Tag: تحریک آزادی

  • تحریکِ‌ آزادی: وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے تین گھنٹے مشاورت کی

    تحریکِ‌ آزادی: وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے تین گھنٹے مشاورت کی

    برطانوی ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے پلیٹ فارم سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے علّامہ راغب احسن نے ابتداً تحریکِ آزادیٔ ہند اور بعدازاں‌ تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور جیل بھی کاٹی۔

    قیامِ پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرنے والے راغب احسن کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے 1905ء میں آنکھ کھولی۔ راغب احسن کے والد کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں معمولی نوکر تھے۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی۔ اس وقت کے سیاسی حالات اور تبدیلیوں نے ہر مسلمان نوجوان کی طرح انھیں بھی متاثر کیا۔ وہ تحریک خلافت سے وابستہ ہوگئے اور اس کی کمیٹی میں شمولیت کے بعد جب گرفتار ہوئے تو یہ گرفتاری ان کی زندگی میں‌ ایک تبدیلی لائی۔ ان کی ملاقات کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ہوئی اور وہاں ان دونوں نے یہ عزم کیا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے انگریز سرکار سے نوکری نہیں لیں‌ گے بلکہ اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کریں‌ گے۔ رہائی کے بعد انھوں نے ایسا ہی کیا۔ علامہ راغب احسن نے ایم اے کی ڈگری لی اور صحافت کے میدان میں اتر گئے۔ انھیں اس میدان میں‌ اپنے زمانے کی قابل و باصلاحیت شخصیات اور نادرِ روزگار ہستیوں کی صحبت میں‌ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ان کے افکار اور نظریات نکھر گئے اور قلم میں خوب روانی پیدا ہوئی۔ علّامہ راغب ” اسٹار آف انڈیا ” سے منسلک ہوئے اور پھر مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بنے۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت کا راغب احسن پر بڑا اثر پڑا۔ انھوں نے لکھنا شروع کیا اور اپنی منفرد شناخت بنائی۔ یہاں‌ تک کہ محمد علی جوہر کی وفات کے بعد راغب احسن کو صحافت کی دنیا میں محمد علی ثانی کہا جانے لگا۔

    علّامہ راغب احسن نے 1931ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلالِ ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی۔ 1936ء میں راغب احسن نے کلکتہ میں مسلم لیگ کا دفتر کھولا اور نہایت سرگرمی سے تنظیم سازی شروع کی۔

    ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جو مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب تھا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم راہ نما مثلاً حکیم اجمل خاں، سر علی امام، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق، محمد علی جناح، حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، مولانا ظفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جب کہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدے داران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے۔ ان میں محمد شفیع، علامہ محمد اقبال کے ساتھ علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں۔

    اسی جداگانہ طرزِ انتخاب پر علّامہ راغب احسن کی کئی تحاریر اور وقیع مضامین سامنے آئے جن کا مقصد اس حوالے سے اپنے مؤقف پر عوام میں شعور اجاگر کرنا اور آگاہی دینا تھا۔

    علّامہ راغب احسن کا نام و مقام اور ان کے تحریکِ آزادی میں کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلّی میں تین اہم شخصیات نے گھنٹوں ایک کمرے میں بیٹھ کر وطن اور مسلمانوں کے حالات اور مستقبل پر بات چیت کی۔ یہ تین شخصیات محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور راغب احسن تھے۔

  • بانی پاکستان محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ ادوار

    بانی پاکستان محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ ادوار

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کا ہندوستان کی سیاست میں‌ قدم رکھنا خاص طور پر مسلم لیگ کے قائد کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند کے لیے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد بلاشبہ ان کی زندگی کا نہایت ہنگامہ خیز دور تھا۔

    یوں تو نوجوان محمد علی جناح کی تعلیمی میدان میں کام یابیوں، بطور وکیل پیشہ ورانہ سفر اور پھر قیام پاکستان کے لیے ان کی کاوشوں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن جب ہم اپنے قائد کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزاری۔

  • تحریکِ‌ آزادی اور بیگم حسرت موہانی

    تحریکِ‌ آزادی اور بیگم حسرت موہانی

    قیام پاکستان اس طویل جدوجہد کا ثمر ہے جو مسلمانانِ برصغیر نے اپنے علیحدہ قومی تشخص کی خاطر شروع کی اور اس کوشش میں خواتین نے بھی مردوں‌ کے شانہ بشانہ کام کیا اور اپنا کردار بخوبی نبھایا انگریزی سامراج کے خلاف اور ہندوستان کی عورتوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لیے جن خواتین نے تگ و دو کی، ان میں سر فہرست مادر ملت فاطمہ جناح، بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم سلمٰی تصدق حسین، بیگم جہاں آراء شاہنواز، بیگم رعنا لیاقت علی سمیت متعدد عظیم خواتین شامل تھیں۔ یہ وہ خواتین ہیں بے خوف اور نڈر ایسی تھیں کہ سامراج یا مسلمان دشمن ہندو قیادت کو کئی مواقع پر پیچھے ہٹنا پڑا۔

    ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کا ایک دل آویز کردار اور بیسویں صدی کی چند باہمت اور متحرک خواتین میں بیگم حسرت موہانی کا نام بھی شامل ہے۔ نشاط النسا بیگم ان کا اصل نام تھا، لیکن بیگم حسرت موہانی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ وہ ہندوستان کی ان خواتین میں سے تھیں جن کے شوہروں نے آزادی ہند کی خاطر انگریزوں کے خلاف قلم کی طاقت سے بھی کام لیا اور سرکار مخالف جلسوں اور تحریکوں میں بھی آگے آگے رہے۔ اس دوران مار پیٹ، گرفتاری اور سزا پانے والے اپنے خاوند کا ان عورتوں نے حوصلہ بڑھایا اور انھیں اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ ہر کڑے وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔ بیگم حسرت موہانی نے بھی نہ صرف یہ سب دیکھا، اور جھیلا بلکہ گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھاتی رہیں اور تحریک کے لیے بھی کام کیا۔

    ایک موقع پر جب حسرت موہانی کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا تو بیگم حسرت موہانی نے آزادی کی تحریک میں اپنا نام لکھوا لیا اور تحریک میں حصہ لیا۔ ہندوستان کی مجاہد خواتین کی تاریخ لکھی جائے تو بیگم حسرت کا ذکر لازمی کیا جائے گا۔

    نشاط النسا بیگم 1885 میں موہان کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ شادی کے بعد انھوں نے حسرت موہانی کے ساتھ اخبار اور دیگر کام بھی دیکھے اور ہر موقع پر ان کی مدد کی۔ نشاط النسا بیگم آل انڈیا کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ممبر تھیں۔

    بیگم حسرت موہانی کے عزم و استقلال اور ان کی تحریکی سرگرمیوں اور شوہر پرستی نے انھیں دیگر خواتین میں ممتاز کیا اور سبھی ان کی شخصیت اور عمل سے متاثر رہے۔ اس وقت کے جید اور ممتاز راہ نماؤں اور شخصیات نے بیگم حسرت موہانی کی ہمت اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔ وہ تعلیم نسواں کی بڑی حامی تھیں۔ نامساعد حالات، تحریکی کاموں کا دباؤ اور دیگر ذمہ داریوں‌ کے ساتھ مالی دشورایوں نے انھیں جلد تھکا دیا اور وہ بیمار رہنے لگیں۔ 18 اپریل 1937 کو ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھنے اور اس کے لیے میدانِ عمل میں‌ متحرک نظر آنے والی یہ عظیم خاتون خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

  • ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مدارس کے بوریا نشینوں اور معمر باریش غازیوں نے موت سے بے نیاز ہو کر میرِ کارواں کا کردار ادا کیا۔ مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی اور تقسیمِ ہند کے مخالف تھے۔

    ان کی گاندھی سے ایک ملاقات اور اس دوران ہونے والی گفتگو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے، جس کے راوی سید محمد اسلم ہیں جو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: میں نے ظہر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی۔ مسجد کے شمالی دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، جو امام صاحب کا قبرستان کہلاتا ہے۔ اسی قبرستان میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی (م 1956ء) اور مولوی سمیع اللہ (م 1969ء) محو خوابِ ابدی ہیں۔

    مولانا لدھیانوی ایک زمانے میں مجلسِ احرار کے صدر تھے اور پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد موصوف مہاجروں کے قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے، لیکن یہاں ان کا جی نہ لگا اور موصوف دسمبر 1947ء کے اواخر میں دوبارہ بھارت چلے گئے۔ 3 جنوری 1948ء کو وہ ’گاندھی جی‘ سے ملے۔ گاندھی جی نے ان سے کہا۔ مولانا کیا آپ بھی پاکستان چلے گئے تھے؟ کیا آپ نے لدھیانہ کی سکونت اس بنا پر ترک کی کہ وہاں کے ہندو اور سکھ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، اگر آپ کا یہی جرم تھا تو آپ اپنے دین کے لیے جان کا نذرانہ پیش نہ کر سکے۔ یہ بات خود مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے راقم الحروف کو سنائی تھی۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ گاندھی جی کی باتیں سن کر اس قدر شرمندہ ہوئے کہ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہ گاندھی کے ساتھ ان کی آخری ملاقات تھی۔ 30 جنوری 1948ء کو نتھو رام گوڈسے نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

    (کتاب ’سفرنامۂ ہند‘، از قلم سید محمد اسلم)

  • انگریز، شاہ ولی اللہ اور ان کی تحریک

    انگریز، شاہ ولی اللہ اور ان کی تحریک

    اس تحریک کی ابتدا غدر سے کافی قبل ہوتی ہے۔ فروری 1707ء میں بادشاہ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے ہی مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ ملک کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ نتیجتاً تخریبی عناصر سَر اٹھاتے ہیں۔ یورپ کی سفید فام طاقتیں جن کو اوررنگ زیب کے آبا و اجداد نے مہربانیوں اور عنایتوں سے نوازا تھا، جن کو شاہ جہاں نے اپنے غیظ و غضب کا شکار بھی بنایا تھا، اب ان کو تجارت کی آزادی مل چکی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ تجارت کے ساتھ اب ان کا عمل دخل ملک کے سیاسی معاملات میں بھی ہونے لگا۔

    صوبوں کے گورنر خود مختار ہونے لگے۔ مرہٹوں کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔ دہلی کے شمال میں روہیلوں کی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ مغرب میں جاٹوں نے اپنے اثرات پھیلائے، سب کے سب آپس میں لڑتے مرتے رہتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔ ایسے حالات میں 1739ء میں نادر شاہ کا حملہ ہوا جس نے دہلی میں قتل و خون کا بازار گرم کر دیا۔ اس کے بعد 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے اور دو ماہ تک اس قدر لوٹ مار مچائی کہ اس کے آگے نادر شاہ کے حملے بھی بھلا دیے گئے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے دس سال بعد 1757ء میں بنارس کی مشہور لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد کئی حملے احمد شاہ ابدالی کے اور ہوئے۔ جس نے دن بدن مرکز کی حکومت کو اور کمزور کر دیا۔ دربار لُٹا۔ خزانے لوٹے گئے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے پچاس سال کی میعاد میں متعدد بادشاہ تخت پر بٹھائے گئے اور اتارے گئے۔ ملک کے ان سیاسی حالات نے اقتصادی اور معاشی حالات پر بہت اثر ڈالا۔ ہندستان ہچکولے کھانے لگا۔ چند ہی برسوں میں اس کی حالت گر گئی۔ مذہب کی اہمیت گھٹتی چلی گئی۔ مذہبی اعتبار سے جب قوم اپنی پستی و زوال کے انتہا پر پہنچ جاتی ہے، تو اس کے سنبھالنے کے لیے خدا ایک قوم پرور شخصیت اس زمین پر اتارتا ہے۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کے خیال کے مطابق: "جب حالات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں تو سنّتِ الہٰی کے مطابق کسی مصلح کا ظہور ہوتا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ کی ذات روشنی کی اس کرن کی طرح تھی جو انتہائی تاریکی میں نمودار ہوئی ہو۔”

    شاہ ولی اللہ صاحب ٹھیک اسی دور (1762ء۔ 1702ء ) کے پیداوار تھے۔ انھوں نے یہ تمام زوال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن کو اُجڑتے دیکھا، قوم کو بکھرتے دیکھا، مذہبی انتشار دیکھا اور مذہب کے دشمنوں کا بڑھتا ہوا اقتدار بھی دیکھا۔ خدا نے ایک درد مند دل اور سنجیدگی سے سوچنے والا دماغ دے رکھا تھا۔ بس اٹھ کھڑے ہوئے اور قوم کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اخلاقی اصلاح کا سنجیدگی سے منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندستان کی قوموں میں مذہب سے متعلق سچا جذبہ اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ جب کہ مذہبی جذبہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔ اور یہی جذبہ اپنے ملک اور قوم کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اقتصادی اور معاشی توازن بخشنے میں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے۔ اور مذہبی جذبہ جبھی ختم ہوتا ہے جب اس کے ماننے والے معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہوں گے۔ شاہ صاحب نے مسلمانوں کو مذہبی اور اقتصادی اعتبار سے پستے دیکھا، جس کے سو فیصد ذمہ دار انگریز تھے۔ لہٰذا سات سمندر پار سے آئی ہوئی اس غیر ملکی حکومت کو شاہ صاحب سخت ناپسند کرتے تھے۔ انگریزوں نے سب سے زیادہ اثر مسلم تجاّر پر ہی ڈالا۔ شاہ صاحب کو اس طبقہ کی تباہی کا سخت افسوس تھا کیونکہ معیشت کا انحصار اسی طبقہ پر ہوتا ہے۔

    اسی درمیان آپ نے 1728ء میں حجاز کا سفر فرمایا۔ وہاں دو سال قیام کے بعد یورپ اور ایشیا میں رہ کر تفصیلی معلومات حاصل کیں، وہاں کے حالات کو پڑھا۔ غور کیا۔ تمام عرب ممالک میں مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہاں سے واپسی پر آپ ایک نیا ذہن، نئی بیداری اور نئے خیالات لے کر آئے۔

    واپس آتے ہی انھوں نے اقتصادی اور سیاسی اصول مرتب کیے، جس کا اظہار عوامی طبقہ پر تھا۔ ان لوگوں کے حق میں تھا جو محنت کرتے ہیں۔ پسینہ بہاتے ہیں۔ اس حکومت اور اس سماج کی بے حد برائی کی جو مزدوروں اور کاشت کاروں پر بھاری ٹیکس لگائے، انھوں نے اسے قوم کا دشمن قرار دیا۔ علمی اصلاح کے لیے قرآن عظیم کی حکمت عملی کو اس کا معجزہ ثابت کرنے کا عنوان بنایا اور دولت کے تمام اخلاقی اور عملی مقاصد کا مرجع اور مدار اقتصادی عدم توازن کو قرار دیا۔

    شاہ صاحب کے یہ خیالات تیزی سے پھیلے اور رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔1762ء میں شاہ ولی اللہ کا انتقال ہو گیا۔ لیکن وہ اپنی ذات والا صفات سے ہندستان میں ایک تحریک کی بنیاد ڈال گئے۔ مولانا عبیداللہ سندھی، جو شاہ ولی اللہ کے پیرو تھے، انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقتاً شاہ صاحب نے ایک مجاہدانہ زندگی گزاری۔ قوم کی اصلاح کے سلسلے میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی، جو ان کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے جاری رکھی۔ شاہ ولی اللہ کے بعد یہ ذمہ داری ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز صاحب نے سنبھالی۔ شاہ عبدالعزیز کے ذمہ داری سنبھالتے سنبھالتے ملک کے حالات اور بدل چکے تھے۔ مغل تخت جاٹوں، مرہٹوں اور سکھوں کے بیچ میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ خود دربار کے لوگ آپس میں خون بہا رہے تھے۔ اسی درمیان 1756ء کو عالمگیر دوم کا قتل کر دیا گیا۔ انگریزی اقتدار اور تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ انگریزی حکومت کے دشمنوں کے حسرت ناک انجام ہو رہے تھے۔
    مسلمانوں کی تمام طاقتیں انگریزوں کے آگے سر جھکا چکی تھیں۔ حکومت اور مذہب دونوں پر انگریزوں کا دور دورہ ہو گیا۔ 1765ء میں جب پٹنہ اور بکسر میں بھی انگریزوں کو کامیابی مل گئی تب دہلی پر قبضہ کرنا زیادہ مشکل کام نہ تھا اور رفتہ رفتہ انگریز اپنا جال بچھاتے ہوئے 1802ء میں دہلی پر قابض ہو گئے۔

    (ماخذ: عبد الحلیم شرر بحیثیت ناول نگار)

  • سیّد مراتب علی کا تذکرہ جنھوں‌ نے کئی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا

    سیّد مراتب علی کا تذکرہ جنھوں‌ نے کئی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا

    ہندوستان میں تحریکِ آزادی اور مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کے لیے اسباب اور مالی وسائل مہیا کرنے والوں میں ایک نام سیّد مراتب علی کا بھی ہے جن کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قریبی دوست تھے۔ سید مراتب علی نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی دولت خرچ کی اور دل کھول کر مسلم لیگ کے لیے مالی عطیات دیے۔

    سیّد مراتب علی 1882ء میں متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید وزیر علی شاہ کاروبار سے وابستہ تھے اور دکان چلانے کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداری کرتے تھے۔ یوں مراتب علی بھی محنتی اور کاروباری سوجھ بوجھ کے حامل تھے اور دکان کو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر چلایا۔ مراتب علی کا شمار شمالی ہندوستان کی کام یاب مسلمان کاروباری شخصیات میں‌ ہوا۔ 22 مئی 1961ء کو سید مراتب علی وفات پاگئے تھے۔

    ابتدا میں ان کے والد نے لاہور میں کاروبار شروع کیا تھا۔ بعد ازاں وہ اپنے کنبے کے ساتھ فیروز پور چھاؤنی منتقل ہوگئے اور صدر بازار میں ایک دکان کھولی اور مختلف کاموں کے ٹھیکے بھی لینے لگے۔ ان کے بیٹے سید مراتب علی شاہ نے بھی تعلیم مکمل کر کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ ان کے ساتھ ان کا دوسرا بھائی بھی موجود ہوتا تھا۔ جب والد نے اپنے ان دونوں بیٹوں کو اس قابل پایا کہ وہ ان کا کاروبار اچھی طرح‌ دیکھ سکتے ہیں، تو فیروز پور چھاؤنی کی دکان ان پر چھوڑ کر ٹھیکیداری پر توجہ دینے لگے۔ والد کے انتقال کے بعد سیّد مراتب علی شاہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کاروبار کو سنبھالا اور بہت کم عرصہ میں اپنی دیانت داری اور محنت و لگن سے انگلش آرمی یونٹوں تک رسائی حاصل کرلی اور ان کے لیے مختلف خدمات انجام دینے لگے۔ 1902ء میں سید مراتب علی کو ایک انگلش رجمنٹ میں کافی شاپ کا ٹھیکہ ملا اور کچھ عرصہ بعد دوسری کافی شاپس کے ٹھیکے بھی ان کو دے دیے گئے۔ اس ترقی کے ساتھ سید مراتب علی شاہ آرمی اور اہلِ علاقہ میں ایمان دار اور نیک نیّت بھی مشہور ہوچکے تھے۔ ان کی یہی شہرت انھیں سیاسی اور سماجی امتیاز عطا کرنے کی بنیاد بنی۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خاں، والی افغانستان نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ ان کی پذیرائی کے لیے ایک استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سید مراتب علی شاہ کو نہ صرف اس کمیٹی کا ممبر چن لیا گیا بلکہ شاہی پارٹی کے تمام افراد کے خورد و نوش کا انتظام انہی کے سپرد ہوا۔ پہلے فیروزپور چھاؤنی کے فوجی افسروں تک بات محدود تھی، اب وہ حکومتِ ہند کی نظروں میں آگئے۔

    1908ء میں‌ سید مراتب علی شاہ نے انارکلی لاہور میں پنجاب ہاؤس کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا۔ یہاں بھی ان کی نیک نامی خوب کام آئی اور ان کا کاروبار لاہور سے جھانسی، لکھنؤ اور بریلی کی چھاؤنیوں تک پھیل گیا۔ اسی دوران جارج پنجم کی تخت نشینی کے سلسلے میں ایک اجلاس دربار دہلی منعقد ہوا جس میں شہر کے ایسے بڑے کاروباری افراد اور مختلف شخصیات بھی مدعو تھے۔ وہاں ان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ جنگِ عظیم چھڑنے کے بعد ہندوستان بھر میں‌ ملٹری اسٹیشنوں پر کسی نہ کسی شکل میں سید مراتب علی کی خدمات ضرور لی جارہی تھیں۔ وہ مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں اور قیادت کے بھی قریب ہوگئے۔ 1934ء میں حکومت ہند نے ایک تجارتی وفد افغانستان بھیجا جس میں سید مراتب علی شاہ بھی شامل تھے۔ 1935ء میں ریزرو بنک آف انڈیا کا سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر قائم ہوا تو وہ اس کے رکن بنے۔ 1936 سے لے کر تقسیمِ ہند تک ایلکلی اینڈ کیمیکل کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور 1940ء سے لے کر اپنی وفات تک ایچی سن کالج لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔

    1942ء میں سید مراتب علی آل انڈیا مسلم چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ 1944ء میں انڈین چیمبرز آف کامرس لاہور کے صدر بنے۔ حکومت برطانیہ نے 1929ء میں انھیں "خان بہادر” اور 1940ء میں "سَر” کا خطاب دیا۔ وہ عملی سیاست سے دور رہے لیکن قیامِ پاکستان کی کوششوں کے لیے اپنی کاروباری اور سماجی حیثیت کو استعمال اور مال و دولت کو خوب خرچ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر تحریک کے لیے رقم دیتے رہے۔مسلم لیگ کی کوئی تحریک، کانفرنس یا کمیٹی ایسی نہ تھی جس سے آپ کا تعلق نہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں وہ اس دو رکنی وفد کے رکن نام زد ہوئے جسو ریزرور بنک آف انڈیا سے پاکستان کا پچاس کروڑ روپیہ وصول کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے مرکزی بورڈ کے رکن بنے اور آخری سانس تک آپ مرکزی بورڈ کے ممبر رہے۔ پاکستان میں‌ مہاجرین کی آباد کاری ایڈوائزری کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی سید مراتب علی نے خدمات انجام دیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کئی بڑی کمپنیاں اُن کی دعوت پر ہمارے معاشی نظام کا ستون بنیں۔

  • تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا شوکت علی خان کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا شوکت علی خان کا تذکرہ

    اسلام اور تحریکِ خلافت کے متوالوں، برصغیر میں آزادی کی لازوال جدوجہد کے دوران ہر قسم کی قربانیاں دینے، قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے والے مولانا شوکت علی کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ مولانا شوکت علی کو ان کی وفات کے بعد آج ہی کے دن 1938ء میں دہلی میں سپردِ‌ خاک کیا گیا تھا۔

    مولانا شوکت علی 10 مارچ 1873ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ وہ محمد علی جوہر کے بھائی تھے۔ ان کی والدہ کو برصغیر میں بی امّاں کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو اسلامیانِ ہند کی راہ نما اور نہایت دین دار اور ایسی خاتون تھیں جنھوں نے اپنے بیٹوں کو دینِ مبین اور حق و صداقت کے راستے میں جان کی پروا نہ کرنے کا درس دیا اور خود بھی تحریکِ آزادی کے لیے میدانِ عمل میں اتریں۔ مولانا شوکت علی نے 1895ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور سرکاری ملازمت اختیار کی۔ تاہم 1913ء میں یہ ملازمت ترک کرکے انجمنِ خدام کعبہ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلی عالمی جنگ کے دوران قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔

    1919ء میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ تحریکِ خلافت کی بنیاد رکھی۔ اسی دوران انھوں نے گاندھی جی کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کی ایک نئی تاریخ رقم کی، تاہم جلد ہی گاندھی کی حمایت سے دست بردار ہوگئے اور مسلم لیگ کی پالیسیوں کی حمایت کرنے لگے۔

    1937ء میں برطانوی ہند میں مولانا شوکت علی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے 26 نومبر 1938ء کو وفات پائی۔

  • ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور

    ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور

    جشنِ آزادی کے موقع پر وطنِ عزیز پاکستان کے طول و عرض میں وطن کی سلامتی و استحکام کے لیے اور آزادی کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے دعا کی صورت یہ ملّی نغمہ گونج رہا ہے،’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد۔‘‘

    پاکستانیوں کے دل کی آواز بننے والا یہ نغمہ ہر سماعت میں‌ محفوظ ہے اور آج آزادی کے جشن اور یادگار دن پر جھوم جھوم کر سنا اور گایا جارہا ہے۔

    اس ملّی نغمے کے خالق پاکستان کے نام وَر شاعر مسرور انور ہیں جنھوں نے فلمی گیت بھی لکھے اور اپنے وطن پاکستان کے لیے بھی ایسے نغمات تخلیق کیے جن کی مقبولیت آج ہی نہیں آنے والے وقتوں میں بھی برقرار رہے گی۔

    مسرور انور 1962ء سے 1990ء تک پاکستانی فلمی صنعت کے لیے گیت نگاری کرتے رہے اور ممتاز ترین نغمہ نگاروں میں شامل ہوئے۔ انھوں نے 1970ء کے اوائل میں جو ملّی نغمات لکھے انھیں بے حد مقبولیت ملی اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے کے علاوہ سرفروشی اور وقت پڑنے پر جذبہ شہادت سے مغلوب ہوکر میدانِ جنگ میں اترنے والے قوم کے دلیر شیر جوانوں سے اس نغمے کے ذریعے مخاطب ہوئے اور کہا، اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں، قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں….!

    مسرور انور کا یہ ملّی نغمہ وطن کی مٹی گواہ رہنا بھی سبھی کی سماعتوں میں تازہ ہے۔ انھوں نے وطن کی خوب صورتی اور آزادی پر نثار ہوتے ہوئے یہ نغمہ بھی قوم کے لیے پیش کیا جو آج پھر ہمارے لبوں پر رقصاں ہے، جگ جگ جیے میرا پیارا وطن، لب پہ دعا ہے دل میں لگن۔

    سوہنی دھرتی اللہ رکھے وہ نغمہ تھا جو شہناز بیگم کی آواز میں پاکستان کی ثقافتی پہچان بن گیا۔

  • تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے اور اس پلیٹ فارم سے مسلمانانِ کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرنے کے بعد ایک نہایت ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی گزاری۔

    اگر ہم اپنے قائد و راہ بَر کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی۔

  • قیامِ‌ پاکستان: سردار عبدالرّب نشتر اور ڈاک ٹکٹوں کا اجرا

    قیامِ‌ پاکستان: سردار عبدالرّب نشتر اور ڈاک ٹکٹوں کا اجرا

    سردار عبدالرّب نشتر ایک مدبّر و شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے جنھوں نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سردار عبدالرّب نشتر ملک کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان کی کابینہ میں شامل رہے اور وطنِ عزیز کے استحکام اور ترقّی و خوش حالی کے لیے کام کیا۔

    74 ویں جشنِ آزادی کے موقع پر ہم پاکستان کے اسی قابل اور مخلص راہ نما کے ایک یادگار کام کا تذکرہ کررہے ہیں جو محکمہ ڈاک سے متعلق ہے۔

    پاکستان بننے کے بعد جہاں انتظامی اور ریاستی امور چلانے کے لیے مختلف ادارے اور شعبہ جات قائم کیے گئے، وہیں ڈاک کا نظام اور اس کے تحت ٹکٹوں کے اجرا کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد 9 جولائی 1948ء کو محکمہ ڈاک کے تحت سردار عبدالرّب نشتر کی راہ نمائی، ذاتی دل چسپی اور مسرت حسین زبیری کی کوششوں سے چار ٹکٹوں کا اجرا کیا۔

    یہ پاکستان کے اوّلین ڈاک ٹکٹوں کا سیٹ تھا جن کی مالیت ڈیڑھ، ڈھائی، تین آنہ اور ایک روپیہ تھی۔ ان میں سے تین ڈاک ٹکٹوں پر بالترتیب سندھ اسمبلی بلڈنگ، کراچی ایئر پورٹ اور شاہی قلعہ لاہور کی تصاویر بنی تھیں جب کہ آخرالذّکر چوتھا ٹکٹ مصوّری کا نمونہ تھا۔

    بعدازاں محکمہ ڈاک نے سردار عبدالرّب نشتر یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔