Tag: تحریک آزادی

  • یومِ وفات: قراردادِ‌ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ‌ بنگال کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: قراردادِ‌ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ‌ بنگال کہا جاتا ہے

    آج تحریکِ آزادی کے ایک جرأت مند اور بے باک راہ نما اور شیرِ بنگال کے لقب سے یاد کیے جانے والے مولوی فضل الحق کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 27 اپریل 1962ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انہیں 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے تاریخی اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

    مولوی ابوالقاسم فضل الحق 26 اکتوبر 1873ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1895ء میں وکالت کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ 1912ء میں سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1935ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ 1937ء میں انہوں نے بنگال کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھایا اور 1943ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    اس دوران لاہور میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا تو مولوی فضل الحق کو وہ تاریخی اہمیت کی حامل قرارداد پیش کرنے کا موقع ملا جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کہا گیا اور متحدہ ہندوستان میں آزادی کی تحریک میں‌ نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر اور بعد میں مرکز میں وزیرِ داخلہ کے عہدے پر فرائض انجام دیے۔

    1958ء میں ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد وہ عملی سیاست سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہوگئے۔ 1960ء میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ہلالِ پاکستان کا اعزاز عطا کیا۔ مولوی فضل الحق ڈھاکا میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص سردار عبدالرّب نشتر کا یومِ وفات

    تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص سردار عبدالرّب نشتر کا یومِ وفات

    سردار عبدالرّب نشتر کا شمار مسلمانانِ ہند کے ان راہ نماؤں میں‌ ہوتا ہے جنھوں نے اپنے فہم و فراست اور سیاسی سوجھ بوجھ سے آزادی کی تحریک میں‌ اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ آج اس مدبّر اور مسلمانوں‌ کے عظیم راہ نما کا یومِ وفات ہے۔

    سردار عبدالرّب نشتر مسلمانوں کا درد رکھنے والے ایک ایسے راہ نما تھے جنھیں قائدِ اعظم کی رفاقت اور ان کے قابلِ اعتماد ساتھی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی کابینہ کا حصّہ بنے اور پنجاب کے گورنر رہے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مسلم لیگ کی صدارت کررہے تھے۔

    سردار عبدالرب نشتر نے اپنے سیاسی سفر کے آغاز پر ہی جان لیا تھا کہ ہندو، مسلمانوں کے ساتھ تعصب ختم نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ انھوں‌ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور جدوجہدِ آزادی میں‌ عملی طور پر حصّہ لینے لگے۔

    سردار عبدالرّب نشتر 13 جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے ہوا، مگر ہندوؤں کے عزائم اور مسلمانوں‌ سے ان کے تعصب کو دیکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔ وہ اہم سیاسی تحریکوں اور فیصلوں کے دوران اپنے مؤقف کا بے لاگ اظہار کرتے رہے۔ 1946ء میں متحدہ ہندوستان کی عارضی حکومت میں انھوں نے وزارتِ مواصلات کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دیگر اکابرین اور راہ نماؤں کے ساتھ مل کر ذمہ داریاں‌ نبھائیں۔

    14 فروری 1958ء کو تحریکِ پاکستان کے اس عظیم راہ نما نے کراچی میں وفات پائی۔ سردار عبدالرّب نشتر قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے مزارات کے نزدیک احاطے میں‌ مدفون ہیں۔

  • تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما چوہدری خلیق الزماں

    تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما چوہدری خلیق الزماں

    بیسویں صدی میں‌ ہندوستان کی ممتاز شخصیات جن میں قائداعظم محمد علی جناح، مولوی فضل الحق، لیاقت علی خان، محمد علی جوہر، شوکت علی، گاندھی، موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو شامل ہیں، کے ساتھ چوہدری خلیق الزماں بھی تحریکِ آزادی اور اس زمانے میں اپنا سیاسی پرچم اٹھائے جدوجہد میں‌ نمایاں رہے۔

    چوہدری خلیق الزماں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ سیاست کی ابتدا انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے کی، مگر بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے اور دمِ آخر تک وابستگی برقرار رہی۔

    تحریکِ آزادی کے اس نام ور راہ نما کا انتقال 18 مئی 1973 کو ہوا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ 15 اگست 1947 کو انھوں نے مسلمانانِ ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے ہندوستانی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور پاکستان کی جانب سے ہندوستان کو آزادی کی مبارک باد دی۔ وہ مشرقی پاکستان کے گورنر بھی رہے اور مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    جدوجہدِ آزادی کے موضوع پر ان کی ایک تصنیف بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔چوہدری خلیق الزماں کراچی میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نشاطُ النسا بیگم: تحریک آزادیِ ہند کی مجاہد

    نشاطُ النسا بیگم: تحریک آزادیِ ہند کی مجاہد

    ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کا ایک دل آویز کردار اور بیسویں صدی کی چند باہمت اور متحرک خواتین میں بیگم حسرت موہانی بھی شامل ہیں۔

    ان کا اصل نام نشاط النسا بیگم تھا، لیکن انھیں بیگم حسرت موہانی کے نام سے پکارا اور یاد کیا گیا۔

    وہ ہندوستان کی ان خواتین میں سے تھیں جن کے شوہروں نے آزادی ہند کی خاطر انگریزوں کے خلاف قلم کی طاقت سے بھی کام لیا اور سرکار مخالف جلسوں اور تحریکوں میں بھی آگے آگے رہے۔ اس دوران مار پیٹ، گرفتاری اور سزا پانے والے اپنے خاوند کا ان عورتوں نے حوصلہ بڑھایا اور انھیں اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ ہر کڑے وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔ بیگم حسرت موہانی نے بھی نہ صرف یہ سب دیکھا، اور جھیلا بلکہ گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھاتی رہیں اور تحریک کے لیے بھی کام کیا۔

    ایک موقع پر جب حسرت موہانی کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا تو بیگم حسرت موہانی نے آزادی کی تحریک میں اپنا نام لکھوا لیا اور شوہر کے شانہ بشانہ تحریک میں حصہ لیا۔ ہندوستا ن کی مجاہد خواتین کی تاریخ لکھی جائے تو بیگم حسرت کا ذکر لازمی کیا جائے گا۔

    نشاط النسا بیگم 1885 میں موہان کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ شادی کے بعد انھوں نے حسرت موہانی کے ساتھ اخبار اور دیگر کام بھی دیکھے اور ہر موقع پر ان کی مدد کی۔ نشاط النسا بیگم آل انڈیا کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ممبر تھیں۔

    بیگم حسرت موہانی کے عزم و استقلال اور ان کی تحریکی سرگرمیوں اور شوہر پرستی نے انھیں دیگر خواتین سے ممتاز کیا اور سبھی ان کی شخصیت اور عمل سے متاثر رہے۔ اس وقت کے جید اور ممتاز راہ نماؤں اور شخصیات نے بیگم حسرت موہانی کی ہمت اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔

    بیگم حسرت موہانی تعلیم نسواں کی بڑی حامی تھیں۔ نامساعد حالات، تحریکی کاموں کا دباؤ اور دیگر ذمہ داریوں‌ کے ساتھ مالی دشورایوں نے انھیں جلد تھکا دیا اور وہ بیمار رہنے لگیں۔ 18 اپریل 1937 کو ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھنے اور اس کے لیے میدانِ عمل میں‌ متحرک نظر آنے والی یہ عظیم خاتون خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

  • حسین شہید سہروردی: شخصیت و خدمات پر ایک نظر

    حسین شہید سہروردی: شخصیت و خدمات پر ایک نظر

    عراق کے شہر سہرورد سے ہجرت کے بعد مغربی بنگال کو اپنا مستقر بنانے والے خاندان کی جن شخصیات نے علم و فنون سے لے کر سیاست کے میدان تک اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا ان میں ایک حسین شہید سہروردی بھی ہیں۔

    ان کا خاندان سلسلۂ تصوّف کے عظیم بزرگ شہاب الدّین سہروردی کے خاندان سے نسبت کی وجہ سے خود کو ‘‘سہروردی’’ کہلواتا تھا۔

    مختصر عرصے کے لیے حسین شہید سہروردی پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے. آج اس مدبّر اور فہیم سیاست داں کی برسی ہے۔ ان کی زندگی اور سیاسی سفر پر چند سطور پیشِ خدمت ہیں۔

    حسین شہید سہروردی کا خاندان علم و فنون کا شیدا اور تعلیم یافتہ گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ حسین شہید سہروردی 1892 میں پیدا ہوئے۔

    ان کا گھرانا بنگال کے مدنا پور میں آباد تھا۔ ان کے والد کا نام زاہد سہروردی تھا جن کو بہت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ کولکتہ، ہائی کورٹ کے جج تھے۔ عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو پر عبور رکھتے تھے۔ والدہ کا نام خجستہ اختر بانو تھا جو ادب سے گہرا شغف رکھتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اُردو زبان کے اوّلین ناول نگاروں میں سے ایک ہیں اور اس زمانے میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ حسین شہید سہروردی کے بڑے بھائی کا نام حسن شاہد سہروردی تھا اور یہ بھی علم و فنون کے شائق اور قابل شخص تھے۔

    اس ماحول کے پروردہ حسین شہید سہروردی نے تقسیم سے قبل سماجی حالات میں بہتری لانے کی کوششیں کیں اور سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا تھا. پاکستان کی تحریکِ آزادی میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ 1956 سے 1957 تک پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے حسین شہید سہروردی کو سیاسی اختلافات اور دباؤ بڑھنے پر یہ منصب چھوڑنا پڑا۔ اس دور میں‌ آئین تشکیل دینے کے حوالے سے بھی حسین شہید سہروردی کو یاد رکھا جائے گا. ان کا انتقال 1963 میں لبنان میں قیام کے دوران ہوا۔

  • برہان وانی کشمیر کی تحریک آزادی کا درخشندہ ستارہ تھے، سردار مسعود خان

    برہان وانی کشمیر کی تحریک آزادی کا درخشندہ ستارہ تھے، سردار مسعود خان

    مری: آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ برہان مظفر وانی شہید کشمیر کی تحریک آزادی کا وہ درخشندہ ستارہ ہے جو کشمیر سمیت دنیا بھر میں آزادی اور حریت کے لیے بر سر پیکار نوجوانوں کے ہیرو اور رول ماڈل بن چکے ہیں۔

    اپنے ایک بیان میں سردار مسعود خان کا کہنا تھا کہ مظفر وانی نے اپنے جان کا نذرانہ پیش کر کے تحریک آزادی کشمیر کو نئے مہمیز اور جہت عطا کی اور کشمیری نوجوانوں کے اندر ایسا جذبہ پیدا کیا کہ آج اُن میں سے ہر ایک برہان مظفر وانی بننا چاہتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں لڑی جانے والی جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور پاکستان کو یہ جنگ اپنانا ہوگی، کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ رہنے کے آپشن کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ دیا ہے اگر کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ رہنا ہوتا تو پھر جنگ کس بات کی اور قربانیاں دینے کی کیا ضرورت ہے۔

    صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ آج بھی مقبوضہ کشمیر کی سڑکوں اور گلیوں میں ہزاروں نوجوان پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اُٹھا کر جب پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں اور اس دوران اپنے سینے پر گولیاں کھا کر اسی پرچم کو کفن بنا کر دفن ہو جاتے ہیں تو یہ دہلی کے حکمرانوں کے لیے واضح اور دو ٹوک پیغام ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ رہنے کے آپشن کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیری اکہتر سال سے جدوجہد کر رہے ہیں، لڑ رہے ہیں اور مر رہے ہیں لیکن انہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ تھک گئے ہیں۔

  • تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کا وقت آ گیا ہے: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کا وقت آ گیا ہے: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    اسلام آباد: وزیرِ اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے مسئلہ کشمیر کو ڈیڑھ کروڑ عوام کی زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم فاروق حیدر نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ڈیڑھ کروڑ عوام کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو دنیا بھر میں اجاگر کیا جائے۔

    وزیرِ اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ پاکستان ہمارا ہم درد اور دنیا میں ہمارا اکلوتا وکیل ہے، دنیا سمجھے کہ پاک بھارت کشیدگی کی بنیاد مسئلہ کشمیر ہے۔

    فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل سہ فریقی مذاکرات کے مطابق ممکن ہے، پاکستان محفوظ تو تحریک آزادی بھی مضبوط ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  مودی حکومت کا مقبوضہ کشمیر کے اخبارات کے خلاف کریک ڈاؤن

    انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں کشمیری قیادت متفقہ لائحہ عمل طے کرے گی، پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کے مفاد میں ہمیں اکٹھے ہونا ہے۔

    یاد رہے کہ مودی حکومت کی ایما پر مقبوضہ کشمیر سے چھپنے والے اخبارات کے خلاف بھی کٹھ پتلی انتظامیہ نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے، ان اخبارات نے وادی میں بھارتی افواج کے مظالم پر خاموش رہنے سے انکار کر دیا تھا۔