Tag: تحریکِ پاکستان

  • تحریکِ پاکستان کے راہ نما، شاعر اور ادیب سیّد غلام بھیک نیرنگ کا یومِ وفات

    تحریکِ پاکستان کے راہ نما، شاعر اور ادیب سیّد غلام بھیک نیرنگ کا یومِ وفات

    میر غلام بھیک نیرنگ تحریکِ پاکستان کے راہ نما، سیاست داں، ادیب اور شاعر بھی تھے۔ وہ 16 اکتوبر 1952ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    میر غلام بھیک نیرنگ 26 ستمبر 1876ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تحصیلِ‌ علم کے بعد انھوں نے تحریکِ خلافت، تحریک موالات اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں‌ متحرک و فعال کردار ادا کیا۔ ان کے دل میں مذہب و ملت سے محبت کی شمع بھی روشن تھی۔

    بی اے کے بعد نیرنگ نے وکالت کا امتحان پاس کیا اور انبالہ میں پریکٹس شروع کی۔ وہ سرکاری وکیل بھی رہے، مگر بعد میں ملازمت چھوڑ دی۔ وہ 1936ء میں مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن بنے۔

    اردو ادب میں‌ انھیں‌ ایک شاعر اور ادیب کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ علامہ اقبال سے ان کی گہری دوستی تھی۔ ایک زمانے میں جب اقبال کے کلام پر اعتراضات ہوئے تو نیرنگ نے ”انبالوی“ کے قلمی نام سے ”مخزن“ اور دوسرے رسالوں میں ان اعتراضات کا جواب لکھا۔

    نیرنگ کے کلام سے منتخب کی گئی ایک غزل پیشِ خدمت ہے

    غزل
    کس طرح واقف ہوں حالِ عاشقِ جاں باز سے
    ان کو فرصت ہی نہیں ہے کاروبارِ ناز سے
    میرے درد دل سے گویا آشنا ہیں چوب و تار
    اپنے نالے سن رہا ہوں پردہ ہائے ساز سے
    ذرہ ذرہ ہے یہاں اک کتبۂ سر الست
    آپ ہی واقف نہیں ہیں رسمِ خطِ راز سے
    دل گئے، ایماں گئے، عقلیں گئیں، جانیں گئیں
    تم نے کیا کیا کر دکھایا اک نگاہِ ناز سے
    آہ! کل تک وہ نوازش! آج اتنی بے رخی
    کچھ تو نسبت چاہیے انجام کو آغاز سے

  • بابائے اردو صحافت مولانا ظفرعلی خان کو گزرے 62 برس بیت گئے

    بابائے اردو صحافت مولانا ظفرعلی خان کو گزرے 62 برس بیت گئے

    تحریکِ پاکستان کے سرکردہ رہنما مولانا ظفر علی خان کو گزرے آج 62 برس بیت گئے ہیں۔ آپ کے خاندان کا تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ہے، آپ کو بابائے اردو صحافت بھی کہا جاتا ہے۔

    مولانا ظفر علی خان19 جنوری، 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مشن ہائی اسکول وزیر آباد سے مکمل کی اور گریجویشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کی۔

    کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ آپ نے اپنی ادارت میں اخبار ’دکن ریویو‘ جاری كيا اور بہت سی کتابیں تصنیف کرکے خود کو بطور ادیب و صحافی منوایا۔

    آپ سنہ 1908ء میں لاہور آئے اور روزنامہ زمیندار کی ادارت سنبھالی جسے ان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے 1903ء میں شروع کیا تھا۔ مولانا کو ’اردو صحافت کا امام‘ کہا جاتا ہے اور زمیندار ایک موقع پر پنجاب کا سب سے اہم اخبار بن گیا تھا۔ زمیندار ایک اردو اخبار تھا جو بطور خاص مسلمانوں کے لیے نکالا گیا تھا۔

    اس اخبار نے مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا باوجود اس حقیقت کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ صنعت تھی نہ تجارت جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ اخبار کو چلانا جان جوکھوں کا کام تھا۔

    مولانا ظفر علی خان غیر معمولی قابلیت کے حامل خطیب اور استثنائی معیار کے انشا پرداز تھے۔ صحافت کی شاندار قابلیت کے ساتھ ساتھ مولانا ظفر علی خان شاعری کے بے مثال تحفہ سے بھی مالا مال تھے۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ وہ اسلام کے سچے شیدائی، محب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اپنی نعت گوئی کے لیے مشہور و معروف ہیں۔ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں جبکہ ان کی مشہور کتابیں معرکہ مذہب و سائنس، غلبہ روم، سیر ظلمت اور جنگ روس و جاپان ہیں۔

    مولانا ظفر علی خان نے 27 نومبر، 1956ء کو وزیرآباد کے قریب اپنے آبائی شہر کرم آباد میں وفات پائی۔ ان کی نمازِ جنازہ محمد عبد الغفور ہزاروی نے ادا کی اور وہیں ان کی تدفین بھی ہوئی۔