Tag: تبادلہ

  • ٹرمپ اور مسک کی دوستی دشمنی میں بدل گئی، سنگین الزامات کا تبادلہ

    ٹرمپ اور مسک کی دوستی دشمنی میں بدل گئی، سنگین الزامات کا تبادلہ

    امریکی صدر ٹرمپ اور امریکی کمپنی ٹیسلااور امریکا کے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی (DOGE)کے سابق سربراہ ایلون مسک کی دوستی دشمنی میں بدل گئی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایلون مسک نے اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد امریکی صدرکے ٹیکس میں کٹوتی اور اخراجات بل پر شدید تنقید کی تھی۔

    تاہم اب ایلون مسک نے ٹرمپ پر سنگین الزامات لگائے اور مواخذے کا مطالبہ کردیا جبکہ ٹرمپ نے ایلون مسک کو پاگل قراردیے ہوئے سرکاری معاہدے ختم کرنے کی دھمکی دیدی۔

    ایکس اور ٹروتھ سوشل پر دونوں کے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری جاری ہے، ایلون مسک نے ایکس پر لکھا اب بڑے انکشاف کا وقت آگیا ہے، اصل ڈونلڈ ٹرمپ ایپسٹین کی فائلوں میں موجود ہے، ٹرمپ انتظامیہ اسی لیے جنسی اسکینڈلز کیلئے بدنام جیفری ایپسٹین فائلز پبلک نہیں کررہی، یاد رکھیں، سچ ایک دن ضرور سامنے  آئے گا۔

    ایلون مسک نے مزید کہا کہ ان کے بغیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن ہار جاتے اور ڈیموکریٹس کو ایوان میں کنٹرول مل جاتا۔

    جس پر صدرٹرمپ نے جواب میں کہا کہ ایلون مسک کی تنقید سے بہت مایوسی ہوئی ہے، ایلون مسک بل کے معاملات سے بخوبی واقف تھے، جس پر ایلون مسک نے کہا کہ چار ٹریلین ڈالر بگ بیوٹی بل کبھی نہیں دکھایا گیا، بل عجلت میں منظور کیا گیا کہ ارکان بھی نہ پڑھ سکے۔

    ٹرمپ انتظامیہ ٹیرف رواں سال کی دوسری ششماہی میں کساد بازاری لائے گا، جس پر صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو کمپنیوں کو حاصل سبسڈی ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا مسک کی سبسڈیز اور سرکاری معاہدے ختم کرنے سے اربوں ڈالرز بچائے جاسکتے ہیں، ہمیشہ حیران رہتا تھا کہ بائیڈن نے ایسا  کیوں نہیں کیا۔

    دوسری جان ایلون مسک نے امریکا میں نئی سیاسی جماعت بنانے کیلئے ایکس پر رائے مانگ لی، کہا کیا اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ میں ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جائے؟۔ایسی نئی سیاسی جماعت  جو حقیقت میں اسی فیصد عوام کی نمائندگی کرے۔

  • یوکرین اور روس کے درمیان مزید 300 قیدیوں کا تبادلہ

    یوکرین اور روس کے درمیان مزید 300 قیدیوں کا تبادلہ

    متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی جانب سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگی قیدیوں کے ایک نئے تبادلے کے حوالے سے ثالثی کی کوششوں کی کامیابی کا اعلان سامنے آیا ہے۔

    عرب خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ کل 300 قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا جس میں یوکرین کے 150 اور روس کے 150 قیدی شامل ہیں۔

    متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ثالثی کی کوششوں کے ذریعے روس اور یوکرین کے دوران قیدیوں کے تبادلے کی تعداد دو ہزار484 تک پہنچ گئی۔

    وزارت نے امارات کی ثالثی کی کوششوں میں تعاون کیلیے دونوں ملکوں کی تعریف کی یہ کوششیں ایک قابل اعتماد ثالث کے طورپر امارات کے موقف کو ظاہر کرتی ہیں۔

    وزارت خارجہ کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ یوکرین تنازع کا پر امن حل تلاش کرنے کیلیے تمام کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل امارات نے دسمبر 2022 کے دوران امریکہ اور روس کے قیدیوں کی رہائی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

    دوسری جانب روسی فضائی حدود میں مسافر طیارے کو پیش آئے المناک حادثے پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے آذربائیجان کے صدر سے معافی مانگ لی۔

    آذربائیجان کا مسافر طیارہ یوکرینی ڈورن حملوں کے باعث جنوبی روس سے اپنا رخ موڑنے کے کچھ دیر بعد قزاقستان کے شہر اکتاؤ کے قریب گر کر تباہ ہوگیا تھا، حادثے میں 38 مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔

    ذرائع نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ طیارے کو روسی ایئر ڈیفنس نے غلطی سے مار گرایا تھا۔ تاہم اب صدر ولادیمیر پیوٹن کا باضابطہ بیان سامنے آیا ہے۔

    پیوٹن نے آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے رابطہ کیا اور روسی فضائی حدود میں پیش آنے والے المناک واقعے پر معذرت کی۔ انہوں نے ایک بار پھر متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔

  • خواجہ سعد رفیق کی سفارش پر من پسند جونیئر افسران بڑے عہدوں پر تعینات

    خواجہ سعد رفیق کی سفارش پر من پسند جونیئر افسران بڑے عہدوں پر تعینات

    اسلام آباد: وفاقی وزیر ہوا بازی خواجہ سعد رفیق کی سفارش پر سول ایوی ایشن میں من پسند جونیئر افسران کو بڑے عہدوں پر تعینات کردیا گیا، کراچی، اسلام آباد، ملتان اور پشاور ایئر پورٹس کے مینیجرز تبدیل کردیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بڑے پیمانے پر ایئر پورٹ مینیجرز کے تبادلے اور تقرریاں کی گئی ہیں، وفاقی وزیر ہوا بازی خواجہ سعد رفیق کی سفارش پر من پسند جونیئر افسران کو بڑے عہدوں پر تعینات کردیا گیا۔

    کراچی، اسلام آباد، ملتان اور پشاور ایئرپورٹس کے مینیجرز تبدیل کردیے گئے۔

    جونیئر ترین افسر آفتاب شاہ گیلانی کو مینیجر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ تعینات کردیا گیا، اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے ایئر پورٹس پر ایگزیکٹو گریڈ 8 کے افسران لگائے جاتے ہیں۔

    سی اے اے کے سینیئر افسر عمران خان کو کراچی ایئرپورٹ مینیجر کے عہدے سے ہٹا کر طاہر سکندر کو مینیجر کراچی ایئرپورٹ مقرر کردیا گیا۔

  • سندھ میں بغیر سفارش آنے والے اسسٹنٹ کمشنر کی تقرری سزا بن گئی

    سندھ میں بغیر سفارش آنے والے اسسٹنٹ کمشنر کی تقرری سزا بن گئی

    کراچی: صوبہ سندھ میں بغیر سفارش اور کوٹے کے، میرٹ پر آنے والے اسسٹنٹ کمشنر کی تقرری سزا بن گئی، اسسٹنٹ کمشنر کا 10 ماہ میں 10 بار تبادلہ کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے اسسٹنٹ کمشنر امتیاز منگی کو فٹبال بنا دیا گیا، گزشتہ 10 ماہ میں امتیاز منگی کا 10 بار تبادلہ کیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کو موصول شدہ دستاویز کے مطابق امتیاز منگی کے تبادلوں کا سلسلہ 21 فروری 2020 سے شروع ہوا، اس کے بعد 11 مارچ، 20 مارچ، 9 جون، 18 جولائی، 5 اگست، 11 اگست، 20 اکتوبر اور آخری تبادلہ یکم جنوری 2021 کو کیا گیا۔

    متواتر تبادلوں سے تنگ اسسٹنٹ کمشنر نے چیف سیکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ کو ایک خط لکھا ہے اور درخواست کی ہے کہ ان کی عمر اور صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سکون سے اپنی ملازمت کرنے دی جائے۔

    ذرائع کے مطابق امتیاز منگی کا شمار قابل افسران میں ہوتا ہے اور وہ بغیر سفارش کے صرف میرٹ کی بنیاد پر اس عہدے تک پہنچے ہیں۔ ان کا تعلق لاڑکانہ کے ایک غریب خاندان سے ہے۔

  • سندھ پولیس اور صوبائی حکومت کے درمیان اختیارات کا تنازع

    سندھ پولیس اور صوبائی حکومت کے درمیان اختیارات کا تنازع

    کراچی: آئی جی سندھ کلیم امام نے افسران کو صوبہ بدر کرنے پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں نے پولیس کے مورال اور آئی جی کی کمانڈ کو کمزور کیا۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ کلیم امام نے افسران کو صوبہ بدر کرنے پر چیف سیکریٹری کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ خادم حسین رند سندھ پولیس کے اہم معاملات دیکھ رہے تھے، رضوان احمد شکار پور میں ڈاکوؤں کے خلاف اہم کردار ادا کر رہے تھے۔

    آئی جی سندھ نے خط میں کہا کہ اچانک افسران کےغیرمتوقع تبادلے نےغیر یقینی صورت حال پیدا کی، ان فیصلوں نے پولیس کے مورال اور آئی جی کی کمانڈ کو کمزور کیا۔

    انہوں نے کہا کہ میں فورس کا سربراہ ہوں اور مجھے یہ فیصلے میڈیا سے پتہ چلے، بدقسمتی سے یہ جب ہوا تو افسران سنجیدگی، دیانت داری سے کام کر رہے تھے۔

    آئی جی سندھ نے خط میں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات سے بھی آگاہ کیا،عدالتی حکم کے مطابق آئی جی انفرادی طور پر تبادلے ،تقرری کا مجاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019 پولیس ایکٹ کے تحت بھی آئی جی تقرری، تبادلوں کا اختیار رکھتا ہے، درخواست ہے پولیس کو اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرنے دیا جائے۔

  • سابق آئی جی پنجاب کے تبادلے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

    سابق آئی جی پنجاب کے تبادلے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

    لاہور: سابق آئی جی پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی کے تبادلے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں سابق آئی جی پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی کے تبادلے کو چیلنج کردیا گیا۔

    درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ پولیس آرڈر 2002 میں آئی جی کی پوسٹنگ کا دورانیہ تین سال ہے۔ سابق آئی جی جاوید سلیمی کا چھ ماہ کے بعد تبادلہ کردیا گیا۔

    درخواست گزار کے مطابق موجودہ حکومت 8 ماہ کے عرصے میں تین آئی جی پنجاب تبدیل کر چکی ہے۔

    درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت ٹھوس وجوہات کے بغیر تین سال سے پہلے تبادلہ نہیں کیا جا سکتا۔

    درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ سابق آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کے تبادلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

    آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا

    یاد رہے کہ 15 اپریل کو آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو عہدے سے ہٹا کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    امجد سلیمی کو اکتوبر 2018 میں آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا تھا، اس سے قبل وہ آئی جی سندھ رہے۔ امجد سلیمی سے قبل آئی جی پنجاب طاہر نواز خان کو بھی تبدیل کیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی آٹھ ماہ کی حکومت میں یہ تیسرے آئی جی پنجاب کی تبدیلی کا واقعہ ہے۔

  • ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پرازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں آئی جی پنجاب پولیس، رضوان گوندل، احسن جمیل گجر، خاور مانیکا اور ان کی صاحبزادی سمیت دیگرافراد پیش ہوئے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام، سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل اور پی آر او نے بیان حلفی جمع کرا دیے ہیں۔

    آئی جی پنجاب نے عدالت میں کہا کہ افسران کوآئندہ بغیراجازت وزیراعلیٰ ہاؤس جانے سے روکا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے واقعے کے وقت ہی افسران کوکیوں نہیں روکا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ توکہتے ہیں 24 گھنٹے کام کرتے ہیں، ڈی پی او کے تبادلے کی فائل بھی دکھائیں۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ تبادلے کا زبانی حکم دیا گیا تھا جس پرچیف جسٹس نے استفسارکیا کہ رات ایک بجے کہاں سے تبادلے کا حکم دیا۔

    انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے حاکم کے حکم کی تعمیل کر دی، کیا آپ نے رضوان گوندل اورآرپی او سے ملاقات کا پوچھا؟۔

    آئی جی سید کلیم امام نے کہا کہ خاتون سے بد تمیزی پررضوان گوندل نے کوئی کارروائی نہیں کی، انہوں نے افسران سے واقعات سے متعلق معلومات چھپائیں، تبادلہ انتظامی فیصلہ تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تبادلہ رات ایک بجے زبانی کرنے کی کیا ضرورت تھی، بتائیں کس انکوائری کی روشنی میں تبادلے کا حکم دیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ تبادلےکا فائل ورک زبانی احکامات کے بعد ہوا، کرائم ڈائری دیکھ کربہت سے فیصلے رات کو کرتا ہوں۔

    سید کلیم امام نے کہا کہ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرکورات ایک بجے احکامات دیے تھے، بطورایس ایس پی اسلام آباد میرا تبادلہ رات 2 بجے ہوا تھا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ احسن جمیل گجرکے خلاف کیا کارروائی کی، آپ کون ہوتے ہیں پولیس کوحکم دینے والے جس پر احسن جمیل گجر نے جواب دیا کہ خاورمانیکا کے بچوں کا ان آفیشل گارڈین ہوں۔

    احسن جمیل گجر نے بتایا کہ میں نےکسی تبادلے کا نہیں کہا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب کوچیمبرمیں کہا تھا سچ بولیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشترکہ دوست کے ذریعے ڈی پی او کو یغام بھیجا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چھوٹا ساواقعہ تھا وزیراعلیٰ ملوث ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ایک اجلاس میں آئی جیزکوکہا تھا سیاست دانوں کی محتاجی چھوڑدیں، پولیس سیاسی دباؤاورحاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے۔

    آئی پنجاب نے کہا کہ ڈی پی اونے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کے واقعے کا نوٹس نہیں لیا، چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کرےتے ہوئے کہا کہ کیا بطورکمانڈرآپ نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زبانی ٹرانسفرکے احکامات کیوں دیےتھے؟ ہمیں فائل دکھائیں، آئی جی نے جواب دیا کہ میں خود کوعدالت کے رحم وکرم پرچھوڑتا ہوں۔

    سید کلیم امام نے کہا کہ میں نے تبادلہ پوسٹ ڈیٹڈ کرنا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پوسٹ ڈیٹڈ فائل ہی دکھا دیں، آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ ابھی فائل میرے پاس نہیں ہے۔

    احسن گجر نے کہا کہ بچے دباؤمیں تھے، افریقا میں مشترکہ دوست کوفون آیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ افریقا سے یاد آئی ایس آئی کے کرنل کدھرہیں؟۔

    چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ اتنا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ کرنل بھی درمیان میں آگئے۔

    چیف جسٹس نے احسن گجر سے استفسار کیا کہ آپ کا وزیراعلیٰ پنجاب سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک شہری ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں کھڑے ہوکرجھوٹ مت بولیں۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ جس کا دل چاہے پولیس کو بلا کرذلیل کردے، آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا؟ ہم ایف آئی آردرج کرائیں گے۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندان نے عدالت میں کہا کہ احسن گجرنے کہا تھا پیغام بھیجا تھا آپ نےعمل کیوں نہیں کیا؟ کہا انگریزدورمیں اس خاندان کی جائیدادیں ڈپٹی کمشنردیکھتا تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تیسرے آدمی کی بات کیوں سنی؟ آرپی او ساہیوال نے عدالت میں کہا کہ میں رضوان گوندل کے بیان کی تصدیق کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کیوں نہ وزیراعلیٰ پر62 ون ایف کا اطلاق کریں، وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے کہا میں نے اچھی نیت سے پولیس کوبلوایا۔

    پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاکستان قبائلی معاشرہ نہیں ہے۔

    عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ خاورمانیکا آپ حیات ہیں احسن گجرآپ کے بچوں کے کسٹوڈین کیسے؟ جس پر خاور مانیکا نے جواب دیا کہ احسن گجرفیملی کا ہمارے ساتھ 1970 سے روحانی تعلق ہے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری بیٹی سے پولیس نے بدتمیزی کی وہ کانپ رہی تھی، میری بیٹی نے مجھے کہا پولیس نے شراب پی رکھی ہے۔

    خاور مانیکا نے کہا کہ میں نے پولیس کوڈانٹا پولیس نے معافی مانگی، میرے پاؤں پکڑے گئے میں نے کہا آپ بابا فرید سے معافی مانگو۔

    انہوں نے عدالت میں کہا کہ بدتمیری کی گئی میری بیٹی کوبلوا کرپوچھ لیں، کمرہ عدالت میں خاور مانیکا آبدیدہ ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بچی کے والدین ہیں، بچی کے ساتھ جس اہلکارنے بدتمیزی کی ایکشن ہوگا، سمجھ سےبالاترہے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیوں مداخلت کی۔

    پی ایس او وزیراعلیٰ پنجاب حیدر نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل اورآر پی او کو وزیراعلیٰ نے چائے پر بلانے کا کہا، ڈی پی اوکے تبادلے کا صبح پتہ چلا۔

    ایڈیشنل آئی جی نے عدالت میں کہا کہ آئی جی سید کلیم امام کے کہنے پرڈی پی او کے ٹرانسفر پر دستخط کیے۔

    رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا کہ سی ایس او حیدر نے کہا وزیراعلیٰ نے کہا ڈی پی اوکی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سی ایس او حیدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایسا کہا؟ جس پرسی ایس او نے جواب دیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جےآئی ٹی سے تحقیقات کرا لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم وزیراعلیٰ کو62 ون ایف کے تحت نوٹس جاری کرتے ہیں، کیوں نہ وزیراعلیٰ پنجاب کوطلب کرکے پوچھا جائے۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ دائیں بائیں اوردرمیان سے جھوٹ بولاجا رہا ہے، آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا صرف ایک مقصد ہے پولیس خود مختارہو، وزیراعظم نے بھی اس طرح کی بات کی۔

    انہوں نے سوال کیا کہ احسن گجرکون ہے اس کا وزیراعلیٰ سے کیا تعلق ہے، وہ کیسے وزیراعلیٰ کے پاس پہنچ گیا، معاملے کی تحقیقات کرائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں قبائلی روایت نہیں جمہوریت ہے، انہوں نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیوں فون کرکے مداخلت کی؟۔

    کرنل طارق نے عدالت کو بتایا کہ میں اوررضوان گوندل اکٹھے ٹریننگ کرتے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کے حوالے سے ادارے سے تحقیقات کراؤں گا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگراختیار حاصل ہے توذاتی مداخلت والے آپ کون ہوتے ہیں، کرنل طارق نے کہا کہ رضوان گوندل سے کہا کسی ڈیرے پرجانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے معاملات میں ایک غیرمتعلقہ شخص نے مداخلت کی۔

    عدالت عظمیٰ نے آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام کو حکم دیا کہ ایک ہفتے میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کریں، ملزمان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

    سپریم کورٹ نے معاملے میں مداخلت کے پہلو پر انکوائری اور وزیراعلیٰ کے چیف سیکیورٹی افسر عمر کو احسن جمیل کی مداخلت کو دیکھنے کی ہدایت کردی۔

    عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ انکوائری میں رضوان گوندل اورآرپی او ساہیوال کے بیانات کو مدنظر رکھیں، وزیراعلیٰ کی مداخلت سمیت تمام پہلوؤں پررپورٹ پیش کی جائے۔

    بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔

    اس سے قبل آج سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر خاور مانیکا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے، عدالت میں ہی بات کروں گا، عدالت سے قبل میڈیا سے بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

    عدالت عظمیٰ میں گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا تھا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا تھا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے 30 اگست کو چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

  • سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    اسلام آباد :  سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت میں  چیف جسٹس نے خاور مانیکا اور جمیل گجر کو پیرکو طلب کرلیا اور کہا حاضرنہ ہوئے تو پھر اگلا لائحہ عمل دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی ، آرپی اوساہیوال اور رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے ۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اے ڈی خواجہ معاملے میں بھی ہم نے پولیس کوبا اختیار کیا، آپ خود سیاسی اثرکے نیچے جا رہے ہیں۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت میں کہا کہ میں نے واقعے کا پوچھا تورضوان گوندل نے درست بات نہ بتائی، میں نے دیگرذرائع سے اصل معاملہ پتہ کیا۔

    سید امام کلیم نے کہا کہ ایک خاتون کو روکا گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کتنے بجے روکا گیا جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ رات کوایک یا 2 بجے روکا گیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    آئی پنجاب پولیس نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے جوڈی پی اوکوبلایا انہیں نہیں بلانا چاہیے تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ڈی پی اوکووزیراعلٰی کے پاس جانے کی اجازت کیوں دی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نےکیا وزیراعلیٰ سے ڈی پی اوکوملنےسے روکا؟ خاتون پیدل چل رہی تھی پولیس نے پوچھا تواس میں کیاغلط ہے؟ آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا۔

    سابق ڈی پی اور پاکپتن رضوان گوندل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 23،24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آرپی او کو بتایا، مجھ سے متعلق وزیراعلیٰ نے آئی جی کوحکم دیا، حکم آیا کہ رضوان گوندل کوڈی پی اوکے طورپر نہیں دیکھنا تھا۔

    رضوان گوندل نے کہا کہ اتوارکی رات سی ایس اواور پی ایس او کی کال موصول ہوئی، مجھے بتایا گیا 9 بجے وزیراعلیٰ کے دفترآئیں۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن نے کہا کہ پی ایس اوصاحب نے بتایا وزیراعلیٰ نے آئی جی کو حکم دیا ہے، میں نے آرپی او سے بات کی، آرپی اونے کہا انکوائری مکمل نہیں ہوئی توایسا حکم نہیں آنا چاہیے تھا۔

    سپریم کورٹ نے خاورمانیکا اور جمیل گجرکو فوری طلب کرلیا، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ 3 بجے کراچی جانا ہے اس سے قبل پیش کیا جائے۔

    وفقے کے بعد سابق ڈی پی اوپاکپتن رضوان گوندل ازخود نوٹس کیس کی شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ احسن جمیل گجر کے گھر ایس ایچ او کھڑے ہیں، ایس ایچ او سے رابطہ نہیں ہورہا، خاور مانیکا نے کہا بیٹی کو اسکول سے پک کرنا ہے،3 بجے سے پہلے لاہورنہیں چھوڑسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آرپی اوساہیوال اوررضوان گوندل کل تک بیان حلفی جمع کرائیں اور احسن جمیل گجراوردیگر پیرکوعدالت میں حاضر ہو، احسن جمیل گجرکی حاضری کوآئی جی نےیقینی بنانا ہے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا 62 ون ایف پر فیصلوں کوایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پڑھ کرآئیں کہ اختیارات کے غلط استعمال پر عدالتی فیصلوں کا اسکوپ کتنا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا احسن جمیل گجرکو پیار سے لائیے گا، احسن جمیل گجر پیر کو حاضر نہ ہوئے تو پھر اگلالائحہ عمل دیں گے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی پنجاب، آرپی او ساہیوال اورمتعلقہ ڈی پی او کو کل ساڑھے نو بجے طلب کیا تھا اور ساتھ ہی پنجاب پولیس کے حکام سے انکوائری رپورٹ بھی طلب کی تھی۔

    اس سے قبل اپوزیشن پارٹیوں‌ نے الزام لگایا تھا کہ 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا، واقعے کے بعد آر پی او اور ڈی پی او پر مبینہ طور پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا۔

    حکومت پنجاب کا موقف تھا کہ آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، اس معاملے پر غفلت میں تبادلہ کیا گیا۔

    ماریہ محمودکوڈی پی اوپاکپتن تعینات

    دوسری جانب ماریہ محمود کو ڈی پی اوپاکپتن تعینات کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

    خاور مانیکا اور رضوان گوندل کے موقف

    واقعے کے بعد سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں غیرمتعلقہ شخص سوالات پوچھتا رہا، باربار کہا گیا ڈیرے پر جاکرمعافی مانگو۔

    خاور مانیکا فیملی نے بھی اپنا جواب ای میل کے ذریعے کمیٹی کو ارسال کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اہلکاروں نے خاور مانیکا اور بیٹی سے بدتمیزی کی تھی۔