Tag: تاریخ

  • محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال گاڑیاں بحالی کے لیے ماہرین کے حوالے

    محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال گاڑیاں بحالی کے لیے ماہرین کے حوالے

    کراچی: مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال 2 تاریخی گاڑیاں اپنی اصل حالت میں واپس لانے کے لیے ماہرین کے حوالے کردی گئی ہیں۔

    یہ اقدام حکومت پاکستان کی جانب سے اٹھایا گیا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال دونوں گاڑیاں سنہرے رنگ کی کیڈلک اور مرسڈیز بینز 200 زنگ آلود حالت میں نیشنل میوزیم کے گیراج میں موجود تھیں۔

    fatima-jinnah-2

    اس بارے میں ونٹاج اینڈ کلاسک کار کلب کے بانی محسن اکرام نے بتایا کہ وہ اسی گیراج میں ان گاڑیوں کی مرمت کریں گے۔ محسن اکرام نے 1992 میں موہٹہ پیلیس میں ان گاڑیوں کی نشاندہی کی تھی اور تب سے وہ حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ ان گاڑیوں کو محفوظ کیا جائے۔

    محسن اکرام اپنی ٹیم کے ساتھ اس کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیشنل میوزیم کے گیراج میں کام کرنے کے لیے پہلے گیراج کو درست حالت میں لانا ہوگا۔ ان کے مطابق گیراج میں روشنیاں موجود نہیں، دیواروں کا پلستر اکھڑ رہا ہے جبکہ بارش کے دوران چھت بھی ٹپکتی ہے۔

    قائد اعظم فاطمہ جناح کے ہمراہ کراچی پہنچ گئے *

    گیراج کے باہر کئی نیولے بھی دیکھے جا چکے ہیں جو سانپوں، چوہوں اور چھپکلیوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں تاہم محسن اکرام اپنے تفویض کردہ کام کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔

    محسن اکرام نے بتایا کہ ابتدا میں ان کاروں کو درست حالت میں لانے کے بعد اسلام آباد کے آرمی میوزیم میں رکھنے کا منصوبہ تھا تاہم بعد ازاں اسے تبدیل کردیا گیا۔ اب ان گاڑیوں کو بحالی کے کام کے بعد قائد اعظم ہاؤس میوزیم یا فلیگ اسٹاف ہاؤس میں رکھا جائے گا۔

    fatima-jinnah-3

    محسن اکرام اس سے قبل بھی کئی پرانی گاڑیوں کی مرمت و بحالی کا کام کر چکے ہیں اور وہ اس حوالے سے نہایت پرجوش ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کام پر 23 ملین روپے کا ابتدائی تخمینہ لگایا گیا جو ٹیکس کی چھوٹ کے بعد 13 ملین روپے ہوچکا ہے۔

  • خواتین کے لیے مروجہ اصولوں کو للکارتی، ناچتی گاتی بے باک چانی

    خواتین کے لیے مروجہ اصولوں کو للکارتی، ناچتی گاتی بے باک چانی

    بالی ووڈ کی میگا بجٹ فلم ’موہن جو دڑو‘ کا ایک اور گانا جاری کردیا گیا۔ اس سے قبل جاری کیے جانے والے 2 گانوں کے برعکس اس گانے کی شوٹنگ آؤٹ ڈور کی گئی ہے اور اس میں موہن جودڑو کے گلی کوچوں کو فلمایا گیا ہے۔

    گانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلم کے تخلیق کار دریائے سندھ کی قدیم تہذیب، موہن جودڑو کے زمانے اور اس کے ماحول کی بہترین عکاسی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    8

    گانا ’سرسریا‘ ریتھک روشن اور پوجا ہیج پر فلمایا گیا ہے جس میں وہ دونوں موہن جودڑو کی گلیوں اور بازاروں میں عالم سرخوشی میں گنگناتے گھوم رہے ہیں۔

    گانے میں پس منظر میں چند ہی خواتین دکھائی دیں جس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس زمانے میں خواتین کا باہر نکل کر گھومنا پھرنا زیادہ عام نہیں تھا اس کے باوجود فلم کی ہیروئن چانی بے باکانہ انداز میں ناچتی گاتی نظر آرہی ہے۔

    اس بات کی تصدیق ریتھک روشن نے بھی اپنی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کی، ’چانی کو نہیں لگتا کہ اسے خواتین کے لیے مخصوص امتیازی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیئے‘۔

    ساتھ ہی انہوں نے گانا ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ’دیکھیئے کس طرح وہ ان اصولوں سے آزاد ہے‘۔

    گانے کا آغاز اجنبی زبان کے الفاظ سے ہوتا ہے جو موہن جودڑو سے ملنے والی لکھائی کے نمونوں کی طرح تاحال نامعلوم ہے۔

    فلم میں استعمال کی جانے والی زبان کے بارے میں ڈائریکٹر اشوتوش گواریکر ایک بھارتی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ انہوں نے ہندی اور سندھی زبان کو ملا کر مکالمے لکھوائے ہیں۔ ’دونوں زبانوں کے ملاپ سے بننے والے مکالمے فلم بینوں کے لیے سمجھنا مشکل نہیں ہوں گے‘۔

    1

    فلم کے اسکرپٹ کے مطابق چانی مہا پجاری کی بیٹی ہے اور اس سے قبل جاری کیے جانے والے گانوں اور ٹریلر میں اسے اپنے سر پر مخصوص تاج یا زیورات اور ایک خاص طبقے کے لیے مخصوص لباس میں ہی دیکھا گیا۔

    تاہم اس گانے میں وہ ایک عام سی لڑکی کی طرح سادہ سا لباس پہنے ہوئے ہے جبکہ اس کے سر پر بھی کوئی امتیازی زیور نہیں۔

    5

    موہن جودڑو کے لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ گانے میں شہر کے بیچوں بیچ واقع ایک بازار دکھایا گیا ہے جہاں قدیم طرز پر تعمیر شدہ مختلف دکانوں پر غذائی اجناس، جانوروں کا چارہ، ہاتھی دھات اور دیگر دھاتوں سے بنے مجسمے اور دیگر آرائشی اشیا موجود ہیں۔

    6

    ایک موقع پر موسیقی کے آلات فروخت کرنے والی ایک دکان بھی دکھائی گئی۔

    4

    گانے میں موہن جودڑو کی پہچان اس کی خاص گلیاں بھی دکھائی گئی ہیں جو پکی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔

    7

    گانے میں رنگ ریز اور مٹی سے بنائے جانے والے برتن بھی دکھائے گئے ہیں۔

    2

    اس گانے کے بول جاوید اختر نے لکھے ہیں جبکہ موسیقی اے آر رحمٰن نے دے دی ہے۔ گانے کو سشوت سنگھ اور ساشا تریپتی نے گایا ہے۔

    مجموعی طور پر یہ گانا ایک اچھی کوشش ہے تاہم ٹریلر کی طرح اسے بھی تعریف اور تنقید دونوں کا سامنا ہے۔

    اس سے قبل فلم کے 2 گانے ’تو ہے‘ اور ٹائٹل سانگ ’موہن جودڑو‘ جاری کیا جاچکا ہے۔

  • وادی سندھ کی تہذیب 2,500 سال سے بھی قدیم

    وادی سندھ کی تہذیب 2,500 سال سے بھی قدیم

    نئی دہلی: بھارت میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب جسے ڈھائی ہزار سال قدیم خیال کیا جاتا ہے، اس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔

    بھارتی محققین نے جانوروں کی باقیات اور وہاں سے ملنے والے برتنوں کے ٹکڑوں پر کاربن ڈیٹنگ (جسم پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اثرات کی جانچ پڑتال) کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کم از کم 8000 سال پرانی ہوسکتی ہے۔

    indus-2

    اگر واقعی ایسا ہے تو یہ تہذیب میسوپوٹیمیا اور مصر کی تہذیب سے بھی قدیم ہے۔

    واضح رہے کہ میسوپوٹیمیا تہذیب اب تک کی معلوم تاریخ، یعنی 31 سو سال قبل مسیح کی قدیم ترین تہذیب مانی جاتی ہے۔

    بھارتی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھراگپور میں ارضیات کے پروفیسر انندیا سرکار اس بارے میں کہتے ہیں، ’یہ تحقیق انسانی اور تہذیبی ارتقا کو نئے سرے سے سمجھنے کی دعوت دے رہی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فلم ’موہن جودڑو‘ کے ٹریلر میں 5 خاص پہلو

    وادی سندھ کی تہذیب بھارت اور پاکستان کے کئی علاقوں پر مشتمل ہے جس میں ہڑپہ اور سندھ میں واقع موہن جودڑو نمایاں شہر ہیں۔ اس سے قبل ایک اور تحقیق کے مطابق بھارت کے دریائے سرسوتی کے کنارے بھی اس تہذیب کے آثار ملے تھے۔

    indus-3

    یہ دریا 4000 سال قبل معدوم ہوگیا تھا۔ اس تحقیق نے ہی محققین کو ’وادی سندھ کی ڈھائی ہزار سال قدیم تہذیب‘ کے نظریے پر نظر ثانی پر مجبور کیا۔

    ماہرین اس عظیم تہذیب کے زوال کے اسباب پر بھی نئے سرے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ اس سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ موسمی تغیر یا کلائمٹ چینج اس قدیم تہذیب کے خاتمے کا سبب بنا تھا۔

  • مراکش میں دنیا کے قدیم ترین کتب خانے کی بحالی

    مراکش میں دنیا کے قدیم ترین کتب خانے کی بحالی

    رباط: مراکش کے شہر فیض میں واقع دنیا کے قدیم ترین کتب خانہ ’القروین‘ کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

    یہ لائبریری 1 ہزار 1 سو 57 سال پرانی ہے اور یہ دنیا کی قدیم ترین اور اب تک فعال جامعہ القروین کا حصہ ہے۔

    l8

    جامعہ القروین 859 عیسوی میں قائم کی گئی تھی۔ اس لائبریری میں ایک عرصے سے مرمت کا چھوٹا موٹا کام کیا جارہا تھا لیکن 2012 میں مراکشی نژاد کینیڈین ماہر تعمیرات عزیزہ شاونی نے اس کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا۔

    اس سے قبل یہ لائبریری صرف تعلیمی اداروں اور طلبا کے لیے مختص تھی۔

    l5

    جامعہ القروین 859 میں ایک تاجر کی بیٹی فاطمہ الفریہ نے قائم کی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب الجبرا کی ابتدائی شکل ایجاد ہوئی۔ لائبریری میں فاطمہ کا اس تعلیمی ادارے سے حاصل کیا جانے والا ڈپلومہ ایک لکڑی کے تختہ پر نصب ہے۔

    عزیزہ شاونی نے اس پروجیکٹ پر 4 سال کام کیا جس کے بعد لائبریری میں موجود فوارے اور خطاطی اپنی اصل شکل میں بحال ہوگئے۔ لائبریری کی تعمیر میں پتھروں سے خوبصورت اور منفرد نقش و نگار اور محراب بنائے گئے ہیں۔

    l7

    لائبریری میں 4000 کے قریب غیر شائع شدہ مسودات موجود ہیں۔ یہاں نویں صدی کے قرآن، جن پر کوفی دور کی خطاطی کی گئی ہے جبکہ حضور اکرم کے حالات زندگی کا قدیم ترین مسودہ بھی موجود ہے۔

    l6

    لائبریری کے سرپرست عبدالفتح بوگشوف ہیں۔ وہ یہاں موجود تمام کتابوں اور مسودوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔

    l4

    یہاں 14ویں صدی کے شمالی افریقی مؤرخ ابن خلدون کی مشہور تصنیف ’مقدمہ‘، جبکہ اسلام کے قانون نظام کی تشریح کرتا ایک قدیم ترین نسخہ کا اصل مسودہ بھی موجود ہے۔ یہ مسودہ خطاطی کی طرز پر لکھا گیا ہے۔

    l3

    l2

    یہاں کی ایک اور قیمتی کتاب نویں صدی کا ایک قرآن ہے جو اب تک اپنی اصل جلد میں ہے۔

    l1

    اس لائبریری کو کھولے ہوئے چند ہی دن گزرے ہیں مگر اب تک دنیا بھر سے بے شمار سیاح اور تاریخ کے طالبعلم اس کا دورہ کر چکے ہیں۔

  • ‘رومی تمہارا نہیں ہے’

    ‘رومی تمہارا نہیں ہے’

    کابل: افغانستان نے ایران اور ترکی کی جانب سے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کو اپنا قومی ورثہ قرار دینے کی درخواست پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے افغان ورثہ قرار دینے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تہران اور انقرہ رومی کی تخلیقات کو مربوط کر رہے ہیں جس کے بعد اسے اقوام متحدہ کے کتابچے ’عالمی یادیں‘ میں اپنے مشترکہ ثقافتی ورثے کی حیثیت سے جمع کروائیں گے۔

    rumi-3

    اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے 1997 میں اس کتابچے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کتابچے کا مقصد خاص طور پر جنگ زدہ اور شورش زدہ ممالک کے ادبی ورثے کو جمع اور محفوظ کرنا ہے۔

    اس سلسلے میں رومی کو ’اپنا‘ ثقافتی ورثہ قرار دینے کی ترک اور ایرانی کوششوں کو افغانستان نے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

    رومی بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان ثقافت و نشریات کی وزارت کے مطابق رومی ان کا فخر ہے۔

    ترجمان وزارت ہارون حکلیمی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’یونیسکو نے کبھی بھی ہم سے اس بارے میں رائے نہیں مانگی۔ لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اپنا دعویٰ ثابت کردیں گے‘۔

    rumi-4

    رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی تخلیقات کو 23 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    رومی کی زندگی پر ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنائی جارہی ہے جس میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کر رہے ہیں۔

    بلخ کے گورنر جنرل عطا محمد نور نے اقوام متحدہ میں افغان نمائندے کو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانے اور اس پر احتجاج کرنے کو کہا ہے۔

    ان کا کہنا ہے، ’رومی کو صرف 2 ممالک تک محدود کرنا ناانصافی ہے۔ رومی ایک عالمی مفکر ہے اور دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں‘۔

    rumi-1
    رومی کی آرام گاہ

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔

    منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔

    یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    rumi-2

    افغانیوں کے مطابق رومی نے جہاں اپنے بچپن کا کچھ حصہ گزارا وہ گھر اب بھی بلخ میں موجود ہے۔

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔

    رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔

  • مشہور صوفی شاعر رومی کی زندگی پر فلم

    مشہور صوفی شاعر رومی کی زندگی پر فلم

    ہالی وڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’گلیڈی ایٹر‘ کے مصنف ڈیوڈ فرنزونی تیرہویں صدی کے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کی زندگی پر فلم بنانے جارہے ہیں۔

    ڈیوڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ جو فلم بنانے جا رہے ہیں وہ مغربی سنیما میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کردے گی۔ ’رومی ایک ایسا شاعر ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور معاشروں پر اثرانداز ہوا۔ ایسے عظیم افراد کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ کھوجنے کی ضرورت ہے‘۔

    جلال الدین رومی

    ڈیوڈ نے گزشتہ ہفتے ہی ترکی کا دورہ بھی کیا ہے جہاں وہ رومی کی تعلیمات کے ماہرین سے ملے اور وہاں انہوں نے رومی کے مزار کا دورہ بھی کیا۔

    رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ڈیوڈ کے مطابق نئی نسل رومی کی شاعری اور الفاظ کی تو دلداہ ہے لیکن ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی اور ان کا فلم بنانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ رومی کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔

    ڈیوڈ کے مطابق ان کے سامنے اصل چیلنج رومی کی زندگی کو ایک تسلسل کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ رومی کی زندگی کے کئی اوراق اندھیرے میں ہیں اور تاریخ ان کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ اسی طرح رومی کی زندگی کے ایک کردار حضرت شمس تبریزی اچانک ہی ان کی زندگی میں آئے اور اسی طرح اچانک غائب ہوگئے۔

    فلم میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کو دیا جارہا ہے۔ حال ہی میں آسکر ایوارڈ جیتنے والے لیونارڈو رومی کا کردار ادا کریں گے جبکہ شمس تبریزی کا کردار رابرٹ ڈاؤننگ جونیئر ادا کریں گے۔ فلم کی کاسٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    rumi-2

    rumi-3

    فلم کی شوٹنگ اگلے سال سے شروع کردی جائے گی۔

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ منگولوں کے حملے کے دوران انہوں نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔ یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    شمس تبریزی اور رومی کا ساتھ 2 برس رہا۔ اس کے بعد شمس تبریزی پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں قتل کردیا گیا تاہم ان کی موت کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں۔ ان کا مزار ایران کے شہر خوی میں ہے جسے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔

    rumi-6
    شمس تبریزی کی آرام گاہ
    rumi-4
    رومی کے مزار پر ہونے والا رقص

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔

  • پاکستان میں آج پہلی مرتبہ سرکاری طور پر’گوتم بدھ‘کا دن منایا جارہا ہے

    پاکستان میں آج پہلی مرتبہ سرکاری طور پر’گوتم بدھ‘کا دن منایا جارہا ہے

    اسلام آباد: پاکستان آج پہلی مرتبہ سرکاری طورپر وزارتِ قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کے تحت” بدھ مت” کے روحانی پیشوا "گوتم بدھ” کا دن منایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں آج میں پہلی بار سرکاری سطح پر بدھ مت کے مذہبی پیشوا’’بُدّھا‘‘کا دن منایا جارہا ہے،اس دن کی مناسبت سےقومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کی وزارت نے اسلام آباد میں خصوصی تقریب ’’وساکھا فیسٹیول‘‘ کااہتمام کیا۔

    budda-post-1

    گوتم بدھ کے دن کے حوالے سے منعقد کی گئی تقریب میں ملکی و غیر ملکی دانشور، مورخین اور مذہبی اسکالرز’’گوتم بدھ‘‘کی حالاتِ زندگی اور اُن کی تعلیمات پر روشنی ڈالیں گے۔

    ذرائع کے مطابق تقریب میں پاکستان کی خصوصی دعوت پر بہ شمول سری لنکا کے پرائمری انڈسٹری کے وزیر ’’ڈیا گیمیج‘‘ 39 رکنی وفد پاکستان آیا ہے،39 رکنی وفد میں 25 "بد ھ بھکشو” بھی شامل ہیں۔

    budda-post-2

    وفد نے تقریب سے پہلے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ اور ادبی ورثہ عرفان صدیقی سے ملاقات کی،اور گوتم بدھ کا دن سرکاری طور پر منانے پر شکریہ ادا کیا،اورسری لنکن صدر کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا۔

    اس موقع پر مشیرِ وزیرِ اعظم پاکستان، عرفان صدیقی نے سری لنکن وفد کی آمد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’’وساکھا فیسٹیول‘‘ ہر سال منعقد کیا جائے گا، جس میں شرکت کے سکھ یاتریوں کی طرح، بدھ مذہب کے پیروکار بھی ہر سال پاکستان آیا کریں گے۔

    پاکستان میں بدھ مت کے آثار 

    واضع رہے بدھ مت مذہب کی آثار پاکستان میں بھی ملتے ہیں،سوات کے علاقے مینگورہ سے شمال کی طرف 8 کلو میٹر کے فاصلے پر گاؤں منگلور کے پہاڑی علاقے میں بدھا کا پتھر میں کندہ شدہ دنیا کا دوسرا بڑا مجسمہ موجود ہے۔

    buddah 1

    اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے سیاحتی علاقے تخت بائی اور شنگردار میں بھی بدھ مت سے جوڑے گندھارا تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں، جس سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں اس علاقے میں بدھ مت کی جڑیں کتنی گہری تھیں۔

    buddah

    پاکستان میں ٹیکسلا کے قریب پانچویں صدی عیسوی کی بدھ مت کی ایک درسگاہ کے آثار موجود ہیں۔ یہ نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکیوں کے لیے توجہ کا خصوصی مرکز ہیں۔ قدیم دور کی اس درسگاہ کے آثار اُس دور کے انسان کی بودوباش اور ان کی تعمیراتی سوچ کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

    buddah2
    ٹیکسلا کے مقام پر دھرماراجیکا استوپ بدھ مت کی تاریخی باقیات پر مشتمل ایک ایسا کمپلیکس ہے، جو ایک بہت بڑے اسٹوپا اور کئی دیگر تعمیرات پر مبنی ہے۔ یہ کمپلیکس یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

    texilla

    یاد رہے کہ ’بدھ مت‘ تہذیب وتمدن کاعروج اور ابلاغ اس وقت حاصل هواجب اشوک اعظم نے اکثرہندوستان کےعلاقےفتح کرلئےتھےاور ھنددھرم کوچھوڑکر "بدھ مت“ کوقبول کرلیا، توگوتم بدھ کی تعلیمات سےمتاثرهوکر”اپنی فوج ختم“ کردی اور بدھ مت کی اشاعت کیلئےسری لنکا،ہندوستان،برما،چین،انڈونیشیا ملائیشاتک بدھ بکشوؤں کی جماعتیں دےکرروانه کیں۔

    buddah 3

    اسلام آباد سے تیس کلومیٹر دور ضلع ہری پور میں واقع قدیم جولیاں یونیورسٹی کے کھنڈرات کا ذکر کیے بغیربدھ مت کے پاکستان میں موجودگی اور اثرات کو جاننا ناممکن ہے، یہ روحانی درسگاہ اپنی تعمیر کے حساب سے دنیا کی بڑی سے بڑی جامعہ سے کسی طور کم نہیں تھی۔

    jolia1

    joli2

    jolia3

    joliaN

    جولیاں میں میں داخل ہوتے ہی ایک احاطہ ہے جس کی دائیں جانب پیروکاروں کے لیے چھوٹی چھوٹی عبادت گاہیں قائم ہیں، جا بہ جا بدھا کے مجسمے ہیں،جہاں کہیں تو بدھا یکسوئی سے مراقبی کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے شاگردوں کو گیان بانٹتے نظر آتے ہیں، یہ ایک مسحور کن منظر ہے۔

    بدھ مت اور گوتم بدھ

    بدھ مت دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب اور فلسفہ ہے جو مختلف روایات، عقائد اور طرز عمل پر مشتمل ہے، اس کی زیادہ تر تعلیمات کی بنیاد ’’سدھارتھ گوتم ‘‘کی جانب منسوب کی جاتی ہیں،جنہیں بدھ مت کے پیروکار’’روشن خیال استاد‘‘ کہتے ہیں۔

    ایک روایت کے مطابق ’’بدھا‘‘563 قبل مسیح یا 480 قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور چوتھی سے پانچوی صدی قبل مسیح کے درمیان شمال مشرقی بر صغیر میں رہتے تھے،انھوں نے حیات احساسی کو مشکلات سے نجات حاصل كرنا،نروان کا حصول اور تکلیف و پریشانی سے بچنا سكھايا۔

    30 سال کی عمر میں اُن کے برتاؤ میں آئی تبدیلی کو لوگوں نے صاف محسوس کیا وہ حق کی تلاش میں شہر سے نکل کر ویران جگہ میں جا بسے، جہاں گھاس پھوس کھا کر گزارا کیا، اور تن کو ڈھانپنے کے لیے درخت کے پتوں کا استعمال کیا،تاہم جلد ہی انہیں احسا س ہوا کہ یہ وہ ابدی سکون نہیں جس کی انہیں تلاش ہیں۔

    چنانچہ ایک روایت کے مطابق گوتم بدھ ایک برگد کے درخت کے نیچے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے،انہوں نے تہیہ کرلیا، کہ جب تک ان پر حقائق ظاہر نہ ہوئیں گے وہ اسی طرح مراقب رہیں گے۔

    روایت کے مطابق غروبِ آفتاب کے وقت اُن کے قلب پر منکشف ہوا کہ ”پاک و صاف باطن اور خلقِ خدا سے محبت‘‘میں ہی ابدی فلاح کا راز پنہاں ہے۔ انہوں اپنے اوپر ہونے والی اس آگاہی کو ’’دھرما چکرا پراورتنا‘‘ کا نام دیا جس کے معنی مذہب کے پہیے کا چل پڑنا ہے۔

    عام روایات کے مطابق لوگوں کو ابدی فلاح کی طرف بلانے والے ’’گوتم بدھ‘‘ نے 80 سال کی عمر میں 384 قبل مسیح میں اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ ہندو رسم کے مطابق ان کی لاش نظر آتش کردی گئی۔

     

  • ارجنٹینا میں 5 کروڑ سال قدیم پرندے کی باقیات دریافت

    ارجنٹینا میں 5 کروڑ سال قدیم پرندے کی باقیات دریافت

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک دیو قامت پرندے کی باقیات دریافت کی ہیں جو 5 کروڑ سال قدیم ہے۔ اس پرندے کے پر اب تک کی معلوم تاریخ کے سب سے بڑے پر قرار دیے جارہے ہیں۔

    ارجنٹینا کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے ماہر رکازیات کا کہنا ہے کہ 3 سال قبل سب سے پہلے ارجنٹینا کے ایک جزیرے میں اس پرندے کی ہڈیاں دریافت ہوئیں تھی۔

    پیلاگورنتھڈ نامی یہ پرندہ معدوم شدہ سمندری پرندے کی نسل سے تعلق رکھتا ہے جو قد و قامت میں بہت بڑا تھا۔ اس پرندے کی ایک خصوصیت اس کے ’نقلی دانت‘ ہیں، یعنی اس کی ہڈیاں دانتوں کی شکل میں اس کے منہ میں پائی جاتی ہے۔

    پروجیکٹ پر کام کرنے والی محقق کیرولینا ایسکوٹا کا کہنا ہے کہ اس کے پروں کا حجم 21 فٹ ہے۔ ان کے مطابق دریافت ہونے والی باقیات ظاہر کرتی ہیں کہ یہ اس نسل کا سب سے بڑا پرندہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کے پر اسے طویل فاصلوں تک اڑنے کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہوں گے۔ آج سے 5 کروڑ سال پہلے سمندروں کا گرم درجہ حرارت انہیں کثرت سے غذا فراہم کرنے میں معاون ہوتا ہوگا۔

    البتہ یہ پرندہ وزن میں بہت ہلکا تھا۔ اس کا وزن اوسطاً 66 سے 77 پونڈز ہوتا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق اتنے بڑےحجم کا اتنا سا وزن حیرت انگیز بات ہے۔

  • منگول سلطنت کے بانی چنگیزخان کا مقبرہ دریافت

    منگول سلطنت کے بانی چنگیزخان کا مقبرہ دریافت

    بیجنگ: منگولیا میں دریائے آنون کے نزدیک کام کرنے والے مزدوروں نے منگولوں کے سب سے طاقت ور باد شاہ چنگیز خان کا مقبرہ دریافت کرلیا۔

    بیجنگ یونی ورسٹی کی ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق دریائے آنون کے نزدیک مزدوروں کو سڑک کی تعمیر کے دوران متعدد ڈھانچے ملے، جن سے اس عہد ساز دریافت کا آغاز ہوا۔

    مقبرے سے کل 68 ڈھانچے ملے ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہےہے کہ یہ مقبرے کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کے ہیں جنہیں اس مقام کو خفیہ رکھنے کے لیے زندہ دفن کردیا گیا ہوگا۔

    مقبرے سے سونے کے سکوں اور چاندی کی اشیا کے اک ڈھیر کے ساتھ ایک طویل القامت مرد کا ڈھانچہ ملا ہے جس کےبارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ چنگیز خان کا ہے۔

    khan-post-1

    مقبرے سے 12 گھوڑوں کی باقیات جبکہ 16 عورتوں کے ڈھانچے بھی ملے ہیں جن کے بارے میں یقین کیا جارہا کہ انہیں منگولوں کے اس عظیم رہنما کی حیات بعد از موت میں آسانیاں فراہم کرنے کے لئے اس کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔

    ماہرین آثار قدیمہ نے کئی قسم کے ٹیسٹ اور تجزیے کرنے کے بات اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مقبرے سے برآمد ہونے والے طویل القامت شخص کی عمر 60 سے 75 سال کے درمیان تھی، اس کا انتقال1215 سے 1235 کے درمیان ہوا تھا اور وہ چنگیز خان ہے۔

    مقبرہ سینکڑوں سال تک دریا کے ساحل کے نیچے رہا تھا یہاں تک کہ دریائے آنون نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور مقبرے کی جگہ پانی سے باہرآگئی۔ سینکڑوں سال تک زیر آب رہنے والے اس مقبرے کی حالت انتہائی خستہ ہے۔

    khan-post-2

    تموجن یعنی لوہے کے نام سے پیدا ہونے والے اس بادشاہ نے اپنی بکھرے ہوئے منگول قبیلوں کو یکجا کرکے بیرونی دنیا پر حملے شروع کیے اوراپنی زندگی میں 31 ملین مربع کلومیٹر سے زائد کا علاقہ قبضہ کیا۔ چنگیز خان کےزیرنگوں چین، سنٹرل ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی یورپ کے علاقے تھے اوران کا نام پوری دنیا کے لیے دہشت کی علامت تھا۔

    KHAN 3

    چنگیز خان نے سنٹرل ایشیا میں قائم خوارزم شاہی اسلامی سلطنت کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا تھا اور اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس کے پوتے ہلاکو خان نے مسلم عظمت کے شاہکار بغداد کو راکھ کا ڈھیر بنا کررکھ دیا تھا۔

    منگولیا سے اٹھنے والی آندھی بلاشبہ اسلام کے مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیا میں زوال کا سبب بنی اور اس کا سہرا منگول سلطنت کے روح رواں چنگیز خان کے سر جاتا ہے جس کی دہشت سے ایشیا ، افریقہ اور یورپ لرزہ براندام تھے اور آج وہ محض ہڈیوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔

  • تاریخ کا قدیم پھول مرجھا رہا ہے

    تاریخ کا قدیم پھول مرجھا رہا ہے

    تاریخ کا قدیم ترین گلاب ’دمسک‘ جو اپنی خوشبو اور خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہے، شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے مرجھا رہا ہے۔

    دمسک گلاب جس کی وجہ سے ہی شام کے دارالحکومت کا نام دمشق پڑا اب خاتمے کے قریب ہے۔ دارالحکومت کے قریب ایک گاؤں ’نبک‘ دمسک کی افزائش کے لیے مشہور ہے، اب وہاں اس کی پیداوار آدھی ہوچکی ہے۔ وہاں رہنے والے ایک کسان حمزہ کے مطابق اس کی وجہ خانہ جنگی ہے۔

    حمزہ کا کہنا ہے کہ، ’اب جو پھول یہاں لگتے ہیں انہیں توڑنے والا بھی کوئی نہیں، کیونکہ باغیوں اور فوج کی لڑائی کی وجہ سے لوگ یہاں سے جا چکے ہیں۔

    damask

    ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سال گلاب کی نمائش بھی منعقد ہوتی تھی جو ہم نے اس سال بھی انتظامیہ کے منع کرنے کے باوجود کی۔ یہ گاؤں باغیوں کی آمد و رفت کا راستہ بھی ہے۔

    حمزہ نے بتایا کہ یہاں ہر سال 80 ٹن پھولوں کی افزائش ہوتی تھی جو 2010 میں گھٹ کر صرف 20 ٹن رہ گئی۔ خانہ جنگی کے علاوہ قحط نے بھی اس کی افزائش پر اثر ڈالا ہے۔

    انہوں نے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ لبنان سے تاجر یہاں آکر اسے خریدا کرتے تھے اور پھر یورپ لے جا کر بیچتے تھے۔

    damask-2

    یہ پھول یورپ میں کثرت سے درآمد کیا جاتا ہے جہاں اسے خوشبویات بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شام کے علاوہ یہ فرانس، مراکش، ایران اور ترکی میں بھی پایا جاتا ہے۔

    اس پھول کا تذکرہ مغربی شاعری و ادب میں بھی ملتا ہے۔ شیکسپیئر نے بھی 400 سال قبل اپنی تحاریر میں اس کا ذکر کیا۔