بالی ووڈ کی معروف اداکارہ پرینیتی چوپڑا نے بالی ووڈ میں ’فیورٹزم‘ سے متعلق چونکا دینے والا تبصرہ کیا ہے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں پرینیتی چوپڑا سے انڈسٹری میں ’فیورٹزم ‘ کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انہوں نے فلم انڈسٹری میں کام کے کم مواقع ملنے پر کُھل کر بات کی۔
پرینیتی چوپڑا نے کہا کہ مجھے انڈسٹری میں کم کام ملنے کہ وجہ انڈسٹری میں فیورٹ ازم ہے، مجھے لگتا ہے کہ کچھ اداکاروں اور کچھ ہدایت کاروں تک رسائی کام کے مواقع ملنے کا باعث بنتی ہے اور میں یقینی طور پر یہی محسوس کرتی ہوں۔
اداکارہ نے کہا کہ میں نیپوٹیزم کی بات نہیں کر رہیں لیکن اگر میں ہر وقت کچھ مخصوص افراد کی نظروں میں نہ رہوں تو میں کام کے موقع سے ہاتھ دھو بیٹھوں گی، انڈسٹری میں کیمپ ہیں اور اگر کوئی ایسے کیمپوں کا حصہ نہیں ہے تو وہ کام کے مواقع سے محروم ہو سکتا ہے۔
انہوں نے اپنی بات وضاحت میں کہا کہ اگر دو لوگ ایک جیسے باصلاحیت کے مالک ہیں، جو ایک ہی چیز پیش کرسکتے ہیں، ان میں سے ایک پسندیدہ ہوگا اور دوسرا نہیں، تو جو پسندیدہ نہیں ہوگا وہ کام کا موقع کھو دے گا۔
اداکارہ پرینیتی نے مزید کہا کہ اگر میں وہ ہنر پیش کرنے کے قابل ہوں، اگر میں اتنی ہی رقم کمانے کے قابل ہوں تو مجھے بھی موقع ملنا چاہیے اور اسے اس لیے کسی کی صلاحیت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے کہ میرا کوئی رشتہ نہیں ہے یا میں آپ کے کیمپ کا حصہ نہیں ہوں۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ میرے پاس کوئی ایسا فرد نہیں جو میرے لیے کالز کر کے یہ کہے کہ پرینیتی کو اس فلم میں لے لو، میرے پاس صرف میرا ہنر ہے۔
واضح رہے کہ پرینیتی چوپڑا کو حال ہی میں ریلیز ہونے والی امتیاز علی کی فلم امر سنگھ چمکیلا میں ان کی اداکاری کے لیے زبردست پذیرائی ملی ہے۔
اس فلم میں پرینیتی نے دلجیت دوسانجھ کے مد مقابل امرجوت کور کا کردار ادا کیا تھا، فلم میں جہاں ان کی اداکاری کو سراہا گیا ہے وہیں انہیں کئی گانے گانے پر بھی داد ملی ہے۔
ہم نے بہت سوں کو پڑھا، اور بھول گئے، آگے بڑھ گئے، مگر منٹو کا معاملہ ایسا نہیں۔
ہم نے اُسے پڑھا، آگے بڑھے،اور تب ہم نے جانا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور جب تک ہمارے پیروں میں دم ہے، جب تک ہم چلتے جائیں گے، منٹو ہمارے ساتھ ساتھ چلے گا۔
اسی قوت کے سہارے منٹو آج 2019 میں ہمارے ساتھ ہے، گو وہ بہت سے، جو اس کے ساتھ چلے تھے، جو بڑے پرقوت تھے، جن کے ہاں بڑا تنوع تھا، پیچھے رہ گئے، مگرمنٹو ہمارے ساتھ ساتھ آگے بڑھا، اور وہ ہماری نئی نسل کے ساتھ بھی آگے بڑھے گا، مجھے یقین ہے۔
سید فرید حسین
اب وہ ٹرینڈ بن گیا ہے صاحب، پاکستانی اور بھارتی سنیما اس کی زیست کو زینت بنا چکے ہیں، اس کے کام کا انگریزی میں ترجمہ ہورہا ہے، یعنی وہ نسل، جو اردو سے نابلد ہے، وہ بھی کسی نہ کسی طرح منٹو سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ کتاب منٹو خزانہ، جس کا نام سینئر صحافی غلام محی الدین نے تجویز کیا، اور جس کے افسانوں کا انتخاب معروف ناشر اور سماجی کارکن، سید فرید حسین کے پرخلوص مطالعے اورلگن کی دین ہے، منٹو کے عشق کو مہمیز کرے گی۔ الاﺅ کچھ اور روشن ہوگا، کچھ اور روشنی بڑھے گا منٹوکو مزید پڑھا جائے گا۔ مزید چاہا جائے گا۔ یہ بیت چکا شخص مزید زیر بحث آئے گا۔
یہ کیسا کمال ہے کہ جو کچھ وہ سات عشرے پہلے لکھ گیا، وہ آج بھی متعلقہ ہے، آج بھی قابل مطالعہ ہے، آج بھی سانس لیتا ہے۔
رمضان اور محرم میں، پورے ماہ تک جاری رہنے والے انوکھے کتب میلوں کے روح رواں سید فرید حسین کے ادارہ فرید پبلشرز کی شایع کردہ یہ کتاب 398 صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت 600 روپے ہے، یہ ڈسٹ کور کے ساتھ، اچھے ڈھب پر شایع کی گئی ہے۔
اکرم کنجاہی کا کہنا ہے کہ ان کا خمیر چناب کی رومان پرور مٹی سے اٹھا ہے اوران کی شاعری ان کی اس بات کا پرتو نظر آتی ہے۔
حسن بذات ِخود ایک صداقت ہے اور صداقت بجائے خود ایک حسن ہے۔دونوں کے ملاپ سے عشق کا خمیر اٹھا ہے۔
دامنِ صد چاک کا ایک ایک لفظ، ایک ایک مصرع گواہ ہے کہ شاعر نے بے پناہ ریاض اور تخلیقِ فن کے معاملے میں بے حد ذمہ داری اور دیانت داری سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکرم کنجاہی کی ہر نظم اور ہر غزل ہمیں تکمیل کا احساس دلاتی ہے۔ یقینا فن میں تکمیل کا وجود ہوتا ہی نہیں، فن کائنات کی طرح مسلسل بدلنے کا نام ہے ۔
جذبات اور خلوص، محبت سبھی ہیں سرد
سورج پہ گھر بناوں گا اک روز جا کہ میں
چنانچہ تکمیل کے احساس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ جو کسی فن پارے کے مطالعے کے بعد ایک آسودگی اورطمانیت کا احساس ہوتا ہے، اکرم کنجاہی کی نظموں اور غزلوں کی بنیادی خوبی ہے، نہ کہیں اظہار و ابلاغ میں تشنگی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی زبان و بیان میں۔ ایسی نک سک سے درست شاعری کے معاملے میں یہ خدشہ اکثر درپیش ہوتا ہے کہ شاعر ہیت کے حسن و آرائش کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کے سبب سے موضوع کے ساتھ کماحقہ انصاف نہ کر پایا ہو گا، مگراکرم کنجاہی کی شاعری نے اس خدشے کی نفی کر ڈالی ہے۔ چنانچہ یہ وہ نظمیں اور غزلیں ہیں جو اندر باہر سے خوبصورت ہیں۔
اکرم کنجاہی
ان کا خارجی حسن ان کے داخلی حسن کی آسودگی بخش تفہیم کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے، اور ان کے داخلی حسن پر خارج کا لباس جچتا ہے، یوں اکرم کنجاہی کی شاعری نے موضوع اور ہیت کی تفریق کا جھگڑا ہی ختم کر دیا ہے، کیوں کہ اس شاعری میں سب کچھ یک جان ہے اوریہ شاعری ایک تخلیقی اکائی بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔
اکرم کنجاہی ان شاعروں میں سے نہیں ہے جن کا عمر بھر خود اپنے آپ سے ہی تعارف مکمل نہیں ہوتا۔ شاعری یقینا شاعر کی ذات کا اظہار ہوتی ہے، مگر شاعر جب تک اپنی ذات کی مکمل شناسائی حاصل نہیں کر پاتا، وہ ابلاغ کے معاملے میں مفلوج رہتا ہے، اور باقی زندگی اس مفلوج پن کے جواز ڈھونڈنے میں گذار دیتا ہے۔
اکرم کنجاہی نے سب سے پہلے اپنی ذات کو جانچا، پرکھا اور برتا ہے۔ پھر جب اسے اپنی پہچان کی روشنی میسر آئی ہے ،تو اس نے اس روشنی میں زندگی کو جانچا،پرکھا اور برتا ہے اور یوں سنیاس اختیار کرنے کی بجائے زندگی اور اس کے مسائل اور ان مسائل کے مضمرات اور اسرار تک رسائی حاصل کی ہے۔ شاید یہی عجب ہے کہ وہ اجالے کا، زندگی کا، زندگی کے اثبات کا، انسان کے ارتقا کا شاعر ہے۔
میں نے اکرم کنجاہی کو اس لئے اثبات کا شاعر کہا ہے کہ اثبات کی شاعری یقین و اعتماد کے بغیر مشکل، بلکہ نا ممکن ہے، یقین انسان کی قوتِ خیر و عدل کی آخری فتح پر اور اعتماد اس حقیقت پر کہ انسان کا مقدر آخر کار امن، محبت اور روحانی و مادی آسودگی ہے۔ اکرم کنجاہی کے ہاں یقین و اعتماد کی اس توانائی کی افراط ہے۔
ادب کے بعض عناصر کو یہ ضد ہوتی ہے کہ کسی شاعر کے فن کو کسی قسم کے سیاسی اور سماجی تناظر میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگر ہم سیاسی اور سماجی تناظر کو نظرانداز کر کے کسی شاعر کا جائزہ لیں گے، تو یوں سمجھیں کہ ہم اس زندگی اور اس ماحول کو نظر انداز کر رہے ہیں، جو شاعر کے کلام سے منعکس ہوا ہے اور اسے منعکس ہونا چاہیے کہ شاعر کے دل و دماغ اگر حساس نہیں ہوں گے تو وہ شعر ہی کیوں کہے گا،ایسا ہمارا ماننا ہے۔
سیاست اور معاشرت کا تناظر کسی فن پارے کو داغ دار نہیں بناتا، بلکہ اسے روشن کرتا ہے اور اکرم کنجاہی کے کلام کو سیاسی اور سماجی تناظر میں رکھ کر دیکھے بغیر ہم ان کے حسنِ کلام سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتے ،اس لئے کہ یہ وہ شاعر ہے ،جس نے اپنی ذات کے آئینے میں پوری طرح زندگی کا مشاہدہ کیا ہے اور اگر اس زندگی میں سے سیاست اور معاشرت کو خارج کر دیا جائے تو تہذیب اور کلچر کے چہرے بھی اجنبی اجنبی سے معلوم ہونے لگتے ہیں،
اب تو یہ خوہشات کا ساماں اٹھا کے پھینک
اب بوجھ اپنی ذات پہ اپنا ہوا وجود
اکرم کنجاہی مزاجاََ ایک نرم گفتار شاعر ہیں، مگر اس نرمی میں متاثر کرنے کی جو قوت ہے ، وہ انہیں کتنے ہی بلند بانگ شاعروں سے اونچا کر دیتی ہے،یہ نرمی صرف ان شاعروں کے ہاں ہوتی ہے ،جو اپنی ذات کے علاوہ گردو پیش کے حالات و مسائل کو پوری طرح سمجھ چکے ہوتے ہیں، ایسے شاعر کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کہنا ہے ، کس زاویے سے کہنا ہے اور کس لہجے میں کہنا ہے، یہی وجہ ہے کہ زندگی کی نئی معنویتوں کا ادراک رکھنے کے باوجود اور جدید ہیت کا ایک بلیغ ترجمان ہونے کے باوجود اکرم کنجاہی اظہار کے معاملے میں اتنا سادہ ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سامنے کی بات کہہ دی ہو ، مگر ذرا سا رکیے، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادگی کتنی تہہ دار ہے اور اس سنجیدگی میں کتنی شوخی ہے۔پھر الفاظ کے اندرونی اور بیرونی آہنگ کا رمز شناس ہونے کی وجہ سے اکرم کنجاہی شعر کی صورت میں دل و دماغ پر وار کرتا ہے، جو بڑا کٹیلا ہوتا ہے اور یہی کٹیلا پن ان کے لہجے کی پہچان اور انفرادیت ہے۔
محمد جمیل اختر سے پہلا تعارف ان کی ایک مختصر کہانی سے ہوا۔ کہانی، جسے ایک فکشن نگار نے اپنی فیس بک وال پر شیئر کیا تھا۔ وہ کہانی مصنف سے باقاعدہ دوستی کا آغاز ہوا تھا۔ میں نے مصنف کو ایک کم گو اور نفیس انسان پایا، کم الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے والا وہ ایک پیدائشی آرٹسٹ۔
آرٹسٹ کا خدا سے، خدا کی بنائی ہر شے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ محمد جمیل اختر کی کتاب ٹوٹی ہوئی سڑک، جو ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کی پہلی کتاب ہے، ہاتھ میں آنے اور اسے آخر تک پڑھ لینے کے دوران یہ احساس بار بار ہوتا رہا کہ مصنف کا قدرت سے، اس کی بنائی ہر شے سے اور ارد گرد موجود ہر انسان سے کتنا گہرا تعلق ہے۔
[bs-quote quote=”جمیل اختر کے کردار درختوں، پرندوں اور ہواؤں سے باتیں کرتے ہیں۔ خوف اور خاموشی سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ ” style=”style-2″ align=”left” author_name=”آمنہ احسن” author_job=”تبصرہ نگار”][/bs-quote]
مصنف کو کمال حاصل ہے کہ ٹرین کے ٹکٹ چیکر کی کہانی لکھتے لکھتے ایسا سماں باندھ دیتا ہے کہ آپ خود کو اس ٹرین میں بیٹھا ایک مسافر سمجھنے لگتے ہیں۔
جمیل کے لکھے افسانے ہمارے تعفن زدہ معاشرے میں پھیلے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان افسانوں کو پڑھتے پڑھتے افسانے کے کرداروں پر رحم آتا ہے، کبھی ان کی بے بسی پر رونا آتا ہے، کبھی کبھی غصہ آنے لگتا ہے۔
کبھی یوں لگتا، جمیل نے صرف افسردہ اور اداس لوگوں کے بارے میں ہی لکھا ہے، لیکن اپنے ارد گرد جب جمیل کے تراشے کرداروں سے مشابہ انسان چلتے پھرتے نظر اتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی اساس میں سچ لکھا ہے۔ ہر طرف اداسی ہے۔
ابھی ان کے افسانوں کا سحر اترا نہیں ہوتا کہ دوسرے حصے میں موجود مختصر کہانیوں کی باری آجاتی ہے۔ جمیل کم سے کم الفاظ میں بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ کوئی پیغام دینا ہو، کسی اہم مسئلے پر توجہ دلانی ہو یا کوئی درد ناک خبر سنانی ہو، مصنف سب کچھ چند الفاظ میں کہہ سکتا ہے ۔
یہ کتاب مختصر افسانوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے اور دو گھنٹوں کی مستقل توجہ سے ایک ہی نشست میں مکمل پڑھی جاسکتی ہے۔ اور یہی شاید اس کتاب میں پائی جانے والی واحد خامی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر تشنگی رہ جاتی ہے۔ خیال آتا ہے ایک آدھ افسانہ اور ہوتا۔ چند کہانیاں مزید ہوتیں، تو اچھا ہوتا۔
پاکستان ادب پبلشر کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کے صفحات 120 ہیں۔ کتاب کی قیمت 300 روپے ہے، اسے ڈسٹ کور کے ساتھ اچھا گیٹ اپ کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔