائے کہ آریا انڈیا کے ابتدائی باسی نہیں تھے، اور ہڑپہ یا وادیٔ مہران کی تہذیب ان سے بھی پہلے موجود تھی۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس تحقیق میں حصہ لینے والے ہی ایک محقق ہارورڈ کے سابق پروفیسر سبرامینم سوامی جو انڈیا کی حکمراں جماعت کے رکن پارلیمان بھی ہیں، نے ایک ٹویٹ میں ریخ اینڈ کمپنی کی تحقیق کو جھوٹ کا پلندہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔

    خیال رہے کہ دائیں بازو کے کئی ہندوؤں کے لیے یہ انکشافات قابلِ قبول نہیں، وہ اسکولوں کی تدریسی کتابیں تبدیل کرانے کے لیے مہم چلاتے رہے ہیں تاکہ ان میں سے آریا لوگوں کی باہر سے ہجرت کی باتوں کو نکالا جا سکے۔ ان کے مطابق اس خطے کی تاریخ کی شروعات ہی انڈیا سے ہوئی ہے۔

  • کیا آپ چائے کی تاریخ جانتے ہیں؟

    کیا آپ چائے کی تاریخ جانتے ہیں؟

    چائے دنیا میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے جو دنیا کے ہر خطے میں علیحدہ طریقے سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔

    یہ مشروب دنیا بھر میں کافی سے بھی زیادہ مقبول ہے۔ چائے کا اصل خطہ چین کا جنوب مغربی علاقہ ہے جہاں ہر سالانہ 1.6 ارب پاؤنڈز چائے پی جاتی ہے۔

    تاہم فی فرد چائے پیئے جانے کے حساب سے ترکی، آئرلینڈ اور برطانیہ سب سے آگے ہیں جہاں دنیا کے سب سے زیادہ چائے کے شوقین پائے جاتے ہیں۔

    چائے کی دریافت

    چینی کسان شننونگ

    چائے کی دریافت کا سہرا ایک چینی کسان شننونگ کے سر ہے جو چینی عقائد کے مطابق زراعت کا بانی ہے۔ اپنے ایک مذہبی سفر کے دوران اس نے غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی 72 بار کھا لی جس کے بعد وہ مرنے کے قریب پہنچ گیا۔

    اسی وقت ایک پتہ ہوا میں اڑتا ہوا شننونگ کے منہ میں چلا گیا۔ شننونگ نے اس پتے کو چبا لیا اور اسی پتے نے اسے مرنے سے بچا لیا۔

    یہی پتی چائے کا پتہ تھا جو آگے چل کر دنیا کے مقبول ترین مشروب کی حیثیت اختیار کرگیا۔

    گوکہ چائے کسی بھی زہر کا تریاق نہیں ہے، تاہم شننونگ کی اس کہانی کے باعث، جسے مؤرخین ایک داستان بھی قرار دیتے ہیں، چائے چینی مذہبی عقائد و روایات میں ایک اہم درجہ رکھتی ہے۔

    ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق چائے کی پہلی کاشت اسی خطے میں تقریباً 6 ہزار سال قبل کی گئی تھی۔ اس وقت مصر کے فراعین کو اہرام مصر تعمیر کرنے میں بھی ابھی 15 سو سال کا عرصہ باقی تھا۔

    چائے کا ابتدائی نام

    چائے کو ابتدا میں کھانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کہیں اس پودے کو بطور سبزی استعمال کیا جاتا تھا اور کہیں اسے گندم کے دانوں کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا تھا۔

    کھانے سے مشروب کی حیثیت چائے نے صرف 15 سو سال قبل اختیار کی جب کسی نے حادثاتی طور پر دریافت کیا کہ حرارت اور نمی کے ذریعے ان پتوں سے نہایت ذائقہ دار مشروب تیار کیا جاسکتا ہے۔

    چائے کے مختلف استعمالات کے طویل ارتقا کے بعد بالآخر گرم چائے نے مشروب کی اسٹینڈرڈ حیثیت اختیار کرلی۔

    اس وقت چائے کے بہت سارے پتے لے کر، انہیں پیس کر پاؤڈر کی شکل دینے کے بعد گرم پانی میں ملایا جاتا جس کا ابتدائی نام ’مؤ چا‘ یا ’میٹ چا‘ تھا۔

    یہ مشروب چین میں نہایت تیزی سے مقبول ہوگیا۔ بہت جلد اس کا تذکرہ چینی ادب و شاعری میں بھی کیا جانے لگا جبکہ یہ بادشاہوں کی پسندیدہ شے بن گیا۔

    اس وقت چینی فنکاروں نے چائے کی سطح پر نقش و نگاری بھی انجام دی۔ اسے آپ آج کے زمانے کے جدید کافی آرٹ کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں۔

    یہ وہ دور تھا جب ریشم اور چینی مٹی کے برتنوں کی تجارت نے چین کو اہم تجارتی طاقت بنا رکھا تھا۔ بہت جلد ان دو اشیا کے ساتھ چائے بھی چین کی اہم تجارتی شے بن گئی اور بڑے پیمانے پر چین سے اس کو خریدا جانے لگا۔

    چائے کا غیر ملکی سفر

    نویں صدی میں ایک جاپانی راہب اس پودے کو بطور تحفہ چین سے جاپان لے کر آیا

    ابھی تک چائے صرف چین میں اگائی جاتی تھی اور چند ایک ممالک اسے چین سے خریدا کرتے تھے۔

    نویں صدی میں جب چین پر تنگ خانوادے کی حکومت تھی، ایک جاپانی راہب اس پودے کو بطور تحفہ چین سے جاپان لے کر آیا۔ اس کے بعد جاپان میں چائے کی مقبولیت کا دور شروع ہوگیا۔

    سولہویں صدی میں ڈچ تاجر چائے کی بڑی مقدار  یورپ لے کر آئے اور یہاں سے چائے کی مقبولیت کا نیا دور شروع ہوا۔

    برطانیہ میں چائے کی مقبولیت کا سہرا ملکہ کیتھرائن آف برگنزا کے سر ہے۔ کیتھرائن پرتگال کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس نے 1661 میں شہنشاہ چارلس دوئم سے شادی کی۔

    ملکہ کیتھرائن آف برگنزا

    سنہ 1662 سے 1685 تک برطانیہ کی ملکہ رہنے والی اس غیر ملکی خاتون نے چائے کو برطانوی اشرافیہ کا ایک پسندیدہ مشروب بنا دیا۔

    برطانیہ اس وقت دنیا کے دیگر ممالک پر اپنا نوآبادیاتی تسلط قائم کر رہا تھا۔ اسی تسلط کے زیر اثر برطانیہ کے ماتحت علاقوں میں دیگر اشیا کے ساتھ چائے کا رواج بھی فروغ پانے لگا۔

    سنہ 1700 تک چائے یورپ میں کافی سے 10 گنا زائد فروخت کی جارہی تھی جبکہ ابھی تک اس کی کاشت صرف چین میں کی جارہی تھی۔

    اس دور میں چائے کی تجارت ایک منافع بخش کاروبار بن چکی تھی اور بڑے بڑے سمندری جہاز صرف چائے کی کھیپوں کو ایک سے دوسرے ملک پہنچایا کرتے تھے۔

    چائے وجہ تنازعہ کب بنی؟

    ابتدا میں برطانیہ چائے کو چاندی کے سکوں کے عوض خریدا کرتا تھا، تاہم یہ سودا اسے مہنگا پڑنے لگا۔

    اسی دوران اس نے چین کو چائے کے بدلے افیم دینے کی پیشکش کی جسے چین نے قبول کرلیا اور یوں دونوں ممالک میں چائے اور افیم کا تبادلہ ہونے لگا۔

    انیسویں صدی میں چین اور برطانیہ کے درمیان چائے اور افیم کا تبادلہ ہونے لگا

    تاہم بہت جلد اس تجارتی تبادلے نے چینی شہریوں کی صحت پر بدترین منفی اثرات مرتب کرنا شروع کردیے۔ چینی افیم کے نشے میں مستقل دھت رہنے لگے۔

    سنہ 1839 میں ایک چینی حکومتی عہدیدار نے افیم کی ایک بڑی برطانوی کھیپ کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ اقدام ان دونوں اقوام کے درمیان ایک جنگ کے آغاز کا باعث بن گیا۔

    سنہ 1842 میں قنگ خانوادے نے برطانیہ سے شکست کے بعد ہانگ کانگ کی بندرگاہ انگریزوں کے حوالے کردی۔ چائے کی تجارت دوبارہ بحال ہوگئی لیکن اب اس میں چین کی مرضی کی شرائط شامل نہیں تھیں۔

    اس جنگ نے چین کی معاشی حیثیت کو خاصا متاثر کیا۔

    چائے کی اسمگلنگ

    برطانوی ماہر حیاتیات رابرٹ فورچون

    برصغیر پاک و ہند کو اپنا محکوم بنانے والی برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی چائے کی فصل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے خود اسے اگانا چاہتی تھی۔

    اس مقصد کے لیے ایک برطانوی ماہر حیاتیات رابرٹ فورچون کو مقرر کیا گیا کہ وہ کسی طرح ایک خفیہ آپریشن کے ذریعے چین سے چائے کے پتے چرا کر لے آئیں۔

    رابرٹ اپنا بہروپ بدل کر چین میں چائے کی کاشت کرنے والے پہاڑوں میں ایک خطرناک مشن پر نکل گیا۔ یہاں سے اس نے چائے کے پودوں کو بھارت کے علاقے دارجلنگ میں اسمگل کیا۔

    بعد ازاں دارجلنگ میں بھی مقامی طور پر چائے کی کاشت کا آغاز کردیا گیا۔

    ترکی کی میٹھی رائز چائے سے لے کر نمکین تبتن مکھن والی چائے تک یہ مشروب دنیا بھر میں بے پناہ مقبول ہے اور روزانہ اس کا استعمال زندگی کا اہم حصہ ہے۔

    دنیا کا ہر علاقہ اسے اپنی روایات کے مطابق تیار اور استعمال کرتا ہے۔ مختلف زبانوں میں اس کا نام بھی مختلف ہے، تاہم چائے کی جسم اور دماغ کو تازہ دم کرنے اور فرحت بخش احساس دلانے کی خاصیت یکساں ہے۔

  • قدیم قلعوں کی بحالی کا حیرت انگیز عمل

    قدیم قلعوں کی بحالی کا حیرت انگیز عمل

    آپ جب بھی کسی تاریخی مقام یا کھنڈرات کا دورہ کرتے ہوں گے تو یقیناً آپ کے ذہن میں اس کے ماضی کی تصویر کھنچ جاتی ہوگی کہ پرانے دور میں یہ جگہ کیسی ہوتی تھی اور یہاں کون لوگ رہتے تھے۔

    پرانے دور کے تاریخی مقامات کو واپس ان کی اصل شکل میں لانا ایک مشکل ترین عمل ہوتا ہے جو بہت زیادہ محنت اور بڑے خرچ کا متقاضی ہوتا ہے۔

    بعض کھنڈرات زمانے کے سرد و گرم کا اس قدر شکار ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کی بحالی کسی طور ممکن نہیں ہوتی، ایسے میں ان کے بچے کچھے آثار کی ہی حفاظت کی جاسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار تاریخی مقامات

    تاہم ڈیجیٹل دور میں کسی بھی شے کو کم از کم تصاویر کی حد تک ان کی اصل شکل میں لایا جاسکتا ہے۔

    ایک برطانوی ڈیجیٹل فنکار نے بھی ایسی ہی ایک کامیاب کوشش کی ہے جس کے تحت اس نے برطانیہ کے قدیم قلعوں کی اصل حالت میں تصویر کشی کردی۔ اس کام کے لیے اس نے ایک ماہر تعمیرات اور ایک تاریخ داں کی مدد بھی لی۔

    اس کی تیار کردہ تصاویر نہایت خوبصورت ہیں جو آپ کو دنگ کردیں گی۔


    ڈنلس قلعہ

    شمالی آئرلینڈ میں سمندر کنارے واقع یہ قلعہ 1500 عیسوی میں تعمیر کیا گیا، تاہم صرف ڈیڑھ سو سال بعد ہی اس کو خالی کردیا گیا۔

    کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جب یہاں پر رہائش پذیر انٹریم کا شاہی خاندان کھانے کا انتظار کر رہا تھا تو اونچائی پر واقعہ محل کا کچن اچانک ٹوٹ کر سمندر میں جا گرا اور کچن میں موجود عملہ بھی سمندر برد ہوگیا۔


    ڈنسٹنبرگ قلعہ

    انگلینڈ میں واقع یہ قلعہ کنگ ایڈورڈ دوئم نے ( 1200 عیسوی کے اواخر میں) تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ ایک جنگ کے دوران تباہ ہوگیا تھا۔


    بوتھ ویل قلعہ

    اسکاٹ لینڈ کا یہ قلعہ تیرہویں صدی میں قائم کیا گیا اور انگریزوں اور اسکاٹس کے درمیان جنگ میں باری باری دونوں فریقین کے قبضے میں آتا رہا۔

    اس قلعے میں رہنے والی ایک معزز خاتون بونی جین قریبی دریا پار کرتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوگئی تھی جس کی روح اب بھی راتوں میں یہاں بھٹکتی ہے۔


    گڈ رچ قلعہ

    انگلینڈ کا ایک اور قلعہ گڈرچ سنہ 1102 عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ جنگ کے دوران دشمن پر گولے پھینکنے کے لیے قلعے کی چھت پر ایک بڑی توپ بھی نصب کی گئی تھی۔


    کے آرلوروک قلعہ

    اسکاٹ لینڈ میں موجود کے آرلوروک قلعہ برطانیہ کا واحد قلعہ ہے جس میں تکون مینار نصب ہے۔ یہ سنہ 1208 عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔

    چودہویں صدی میں انگریزوں سے جنگ کے دوران اسے تباہ کردیا گیا تاکہ دشمن یہاں قابض نہ ہوسکیں۔ 1570 عیسوی میں ارل آف سسکیس نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا تاہم اس کے کچھ ہی عرصے بعد اسے ایک بار پھر دشمنوں کے خوف سے تباہ کردیا گیا۔


    کڈ ویلی قلعہ

    ویلز میں واقعہ یہ قلعہ 1106 میں بنایا گیا۔ یہ برطانیہ میں موجود تمام قلعوں میں نسبتاً بہترین حالت میں موجود ہے۔

  • کیا آپ ’ٹپ‘ دینے کی کی تاریخ جانتے ہیں؟

    کیا آپ ’ٹپ‘ دینے کی کی تاریخ جانتے ہیں؟

    ریستوران میں بیروں، ڈرائیورز یا چپراسیوں وغیرہ کو ٹپ کے طور پر معمولی سی رقم دینا اچھا عمل سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا آپ اس کی تاریخ جانتے ہیں؟

    ٹپ دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے اپنے سے کمتر شخص کے لیے ایک اچھا کام کیا، لیکن اس کی تاریخ نہایت نسل پرستانہ ہے۔

    دو صدیوں قبل امریکی ٹپ سسٹم کا آغاز ہی اس لیے کیا گیا تاکہ وہ غلام جو آزاد ہوگئے تھے انہیں غریب رکھا جائے، اور امیر افراد کو سستی قیمت پر ملازم فراہم کیے جاسکیں۔

    سنہ 1865 میں جب امریکا میں خانہ جنگی ختم ہوئی تو لاکھوں امیر لوگ ان غلاموں سے محروم ہوگئے جن سے وہ مفت میں بیگار لیتے تھے۔

    تاہم اس کے باوجود غلاموں پر سے ان کے آقاؤں کا اثر و رسوخ ختم نہ ہوسکا جو 200 سال سے انہیں غلام بنائے ہوئے تھے۔

    یہ آقا اب بھی چاہتے تھے کہ ان کا کام مفت میں کیا جائے اور سارا منافع ان کی اپنی جیبوں میں جائے جس کے لیے وہ نئے طریقے ڈھونڈنے میں لگے تھے۔

    بالآخر ابھرتی ہوئی ریستوران کی صنعت ایک بار پھر سے بلا معاوضہ لوگوں کو ملازم رکھنے میں کامیاب ہوگئی، اور اس کی جگہ انہیں کہا گیا کہ وہ گاہکوں سے ٹپ وصول کیاکریں۔

    یہ سلسلہ 1938 تک چلتا رہا اور اسی سال کم سے کم اجرت کا قانون منظور کیا گیا جو نہ ہونے کے برابر تھی۔

    اس وفاقی قانون کے تحت ٹپ لینے والی صنعتوں سے وابستہ مزدوروں کو 2 ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ دیا جانا ضروری تھا اور یہ بہت کم معاوضہ تھا۔

    اس قانون کی بھی صرف 17 ریاستوں نے پابندی کی اور ملازمین سے 2 ڈالر فی گھنٹہ اجرت پر کام کروانے لگے۔

    یہاں پر بھی سیاہ فام گھاٹے میں رہے اور سفید فاموں نے ان پر سبقت لے لی۔ جب بھی کسی ریستوران میں سفید فام کو ملازمت دی جاتی تو اسے نسبتاً اچھی تنخواہ دی جاتی جبکہ ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ انہیں گاہکوں سے ٹپ بھی زیادہ ملتی۔

    اس کے برعکس امریکا میں آباد مختلف رنگ و نسل کی دیگر قوموں کا بری طرح استحصال ہونے لگا، دو ڈالر فی گھنٹہ کی ملازمت انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی فراہم کرنےسے قاصر تھی۔

    گو کہ اب صورتحال پہلے جیسی نہیں ہے اور امریکا سمیت دیگر ممالک میں کم سے کم اجرت کی رقم میں خاصا اضافہ کردیا گیا ہے تاہم ٹپ دینے کی روایت غلامی کے بدترین دورکی یاد دلاتی ہے۔

  • عظیم دیوارِ چین وقت کی بے مہری کا شکار

    عظیم دیوارِ چین وقت کی بے مہری کا شکار

    سات عجائبات عالم میں سے ایک عظیم دیوار چین انسانی ہاتھوں سے تراشی گئی دنیا کی طویل ترین تعمیر ہے۔ دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی یہ دیوار گزرتے وقت کی بے مہری کا شکار ہو کر زبوں حال ہوتی جا رہی ہے۔

    خلا سے دکھائی دی جانے والی 8 ہزار 8 سو 51 کلومیٹر طویل اس عظیم دیوار کا 30 فیصد حصہ وقت کے ساتھ ساتھ غائب ہوچکا ہے۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دیوار کا صرف 8 فیصد حصہ پہلے کی طرح بہترین حالت میں ہے۔

    مقامی انتظامیہ کے مطابق اس دیوار کی تباہی میں سب سے بڑا ہاتھ ان دیہاتیوں کا ہے جو اس دیوار کے دامن میں آباد ہیں۔

    یہ مقامی لوگ دیوار میں لگی مضبوط اور موٹی اینٹیں نکال کر اپنے گھر تعمیر کرتے ہیں۔ دیوار کی چوری شدہ اینٹیں فروخت بھی کی جاتی ہیں۔

    اینٹوں کی مسلسل چوری کے باعث دیوار کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ کئی جگہ سے خستہ حال ہوتی جارہی ہے۔

    تاہم حکومتی کوششوں اور آگاہی کے فروغ کے بعد اب انہی مقامی باشندوں نے اپنے ثقافتی ورثے کی بحالی کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔

    سورج نکلتے ہی مقامی باشندے اینٹیں، لکڑیاں اور تعمیراتی سامان خچروں کی مدد سے اونچی پہاڑیوں پر پہنچانا شروع کردیتے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار حصے کو تعمیر کرتے ہیں۔


    عجوبہ عالم دیوار چین کے بارے میں انوکھے حقائق

    کیا آپ جانتے ہیں دیوار چین کو تعمیر کرنے میں 17 سو سال کا طویل عرصہ لگا ہے؟ بعض کتابوں میں یہ 2 ہزار سال بھی بتایا گیا ہے۔

    دراصل اس دیوار کی تعمیر منگول حملہ آوروں سے بچنے کے لیے کی گئی جس کا آغاز 206 قبل مسیح میں کیا گیا۔ اس کے بعد بے شمار بادشاہوں نے حکومت کی اور چلے گئے لیکن اس دیوار کی تعمیر کا کام جاری رہا۔

    اس دوران دنیا وقت کو ایک نئے پیمانے (حضرت عیسیٰ کی آمد کا بعد کا وقت۔ بعد از مسیح) سے ناپنے لگی، سنہ 1368 شروع ہوا اور چین میں منگ خانوادے کی حکومت کا آغاز ہوا۔

    لیکن دیوار چین کی تعمیر ابھی بھی جاری تھی۔

    آخر اس کے لگ بھگ ڈھائی سو سال بعد اسی خانوادے کے ایک بادشاہ کے دور میں دیوار کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ 1644 کا سال تھا۔

    موجودہ دیوار کا 90 فیصد حصہ اسی خاندان کے دور میں تعمیر ہوا۔

    دیوار چین کی تعمیر کے دوران اینٹوں کو جوڑنے کے لیے چاول کا آٹا استعمال کیا گیا تھا۔

    اس عظیم دیوار کی تعمیر کے دوران 10 لاکھ مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لیکن اس دیوار نے چینیوں کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ کردیا۔

    اب ہر سال اس دیوار پر ایک میراتھون منعقد ہوتی ہے جس میں ڈھائی ہزار افراد حصہ لیتے ہیں۔

    دیوار، چین کے 15 صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے۔


     

  • سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    

    سلطنت عثمانیہ سنہ 1299 سے 1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔

    سنہ 1453 سے 1922 تک اس عظیم سلطنت کا دارالخلافہ قسطنطنیہ تھا جسے آج استنبول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    تاہم اس شہر کی پہچان صرف یہی نہیں۔ قسطنطنیہ سنہ 330 سے 395 تک رومی سلطنت اور 395 سے 1453 تک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا۔

    اس شہر بے مثال کی بنیاد 667 قبل مسیح میں یونان کی توسیع کے ابتدائی ایام میں ڈالی گئی۔ اس وقت شہر کو اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا۔ 330 عیسوی میں قسطنطین کی جانب سے اسی مقام پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد اسے قسطنطنیہ کا نام دیا گیا۔

    قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت حضور اکرم ﷺ نے دی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا، ’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘۔

    حضور اکرم ﷺ کی اس بشارت کے باعث قسطنطنیہ کی فتح ہر مسلمان جرنیل کا خواب تھی۔

    قسطنطنیہ پر مسلمانوں کی جنگی مہمات کا آغاز حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے سے ہوا تھا تاہم ان میں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔

    بالآخر ترک سلطان مراد دوئم کا ہونہار بیٹا سلطان محمد قسطنطنیہ فتح کرنے کے نکلا اور کام کو ممکن کر دکھایا۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنا دیا۔

    سلطان نے اپنے دور میں قسطنطنیہ میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔

    فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلایا جانے لگا۔

    آج ہم تاریخ کے صفحات سے آپ کو قسطنطنیہ کی کچھ نادر تصاویر دکھانے جارہے ہیں۔ یہ تصاویر سلطنت عثمانیہ کے بالکل آخری ادوار کی ہیں جنہیں بہت حفاظت کے ساتھ بحال کر کے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔


    قسطنطنیہ کی ایک گلی


    بندرگاہ کے مناظر


    دریائے باسفورس


    فوارہ سلطان احمد


    مسجد یلدرم بایزید


    مسجد ینی کیمی جو سلطان کے والد سے منسوب ہے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • الیکشن کمیشن کی صدر کو عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی سمری ارسال

    الیکشن کمیشن کی صدر کو عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی سمری ارسال

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی سمری ارسال کردی، جس میں 25تا 27جولائی 2018 کی تاریخیں تجویز کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہے ، عام انتخابات کا مجوزہ شیڈول تیار کرلیا گیا اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کیلئے صدر مملکت ممنون حسین کو سمری بھجوا دی۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے صدر کو3 تاریخیں تجویز کی ہیں، انتخابات کیلئے جولائی کے آخری ہفتے کی 3تاریخیں تجویز کی گئی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے مطابق تجویز کردہ تاریخیں 25 تا 27 جولائی 2018 کی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 2018 کے لئے الیکشن کمیشن یکم جون کو شیڈول جاری کرے گا جبکہ صدر مملکت ممنون حسین کی طرف سے سمری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن عام انتخابات کی شیڈول کا باقاعدہ اعلان کرے گا۔

    یاد رہے 8 جولائی کو اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر کی زیرصدارت عام انتخابات کی تیاریوں سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا تھا، اجلاس میں عام انتخابات کی پولنگ کے لیے دو تاریخوں پر غور اور پولنگ اسٹیشنز پر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا تھا۔


    مزید پڑھیں : الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی دو تاریخوں پرغور شروع کردیا


    ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخاب 2018 کے انعقاد کیلئے دو مجوزہ تاریخوں پر غور شروع کردیا ہے، جس میں سے ایک تاریخ کا حتمی فیصلہ جلد کرلیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق الیکشن 2018 کی پولنگ کے لیے 25 یا 26 جولائی کی تاریخوں پر غور کیا جارہا ہے۔

    واضح رہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت جون کے مہینے میں ختم ہورہی ہے جس کے بعد جولائی کے مہینے میں انتخابات کے انعقاد کا امکان ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    مایا تہذیب ایک قدیم میسو امریکی تہذیب ہے جو شمال وسطی امریکہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب موجودہ میکسیکو، ہونڈراس اور گوئٹے مالا کے علاقے پر محیط تھی۔

    یہ تہذیب حضرت عیسیٰ کی آمد سے کئی سو سال پہلے سے دنیا میں موجود تھی تاہم اس کا عروج 250 عیسوی کے بعد شروع ہوا جو تقریباً نویں صدی تک جاری رہا۔

    مایا تہذیب کے لوگ نہایت ذہین اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تہذیب میسو امریکا کی دیگر اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انہوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز تحریر اور رسم الخط تھا۔

    ان کی ایک اور خصوصیت ریاضی اور علم فلکیات میں ان کی مہارت تھی۔ مایا دور کی تعمیر کردہ عمارتوں کی پیمائش اور حساب آج بھی ماہرین کو دنگ کردیتی ہے۔ یہ قوم فن اور تعمیرات کے شعبے میں بھی یکتا تھی۔


    مایا تہذیب کا زوال

    قدیم دور کی نہایت ترقی یافتہ یہ تہذیب کیوں زوال پذیر ہوئی، یہ سوال آج تک تاریخ کے پراسرار رازوں میں سے ایک تھا، تاہم کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق نے کسی حد تک اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

    مایا قوم ہسپانویوں کے حملے کا شکار بھی بنی اور ہسپانویوں نے انہیں بے تحاشہ نقصان پہنچایا، تاہم وہ اس قوم کو مکمل طور پر زوال پذیر کرنے میں ناکام رہے۔

    محققین کے مطابق ہسپانویوں کے قبضے کے دوران اور بعد میں بھی اس قوم کی ترقی کا سفر جاری تھا۔

    لیکن وہ کون سی وجہ تھی جس نے اس ذہین و فطین قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی تہذیب کے خاتمے کی عمومی وجوہات بیرونی حملہ آوروں کے حملے، خانہ جنگی، یا تجارتی طور پر زوال پذیر ہونا ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک اور وجہ بھی ہے جس پر اس سے قبل بہت کم تحقیق کی گئی یا اسے بہت سرسری سی نظر سے دیکھا گیا۔

    سنہ 1990 سے جب باقاعدہ طور پر موجودہ اور قدیم ادوار کے موسموں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا تب ماہرین پر انکشاف ہوا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اس عظیم تہذیب کے زوال کی وجہ بنا۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 250 عیسوی سے 800 عیسوی تک یہ تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں بے تحاشہ بارشیں ہوتی تھیں، اور یہاں کی زمین نہایت زرخیز تھیں۔

    تاہم حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سنہ 820 عیسوی میں یہاں خشک سالی اور قحط کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا جو اگلے 95 سال تک جاری رہا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مایا تہذیب کے زیادہ تر شہر اسی عرصے کے دوران زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ یہ نویں صدی کا شدید ترین کلائمٹ چینج تھا جس نے ایک عظیم تہذیب کو زوال کی طرف گامزن کردیا۔

    تاہم اس قحط سے تمام شہر متاثر نہیں ہوئے۔ کچھ شہر اس تباہ کن قحط کے عالم میں بھی اپنے قدموں پر کھڑے رہے۔

    تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط پورے خطے میں نہیں آیا بلکہ اس نے مایا تہذیب کے جنوبی حصوں کو متاثر کیا جہاں اس وقت گوئٹے مالا اور برازیل کے شہر موجود ہیں۔

    اس عرصے کے دوران شمالی شہر معمول کے مطابق ترقی کرتے رہے اور وہاں کاروبار زندگی بھی رواں رہا۔

    ماہرین موسم کے اس انوکھے تغیر پر مشکوک ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ موسمیاتی تغیر صرف ایک حصے کو متاثر کرے جبکہ دوسرا حصہ ذرا بھی متاثر نہ ہو، تاہم وہ اس کلائمٹک شفٹ کی توجیہہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔


    عظیم قحط

    مایا تہذیب کے بارے میں حال ہی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط جب اختتام پذیر ہوا تو دسویں صدی میں موسم ایک بار پھر سے معمول پر آنے لگا۔ قحط سے متاثر شہر ایک بار پھر خوشحال اور زرخیز ہونے لگے۔

    تاہم یہ بحالی عارضی تھی۔

    گیارہویں صدی کے آغاز سے ہی ایک ہولناک اور تباہ کن قحط اس خطے میں در آیا کہ جو 2 ہزار سال کی تاریخ کا بدترین قحط تھا۔ ماہرین نے اس قحط کو عظیم قحط کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قحط اس تہذیب کے لیے ایک کاری وار تھا جس کے بعد یہ تہذیب سنبھل نہ سکی اور بہت جلد اپنے زوال کو پہنچ گئی۔

    مضمون بشکریہ: بی بی سی ارتھ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تاریخی شہر پومپئی کی تباہی کے ہولناک مناظر

    تاریخی شہر پومپئی کی تباہی کے ہولناک مناظر

    کیا آپ تاریخی شہر پومپئی اور اس کی تباہی کے بارے میں جانتے ہیں؟

    حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے آباد شہر پومپئی موجودہ اٹلی کے شہر نیپلز کے قریب ایک قدیم رومی شہر تھا۔

    اس خوبصورت شہر میں پانی کے تالاب، کلب، بیکریاں، کشادہ سڑکیں، واٹر سپلائی کی سکیم، لائبریری، کمیونٹی سنٹر، اسپتال، گھوڑے باندھنے کے جدید اصطبل، دو منزلہ مکانات اور مکانوں کے پیچھے چھوٹے چھوٹے لان اور ان میں نصب فواروں نے اس شہر کو جنت بنا دیا تھا۔

    یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں زبیرا کراسنگ شروع ہوئی تھی۔ یہیں سے کریم کیک ایجاد ہوا تھا اور یہیں سے اجتماعی غسل خانوں یا حمام کے تصور نے جنم لیا تھا۔

    سنہ 79 عیسوی میں اس قصبے کے قریب واقع ویسویس کے آتش فشاں پہاڑ سے لاوا پھوٹ پڑا جس نے چند دن میں اس شہر کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اس دور کا انتہائی ترقی یافتہ یہ شہر 13 سے 20 فٹ راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔

    آج بھی جب پومپئی کی باقیات دریافت ہوتی ہیں تو وہاں کے رہنے والوں کی لاشیں بے گور و کفن اسی حال میں ملتی ہیں جس میں وہ اپنے آخری وقت میں موجود تھے۔

    کئی گھروں میں روزمرہ معمولات زندگی کے آثار بھی ملتے ہیں جو جوں کے توں ایسے ہی رکے ہیں جیسے کسی نے جادو کے زور سے انہیں روک دیا ہو۔

    کچھ عرصہ قبل شہر پومپئی کی تباہی کی ایک تصوراتی ویڈیو آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں ایک نمائش میں پیش کی گئی جسے چند دن میں لاکھوں افراد نے دیکھا۔

    آج ہم آپ کو بھی وہ ویڈیو دکھانے جارہے ہیں جسے دیکھ کر آپ اپنا دل تھام لیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • روم کے تاریخی کولوزیم کی سیر کریں

    روم کے تاریخی کولوزیم کی سیر کریں

    کیا آپ نے روم کے تاریخی مقام کولوزیم کے بارے میں سنا ہے؟

    اٹلی کے دارالحکومت روم میں واقع کولوزیم تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ 72 عیسوی میں تعمیر کیا جانے والا یہ وسیع و عریض ہال کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں ڈرامے پیش کیے جاتے تھے جو مختلف تاریخی جنگوں پر بنائے جاتے تھے۔

    rome-3

    اہل روم کے لیے ایک تفریح لڑائی دیکھنا بھی تھی۔ یہاں اکثر لڑائیاں بھی منعقد کی جاتی تھی جن میں سے ایک فریق اکثر انسان اور دوسرا کوئی خونخوار جانور ہوتا تھا۔ ان لڑائیوں کا اختتام کسی ایک فریق کی موت کی صورت میں ہوتا تھا۔

    rome-5
    ہالی ووڈ فلم ’گلیڈی ایٹر‘ کا ایک منظر

    یہاں مجرموں کو پھانسی بھی دی جاتی تھی جس کے لیے گلوٹین کا استعمال کیا جاتا تھا۔ گلوٹین ایک تختہ اور تیز دھار آلے پر مشتمل ہوتا تھا جس کے اوپر مجرم کو لٹایا جاتا اور اوپر سے تیز دھار آلہ آ کر اس کی گردن پر گرتا تھا۔

    rome-6

    رومی ان پھانسیوں کو دیکھنے کے لیے بڑے شوق سے جمع ہوا کرتے تھے۔ یہاں روم کے ماہر شمشیر زنوں کو تربیت بھی دی جاتی تھی۔

    rome-4

    کولوزیم میں بیک وقت 80 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کولوزیم کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے تاہم اب بھی دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لیے کھنچے چلے آتے ہیں۔

    rome-2

    ایسے ہی ایک شوقین سیاح نے ڈرون کیمرے کی مدد سے کولوزیم کی فضائی منظر کشی کی ہے۔ آئیے آپ بھی اس سحر انگیز ویڈیو سے لطف اندوز ہوں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔