Tag: تاریخ

  • گول پتھروں سے تعمیر شدہ فرش کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

    گول پتھروں سے تعمیر شدہ فرش کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

    معاشی طور پر خوشحال اور فن و ادب کی سرپرستی کرنے والے ممالک میں فن کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔

    یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا رواج ہے، تاریخ میں خوشحال و زرخیز خطوں نے ہی فن و ادب کی سرپرستی کی اور اس شعبے میں بڑے بڑے نام پیدا کیے۔

    ایسا ہی ایک فن فرش پر کندہ کاری کا ہے جس میں ہر دور میں نئی جہت سامنے آئی۔ کبھی فرش پر ٹھوس اشیا کو نصب کیا گیا، کبھی ان پر کندہ کاری کی گئی، اور کبھی خوبصورت نقش و نگاری سے فرش بنائے گئے۔

    path-6

    قدیم یونان میں فرش کو سجانے کے لیے چکنے گول پتھروں کا استعمال کیا جاتا تھا جو مختلف رنگوں اور ڈیزائن کے ہوتے تھے۔ انہیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ فرش میں نصب کر کے نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب فرش تیار کیے جاتے تھے جن کے آثار آج بھی ماہرین کو کھدائیوں کے دوران ملتے ہیں۔

    بعض اوقات ان پتھروں کے ذریعے فرش پر کسی خاص واقعے کا پورا منظر بھی تشکیل دیا جاتا تھا۔

    path-7

    اس فن کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی قبل مسیح میں ہوا تھا تاہم پانچویں صدی قبل مسیح تک یہ فن اتنا مقبول ہوچکا تھا کہ فنکار باقاعدہ اس کی تربیت اور تعلیم حاصل کر کے اس میں نئی جہتیں اور نئے طریقہ کار معارف کرواتے۔

    لیکن یہ فن کوئی آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے سخت مشقت، صبر اور مہارت درکار ہوتی تھی جس سے نہ صرف ایک خوبصورت فرش تیار ہوتا بلکہ یہ اپنے اوپر چہل قدمی کرنے والوں کے لیے بھی کسی الجھن کا باعث نہیں بنتا۔

    path-2

    یہ فن آج بھی دنیا بھر میں رائج ہے اور آپ کو مختلف مقامات پر اس طرح کے گول پتھروں سے تعمیر کیے ہوئے فرش دکھائی دیں گے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ فرش کس طرح تعمیر کیا جاتا ہے؟

    path-3

    ایک یونانی فنکار اسٹیلیو گریکوس نے اس فرش کی تعمیر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی جسے دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔

    آنکھوں کو دیدہ زیب دکھنے والا یہ فرش نہایت محنت سے تیار کیا جاتا ہے جس کی ایک جھلک آپ بھی دیکھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چین میں اڑنے والے ڈائنوسار کی باقیات دریافت

    چین میں اڑنے والے ڈائنوسار کی باقیات دریافت

    بیجنگ: وسطی چین کے ایک علاقے سے قوی الجثہ پرندوں سے مشابہت رکھنے والے ڈائنو سارز کی نئی قسم دریافت کی گئی ہے۔ ان ڈائنو سارز کے پر بھی موجود ہیں۔

    ماہرین کو ان ڈائنو سارز کی زیر رہائش گھونسلوں کچھ ٹکڑے بھی ملے ہیں جو کسی ٹرک کے پہیے جتنے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اس پرندے کے گھونسلے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کے گھونسلے بہت بڑے ہوا کرتے تھے۔

    تحقیق میں شامل چینی و غیر ملکی ماہرین کے مطابق ان ڈائنو سار کے پر نمائشی نہیں تھے۔ یہ انہیں اڑنے میں بھی مدد دیتے تھے۔

    ڈائنو سارز کی یہ نئی قسم 36 فٹ طویل تھی جبکہ ان کا وزن 3 ہزار کلو گرام ہوتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ ڈائنو سار ممکنہ طور پر 9 کروڑ سال قبل اس مقام پر رہا کرتے تھے جو اب چین کا وسطی حصہ ہے۔

    چین میں اس سے قبل بھی ایک اڑنے والے ڈائنو سار کی باقیات دریافت کی گئی تھیں اور وہ جس حالت میں ملا تھا وہ نہایت حیرت انگیز تھی۔

    مزید پڑھیں: موت سے بھاگتا ڈائنو سار

    اس ڈائنو سار کا ڈھانچہ اس حالت میں تھا جیسے وہ کسی شے سے خوفزدہ ہو کر بھاگنے یا اڑنے کی کوشش کررہا ہو لیکن اس کا پاؤں کیچڑ میں پھسل گیا اور بھاگنے کی ناکام جدوجہد کے بعد وہ وہیں ہلاک ہوگیا۔

    اس ڈائنو سار کا ڈھانچہ 6 سے 7 کروڑ سال قدیم بتایا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    دنیا کے ذہین ترین ناموں میں سے ایک، عظیم ترین فلسفی سقراط کا نام کسی شخص کے لیے انجان نہیں ہے۔ اسے دنیائے فلسفہ کا عظیم ترین معلم مانا جاتا ہے۔

    حضرت عیسیٰ کی آمد سے 470 سال قبل یونان میں پیدا ہونے والے سقراط نے یونانی فلسفے کو نئی جہت دی اور دنیا بھر میں فلسفی، منطق اور نظریات پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سقراط کے خیالات انقلابی تھے اور ایسے نظریات کی نفی کرتے تھے جس میں غلامی اور انسانی حقوق چھیننے کی حمایت کی جاتی ہو۔

    بے تحاشہ غور و فکر اور ہر شے کو منطقی انداز میں پرکھنے کی وجہ سے سقراط نے دیوتاؤں کے وجود سے بھی انکار کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں: خلیل جبران کے اقوال

    سقراط کے خیالات کی وجہ سے نوجوان اس کے پاس کھنچے چلے آنے لگے جس کی وجہ سے یونان کے بر سر اقتدار طبقے کو محسوس ہوا کہ اگر سقراط کا قلع قمع نہ کیا گیا تو انہیں بہت جلد نوجوانوں کی بغاوت کا سامنا ہوگا۔

    چنانچہ انہوں نے اس پر مقدمہ درج کر کے اسے موت کی سزا سنا دی۔ اس وقت سزائے موت کے مجرم کو زہر کا پیالہ پینے کے لیے دیا جاتا تھا۔

    زہر پینے کے بعد سقراط نے نہایت آرام و سکون سے اپنی جان دے دی۔

    وہ اپنے بارے میں کہتا تھا، ’میں کوئی دانش مند نہیں، لیکن ان احمق لوگوں کے فیصلے سے دنیا مجھے ایک دانش مند کے نام سے یاد کرے گی‘۔

    مزید پڑھیں: ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    زہر کا پیالہ پینے کے بعد اس نے کہا، ’صرف جسم مر رہا ہے، لیکن سقراط زندہ ہے‘۔

    آج ہم سقراط کے ایسے اقوال پیش کر رہے ہیں جو یقیناً آپ کے علم و دانش میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

    اپنے آپ کے بارے میں سوچو، اور خود کو جانو۔

    خوشی کا راز وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو۔ خوشی زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں لطف اندوز ہونے میں ہے۔

    سب سے مہربانی سے ملو۔ کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں کسی جنگ میں مصروف ہے۔

    میں کسی کو کچھ بھی نہیں سکھا سکتا۔ میں صرف لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہوں۔

    ایک مصروف زندگی کے کھوکھلے پن سے خبردار رہو۔

    اصل ذہانت اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہم زندگی، دنیا اور اپنے آپ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

    بے قیمت انسان کھانے اور پینے کے لیے جیتے ہیں، قیمتی اور نایاب انسان جینے کے لیے کھاتے اور پیتے ہیں۔

    علم کو دولت پر فوقیت دو، کیونکہ دولت عارضی ہے، علم دائمی ہے۔

    سوال کو سمجھنا، نصف جواب کے برابر ہے۔

    اگر تم وہ حاصل نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔

    تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔

    میں ایتھنز یا یونان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ دنیا کا شہری ہوں۔

    حیرت، ذہانت کا آغاز ہے۔

    موت شاید انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔

    تمہارا دماغ سب کچھ ہے۔ تم جو سوچتے ہو، وہی بن جاتے ہو۔

    میں اس وقت دنیا کا سب سے عقلمند آدمی ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

    مزید پڑھیں: عظیم فلسفی کنفیوشس کے 12 رہنما افکار

  • موہنجو دڑو کی پراسرار زبان کا راز افشا ہونے کے قریب

    موہنجو دڑو کی پراسرار زبان کا راز افشا ہونے کے قریب

    وادی سندھ کی ہزاروں سال قدیم تہذیب کے اہم شہر موہن جو دڑو کی مکمل تاریخ تاحال اندھیرے میں ہے۔ اس تہذیب کے بارے میں آج تک تعین نہیں کیا جاسکا کہ وہ کیا وجہ تھی جس نے اس قدر جدید اور ترقی یافتہ تہذیب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    اس کھوج میں سب سے بڑی رکاوٹ موہن جو دڑو سے ملنے والی وہ زبان ہے جسے ماہرین آج تک سمجھ نہیں سکے۔ تاہم اب ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ موہن جو دڑو کی زبان کو سمجھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ اس تہذیب کا جو رسم الخط ملا ہے وہ مختلف دریافتوں میں ملنے والی مہروں، ٹکیوں اور برتنوں پر نقش ہے۔ یہ عبارتیں اور نشانات نہایت مختصر ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ اس دور کی زبان کے ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہے۔

    mohenjo-daro-4

    ان عبارتوں اور نشانات کو پڑھنے اور سمجھنے کی تمام کوششیں تاحال بے سود ثابت ہوئی ہیں اور اس وجہ سے ماہرین اس تہذیب کی مکمل تاریخ تک نہیں پہنچ سکے۔

    تاہم اب یونیورسٹی آف واشنگٹن اور ممبئی کے ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف فنڈامنٹل ریسرچ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس زبان کو سمجھنے کے لیے نئے سرے سے کام کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: وادی سندھ کی تہذیب تصورات سے زیادہ قدیم

    دونوں یونیورسٹیوں کی مشترکہ تحقیق کے تحت ماہرین اس تہذیب سے ملنے والی زبان کا موازنہ، اب تک کی تاریخ میں پائی گئی تمام زبانوں سے کر رہے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جس طرح جدید دور میں کوئی ایک لفظ ملتے جلتے تلفظات اور ہجے کے ساتھ مختلف زبانوں میں موجود ہوتا ہے، اور اس کا مطلب یکساں ہوتا ہے، اسی طرح یہ اصول قدیم زبانوں پر بھی عائد ہوتا ہے۔

    mohenjo-daro-3

    ماہرین کو یقین ہے کہ وہ مختلف قدیم زبانوں میں، وادی سندھ کی زبان سے ملتے جلتے الفاظ اور علامات تلاش کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

    جرنل سائنس میں شائع ہونے والے مقالے کے مطابق اس ضمن میں کام شروع کیا جاچکا ہے اور اب تک ماہرین کو موہن جو دڑو کی زبان سے مماثل الفاظ و نشانات، میسو پوٹیمین تہذیب کی زبان اور برصغیر کی قدیم تامل زبان میں ملے ہیں۔

    اگر ماہرین اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ قدیم تاریخ کو سمجھنے کے لیے ایک انقلابی قدم ہوگا اور ہم تاریخ کے ان گوشوں سے واقفیت حاصل کرسکیں گے جو آج سے قبل سب کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

  • پالمیرا کے کھنڈرات میں موسیقی کی گونج

    پالمیرا کے کھنڈرات میں موسیقی کی گونج

    پالمیرا: شام کے قدیم تاریخی شہر پالمیرا کے کھنڈرات میں محبت بھری موسیقی کی لہریں گونج اٹھیں جب کچھ گلوکاروں نے وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    شام سے تعلق رکھنے والے نو عمر گلوکار اینجل دیوب نے مشہور نغمہ ’اے محبت! ہم واپس آرہے ہیں‘ گا کر کھنڈرات میں ایک بار پھر زندگی کی لہر دوڑا دی۔

    syria-2

    یاد رہے کہ گزشتہ برس داعش نے شام کے شہر پالمیرا پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ شہر 2 ہزار قبل مسیح سال قدیم ہے اور یہاں بے شمار تاریخی کھنڈرات موجود تھے جنہیں داعش نے بے دردی سے تباہ کر دیا۔

    مزید پڑھیں: پالمیرا کے کھنڈرات داعش سے قبل اور بعد میں

    دس ماہ تک قبضے کے دوران داعشی جنگجوؤں نے سینکڑوں قدیم عمارتوں کو مسمار اور مجسموں کو توڑ دیا تھا۔ بعد ازاں اتحادی فوجوں نے شہر کو داعش سے تو آزاد کروا لیا، لیکن تب تک شہر اپنا تاریخی ورثہ کھو چکا تھا۔

    شامی گلوکار دیوب اور اس کے ساتھیوں نے پالمیرا میں موجود قدیم تھیٹر کے کھنڈرات میں گلوکاری اور فن موسیقی کا مظاہرہ کیا۔ دیوب اور اس کے ساتھیوں نے عربی آلات موسیقی کی دھن پر محبت کا نغمہ گایا۔

    syria-3

    syria-5

    syria-4

    syria-6

    دیوب کا کہنا ہے، ’میں ہر اس جگہ جاؤں گا جہاں داعش نے تباہی و بربادی کی داستان چھوڑی ہے۔ میں وہاں جا کر محبت کا نغمہ گاؤں گا‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ ہر شخص جنگ سے تباہ حال شام کو اپنے طریقے سے سنوارنا اور پھر سے اس کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ہم موسیقی کے ذریعے اس کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔ ’داعش اندھیرا ہے، موسیقی روشنی ہے‘۔

    دیوب اور اس جیسے کئی فنکار جنگ زدہ شام کے تاریخی، فنی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

  • آئرن ایج کے دور کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت

    آئرن ایج کے دور کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت

    برطانیہ کے علاقے اسٹیفورڈ شائر سے عہد آہن یعنی آئرن ایج کے زمانے کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت کر لیے گئے۔

    یہ دریافت دو ماہرین آثار قدیمہ مارک ہیمبلٹن اور جو کانیا نے کی۔ گلے کے گلوبند اور ہاتھوں میں پہنے جانے والے کنگن نما ان زیورات کی عمر ممکنہ طور پر ڈھائی ہزار سال قدیم ہے۔

    gold-5

    gold-6

    عہد آہن کے نوادرات پر مشتمل برطانوی میوزیم کی نگران ڈاکٹر فیئرلی کے مطابق یہ زیورات 400 سے 250 سال قبل مسیح میں تیار کیے گئے۔ ان کے مطابق یہ آئرن ایج کے بالکل ابتدائی زمانے میں تیار کیے گئے سونے کے زیورات ہیں۔

    gold-3

    gold-4

    gold-7

    ماہرین کے مطابق یہ برطانیہ میں عہد آہن کی سب سے قدیم دریافت ہے۔ اس دریافت سے برطانیہ میں اس دور کی تاریخ و تمدن کو سمجھنے میں مزید مدد ملے گی۔

    فی الحال ان زیورات کی مزید جانچ پڑتال کی جارہی ہے اور بہت جلد اسے میوزیم میں عوام کے لیے پیش کردیا جائے گا۔

  • مسخ شدہ مجسموں کی تھری ڈی پرنٹنگ سے بحالی

    مسخ شدہ مجسموں کی تھری ڈی پرنٹنگ سے بحالی

    شام کے قدیم تاریخی شہر پالمیرا میں داعش کے ہاتھوں تباہ شدہ مجسموں کو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعہ ان کی اصل حالت میں تقریباً واپس لے آیا گیا۔

    گزشتہ برس داعش نے شام کے شہر پالمیرا پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ شہر 2 ہزار قبل مسیح سال قدیم ہے اور یہاں بے شمار تاریخی کھنڈرات موجود تھے جنہیں داعش نے بے دردی سے تباہ کر دیا۔

    مزید پڑھیں: پالمیرا کے کھنڈرات داعش سے قبل اور بعد میں

    داعشی جنگجوؤں نے سینکڑوں قدیم عمارتوں کو مسمار اور مجسموں کو توڑ دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اتحادی فوجوں نے شہر کو داعش سے تو آزاد کروا لیا، لیکن تب تک شہر اپنا تاریخی ورثہ کھو چکا تھا۔

    یہاں سے ملنے والے مسخ شدہ مجسموں کو مختلف ممالک میں بھیجا گیا جہاں ان کی بحالی و مرمت کا کام جاری ہے۔

    ایسے ہی کچھ مجسموں کو روم میں تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے کسی حد تک ان کی اصل حالت میں واپس لایا جا چکا ہے۔

    statue-5

    داعش کے جنگجوؤں نے ان مجسموں کے چہروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور ان پر بھاری اوزاروں سے ضربیں لگائیں تھی۔

    روم میں ماہرین نے ان مجسموں کے چہرے کے بچ جانے والے حصوں کی لیزر سے اسکیننگ کی۔ بعد ازاں چہرے کو مکمل کرنے کے لیے ان سے مطابقت رکھتے ہوئے نئے حصے بنائے گئے۔

    statue-3

    نئے ٹکڑوں کو مقناطیس کی مدد سے نصب کیا گیا۔

    statue-4

    statue

    بحالی کے بعد ان مجسموں کو اب کچھ دن بعد واپس شام بھجوا دیا جائے گا جہاں انہیں دمشق کے میوزیم میں رکھا جائے گا۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کا 700 سال قدیم مجسمہ

    ڈونلڈ ٹرمپ کا 700 سال قدیم مجسمہ

    لندن میں ایک کئی سو سال قدیم مجسمے کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے حیرت انگیز مشابہت نے سیاحوں کو حیرت اور خوف میں مبتلا کردیا۔

    لندن کے نوٹنگھم شائر کیتھڈرل میں نصب یہ مجسمہ جو صرف سر پر مشتمل ہے، چھت کے قریب کمان پر تراشا گیا ہے اور یہ 700 سال قدیم ہے۔

    trump-2

    اس عیسائی عبادت گاہ میں موجود ان گنت کمانوں میں بے شمار مجسمے تراشے گئے ہیں اور ٹرمپ سے مشابہت رکھنے والا یہ سر بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    اس مجسمے کو اس سے قبل بھی دیکھا گیا تھا تاہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔

    کیتھڈرل کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اس مجسمے کو دیکھتے آرہے ہیں لیکن آج سے پہلے انہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ اس مجسمے کے بالوں کا انداز ہو بہو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا ہے۔

    trump-3

    انہوں نے بتایا کہ ان مجسموں کو چودہویں صدی میں تراشا گیا۔ یہ مجسمہ ممکنہ طور پر کسی عام شخص کا ہے اور اس کا تعلق بادشاہوں کے خاندان سے نہیں ہے۔

    تو گویا یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ آج سے 700 سال قبل بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مشابہت رکھنے والا شخص موجود تھا، اور اگر وہ واقعی کوئی عام شخص تھا تو صدیوں بعد اس کی روح خوش ہوگئی ہوگی کہ آج اس کا ہم شکل شخص دنیا کے ایک طاقتور ترین ملک کا سربراہ ہے۔

  • امریکی مجسمہ آزادی‘درحقیقت ایک مسلمان خاتون کی یادگار

    امریکی مجسمہ آزادی‘درحقیقت ایک مسلمان خاتون کی یادگار

    واشنگٹن : امریکی شہرنیویارک میں نصب مجسمہ آزادی دنیا بھرمیں امریکی معاشرےکی علامت سمجھاجاتا ہے۔اس مجسمےکاابتدائی تصور ایک مسلمان کسان خاتون تھی۔

    تفصیلات کےمطابق امریکی اخبار نےمجسمہ آزادی کی تاریخ سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایاگیا ہےکہ نیویارک میں نصب آزادی کی علامت سمجھے جانے والے مجسمے کوفرانسیسی ڈیزائنرفریدرک آگوستے بارتولدی نےایک مسلمان دیہاتی خاتون کو ذہن میں رکھ کرڈیزائن کیا تھا۔

    بارتولدی نے 1855 میں ابوسمبل میں نوبین مانومینٹ کا دورہ کیاجہاں وہ قدیم آرکیٹیکچر سے متاثر ہوا جس کے بعد اس نےخاتون کا مجسمہ بنانے کا ارادہ ظاہر کیاجسے مصر کی بندرگاہ پورٹ سعید پر نصب کیا جانا تھا۔

    امریکہ کے مجسمہ آزادی پر کئی کتب لکھنے والے مصنف بیری مورینو کا کہنا ہے کہ بارتولدی نے کولسس جیسے اسٹرکچر کا مطالعہ کیا اور مجسمہ بنانا شروع کیا۔یہ مجسمہ 86 فٹ بلند تھا اور اس کے ستون کی اونچائی 48 فٹ تھی۔

    us-post

    مصر کی حکومت نےیہ پروجیکٹ بہت مہنگا ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیا۔لیکن فرانسیسی ڈیزائنربارتولدی نے ہمت نہ ہاری اور پورٹ سعید کی بجائے آخر کاریہ مجسمہ موجودہ شکل میں نیویارک میں نصب کیاگیاجو 180 فٹ بلند ہے۔

    امریکہ کو فرانس کی جانب سے مجسمہ آزادی فرانسیسی انقلاب میں امریکہ اور فرانس کے اتحاد اور دوستی کے 100سالہ تقریبات کے دوران 1876میں یادگار کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

    واضح رہےکہ فرانسیسی ڈیزائنرفریدرک آگوستے بارتولدی کا تصوراتی دیہاتی مسلمان خاتون کا مجسمہ امریکہ کی آزادی کی علامت بن گیا۔

  • رومی سلطنت کی 22 ہزار سال قدیم کندہ کاری دریافت

    رومی سلطنت کی 22 ہزار سال قدیم کندہ کاری دریافت

    ترکی میں قدیم تاریخی شہر زیوگما میں 22 ہزار سال قدیم کندہ کاری دریافت کرلی گئی۔ قدیم الفاظ اور نقش نگاری پر مشتمل یہ کندہ کاری فرش پر کی گئی تھی۔

    mosaic-2

    mosaic-4

    زیوگما نامی شہر جو موجودہ دور میں ترکی کا حصہ ہے، دوسری صدی قبل مسیح میں قدیم رومی سلطنت کا اہم شہر اور تجارتی مرکز تھا۔ یہاں 80 ہزار افراد رہائش پذیر ہوا کرتے تھے۔

    اس شہر میں چھپے آثار قدیمہ کی دریافت کے لیے یہاں سنہ 2007 سے کھدائی کا آغاز کیا گیا۔ اس سے قبل یہ شہر زیر آب تھا۔

    زیوگما میں کھدائی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس سے قبل بھی یہاں 2 سے 3 ہزار گھروں پر مشتمل علاقہ دریافت کیا جاچکا ہے۔ ان گھروں کے آثار قدیمہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں بہت شاندار طریقے سے تعمیر کیا گیا ہوگا۔

    mosaic-5

    حال ہی میں دریافت کی جانے والی رنگین کندہ کاری کو ماہرین نے ایک شاندار دریافت قرار دیا ہے۔ کھدائی میں شامل ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کے علاوہ بھی اس شہر کی مزید چیزیں دریافت کی ہیں۔

    mosaic-3

    ان کے مطابق انہوں نے ایسے گھر بھی دریافت کیے ہیں جو دیو قامت پتھروں یا چٹانوں کے اندر تراشے گئے تھے۔

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ خوبصورت قدیم تعمیری باقیات ہماری شاندار ثقافت کا حصہ ہیں۔ یہ نہ صرف ہماری ثقافتی تاریخ میں ایک بہترین اضافہ ہیں بلکہ ان سے ہمیں قدیم دور کو مزید بہتر طریقے سے سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔