Tag: تجربہ

  • عمران عباس کا بھارتیوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟

    عمران عباس کا بھارتیوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟

    اداکار عمران عباس کا کہنا ہے کہ سیاسی تناؤ کے باجود پاکستان اور بھارت کے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔

    بالی وڈ کی متعدد فلموں میں کام کرنے والے پاکستان کے معروف اداکار عمران عباس نے ایک پوڈ کاسٹ میں بھارتیوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ شیئر کیا ہے۔

    اداکار نے کہا کہ’ مجھے ممبئی بہت پسند ہے میرا اکثر بھارت آنا جانا رہتا ہے، وہاں میرے بہت سے دوست بھارت سے ہیں جس میں سنجے لیلیٰ بھنسالی سب سے قریبی ہیں، مونا کپور میری منہ بولی بہن ہے‘۔

    انہوں نے کہا کہ میرے بہت سے قریبی دوست بھارتی ہیں تو میں وہاں اپنے گھر جیسا ہی محسوس کرتا ہوں، وہاں بہت گرمجوشی اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Niche Lifestyle (@nichelifestyle)

    اداکار کا کہنا تھا کہ لاکھ اختلاف ہو، لیکن دونوں ممالک میں بہت سی چیزیں ایک جیسی ہی ہیں، ہمارے والدین بھارت سے ہجرت کرکے آئے، یہاں سے بہت سے وہاں گئے، ہمارے جینز ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اس رشتے کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔

    عمران عباس نے دہلی ائیرپورٹ کی پسندیدگی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بہت سے ائیرپورٹس دہلی ائیرپورٹ سے اچھے ہیں تاہم دہلی ائیرپورٹ کا انفرا اسٹرکچر بہت عمدہ ہے۔

    عمران عباس کا امیشا پٹیل کیلیے خصوصی پیغام وائرل

    خیال رہے کہ عامر عباس نے اب تک 8 سے زائد فلموں میں کام کیا ہے، جن میں سے 3 فلمیں بولی وڈ کی ہیں۔

    عمران عباس نے اگرچہ کیریئر کا آغاز پاکستانی ڈراموں سے کیا اور انہوں نے متعدد ڈراموں میں بہترین اداکاری کی، جس کے بعد 2013 میں انہوں نے فلم ‘انجمن’ سے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔

    عمران عباس کی پہلی بولی ووڈ فلم 2014 میں ‘کریئیچر تھری ڈی’ ریلیز ہوئی، جس میں انہوں نے بپاشا باسو کے ساتھ کام کیا۔

    عمران عباس کی دوسری بولی وڈ فلم ‘اے دل ہے مشکل’ تھی، جس میں ان کے ساتھ پاکستانی اداکار فواد خان، رنبیر کپور، انوشکا شرما اور ایشوریا رائے جیسی اداکارائیں شامل تھیں، ان کی تیسری بولی وڈ فلم ‘جانثار’ 2015 میں ریلیز ہوئی۔

  • شمالی کوریا کا ’بین البراعظمی‘ بیلسٹک میزائل کا تجربہ، جنوبی کوریا اور امریکا کی مذمت

    شمالی کوریا کا ’بین البراعظمی‘ بیلسٹک میزائل کا تجربہ، جنوبی کوریا اور امریکا کی مذمت

    شمالی کوریا نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے، جبکہ امریکا اور جنوبی کوریا نے اس تجربے کی مذمت کی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے یہ میزائل امریکہ میں کہیں بھی کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ ٹھوس ایندھن والا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل Hwasong-18 جوابی حملے کی صلاحیت کو مزید بہتر بنائے گا۔

    امریکا کو جواب، شمالی کوریا نے میزائل فائر کردیے

    رپورٹ کے مطابق میزائل ایک گھنٹے سے زائد وقت میں ایک ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے جاپان کے سمندر میں گرا ہے۔

    دوسری جانب  جنوبی کوریا اور امریکا نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کے اس اقدام سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔

     جنوبی کوریا اور امریکا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے میزائل تجربے سے ثابت ہوگیا کہ شمالی کوریا کی حکومت کی ترجیح عوام کی بھلائی نہیں بلکہ ہتھیاروں میں اضافہ ہے۔

  • گرمی کی شدت میں اضافہ، سعودی عرب میں سڑکوں کو ٹھنڈا رکھنے کا منصوبہ

    گرمی کی شدت میں اضافہ، سعودی عرب میں سڑکوں کو ٹھنڈا رکھنے کا منصوبہ

    ریاض: موسم گرما شروع ہوچکا ہے اور صحرائی اور گرم علاقوں میں جلد ہی گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگا، سعودی عرب میں گرمی کی شدت میں کمی کے لیے ٹھنڈی سڑکوں پر تحقیق اور تجربات کیے جارہے ہیں۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب میں سڑکوں کے لیے جنرل اتھارٹی نے وزارت بلدیات، دیہی امور اور ہاؤسنگ کے اشتراک سے کولنگ اسفالٹ سرفیسز پر تحقیقی مطالعہ کے ساتھ تجربہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

    اس تجربے کی وجوہات یہ ہیں کہ سڑکیں دن کے وقت درجہ حرارت کو جذب کرتی ہیں کیونکہ سڑکیں بعض اوقات 70 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جاتی ہیں۔

    سائنسی طور پر سڑکیں پر اس گرمی کو رات کے وقت دوبارہ چھوڑتی ہیں جو ایک سائنسی رجحان کا باعث بنتی ہے جسے ہیٹ آئی لینڈ فنومنا کہا جاتا ہے، یہ صورتحال توانائی کی کھپت اور فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

    گرم زمین کے اس رجحان کو حل کرنے کی ضرورت اس وقت پیدا ہوئی جب ایک تجربے کا استعمال شروع کیا گیا جسے ٹھنڈے فرش کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    کئی گھریلو مواد ہیں جو کم مقدار میں شمسی تابکاری کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، گرمی جذب نہ کرنے کی وجہ اس مواد میں موجود شعاعوں کو منعکس کرنے کی صلاحیت ہے۔

    اس طرح ایسے مواد سے بنائی گئی سطح کا درجہ حرارت روایتی فرش کے درجہ حرارت سے کم رہا، ماہرین کے مطابق یہ مواد رہائشی علاقوں کے آس پاس کی سڑکوں کے لیے موزوں ہے۔

    اس تجربے کا مقصد محلوں اور رہائشی علاقوں میں درجہ حرارت کو کم کرنا، عمارتوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کا استعمال کم کرنا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنا ہے۔

    یہ ٹیکنالوجی انتظار گاہوں اور لوگوں کے رش والے مقامات کو زیادہ آرام دہ بنانے اور ان مقامات پر بہتر ماحول فراہم کرنے میں معاون ہے۔

    خیال رہے کہ پبلک روڈز اتھارٹی ایسی ریسرچ اور عملی تجربات تیار کرنے پر کام کر رہی ہے جن سے سڑک استعمال کرنے والوں کے تجربے کو بہتر بنایا جا سکے۔

    یہ تجربات سڑک کے شعبے کی حکمت عملی کے مقاصد کو حاصل کرنے میں معاون ہیں، پبلک روڈز اتھارٹی کے سڑک کی پائیداری بڑھانے کے تجربات بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

  • سعودی عرب: ملازمت کے لیے تجربے کی شرط ختم کرنے کی تجویز

    سعودی عرب: ملازمت کے لیے تجربے کی شرط ختم کرنے کی تجویز

    ریاض: سعودی عرب میں ارکان شوریٰ نے مطالبہ کیا ہے کہ ملازمت کے لیے سعودی شہریوں پر تجربے کی شرط ختم کی جائے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی ارکان شوریٰ نے منگل کو وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود کی سالانہ مالیاتی رپورٹ برائے 2021 پر بحث کی۔

    ارکان شوریٰ نے رپورٹ پر متعدد حوالوں سے بحث کی، رکن شوریٰ فیصل طمیحی نے مطالبہ کیا کہ پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیاں اور ادارے ملازمت کے متلاشی مقامی شہریوں سے تجربہ سرٹیفکیٹ طلب نہ کریں۔

    ایک خاتون رکن شوریٰ سلطانہ البدیوی نے مطالبہ کیا کہ مکان اسکیم کے تحت مطلقہ کے ساتھ نرمی برتی جائے اور مکان سے متعلق مطلقہ کی درخواست پر عائد شرائط ختم کی جائیں۔

    انہوں نے کہا کہ اسے مکان فراہم کرنے کے لیے اپنی اولاد کو ساتھ رکھنے کی شرط ہٹا دی جائے، اسے آزاد اور خود مختار شخصیت کے طور پر لیا جائے اور اسی بنیاد پر اسے رہائش کی سہولت دی جائے۔

    ایک اور خاتون رکن شوریٰ عائشہ ذکری نے توجہ دلائی کہ سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹرز کے تمام ملازمین کو خاص شرائط اور ضوابط کے ساتھ جز وقتی ملازمت کی اجازت دی جائے، انہیں آن لائن ملازمت کا موقع فراہم کیا جائے اور اس سلسلے میں نئے قانون بنائے جائیں۔

  • مرتے ہوئے شخص کو دکھائی دینے والے مناظر کی حقیقت کیا ہے؟

    مرتے ہوئے شخص کو دکھائی دینے والے مناظر کی حقیقت کیا ہے؟

    کچھ خوش قسمت افراد جو موت کے منہ سے واپس زندگی کی طرف پلٹ آتے ہیں کچھ عجیب و غریب مناظر کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے زندگی اور موت کی سرحد پر دیکھے ہوتے ہیں، سائنس ان مناظر کی حقیقت جاننے کی کھوج میں ہے۔

    آنکھوں کے سامنے سے لمحوں میں پوری زندگی کا گزرنا، کسی تاریک سرنگ کے دہانے پر روشنی اور دیگر چیزیں جن کے بارے میں اکثر موت کے منہ سے نکل کر زندگی کی جانب لوٹنے والے افراد بات کرتے ہیں۔

    اس حوالے سے سائنس کچھ واضح طور پر کہنے سے قاصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ سائنس دانوں نے اس حوالے سے پہلی بار ایک باقاعدہ نظر ثانی شدہ تحقیق کے نتائج جاری کیے ہیں۔

    اس تحقیق کا بنیادی مقصد موت پر تحقیق کے اصولوں کو وضع کرنا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ دیگرچیزوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

    امریکا کی نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ اور دیگر اداروں کی اس تحقیق میں کہا گیا کہ 21 ویں صدی میں موت کی تعریف وہ نہیں جو ایک سو سال پہلے تھی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ طویل عرصے تک سانس نہ لینے اور نبض تھم جانے کو موت کی بنیادی نشانی قرار دیا جاتا رہا مگر پھر طبی طریقے بہتر ہوئے تو ڈوب جانے والے افراد جن میں آکسیجن کی کمی اور نبض ختم ہوجاتی ہے، وہ اچھی قسمت اور طبی امداد کی مدد سے کئی گھنٹے بعد سانس لینے لگتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کارڈیک اریسٹ (دل کی دھڑکن رک جانا) ہارٹ اٹیک نہیں بلکہ یہ ایک بیماری یا واقعے (کسی فرد کی موت) کے آخری مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سی پی آر ٹیکنالوجی یا طریقے بہتر ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ موت ایک حتمی کیفیت نہیں بلکہ کچھ افراد میں اس کو ممکنہ طور پر ریورس بھی کیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ جسمانی اور ذہنی افعال موت کے وقت رک نہیں جاتے بلکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ موت کے وقت دل کے تھم جانے سے دماغی خلیات کو ناقابل تلافی نقصان نہیں پہچنتا بلکہ ان کے مرنے میں کئی گھنٹے یا دن لگ سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ تحقیقی رپورٹس میں موت کے منہ سے واپس آنے والے افراد کے تجربات کو ثابت نہیں کیا جاسکا مگر ان کو مسترد بھی نہیں کیا گیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ بہت کم رپورٹس میں اس بات کی کھوج کی گئی کہ جب ہم مرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے، مگر ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انسانوں کا شعور برقرار رہتا ہے اور مزید تحقیق کا راستہ کھلتا ہے۔

    اسی طرح جسم سے روح کے الگ ہونے، کسی منزل کی جانب سفر، زندگی کا بامقصد ریویو یا کسی ایسے مقام پر پہنچ جانا جو گھر جیسا لگے یا زندگی کی جانب لوٹ آنا کوئی واہمہ نہیں بلکہ کچھ اور یا حقیقت ہے۔

  • جھوٹ پکڑنے کا ایک اور طریقہ سامنے آگیا

    جھوٹ پکڑنے کا ایک اور طریقہ سامنے آگیا

    سماجی رویوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جھوٹ بولتے ہوئے اکثر لوگ دھیما بولتے ہیں، جملے کے درمیان میں ادا کردہ الفاظ پر زور کم دیتے ہیں اور یوں ان کی آواز بھی جھوٹ کی چغلی کرتی دکھائی دیتی ہے۔

    فرانس کی سوربون یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک دلچسپ تجربہ کیا ہے جس میں صرف آواز کی شدت اور جھوٹ کے درمیان تعلق واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس تحقیق کے لیے فرانسیسی قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق (سی این آر ایس) نے بھی کلیدی کردار کیا۔

    تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ آواز کی پچ، بولنے کی شرح اور شدت بھی بتا سکتی ہے کہ بولنے والا جھوٹ بول رہا ہے یا سچائی سے کام لے رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کی آواز میں غنایت (میلوڈی) اس کے سچ بولنے کی معلومات دے سکتی ہے۔ ایسا یوں ہوتا ہے کہ دماغ زبان کا ساتھ نہیں دے پاتا اور آواز دھیمی ہوتی جاتی ہے اور یوں الفاظ پر زور بھی کم ہوجاتا ہے کیونکہ بولنے والا جانتا ہے کہ وہ غلط بیانی کررہا ہے۔

    اس کیفیت کو پروسوڈی بھی کہا جاتا ہے جس میں الفاظ اور جملوں کے بجائے آواز کے زیر و بم کو دیکھا جاتا ہے۔

    اس کیفیت کو دیکھا جائے تو کم از کم انگریزی، ہسپانوی اور فرانسیسی زبانوں پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے یعنی تینوں زبانوں میں جھوٹ بولنے والے یکساں انداز سے بات کرتے ہیں۔ یہ کیفیت دماغ میں پروگرام ہوتی ہے اور اس سے الگ ہو کر کچھ کرنے کے لیے دماغ کو بہت تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے مستقل دروغ گو بننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

  • جرمنی میں 2 ہزار افراد پر مشتمل میوزک کنسرٹ کیوں منعقد کیا گیا؟

    جرمنی میں 2 ہزار افراد پر مشتمل میوزک کنسرٹ کیوں منعقد کیا گیا؟

    برلن: کرونا وائرس کی صورتحال بہتر ہونے کے ساتھ دنیا بھر میں عائد لاک ڈاؤن میں نرمی لائی جارہی ہے اور رفتہ رفتہ معمولات زندگی بحال ہورہے ہیں، تاہم ہزاروں کے عوامی اجتماعات اب بھی خطرہ ہیں۔ ماہرین نے اسی حوالے سے ایک منفرد تجربہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جرمن شہر لائپزگ میں ہالے یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ہفتے کے روز ایک خصوصی میوزیکل کنسرٹ کے دوران اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ ہجوم والے عوامی مقامات میں کرونا وائرس انفیکشن پھیلنے کا خطرہ کتنی حد تک بڑھ سکتا ہے۔

    اس کنسرٹ میں کانٹیکٹ ٹریسنگ آلات سے لیس 2 ہزار شرکا نے سینسرز کی نگرانی میں شرکت کی۔ یہ مشاہدہ ایسے وقت میں کیا گیا جب جرمنی میں کم از کم نومبر تک بڑی عوامی تقریبات پر پابندی عائد ہے۔

    مشہور جرمن گلوکار ٹم بینڈزکو نے ایک دن میں 3 الگ الگ کنسرٹس میں رضا کارانہ طور پر پرفارم کیا، تاکہ ایسے اجتماعات کی صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔

    اس تجرباتی کنسرٹ میں 2 ہزار افراد موجود تھے جو زیادہ تر نوجوان، صحت مند اور کسی بھی خطرے کا شکار نہیں تھے۔ تمام شرکا کو کنسرٹ میں شمولیت سے قبل اپنے کوویڈ 19 ٹیسٹ کا منفی نتیجہ فراہم کرنا تھا۔

    ہال میں پہنچنے پر ان کا درجہ حرارت بھی نوٹ کیا گیا، ماہرین مذکورہ تجربے سے حاصل ہونے والے نتائج کی جانچ کر رہے ہیں اور اس حوالے سے جلد حتمی نتیجہ مرتب کیا جائے گا۔

  • بڑی پیش رفت، آکسفورڈ یونیورسٹی میں کروناویکسین تیار، انسانوں پر تجربہ

    بڑی پیش رفت، آکسفورڈ یونیورسٹی میں کروناویکسین تیار، انسانوں پر تجربہ

    لندن: عالمگیر وبا کروناوائرس کے خلاف بڑی پیش رفت سامنے آگئی، آکسفورڈ یونیورسٹی نے کروناویکسین تیار کرلی جس کی رواں ہفتے انسانوں پر آزمائش کی جائے گی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت کے تعاون سے یونیورسٹی نے ویکسین تیار کی اور اب دیگر تجرباتی مراحل میں بھی وزارت صحت کا مکمل ساتھ حاصل ہے۔

    برطانوی وزیرصحت میٹ ہینکوک نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ برطانیہ میں دنیا کی پہلی کرونا ویکسین کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے سب کچھ قربان کررہے ہیں، ویکسین کی انسانوں پر ٹرائل کے لیے حکومت سائنس دانوں کو مزید 20 ملین پاؤنڈ دے گی جبکہ منصوبے کے دیگر مراحل کی تکمیل کے لیے 22.5 ملین پاؤنڈ فراہم کرے گی۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے قریب

    ’’ChAdOx1 nCoV-19‘‘ نامی کروناویکسین کو 510 رضاکاروں پر آزمایہ جائے گا، ٹرائل کے پہلے مرحلے میں 112 افراد پر مشتمل گروہ تشکیل دیا گیا جس میں 18 سے 55 عمر کے شہری شامل ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ویکسین کی کامیابی کی صورت میں یہ دنیا میں پہلی برطانوی ساختہ ویکسین ہوگی جس سے متعلق پوری دنیا نے امیدیں باندھ رکھی ہیں، مذکورہ ویکسین دنیا کو لاک ڈاؤن سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں برطانیہ کا نام بھی شامل ہے، جہاں مہلک وائرس سے اب تک 17 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ملک میں مریضوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔

  • شمالی کوریا کا 2 بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ

    شمالی کوریا کا 2 بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ

    پیانگ یانگ: شمالی کوریا نے اپنی مضبوط دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے دو بیلسٹک میزائل فائر کیے گئے ہیں۔

    بیلسٹک میزائل ساؤتھ ہیمیونگ صوبے کے مشرقی شہر ہیم ہنگ سے داغے گئے تھے اور یہ جزیرہ نما کوریا کے مشرق میں بحرجاپان میں جا گرے۔

    جنوبی کوریا کے مطابق جمعے کو دو میزائل داغے گئے اور ان میزائلوں نے 400 کلو میٹر کا فاصلہ تقریباََ 48 کلو میٹر کی بلندی پر طے کیا اور اس دوران کی زیادہ سے زیادہ رفتار آواز کی رفتار سے 6 اعشاریہ 1 گناہ زیادہ تھی۔

    شمالی کوریا کی جانب سے میزائلوں کا تجربہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کم جونگ اُن کی جانب سے ایک بہت شاندار خط موصول ہوا ہے۔

    شمالی کوریا کا مزید 2 میزائلوں کا تجربہ

    یاد رہے کہ رواں ہفتے 6 اگست کو جنوبی کوریا کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کی جانب سے دو میزائل جنوبی صوبہ ہانگ ہائے سے مشرق کی جانب سے سمندر میں داغا گئے۔

  • چین میں شمسی توانائی سے اڑنے والے بغیر پائلٹ طیارے کا کامیاب تجربہ

    چین میں شمسی توانائی سے اڑنے والے بغیر پائلٹ طیارے کا کامیاب تجربہ

    بیجنگ : کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ شمسی توانائی سے اڑنے والا ڈرون طیارہ آٹھ ہزار میٹر بلندی پر 12 گھنٹے تک رات میں پرواز کرسکتاہے۔

    تفصیلات کے مطابق چین نے سورج کی روشنی سے اڑنے والے بغیر پائلٹ کے ایک اور طیارے موزی ٹو کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔شمسی توانائی سے اڑنے والے طیارے کو قدرتی آفات، مواصلات اور جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ چین کی ہوائی جہاز بنانےوالی کمپنی نے بغیرپائلٹ طیارے کا تجربہ ڈی ڑنگ کاؤنٹی ایئرپورٹ پر کیا۔

    کمپنی کا کہنا تھا کہ مذکورہ طیارہ 8 ہزار میٹر تک بلندی پر 12 گھنٹے تک رات میں پرواز کرسکتاہے، جس کےلیے اسے صرف 8گھنٹے تک چارج کرنا ہوتا ہے۔

    کمپنی کے ایم ڈی کاکہناتھا شمسی توانائی سے اڑنے والے طیارے کو قدرتی آفات، مواصلات اور جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔