Tag: تحریک آزادی

  • قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت و کردار کو ہندوستانی اور بعض انگریز مؤرخین نے بھی سراہا ہے اور ان کی زندگی کے مختلف ایسے واقعات کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے بااصول، صاف گو ہونے اور مضبوط و اجلے کردار کی غمّازی کرتے ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسے ہی واقعے کا تذکرہ کررہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرکے لندن سے ہندوستان لوٹنے والے محمد علی جناح نے جب ممبئی (بمبئی) میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنا چاہا تو انھیں کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پڑی۔

    پریکٹس شروع کرنے کے خواہش مند کسی بھی وکیل کے لیے لازمی تھا کہ وہ یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔ ایک روز محمد علی جناح صبح سویرے ایک انگریز مجسٹریٹ کے بنگلے پر پہنچ گئے اور نوکر کے ہاتھ ایک چٹ پر اپنا نام اور ڈگری لکھ کر ضروری کام سے ملاقات کا پیغام اندر بھجوا دیا۔ مجسٹریٹ نے انھیں اندر بلا لیا۔

    قائدِ اعظم نے اندر جاتے ہی سوال کیا:’’میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

    مجسٹریٹ نے جواب دیا: مجھے آپ بے حد شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر قائدِ اعظم نے اسی وقت ایک کاغذ آگے بڑھا دیا اور نہایت ادب اور شائستگی سے کہا: ’’جنابِ عالی، یہ الفاظ اس پر لکھ دیجیے۔ دراصل مجھے قانون کی پریکٹس شروع کرنے کے لیے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔‘‘

  • قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے طویل اور ناقابلِ فراموش جدوجہد میں نہ صرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بے لوث قیادت ایک اہم تاریخی موضوع ہے بلکہ آزادی کے متوالوں کے محبوب لیڈر محمد علی جناح کی سحر انگیز اور نفیس شخصیت سے بھی نئی نسل کو واقف کرانا ضروری ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ تعلیم و قابلیت، قیادت کی اہلیت کے ساتھ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پر ان کے قائد کو ایک باوقار، پُراعتماد اور ہمہ اوصاف شخصیت کہا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم سیاسی مدبّر، قابل وکیل اور مسلمانانِ ہند کے قائد خوش پوشاک اور نفیس انسان مشہور تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قائدِ اعظم کی خوش پوشاکی ان کی شخصیت کا ایسا جزو تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس کا اعتراف ان کے سیاسی حریف اور مخالفین بھی کرتے ہیں۔

    قائد اعظم محمدعلی جناح کراچی میں پیدا ہوئے جو اس وقت بھی ساحلی شہر ہونے کی بنا پر اہم تجارتی مرکز تھا اور یہاں نہ صرف مختلف اقوام کے لوگ رہتے تھے بلکہ انگریز بھی آباد تھے۔ یہاں کی مخصوص مقامی آبادی انگریزی زبان و ثقافت سے کسی قدر واقف اور ان کے طور طریقوں اور لباس سے بھی مانوس ہوگئے تھے۔

    محمد علی جناح کے والد جناح پونجا تجارت پیشہ تھے اور اسی حوالے سے انگریزوں سے رابطہ اور واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان جانتے تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ، پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ اسی ماحول میں قائدِ اعظم بھی رہے اور شروع ہی سے انگریزی لباس زیبِ تن کیا۔ 1892ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے بیرسٹر بنے۔ لندن میں قیام کے دوران کوٹ، پتلون اور ٹائی کے استعمال کے ساتھ اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی آشنا ہوئے۔

    لندن سے واپس آکر بمبئی میں بہ طور پیشہ وکالت کا آغاز کیا۔ وہاں پارسیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی آبادی نہ صرف با اثر اور متمول تھی بلکہ انگریزوں سے قریبی روابط رکھتی تھی اور انگریزی لباس پہنتی تھی اور محمد علی جناح بھی یہی لباس پہنتے رہے۔

    آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلمانوں کے راہ بر و قائد بننے اور 1937 کے بعد محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور عوامی اجتماعات میں اچکن اور تنگ پاجامہ پہن کر شرکت کرنا شروع کردی تھی، اور مؤرخین کے مطابق بعد میں شیروانی کا استعمال شروع کیا۔

    اگست 1947ء کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے بانی پاکستان نے آزادی کی تقریبات میں شیروانی، شلوار اور جناح کیپ پہن کر شرکت کی تھی۔

  • تحریکِ‌ آزادی: مسلم لیگ کے لیے بے دریغ دولت خرچ کرنے والے راجا صاحب کا تذکرہ

    تحریکِ‌ آزادی: مسلم لیگ کے لیے بے دریغ دولت خرچ کرنے والے راجا صاحب کا تذکرہ

    راجا صاحب ہندوستان کی ریاست محمود آباد کے سلطان اور مسلمانوں کے ایسے خیرخواہ تھے جنھوں نے تحریکِ پاکستان اور آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے گویا اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے اور خود کو قائدِ اعظم کا معتمد اور جاں نثار ثابت کیا۔

    راجا صاحب نے محمود آباد مہا راجا سَر محمد علی خان کے گھر آنکھ کھولی۔ وہ 1914ء کو پیدا ہوئے اور 14 اکتوبر 1973ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    راجا صاحب کا اصل نام امیر احمد خان تھا۔ ان کا شمار تحریکِ پاکستان کے ان نام ور راہ نمائوں میں ہوتا ہے جو آزادی کی تحریک میں‌ ہر محاذ پر پیش پیش رہے اور ہر طرح کی قربانی دی۔ مال و دولت کی فراوانی اور ہر قسم کی آسائش میسر ہونے کے سبب ان کی اچھی تعلیم و تربیت ہوئی اور انھوں نے انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا جب کہ اپنے عمدہ خصائل کی بدولت مسلمان قائدین میں ممتاز ہوئے اور محمد علی جناح کے رفیق و معتمد شمار کیے گئے۔

    والد کے انتقال کے بعد راجا صاحب ریاست کے والی بن گئے اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال ہوئے۔ انھوں نے مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کے لیے مالی امداد کی اور اپنے وسائل اور آمدن کو مسلمانوں اور ان کی تحریک کے راستے میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے وقف کر دیا۔

    راجا صاحب کو قائدِاعظم سے بڑی عقیدت تھی۔ آپ کے تعلق اور گہرے مراسم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ قائدِاعظم کو چچا اور محترمہ فاطمہ جناح کو پھوپھی کہا کرتے تھے۔

    آپ مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے سب سے کم عمر رکن تھے۔ 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے خازن منتخب ہوئے۔ قائداعظم نے آپ کو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کے لیے نام زد کیا اور آپ اسی سال آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر صرف چوبیس سال کی تھی۔

    قائدِاعظم محمد علی جناح نے 1945ء میں مرکزی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر اپنے حلقۂ انتخاب کا انچارج راجا صاحب کو بنایا۔ راجا صاحب بھی مرکزی اسمبلی کی نشست کے امیدوار تھے لیکن انھوں نے اپنا حلقۂ انتخاب چھوڑ کر قائدِاعظم کی انتخابی مہم چلائی۔

    1947ء میں راجا صاحب پاکستان چلے آئے اور یہاں کسی منصب اور رتبے کی تمنا کیے بغیر مسلمانوں کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ عمر کے آخری حصے میں راجا صاحب برطانیہ منتقل ہوگئے تھے جہاں اسلامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ ہوئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • 10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریکِ آزادی کی طویل جدوجہد کے دوران کئی تاریخ ساز موڑ اور یادگار لمحات آئے جن کا تذکرہ عظیم اور لازوال قربانیوں کی یاد دلاتے ہوئے حصولِ پاکستان کی داستان کو مکمل کرتا ہے۔ آج ایک ایسا ہی تاریخی دن ہے جب 1947ء میں کراچی میں سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔

    اس تاریخی اجلاس کی صدارت وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل نے کی اور اجلاس کی کارروائی کا آغاز مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوتِ قرآن کریم سے کیا تھا۔ 14 اگست 1947ء تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی کارروائی میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

    10 اگست سے شروع ہونے والے اجلاس میں مشرقی بنگال کے 44، پنجاب کے 17، سرحد کے 3، بلوچستان کے ایک اور صوبہ سندھ کے 4 نمائندے شریک تھے جنھوں نے قائدِاعظم محمد علی جناح کو اسمبلی کا پہلا صدر اور مولوی تمیز الدین کو پہلا اسپیکر منتخب کیا۔

    اجلاس میں طے پایا کہ جب تک پاکستان کا مستقل آئین تیار نہیں ہوتا اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کے آئین کی شکل دی جائے۔

    پاکستان کی یہ پہلی دستور ساز اسمبلی 24 اکتوبر 1954ء تک قائم رہی۔

  • جدوجہدِ آزادی: قائدِ اعظم کے معتمد اور مسلم لیگ کے راہ نما سردار عبدالرّب نشتر

    جدوجہدِ آزادی: قائدِ اعظم کے معتمد اور مسلم لیگ کے راہ نما سردار عبدالرّب نشتر

    سردار عبدالرّب نشتر ایک اچھے شاعر، مدبّر، شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے جنھوں نے قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوئے۔

    سردار عبدالرّب نشتر 13 جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مذہبی گھرانے کے فرد تھے اور جدید تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت دینی ماحول میں ہوئی۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ایل ایل بی کی ڈگری 1925ء میں حاصل کی اور وکالت کا لائسنس بھی حاصل کرلیا۔ جس وقت وہ علی گڑھ میں پڑھ رہے تھے، ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے پشاور میں وکالت شروع کردی۔

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم بھی اُن کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تربیت ہوتی رہی اور عنفوان شباب میں وہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اکابرین کے قریب رہے۔ سامراج دشمنی گویا اُن کے خون میں تھی جو زمانۂ طالب علمی ہی میں اِن بزرگوں کے زیرِ اثر دو آتشہ ہوگئی۔

    وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست کا شوق پیدا ہوا تو نوجوانی میں تحریکِ خلافت میں عملی شرکت سے سفر کا آغاز کیا اور مسلمانانِ ہند کو درپیش مسائل اور مشکلات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے لگے۔ انھیں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی سازشوں اور ان کے رویّوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا۔

    1929ء میں جب صوبہ سرحد میں انتخابات کا اعلان کیا گیا تو سردار عبدالرب نشتر خلافت کمیٹی کی طرف سے میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مسلسل 1938ء تک رُکن رہے۔ بعد میں سردار عبدالرب نشتر نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی اور 1944ء میں اس تنظیم کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے لیے نمائندہ بھی نام زد ہوئے جب کہ 3 جون کے اعلان کے حوالے سے’’پارٹیشن کمیٹی‘‘ کے ارکان میں سردار عبدالرب نشتر بھی شامل تھے۔

    سردار عبدالرب نشتر غیر منقسم ہندوستان کے وزیرِ مواصلات بھی رہے اور قیامِ پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی کابینہ میں بھی اِسی منصب پر کام کرتے رہے۔

    وہ متحدہ ہندوستان میں پنجاب میں پہلے مسلمان اور پاکستانی گورنر بھی رہے۔ وہ 14 فروری 1958ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔

  • تحریکِ‌ آزادی: راغب احسن وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے گھنٹوں مشاورت کی

    تحریکِ‌ آزادی: راغب احسن وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے گھنٹوں مشاورت کی

    برطانوی ہندوستان میں اپنی سیاست کا آغاز تحریکِ خلافت سے کرنے والی شخصیات میں علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں جنھوں نے خلافت کمیٹی میں فعال و متحرک کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے جیل بھی گئے۔

    بعد میں‌ اسی مردِ مجاہد نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی قیادت میں اپنا کردار ادا کیا۔

    علّامہ کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے میں 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں معمولی ملازم تھے۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی۔ خلافت کمیٹی میں شمولیت کے بعد جب ایک موقع پر جیل گئے تو انھیں کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہاں ان دونوں نے عہد کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور انگریز کی ملازمت کرنے کے بجائے اس کے خلاف جہاد کریں گے اور رہائی کے بعد انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ایم اے کی ڈگری لی اور اس کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔

    علّامہ راغب ” اسٹار آف انڈیا ” سے منسلک ہوگئے اور مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بھی بن گئے۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت نے علامہ راغب احسن میں ایسا زورِ قلم پیدا کیا کہ بعد از وفاتِ محمد علی جوہر انھیں صحافت اور قلم کی دنیا میں محمد علی ثانی کہا جانے لگا۔

    علّامہ راغب احسن نے 1931ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلالِ ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی۔ 1936ء میں راغب احسن نے کلکتہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اس کی تنظیم سازی میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جو مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب تھا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم راہ نما مثلاً حکیم اجمل خاں، سر علی امام، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق، محمد علی جناح، حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، مولانا ظفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جب کہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدے داران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے۔ ان میں محمد شفیع، علامہ محمد اقبال کے ساتھ علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں۔

    جداگانہ طرزِ انتخاب پر علّامہ راغب احسن نے کئی تحاریر سپردِ قلم کیں اور مضامین کے انبار لگا دیے جن کا مقصد اس حوالے سے شعور بیدار کرنا اور اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنا تھا۔

    علّامہ راغب احسن کا نام و مقام اور ان کے تحریکِ آزادی میں کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلّی میں تین اہم شخصیات نے گھنٹوں ایک کمرے میں بیٹھ کر وطن اور مسلمانوں کے حالات اور مستقبل پر بات چیت کی تھی اور یہ تین قائدین محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور راغب احسن تھے۔

    راغب احسن نے علّامہ اقبال کی درخواست پر آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم میں بھر پور حصہ لیا اور اسے مستحکم بنایا۔

  • تحریکِ‌ آزادی:  آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    تحریکِ‌ آزادی: آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    انگلستان سے وطن واپس آکر کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح خود مسلم ہندو اتحاد کے بڑے حامی تھے۔

    اپنے سیاسی سفر کے ابتدائی دور میں وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلم علما اور اکابرین کو انگریزوں سے آزادی اور متحدہ ہندوستان کے قیام کے لیے قائل کرلیں، لیکن دوسری طرف ان پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ہندو کسی بھی طرح مسلمانوں کو ان کا جائز حق، سیاسی اور مذہبی آزادی نہیں‌ دیں گے بلکہ انھیں اپنا محکوم و غلام بنانا چاہتے ہیں اور پھر انھوں نے کانگریس کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔

    ملک میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ جاری تھا اور 1920ء کے بعد اس میں تیزی آئی جس نے ثابت کیا کہ اس سرزمین پر دو قوموں کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں ہے اور ہندو قیادت اور تمام راہ نما ایسے واقعات میں ملوث انتہا پسندوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس سے قبل ہی 1916ء میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا اور جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر علیحدہ وطن کی جدوجہد تیز کرنا ہوگی، تو وہ اس پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔

    قائدِ اعظم کا تحریکِ آزادی کے قافلے کی قیادت سنبھالنا تھاکہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک جوش و ولولے کی گویا ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ اپنے قافلے میں شامل ساتھیوں کی مدد سے آپ نے نظریۂ پاکستان کی ترویج کی اور سیاسی میدان میں پاکستان کے حصول کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا۔

    دراصل اس وقت کی تحریکِ خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، ان سے واضح ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے اور اسے محض جذباتی تقاریر اور امتداد زمانہ سے رفع نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی دوران نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو دلبرداشتہ کردیا اور اس کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جس میں قائدِاعظم نے 14 نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوؤں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ قائدِ اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنے پیش کردہ 14 نکات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مستقبل کے ہندوستان میں سیاست اور معاشی ترقی کے میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور سماجی طور پر آزادی کا سفر شروع ہو گا۔

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے وہ نکات درج ذیل ہیں۔

    1- ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی طرز کا ہو گا۔

    2- تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری حاصل ہو گی۔

    3- ملک کی تمام مجالسِ قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تبدیل نہ کیا جائے۔

    4- مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔

    5- ہر فرقے کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔

    6- صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی اسکیم عمل میں نہ لائی جائے، جس کے ذریعے صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔

    7- ہر قوم و ملّت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔

    8- مجالسِ قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو، جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔

    9- سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنایا جائے۔

    10- صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔

    11- سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔

    12- آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

    13- کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے، جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔

    14- ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔

  • تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    بیگم شائستہ اکرام اللہ معروف مصنف اور سفارت کار تھیں۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان میں فعال حصّہ لیا۔

    ان کا وطن کوکلکتہ تھا جہاں وہ حسان سہروری کے گھر میں پیدا ہوئیں جو برطانوی وزیرِ ہند کے مشیر تھے۔ 1932ء میں ان کی شادی جناب اکرام اللہ سے ہوئی جو قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔

    انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اپنی اس زمانے کی یادوں کو بھی تحریری شکل دی تھی جن میں کئی حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

    انھوں نے کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

    (پروفیسر مشیر الحسن کی کتاب ’’منقسم قوم کی وراثت‘‘ سے خوشہ چینی)

  • میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    ہندوستان کی تاریخ میں‌ آزادی کی تحریک اور علیحدہ وطن پاکستان کے حصول کے لیے پہلی مرتبہ طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمان جس عظیم مدبّر، سیاست داں اور راہ برِ وقت کی ولولہ انگیز قیادت میں اکٹھے ہوئے تھے، دنیا انھیں ایک ذہین اور نہایت قابل وکیل محمد علی جناح کے نام سے پہلے ہی جانتی تھی۔

    محمد علی جناح جب مسلمانوں کے راہ بَر و قائد بنے تو ان کے رفقا اور قریبی ساتھی ان کے مثالی کردار اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے بھی واقف ہوئے۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اب منزل قریب ہے اور قائدِ‌ اعظم کی قیادت میں متحد ہوکر مسلمان جلد علیحدہ وطن حاصل کرلیں گے۔

    اس تمہید کے ساتھ ہم یہاں آزادی کے ایک متوالے کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا نام میاں بشیر احمد تھا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے معتمد رفقا میں شامل تھے۔

    میاں بشیر احمد کی تحریک اور آزادی کے لیے کوششیں اور اپنی قیادت کے ساتھ محنت، بھاگ دوڑ، قربانیاں اور مسلم لیگ کے لیے خدمات ایک الگ باب ہیں، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جن کی نظموں کے ذریعے مسلمانانِ ہند نے جانا کہ خدا نے محمد علی جناح کی صورت میں انھیں کیسا نقشِ تابندہ عطا کیا ہے جو دراصل نشانِ منزل بھی ہے۔

    میاں بشیر احمد بانی پاکستان کے وہ مخلص ساتھی تھے جنھوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کا اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔

    اُس وقت ہندوستان کے مسلمانوں سے قائدِاعظم محمد علی جناح کے کردار اور ان کی شخصیت کا نہایت خوب صورت اور منفرد انداز میں جامع تعارف کروانے والے میاں بشیر احمد کی زندگی کے چند اوراق ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔

    میاں بشیر احمد کون تھے؟
    ان کا تعلق اس خانوادے سے تھا جس نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے بہت سی خدمات انجام دیں۔ میاں بشیر احمد برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کے فرزند تھے جنھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اپنی نظم میں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ میاں شاہ دین لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے اور علاّمہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے ایک تھے۔ یوں ایک علمی و ادبی ماحول میں میاں بشیر احمد کی پرورش ہوئی اور تعلیم و تربیت کے بعد انھوں نے خود بھی شاعری کا مشغلہ اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا تھا جس کا نام ہمایوں تھا۔

    تحریکِ پاکستان اور علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع ہوئی تو میاں بشیر احمد قائدِاعظم کے قریب آگئے اور ان کے وفادار و جاں نثار ساتھیوں میں شمار کیے جانے لگے۔

    میاں بشیر احمد نے قائدِ اعظم کا تعارف کس منفرد اور شایانِ شان انداز سے کروایا؟

    میاں بشیر احمد عمدہ شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے باسیوں کو بتایا کہ ان کا قائد عزم و ارادے کا پکّا، روشن اور مضبوط کردار کا مالک ہے جس کی ولولہ انگیز قیادت میں اور مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق سے جلد ہمارا خواب پورا ہو گا۔

    یہ کلام آپ نے ضرور سنا ہوگا۔

    ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
    ملّت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

    یہ میاں بشیر احمد کی مشہور نظم کا ایک شعر ہے۔ قائدِ اعظم کی شخصیت و کردار اور ان کی قیادت کے حوالے سے میاں بشیر احمد کی ایک اور مشہور نظم کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ملّت ہے فوج، فوج کا سردار ہے جناح
    اسلامیانِ ہند کی تلوار ہے جناح

    یہ وہ نظمیں تھیں جنھیں تحریکی جلسوں میں پڑھا اور سنا گیا اور یہ اشعار ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں تک پہنچے اور ان کے دل میں‌ قائدِ اعظم کی عظمت و محبّت جگائی اور ان کی قیادت پر مسلمانوں کا یقین اور اعتماد بڑھایا۔

    قائد اور تحریکِ پاکستان کے لیے مسلمانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے اور آزادی کے متوالوں کا حوصلہ اور ہمّت بڑھانے کے لیے ان نظموں کو گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کرکے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نشر کیا گیا۔

    قیامِ‌ پاکستان سے قبل 1946ء میں یہ نظمیں ہندوستان بھر سنی گئیں اور ہر جلسے اور تقریب میں آزادی کے متوالوں کی زبان پر جاری رہیں۔ آج بھی میاں بشیر احمد کی یہ نظمیں اسی جوش و جذبے سے سنی جاتی ہیں اور یومِ‌ آزادی پر قائدِ اعظم محمد علی جناح کو خراجِ‌ تحسین پیش کرنے کا ذریعہ اور ان کے لیے قوم کے جذبات اور احساسات کی عکاس ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد میاں بشیر احمد کو ترکی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ 1971ء میں وفات پاگئے۔

  • تحریکِ‌ پاکستان: ’’مسلم لیگ کیا ہے؟ میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر‘‘

    تحریکِ‌ پاکستان: ’’مسلم لیگ کیا ہے؟ میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر‘‘

    سیّد شمسُ الحسن تحریکِ آزادی کے اُن سپاہیوں میں سے ایک ہیں جنھیں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا قرب اور رفاقت ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ وہ بانی پاکستان کے معتمد اور لائقِ بھروسا ساتھیوں میں‌ شمار ہوتے تھے۔

    ان کا ایک امتیاز اور اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے خلوص، نیک نیّتی، دیانت داری، عزمِ مصمم اور اٹل ارادوں کو دیکھ کر بانی پاکستان قائدِ‌ اعظم محمد علی جناح نے انھیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور وہ الفاظ شمسُ الحسن کو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔

    سّید شمسُ الحسن نے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کو توانا، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ وہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں اور ممتاز رہے۔

    آزادی کی تحریک کے لیے دن رات ایک کردینے والے سیّد شمسُ الحسن 1892ء میں بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1914ء سے 1947ء تک انھوں نے مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور پُرخلوص کاوشوں اور شبانہ روز محنت کو دیکھتے ہوئے قائدِ‌اعظم نے ایک مرتبہ اس مجاہد کے بارے میں فرمایا کہ ’’مسلم لیگ کیا ہے، میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر۔‘‘

    قیامِ پاکستان کے بعد شمسُ الحسن 1948ء سے 1958ء تک پاکستان مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ وہ 7 نومبر 1981ء کو وفات پاگئے تھے۔ سید شمسُ الحسن کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردَ خاک کیا گیا۔

    2007ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔