Tag: تحریک عدم اعتماد

  • تحریک عدم اعتماد پرکس کاساتھ دیں ؟ مسلم لیگ ق آج ایم کیوایم اور بی اے پی سے ملاقات کرے گی

    تحریک عدم اعتماد پرکس کاساتھ دیں ؟ مسلم لیگ ق آج ایم کیوایم اور بی اے پی سے ملاقات کرے گی

    اسلام آباد : مسلم لیگ ق آج ایم کیوایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ملاقات کرے گی ، جس میں حکومتی اتحادی مستقبل کا لائحہ عمل وضع کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر حکومت اور اتحادی جماعتوں کی اہم ملاقاتیں آج ہوں گی ، مسلم لیگ ق،ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ملاقات کرے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ اور ایم کیوایم کے رہنماؤں کی ملاقات آج ایک بجے ہوگی، ق لیگ کی طرف سے پرویز الہٰی، طارق بشیر چیمہ ودیگر رہنما ملاقات میں موجود ہوں گے۔

    ملاقات میں ن لیگ، پی پی رہنماؤں سے ملاقات سے بھی آگاہ کیا جائے گا اور سیاسی صورتحال،تحریک عدم اعتماد پربھی تبادلہ خیال ہوگا۔

    ق لیگ ایم کیو ایم سے ملاقات کے بعد 3 بجے بی اے پی رہنماؤں سے ملاقات کرے گی ، ملاقاتوں میں حکومتی اتحادی مستقبل کا لائحہ عمل وضع کیا جائے گا۔

    گذشتہ روز مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تھی، دونوں جماعتوں میں آئندہ انتخابات میں نشستوں پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) نے قومی اسمبلی کی 15 نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کر دیا جب کہ مسلم لیگ (ن) اتنی زیادہ نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ نہیں چاہتی۔

    دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان اورن لیگی وفد میں بھی ملاقات ہوئی ، جس میں ن لیگ نے ایم کیوایم پاکستان کے تمام تحفظات دورکرنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔

  • میں نہیں سمجھتا کہ ایم کیو ایم کا فیصلہ کل تک ہو جائے گا: امین الحق

    میں نہیں سمجھتا کہ ایم کیو ایم کا فیصلہ کل تک ہو جائے گا: امین الحق

    اسلام آباد: وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی سید امین الحق نے کہا ہے کہ انھیں نہیں لگتا ہے کہ ان کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کل تک حکومت کے حق میں یا حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کر لے گی۔

    پی ٹی آئی جلسے کے حوالے سے اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے امین الحق نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ ایم کیو ایم کا فیصلہ کل تک ہو جائے گا، ایم کیو ایم مشاورت کر رہی ہے لیکن ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔

    ان کا کہنا تھا ایم کیو ایم کی تمام لیڈر شپ اسلام آباد میں ہے جہاں کچھ دیر میں ایک اجلاس ہوگا، تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ایم کیو ایم کو مشاورت مکمل کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

    وفاقی وزیر نے کہا ایم کیو ایم جمہوری طریقہ کار کے مطابق فیصلہ کرتی ہے، ایم کیو ایم صرف پاکستان اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے، ڈائیلاگ پر عمل پیرا ہیں، آپس میں اور دیگر لوگوں سے بھی رابطے میں ہیں۔

    فریقین کو واپس لانے کا وقت گزر گیا: رہنما بی اے پی خالد مگسی

    انھوں نے مزید کہا ہم مشاورت بھی کرتے ہیں اور رابطہ بھی ہوتا ہے، ہر پارٹی اپنے مفادات کے مطابق فیصلہ کرتی ہے، تمام سیاسی جماعتیں الگ الگ ہیں اور رہنما آپس میں مشاورت کرتے رہتے ہیں، جب کوئی فیصلہ ہوگا تو ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کے ساتھ چلے گی، ایم کیو ایم عوامی پارٹی ہے، مشاورت کا عمل آج بھی جاری ہے۔

    امین الحق کا کہنا تھا کہ ہم نے 2018 کے الیکشن میں دیکھا کہ کراچی کے ساتھ کیا ہوا، 300 سے 3000 ووٹ کے مارجن سے ایم کیو ایم کو ہرایا گیا، اب ایم کیو ایم مڈ ٹرم الیکشن کے لیے بھی تیار ہے، اگرچہ بطور سیاسی ورکر میرا مؤقف ہے حکومتی جمہوری عمل مکمل ہونا چاہیے۔

  • فریقین کو واپس لانے کا وقت گزر گیا: رہنما بی اے پی خالد مگسی

    فریقین کو واپس لانے کا وقت گزر گیا: رہنما بی اے پی خالد مگسی

    اسلام آباد: بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما خالد مگسی نے حکومتی رہنماؤں کے دعوؤں کے جواب میں کہا ہے کہ فریقین کو واپس لانے کا وقت گزر گیا ہے، جانے والوں کو پی ٹی آئی کے رویے اور الفاظ نے دور کیا ہے۔

    پی ٹی آئی جلسے کے حوالے سے اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے بی اے پی رہنما خالد مگسی نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر جلسے جلوسوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑائی کو باہر لے کر آ گئے ہیں، جس سے عوام کو تکلیف ہو رہی ہے، یہ میدان کی لڑائی نہیں بلکہ یہاں پر نمبر گیم ہے۔

    انھوں نے کہا ساڑھے تین سال ہم نے تقریباً اپوزیشن میں گزارے ہیں، ہمیں پی ٹی آئی کے رویے اور الفاظ نے دور کیا ہے، مزید وقت اپوزیشن میں نہیں گزارنا چاہتے۔

    شاہ زین بگٹی نے وفاقی کابینہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا

    خالد مگسی کا کہنا تھا حتمی وقت آ گیا ہے، خان صاحب نے ڈرا دیا ہے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا، اس وقت بھی اپنے الائنس کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، ہم نے اپنا نمبر پورا کرنا ہے جس کے لیے ورک آؤٹ کر رہے ہیں، ہم ق لیگ اور ایم کیو ایم سے رابطے میں ہیں۔

    بی اے پی رہنما نے کہا کل 4 بجے سیشن شروع ہوگا اور فیصلہ سامنے آ جائے گا، کل شام سے ایسی خبریں دیں گے کہ آپ کے پاس نیوز ہی نیوز ہوں گی، بولڈ آؤٹ کس کو کریں گے اس لیے تھوڑا مزید انتظار کریں۔

  • آصف زرداری کا  تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج  کا اعلان

    آصف زرداری کا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کا اعلان

    اسلام آباد : سابق صدر آصف زرداری نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کرنے کا اعلان کردیا اور کہا کامیابی کا 100 فیصد یقین ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر آصف زرداری پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے ، اس موقع پر آصف زرداری نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا
    تحریک عدم اعتماد پیش کرنےکی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کریں گے۔

    عدم اعتماد کی کامیابی کے حوالے سے سوال پر سابق صدر کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا 100فیصدیقین ہے ، انشااللہ کامیاب ہوں گے 100فیصد پراعتماد ہیں۔

    عدم اعتماد کی ںاکامی کے سوال پر انھوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو آپ کیساتھ ملکر ہنگامہ کریں گے۔

    صحافی نے سوال کیا کہ غیر جمہوری قوتیں مذاکرات کریں گی تو آپ کیا کریں گے، جس پر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ اتنا شوق ہے کسی کو توآئے خود سنبھال لے۔

  • ‘تحریک عدم اعتماد کے روز اپوزیشن کو بڑا سرپرائز ملے گا’

    ‘تحریک عدم اعتماد کے روز اپوزیشن کو بڑا سرپرائز ملے گا’

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے درمیان اتفاق ہوا کہ تحریک عدم اعتماد کے روز اپوزیشن کو بڑا سرپرائز ملے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے وزیر داخلہ شیخ رشید کی ملاقات ہوئی ، ملاقات میںً سیاسی امور،امن اورتحریک عدم اعتمادکے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

    دونوں رہنماؤں کی اپوزیشن کی سیاسی انارکی پھیلانےکی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے اتفاق کیا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کےروز اپوزیشن کوبڑا سرپرائز ملے گا اور 27 مارچ کو اسلام آباد میں عوام کا سمندر ہوگا۔

    عثمان بزدار نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہوں، میر ا جینا مرنا اپنے عوام کے ساتھ ہے۔

    کامیاب اوآئی سی اجلاس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے وزیراعظم، شیخ رشید اور دیگر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا عوام کی جان ومال کےلیےتمام ضروری اقدامات کیے ہیں، قانون کی عملداری کو یقینی بنایاگیا ہے۔

    وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار وزیراعظم عمران خان کے فرنٹ لائن سولجر ہیں، اپوزیشن اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنس چکی ہے۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اللہ کے فضل سےامن وعامہ کی صورتحال اطمینان بخش ہے، قانون ہاتھ میں لینےکی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی، ن لیگ لانگ مارچ کا شیڈول فراہم کرے۔

  • سپریم کورٹ بار نے تحریک عدم اعتماد میں ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دے دیا

    سپریم کورٹ بار نے تحریک عدم اعتماد میں ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دے دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ بار نے تحریک عدم اعتماد میں ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دے دیا اور کہا آرٹیکل63 کے تحت کسی ایم این اے کو ووٹ سے پہلے نہیں روکا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار کونسل نے صدارتی ریفرنس پر تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا، جس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل95 کے تحت ووٹ ڈالنا ایم این اے کا انفرادی حق ہے ، ووٹ کسی سیاسی جماعت کا حق نہیں۔

    سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جاسکتا، عوام منتخب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت چلاتے ہیں۔

    تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل63 کے تحت کسی ایم این اے کو ووٹ سے پہلے نہیں روکا جاسکتا اور آرٹیکل 95 کے تحت ڈالا گیا ہر ووٹ گنتی میں شمار ہوتا ہے۔

    سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ہررکن قومی اسمبلی اپنےووٹ کاحق استعمال کرنےمیں خودمختار ہے،آرٹیکل63اے میں پارٹی ہدایات کیخلاف ووٹ پرکوئی نااہلی نہیں۔

    خیال رہے سپریم کورٹ میں آرٹیکل63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت آج ہوگی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجربنچ سماعت کرے گا۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے تھے۔

  • ایم کیو ایم اور فضل الرحمان کے درمیان ملاقات کا اندرونی احوال

    ایم کیو ایم اور فضل الرحمان کے درمیان ملاقات کا اندرونی احوال

    کراچی: حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے ایک بار پھر اپوزیشن کو اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ نہیں کیا، اس سلسلے میں ایم کیو ایم اور پی ڈی ایم سربراہ فضل الرحمان کے درمیان ملاقات کا اندرونی احوال سامنے آ گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے ایم کیو ایم سے تحریک عدم اعتماد پر ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کا ساتھ دینے کی درخواست کی، تاہم جواب ملا کہ مشاورتی اور مذاکراتی عمل جاری ہے، دو سے تین دن میں حتمی فیصلہ کر لیں گے۔

    ذرائع ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ خالد مقبول نے ملاقات میں کہا کہ جتنا ایم کیو ایم نے بھگتا اور برداشت کیا ہے کسی نے اپوزیشن جماعت نے بھی نہیں کیا، ہمارے لوگ لاپتا کیے گئے، آفس بند کیے گئے، پابندیاں لگائی گئیں۔

    خالد مقبول نے کہا ہمارے زیادہ تر نکات صوبے سے متعلق ہیں جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، ایم کیو ایم کے نکات پر عمل درآمد تو شروع کیا جائے، کم از کم سپریم کورٹ کے بلدیاتی ایکٹ کے حوالے سے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔

    مولانا کا کہنا تھا کہ سیاست میں راستے کھلے رکھنے چاہئیں، ہمیں مل کر لمبے عرصے کے لیے ساتھ چلنا ہے، تلخیاں کم کرنے کے لیے ماضی کو بھلانا اور آگے کی طرف یقین کے ساتھ چلنا ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ باقی اتحادی جماعتیں بھی ایم کیو ایم کے فیصلے کے انتظار میں ہیں، ایم کیو ایم فیصلہ کرے تو باقی اتحادی بھی فیصلہ کر کے عدم اعتماد کے اس معاملے کو یک طرفہ کر دیں گے۔

    بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمان نے کہا شاید ایم کیوایم کو اعلان کرنے میں ایک دو دن لگ جائیں۔ خالد مقبول نے کہا آپ خوش نصیب ہیں اپوزیشن کو ان حالات کا سامنا نہیں جس کا ہمیں ہے، قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں، آپ کی وجہ سے حوصلہ ملا ہے۔

    خالد مقبول کا کہنا تھا کہ قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے ہمارے پاس سیاسی اسپیس نہیں چھوڑا گیا، حکومت میں ہونے کے باوجود 100 سے زائد کارکن لاپتا ہیں، جس جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہ پہنچیں اس کا شوق ہمیں بھی نہیں ہونا چاہیے۔

    فضل الرحمان نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا یہ عدم اعتماد کی تحریک کو باہر کے مہمانوں کے ذریعے کاؤنٹر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم انھیں حکومت کا نہیں قوم اور پاکستان کے مہمان سمجھتے ہیں، 25 مارچ کی شام کو قافلوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی ہدایت کی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کون سا بد بخت شہری ہے جو عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

  • وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک میں مضبوط جمہوریت کے لیے مستعد اور فعال اپوزیشن ضروری ہوتی ہے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے اس پر عوامی فلاح و بہبود کے کاموں اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپوزیشن اور حکومت کا کردار کبھی دو انتہاؤں پر ہوتا ہے تو کبھی ایسا کہ لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کسی اپوزیشن کا وجود ہے۔ یہاں 90 کی دہائی اگر سیاسی رسہ کشی میں گزری تو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ اپوزیشن کے بارے میں یہی تاثر قائم رہا کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن ہے اور اس تاثر کو خود اپوزیشن نے اپنے اقدامات سے تقویت دی۔

    پاکستان میں‌ اپوزیشن کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ ایک خاص وقت پر اشارہ پاتے ہی سڑکوں پر نکل آتی ہے اور حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کو عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات سے جوڑتی ہے۔

    ہمارے بلاگ کے عنوان سے واضح ہے ہم اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے نتائج پر نہیں بلکہ اس کی ٹائمنگ اور ان حالات پر بات کریں گے جن میں اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے پر اتفاق کیا۔

    گزشتہ سال اپریل میں جب حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو حکومتی حلقوں نے سکون کا سانس لیا تھا وجہ صاف تھی کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اور اپنی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ کئی بڑے جلسے بھی کیے تھے جس نے حکم راں جماعت کو دباؤ میں‌ لے لیا تھا، لیکن جب ذاتی مفاد کے لیے ایک بڑی ملکی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے دوسری بڑی پارٹی ن لیگ کو بائی پاس کر کے یوسف رضا گیلانی کو حکومت کی مدد سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوایا تو گویا پی ڈی ایم میں انتشار پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں پی پی پی اور اے این پی کو اس اتحاد سے نکلنا پڑا اور پی ڈی ایم عملاً ٹوٹ گئی۔ کیوں کہ پی ڈی ایم بنانے کے فیصلے میں بھی پی پی پی پیش پیش تھی اور 20 ستمبر 2020 کو بلاول بھٹو کی میزبانی میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں اس کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    بہرحال پی پی پی کے اس اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بعد پی ڈی ایم میں شریک تمام جماعتیں جو پہلے حکومت کے خلاف صف آرا تھیں، ایسا لگنے لگا کہ ان کا ہدف اب حکومت نہیں رہی، خاص طور پر ن لیگ اور پی پی پی نے تو ایک دوسرے کو نشانے پر رکھ لیا اور وہ گولہ باری ہوئی کہ حکومتی ایوانوں میں تو شادیانے بج گئے۔ اس دوران کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے پی پی اور ن لیگ قیادت کے ساتھ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کے خلاف بیانات داغ دیتے لیکن مجموعی طور پر اپوزیشن آپس ہی میں گتھم گتھا نظر آئی جس کا حکومتی جماعت نے کئی بار فائدہ بھی اٹھایا۔

    قصہ مختصر اپریل میں پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد حکومتی حلقوں میں بے چینی ختم ہوگئی اور ملکی فضا میں جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی وہ صرف اپوزیشن کیمپ تک ہی محدود رہی۔

    اپوزیشن کی باہمی ’’تُو تُو مَیں میں‘‘ جاری تھی کہ اسی دوران 16 ستمبر 2021 کو عمران خان اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ملاقات ہوتی ہے۔ روسی صدر کی طرف سے دعوت کو عمران خان قبول کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے بہت اہم ہے۔ وزیرِاعظم کسی بھی صورت اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں۔ یہ تاریخی دورہ فروری 2022 کے اواخر میں طے پاتا ہے اور دونوں طرف گرم جوشی نظر آتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے دورے کا وقت قریب آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست میں اچانک بھونچال آگیا ہے، ایک دوسرے کی مخالفت میں‌ آگے سے آگے بڑھ جانے والی پارٹیاں توقع کے بَرخلاف ایک دوسرے کے لیے محبت سے بانہیں پھیلا لیتی ہیں اور ایک دوسرے کے ہاں سیاسی آنیاں جانیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی ماحول میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیتے ہیں اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھرپور رابطوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

    بلاول بھٹو کے اس اعلان کے بعد پی پی پی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری جو کہ کافی عرصہ سے صاحب فراش ہونے کے ساتھ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں اچانک تندرست ہوکر سیاسی میدان میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے مفاہمتی بلے سے ایک اور اننگ کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جس بات پر پی ڈی ایم میں پہلی دراڑ پڑی تھی یعنی گزشتہ سال پی پی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی تجویز کو ن لیگ نے سختی سے رد کردیا تھا اب چند ملاقاتوں کے بعد ن لیگ پی پی کے اس فارمولے پر من وعن راضی ہوجاتی ہے اور پہلے اس تجویز کے شدید مخالف نواز شریف اس کی منظوری بھی دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ تماشا پوری قوم گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے دیکھ رہی ہے۔

    متحدہ اپوزیشن کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے اور عین دورہ روس سے چند روز قبل یہ سرگرمیاں اتنی عروج پر پہنچتی ہیں کہ عوام بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیا ہوگیا کہ چند ماہ قبل ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے اب ایک دوسرے کے دست و بازو بن رہے ہیں۔ وہ تماشا لگتا ہے کہ کبھی اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ روس کے دوران تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے تو مارچ کے آخری ہفتے میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا اعلان ہوتا ہے۔ یہاں بتاتے چلیں کہ 22 اور 23 مارچ تک اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونا ہے۔

    اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف اپنی تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے نمبرز پورے ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ بہرحال عمران خان دورہ روس مکمل کرکے آجاتے ہیں اس کے بعد تو گویا سیاسی پیالی میں وہ طوفان برپا ہونا شروع ہوتا ہے کہ عوام کو لگتا ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اب گئی کہ تب گئی۔ اس بلاگ کی اشاعت تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی نے جمعہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ 25 مارچ ویسے ہی عمران خان کے لیے تاریخی دن ہے کہ 30 سال قبل اسی روز پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنا تھا اور اس وقت کے کپتان عمران خان نے عالمی کرکٹ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھی۔ اس بار 25 مارچ کو عمران خان کے ہاتھوں میں کیا آتا ہے یہ تو آنے والا 25 مارچ ہی بتائے گا۔

    جیسا کہ ہم نے بلاگ کے آغاز میں تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ پر بات کی تھی تو ذہن کے دریچے کھولنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کچھ اوراق کھنگالنے پڑیں گے۔

    قیام پاکستان کے تقریباً پونے دو سال بعد 8 جون 1949 کو ایران میں پاکستانی اور روسی سفارتکاروں کے ذریعے پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے دورہ روس کی دعوت دی جاتی ہے جس کے بعد سفارتی ایوانوں میں جیسے بھونچال آجاتا ہے۔

    اس حوالے سے عائشہ جلال اپنی کتاب ”پاکستان اسٹیٹ آف مارشل رول” میں لکھتی ہیں کہ امریکا کی حمایت یافتہ مضبوط لابی جس کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد کر رہے تھے وزیراعظم کو دورہ ماسکو سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو یہ دھمکی بھی دی کہ حکومت کرو یا گھر جاؤ۔ اسی طرح ایک اور مصنف اختر بلوچ نے اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی انکشاف کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ گریفٹی سمتھ نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو دھمکی دی تھی کہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اگر ماسکو گئے تو پاکستان برطانیہ اور امریکا سے دشمنی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

    اسی انداز فکر کی تائید ایک ممتاز اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی اس خبر سے بھی ہوتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس کی خبر شہ سرخی میں شائع ہوئی اور خبر میں بتایا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان دولت مشترکہ ممالک میں سے روس کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہوں گے لیکن فیوڈلز پہ مشتمل امریکی نواز وزرا ڈر گئے اور دورہ کینسل ہو گیا۔ دورے کی تنسیخ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن موڑ تھا۔

    پاکستانی خارجہ پالیسی پر ابتدائی کتابوں میں سے ایک ’’پاکستانز فارن پالیسی‘‘ کے مصنف مشتاق احمد لکھتے ہیں وزیراعظم کا ماسکو نہ جانا ایک بھیانک غلطی تھی کیونکہ اس دورے کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف ایک متوازن خارجہ پالیسی پر کاربند ہونے کا موقع ملتا بلکہ عالمی قوتوں کی طرف سے پذیرائی اور حمایت بھی ملتی۔

    دونوں ادوار میں دورۂ روس کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہم نے قارئین کے سامنے رکھ دی ہے۔ آپ اس کا موازنہ کرتے ہوئے سوچیے کہ جو کچھ آج کل وطن عزیز پاکستان میں ہورہا ہے کہیں یہ سب کسی کے اشارے پر تو نہیں‌ ہو رہا؟؟؟

    یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

  • ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ریفرنس کا ڈرافٹ عمران خان کو موصول

    ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ریفرنس کا ڈرافٹ عمران خان کو موصول

    اسلام آباد: ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ریفرنس کا ڈرافٹ عمران خان کو موصول ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بابر اعوان کی ہدایت پر ہارس ٹریڈنگ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سمری وزارت پارلیمانی امور نے وزیر اعظم کو ارسال کی تھی، جو موصول ہو گئی۔

    ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرنے سے قبل اس کی کابینہ سے منظوری لی جائے گی، کابینہ ڈویژن ریفرنس کی منظوری کے لیے سرکولیشن سمری وزرا کو ارسال کرے گا۔

    ریفرنس کا مسودہ منظوری کے لیے آج یا کل صبح وفاقی کابینہ کو بھیجا جائے گا، اور کل ہی صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کر دیا جائے گا۔

    ریفرنس میں منحرف ارکان کے پارٹی مخالفت میں ووٹ ڈالنے پر رائے لی جائے گی، سپریم کورٹ سے رائے لی جائے گی کہ کیا ارکان پر آرٹیکل 63 اور 62 لاگو ہو سکتا ہے؟

    سپریم کورٹ سے پوچھا جائے گا کیا ہارس ٹریڈنگ پر ارکان تا حیات نا اہل ہو سکتے ہیں؟

  • تحریک عدم اعتماد :  اپوزیشن کا حکومت کیخلاف پلان ”بی” بھی سامنے آگیا

    تحریک عدم اعتماد : اپوزیشن کا حکومت کیخلاف پلان ”بی” بھی سامنے آگیا

    اسلام آباد : اپوزیشن کا حکومت کیخلاف پلان ”بی” بھی سامنے آگیا ، پلان بی میں وزیراعظم پر اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے دباؤ بڑھایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے ساتھ پلان بی بھی تیارکررکھاہے ،‌ذرائع کا کہنا ہے کہ پلان بی میں ناکامی اور نتائج کے حصول میں تاخیر پر پلان سی تشکیل پائے گا۔

    وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانا پلان اے ہے، اتحادی جماعتوں،منحرف ارکان سے رابطے پلان اے کا حصہ تھے، تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کی صورت پلان بی پر عمل کیا جائے گا۔

    ذرائع نے بتایا تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے پر پلان بی پر فورا عملدرآمد ہو گا، پلان بی میں منحرف ارکان اسمبلی کے استعفوں کا آپشن بھی موجود ہے جبکہ وزیراعظم سےاعتماد کاووٹ لینے کا قانون وآئینی طریقہ کار کے مطابق مطالبہ کیا جائے گا اور اس حوالے سے صدر مملکت، اسپیکر اسمبلی کو تحریری طور پر معاملے پر آگاہ کیا جائے گا۔

    خیال رہے اپوزیشن کوعدم اعتمادمیں کامیابی کیلئے172ارکان کی حمایت اور وزیراعظم کو بھی اعتماد کاووٹ لینے کے لئے 172ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔