Tag: تحریک عدم اعتماد

  • رولنگ صحیح ہے یا نہیں اس کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے کرنی ہے: شاہ محمود

    رولنگ صحیح ہے یا نہیں اس کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے کرنی ہے: شاہ محمود

    اسلام آباد: سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر کی رولنگ صحیح ہے یا نہیں اس کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے کرنی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بدھ کو پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود نے کہا کہ رولنگ درست ہے یا نہیں وہ الگ تفصیل ہے، ڈپٹی اسپیکر نے کہا جو انفارمیشن آئی اس پر تحریک کو ڈس الاؤ کرتا ہوں، اب سپریم کورٹ میں اس پر کارروائی چل رہی ہے۔

    انھوں نے کہا اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ آئین شکنی ہو گئی، پی ٹی آئی کو آئین کی اہمیت کا احساس ہے، آئین کی پاسداری احترام لازم تھا، ہے اور رہے گا، آئین سے ہٹ کر کچھ کرنا ہماری حکمت عملی تھی، ہے، نہ ہوگی۔

    شاہ محمود نے کہا عدم اعتماد پیش کرنااپوزیشن کا حق ہے تسلیم کرتے ہیں، اپوزیشن نے عدم اعتماد پیش کی، پروسس ہوتے ہوئے ووٹنگ کے لیے مقرر ہو گیا، عدم اعتماد پر 3 اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی، لیکن ڈپٹی اسپیکر کے سامنے جب حقائق آئے تو یہ معمولی چیز نہیں تھی، ڈپٹی اسپیکر نے حقائق سامنے آنے پر کہااس کی چھان بین ضروری ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما نے واضح کیا کہ عدم اعتماد سے انکار نہیں اس پر عمل ہوگا، عدم اعتماد منطقی انجام تک پہنچانے میں ڈپٹی اسپیکر نے انکار نہیں کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے بلاوجہ رولنگ نہیں دی، آئینی ذمہ داری سے پہلے قومی سلامتی کے مفاد میں ان ایشوز پر تہہ تک جانا ہوگا، اعلیٰ عدلیہ تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے سکتی ہے۔

    انھوں نے کہا فارن آفس میں جو سفارت کار ہیں پروفیشنل اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں، ان کی ایمانداری پر نہ شبہ تھا اور نہ ہوگا، اپنے سفارت کاروں کو بلاوجہ انڈرمائن نہ کریں۔

    شاہ محمود نے کہا اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سفیر کو عجلت میں امریکا سے ہٹا کر برسلز پوسٹ کر دیا گیا، وہ سفیر منجھے ہوئے سفارت کار اور اپنا ٹنیور مکمل کر چکے تھے، ٹنیور مکمل ہونے کے باعث ان کا تبادلہ ضروری تھا، ہم نے سفیر کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے برسلز تبادلہ کیا۔

  • متحدہ اپوزیشن کا اسپیکر پرویز الٰہی کے خلاف  تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ

    متحدہ اپوزیشن کا اسپیکر پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ

    لاہور : متحدہ اپوزیشن نے اسپیکر پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ اپوزیشن نے اسپیکر پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ کرلیا، لیگی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ 3 بجے کے بعد تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جائے گی۔

    اس سے قبل مسلم لیگ ن نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتمادسپریم کورٹ میں چیلنج کی جائےگی ، ارکان اسمبلی اور عطا تارڑ عدم اعتماد کی تحریک کو چیلنج کریں گے۔

    رہنمان لیگ کا کہنا تھا کہ تھوڑی ہی دیرمیں ہمارےلوگ عدم اعتمادجمع کرانےپہنچ جائیں گے، پنجاب میں گورنرراج نہیں لگ سکتاکیونکہ گورنر موجود ہے۔

    سعد رفیق نے مزید کہا تھا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی لیکن اگریہ کرنا چاہیں توکچھ بھی کرسکتے ہیں۔

  • پنجاب اسمبلی کے مین گیٹ پر خار دار تاریں لگا دی گئیں

    پنجاب اسمبلی کے مین گیٹ پر خار دار تاریں لگا دی گئیں

    لاہور: اپوزیشن کو اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے پنجاب اسمبلی کے مین گیٹ پر خار دار تاریں لگا دی گئیں، خاردار تاریں ویلڈنگ کر کے لگائی گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس کی بھاری نفری پنجاب اسمبلی کے مرکزی دروازے پر تعینات کر دی گئی، دروازے کو خاردار تاریں ویلڈ کر کے بند کر دیا گیا ہے۔

    ن لیگ نے آج 4 بجے اجلاس میں شرکت کا اعلان کر رکھا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے 16 اپریل کی بجائے آج ساڑھے 7 بجے اجلاس طلب کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اسمبلی کا عملہ ڈپٹی اسپیکر کے آرڈر کو ماننے کو تیار نہیں۔

    دوسری طرف پی ٹی آئی نے اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر کو غیر مؤثر کرنے کے لیے ان کے خلاف ہنگامی طور پر تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔

    پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج شام ضرور ہوگا، ڈپٹی اسپیکر ڈٹ گئے

    ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ میں اپنے خلاف عدم اعتماد کو خوش آمدید کہتا ہوں، عدم اعتماد جمع کروانے والوں کا حق بنتا ہے، نوٹیفکیشن ہوگا تو اجلاس کی صدارت کروں گا، اور رولز آف پروسیجر کو جاری رکھوں گا۔

    ادھر شہباز گل نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے آج کے اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان شرکت نہیں کریں گے، بلکہ وہ 16 اپریل کے اجلاس میں شرکت کریں گے، قانونی طور پر اجلاس کا نوٹیفکیشن 16 اپریل کا ہی ہوا ہے۔

    پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج ہوگا یا نہیں؟ غیریقینی صورتحال برقرار

    پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے کہا ہے کہ کسی کو پنجاب اسمبلی یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، ق لیگ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے چھپ رہی ہے، قومی کے بعد پنجاب اسمبلی میں بھی آئین کو یرغمال بنا لیا گیا ہے، اسمبلی اسٹاف ایک سیاسی جماعت کی ذاتی ملازمت سے باز رہے، اور ماورائے آئین اقدامات میں ملوث ملازمین احتساب کے لیے تیار رہیں۔

  • ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع

    ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمدمزاری کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ، تحریک عدم اعتمادپی ٹی آئی رہنماؤں محمودالرشید، احمدخان ،سبطین خان ودیگر کی جانب سے سیکریٹری اسمبلی کے دفتر میں جمع کرائی گئی۔

    تحریک عدم اعتماد کے بعد دوست محمد مزاری پراسمبلی اجلاس بلانے کا اختیار نہیں۔

    اس حوالے سے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2اپریل کو دوست مزاری حمزہ شہباز سے میٹنگ کررہے تھے ، دوست محمد مزاری حمزہ شہباز اور اپوزیشن کےاشارے پر چل رہےہیں۔

    فیاض چوہان کا کہنا تھا کہ ہم نے دوست محمد مزاری کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی، دوست محمد مزاری کے پاس اب اجلاس بلانے کا کوئی اختیار نہیں۔

    خیال رہے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمدمزاری نے پنجاب اسمبلی کا آج اجلاس طلب کیا تھا ، جس کے بعد ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔

    سیکریٹری اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اجلاس کا نوٹی فکیشن16 اپریل کا ہے اور اسے ہی مانا جائے گا، سادہ کاغذ پر اجلاس کبھی نہیں بلایاگیا، اجلاس بلانے کے لیے گزٹ نوٹی فکیشن جاری کرنا پڑتا ہے۔

  • کویتی حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل مستعفی

    کویتی حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل مستعفی

    کویت: کویتی حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل مستعفی ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کویت کی حکومت نے منگل کو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل استعفیٰ دے دیا۔

    سرکاری خبر رساں ایجنسی کونا نے رپورٹ کیا کہ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ سے پہلے، حکومت نے ایک ایسے وقت میں استعفیٰ پیش کیا ہے جب ایک طویل سیاسی تنازع نے خلیجی تیل پیدا کرنے والے ممالک میں مالیاتی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔

    وزیر اعظم شیخ صباح الخالد کی جانب سے حکومت کا استعفے کا خط ولئ عہد الشيخ مشعل الأحمد الجابر الصباح کو موصول ہو گیا ہے، جنھوں نے گزشتہ سال کے اواخر میں حکمران امیر کے فرائض سنبھالے تھے۔

    کویت کے نئے وزیراعظم کی تقرری

    شیخ صباح، حکمران الصباح خاندان کے رکن اور 2019 کے اواخر سے وزیر اعظم ہیں، ان کو کابینہ کے سربراہ کے طور پر مسلسل ایک متحارب مقننہ کا سامنا کرنا پڑا ہے، انھیں حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے مبینہ بدعنوانی سمیت دیگر مسائل پر تابڑ توڑ سوالات کا سامنا ہے۔

    عدم اعتماد کا ووٹ بدھ کو ہونا تھا۔ موجودہ حکومت کی تقرری دسمبر میں عمل میں آئی تھی، یہ منتخب پارلیمنٹ کے ساتھ جاری تعطل کے درمیان 2021 میں تیسری حکومت تھی۔

    امیر کویت نے وزیراعظم اور کابینہ کے استعفے منظور کر لیے

    واضح رہے کہ کویت نے اپنی اسمبلی کو دیگر خلیجی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ اثر و رسوخ دیا ہے، جس میں قانون پاس کرنے اور روکنے، وزرا سے سوال کرنے اور اعلیٰ سرکاری اہل کاروں کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اختیار شامل ہے۔

    کویت میں مستقل سیاسی تنازعات کی وجہ سے اکثر کابینہ میں رد و بدل یا پارلیمنٹ کی تحلیل، ملک میں سرمایہ کاری اور مالیاتی و اقتصادی اصلاحات کو روکتی رہی ہے۔ فروری میں دفاع اور داخلہ کے وزرا، جو کہ حکمران خاندان کے افراد بھی تھے، نے اس بات پر استعفیٰ دے دیا تھا کہ بقول ان کے وزرا سے ‘ظالمانہ’ پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔

  • 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مخدوم علی خان کے دلائل

    8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مخدوم علی خان کے دلائل

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اسپیکر رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران آج منگل کو مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

    مخدوم علی خان نے کہا 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ پر ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کر رہا ہے، سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا عدم اعتماد کو 161 ارکان نے پیش کرنے کی اجازت دی تھی، 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کی اجازت دی، اور مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کر دی گئی، رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، لیکن اکتیس مارچ کو قرار داد پر بحث نہیں کرائی گئی۔

    مخدوم نے کہا 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی، لیکن 3 اپریل کو جو ہوا پوری قوم نے دیکھا، یہ مقدمہ ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا ہے، معاملہ اسمبلی قواعد پر عمل درآمد کا نہیں بلکہ آئین کی خلاف ورزی کا ہے، اکثریت نہ ہونے پر وزیر اعظم کا رہنا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سوال یہ ہے کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے کا اختیار تھا؟ وزیر اعظم اکثریت کھو دے تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں، وکیل ن لیگ نے کہا رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں، آرٹیکل 69 بے ضابطگیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتا، جسٹس منیب نے کہا ووٹنگ پروسیجر سیکنڈ شیڈول میں آتا ہے کیا آرٹیکل 69 کا تحفظ حاصل نہیں؟ وکیل نے کہا پارلیمانی کارروائی میں بے ضابطگی کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے، لیکن اسپیکر کی غیر آئینی رولنگ کو آرٹیکل 69 کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

    سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    انھوں نے کہا کوئی قواعد و ضوابط آئین سے ماورا نہیں ہو سکتے، جسٹس منیب اختر نے کہا ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق 7 دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، کسی وجہ سے ووٹنگ 8 ویں دن ہو تو کیا غیر آئینی ہوگی؟ مخدوم علی خان نے کہا 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ پر ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔

    وکیل نے آئینی تحفظ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی، ججز کنڈکٹ پر بات نہ کرنا آئین اور اسمبلی قواعد کا حصہ ہے، اسمبلی کے رولز آئین پر عمل درآمد کے لیے بنائے گئے ہیں، ججز کنڈکٹ پر بات کرنے والا رکن آرٹیکل 68 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا، آئین کی خلاف ورزی کرنے والے رکن کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

    انھوں نے کہا اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، اسمبلی رولز آئین کے آرٹیکل 95 سے بالاتر نہیں ہو سکتے، ڈپٹی اسپیکر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جسٹس منیب نے کہا آرٹیکل 95 میں صرف عدم اعتماد اور اس پر ووٹنگ کا ذکر ہے، جب کہ عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے۔

    وکیل نے کہا کیا ایسا ممکن ہے کہ اسپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیر اعظم کے خلاف ہو، اور اسپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری سے پہلے وجوہ دیکھی جا سکتی ہیں؟ وکیل نے بتایا تحریک عدم اعتماد کے لیے وجوہ بتانا ضروری نہیں ہے۔

    جسٹس اعجاز نے نکتہ اٹھایا کہ 20 فی صد لوگ قرارداد جمع کرائیں کیا اتنے ہی اسے پیش کرنے کے لیے بھی کافی ہیں، وکیل نے کہا جی نہیں قرارداد پیش کرنے کے لیے اکثریت درکار ہوتی ہے، جسٹس منیب نے استفسار کیا عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کے لیے 20 ارکان کا ہونا ضروری ہے، اگر 20 فی صد منظوری دیں مگر موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پرووٹنگ ضروری ہے، چیف جسٹس نے کہا آئین کو رولز کے ذریعے غیر مؤثر نہیں بنایا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔

    وکیل نے کہا رولنگ آرٹیکل 95 کے منافی ہے، یہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، وزیر اعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا ہے، وکیل نے کہا اسپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے، جسٹس جمال نے استفسار کیا کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟ وکیل نے کہا غیر آئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائیڈ لائن نہیں کر سکتا، اس پر جسٹس جمال نے کہا ہمیں مطمئن کریں کہ رولنگ صرف قواعد کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ آئین کی بھی ہے۔

    مخدوم علی نے کہا آئین فرد واحد کو اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی قرارداد پر ووٹنگ روک دے، عدالت غیر قانونی، غیر آئینی اقدام پر جوڈیشل نظر ثانی کر سکتی ہے، جسٹس منیب نے کہا قومی و صوبائی اسمبلی کے اسپیکرز اپنے ایوان کے ماسٹرز ہیں، چیف جسٹس نے کہا ہم نے اسپیکر کی رولنگ کو دیکھنا ہے کیا انھیں استثنیٰ ہے کہ نہیں، یہ ہماری روایت نہیں کہ ہم ریاست اور فارن پالیسی ترتیب دیں، ہم نے معاملے کو آئینی اور قانونی طور پر دیکھنا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔

  • اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 اپریل کے اجلاس کی صدارت کیوں نہیں کی؟

    اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 اپریل کے اجلاس کی صدارت کیوں نہیں کی؟

    اسلام آباد: اسپیکر کے قریبی حلقے نے اس سوال، کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 اپریل کے اجلاس کی صدارت کیوں نہیں کی؟ یہ جواب دیا ہے کہ اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی تھی جس پر انھوں نے اجلاس کی صدارت نہیں کی۔

    پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر اسد قیصر نے ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی کارروائی بڑھانے کی ہدایت کی تھی، تحریک عدم اعتماد ابھی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی، اس لیے ایوان کے تقدس کی خاطر اسپیکر قومی اسمبلی نے صدارت نہ کی۔

    جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا اسپیکر کو آرٹیکل 5 کے آپشن کو دوران اجلاس زیر غور لانے کا مشورہ دیا گیا؟ تو اسپیکر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ قانونی و آئینی ماہرین آپشنز پر غور کرتے اور مشورے دیتے ہیں، یہ معمول کی بات ہے، اچھنبے کی بات نہیں۔

    سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    ذرائع نے کہا کہ اسپیکر واضح کر چکے تھے کہ اجلاس کو آرٹیکل 5، ضابطہ 37 کے مطابق چلایا جائے گا، اسپیکر قواعد و ضوابط کے تناظر میں اجلاس کی کارروائی بڑھانے کے لیے کمٹڈ رہے ہیں۔

    انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اجلاس سے قبل اسپیکر چیمبر میں مشاورت ہوئی تھی، اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا تھا، اب جب کہ رولنگ، اس سے جڑے معاملات سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں، اس لیے ان پر مزید بات نہیں کی جا سکتی۔

  • سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے، اور اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسپیکر رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کا آج دوسرا دن تھا، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے، پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیے، دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے اچھے اور ٹو دی پوائنٹ دلائل دیے ہیں، ہمیں یہی توقع تھی۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا آئین میں وزیر اعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار درج ہے، وزیر اعظم استعفیٰ دے سکتے ہیں، اکثریت کھو دیں تو عدم اعتماد پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے، جب قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیر اعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتا۔

    رضا ربانی نے کہا درپیش صورت حال میں وزیر اعظم اسمبلی نہیں توڑ سکتے تھے، عدالت ڈپلومیٹک کیبل کو طلب کرے، عدالت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس بھی طلب کر کے حقائق جانچے، اس طرح اسمبلی توڑنے کی کارروائی ابتدا سے ہی کالعدم ہے۔

    رضا ربانی نے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کرے۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عدالت نے رولنگ درست قرار دی تو آئندہ تحریک عدم اعتماد نہیں آ سکے گی، آئین کی خلاف ورزی ہو تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے، آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، اسپیکر کارروائی چلانے کے لیے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا، لیکن آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں تعلق نہیں بنتا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کر کے ارکان پر اطلاق کر دیا، اس لیے اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95 (2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا عدم اعتماد پر ووٹنگ روکی نہیں جا سکتی تھی، عدم اعتماد مسترد کر کے ووٹنگ نہ کرا کر رولز 37 کی خلاف ورزی کی گئی، طریقہ کار کی خلاف ورزی پر اسمبلی کارروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی، حالات دیکھتے ہوئے صدر کو سمری واپس بھیج کر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا تھا، پارلیمانی نظام حکومت میں اسپیکر اکثریتی جماعت کا ہوتا ہے، رولز اسپیکر کو عدم اعتماد کی قرارداد ختم کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے، تحریک کے بعد اس پر ووٹنگ مکمل ہونے تک اجلاس ملتوی نہیں ہو سکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نے اچھے اور ٹو دی پوائنٹ دلائل دیئے ہمیں یہی توقع تھی، رضا ربانی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا، جو متحدہ اپوزیشن کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    آرٹیکل 6

    رضا ربانی نے پیپلز پارٹی کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا تو آرٹیکل 6 کی بات کر دی، انھوں نے کہا چیف الیکشن کمشنر نے کہا 90 دن میں الیکشن کے لیے تیار نہیں، ان حالات میں ضروری ہے کہ آج ہی شارٹ آرڈر دے دیں۔

    رضا ربانی نے کہا یہ جو ہوا ہے یہ سویلین کُو (بغاوت) ہے، پہلی بد نیتی یہ کہ 7 مارچ کو یہ خبر سامنے آئی، خبر سامنےآنے کے باوجود سینئر آفیشلز کو پروٹوکول دیتے رہے، دوسری بد نیتی یہ ہے کہ اجلاس بلانے میں ٹال مٹول کی گئی، 3 مارچ کو اجلاس ووٹنگ کے لیے بلایا گیا، لیکن وزیر قانون نے قرار داد پیش کی اور اجلاس ملتوی کر دیا گیا، یہ ایک اور بد نیتی تھی۔

    رضا ربانی نے کہا 28 مارچ کو عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی، ڈپٹی اسپیکر نے ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا، ڈپٹی اسپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا، ڈپٹی اسپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی انکوائری رپورٹ، عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے، رضا ربانی نے کہا سسٹم نے از خود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیر آئینی ہے، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد مسترد کیے جانے میں بدنیتی پر مبنی 10 اقدامات کی نشان دہی کی، انھوں نے کہا اسپیکر قومی اسمبلی نے چیمبر میں رولنگ لکھ کر رکھ لی تھی، وفاقی وزیر نے بغیر کسی شہادت یا دستاویزی سپورٹ قرارداد پیش کی، اس طرح تحریک مسترد کرنے کا سارا عمل ابتدا سے ہی کالعدم قرار دیا جانا چاہیے، وزیر اعظم نے اسمبلی توڑنے کی سمری بھیجی جسے صدر نے سوچے سمجھے بغیر منظور کر لیا، عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیر اعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے، صدر مملکت از خود بھی وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہ سکتے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیر اعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے۔

    افشاں غضنفر کی انٹری

    دوران سماعت افشاں غضنفر ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ اس کیس میں انھیں بھی فریق بنایا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم یہاں فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے، افشاں غضنفر نے کہا سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بنا اس کو بلایا جائے۔

    افشاں نے کہا اسد مجید جس نے لیٹر لکھا اس کو بلائیں، چیف جسٹس نے کہا بیٹھ جائیں ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننا ہے، دوران سماعت ذوالفقار بھٹہ نے کیس کی سماعت سے پہلے لیٹر گیٹ کی تحقیقات کی استدعا کی، جس پر عدالت نے ذوالفقار بھٹہ کو بھی روسٹرم چھوڑنے کی ہدایت کر دی۔

  • تحریک عدم اعتماد اچانک مسترد ہونے کے بعد ٹویٹر پر سرپرائز کا ٹرینڈ

    تحریک عدم اعتماد اچانک مسترد ہونے کے بعد ٹویٹر پر سرپرائز کا ٹرینڈ

    اسلام آباد: ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے مسترد ہونے کے بعد ٹوئٹر پر ’سرپرائز‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد اچانک مسترد ہونے کے بعد ٹویٹر پر #سرپرائز کا ٹرینڈ ٹاپ پر چل رہا ہے۔

    اس سے قبل ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کے لیے ایک ’سرپرائز‘ لے کر آ رہی ہے۔

    حکومتی وزرا کہہ رہے تھے انھوں نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے، اپوزیشن کو کچھ دن ڈھول بجانے دیں، ہم انھیں سرپرائز دیں گے۔

    اب اس پر ٹوئٹر کے صارفین طرح طرح کے ٹویٹس کر رہے ہیں۔

    ایک ویڈیو بھی تیزی سے وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا گیا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی اجلاس کے بعد اپنی نشستوں پر صدمے کی حالت میں بیٹھے ہیں۔

    واضح رہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف غیر ملکی سازش سے متعلق ہے، فیصلے کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

  • ‘نئے انتخابات آئندہ 90 روز میں ہوں گے’

    ‘نئے انتخابات آئندہ 90 روز میں ہوں گے’

    اسلام آباد: وفاقی وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا ہے کہ نئے انتخابات آئندہ 90 روز میں ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد مسترد کیے جانے کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم کی تجویز پر اسمبلیاں تحلیل کر دی ہیں۔

    وزیر مملکت نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ نئے انتخابات آئندہ 90 روز میں ہوں گے، وزیر اعظم نے بھی خطاب میں قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کی ہدایت کر دی ہے۔

    وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ کوئی الیکشن سے فرار اختیار کرے تو اسے سیاسی بھگوڑا کہا جائے گا، ادھر ادھر کی بونگیاں نہ ماریں الیکشن کی تیاری کریں۔