Tag: تحفظ

  • مچھروں سے بچنے کے طریقے

    مچھروں سے بچنے کے طریقے

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملیریا اور ڈینگی عام امراض بنتے جارہے ہیں جو بعض اوقات ہلاکتوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔ طبی و سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مچھروں کی افزائش روکی جائے۔

    مچھروں کے سیزن میں ان سے بچنے کے لیے سخت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ خاص طور پر اگر گھر میں چھوٹے بچے موجود ہیں تو انہیں مچھروں سے بچانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سردیوں میں ڈینگی وائرس سے بچیں

    یہاں ہم آپ کو ایسے ہی کچھ طریقے بتارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ خود کو اور اپنے اہل خانہ کو مچھروں کے کاٹے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔


    ہلکے رنگوں کا استعمال

    گہرے یا سیاہ رنگ کے کپڑے مچھروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلکے رنگ مچھروں کو تذبذب میں مبتلا کرتے ہیں کہ آیا یہ ان کا آسان شکار ثابت ہوسکے گا یا نہیں، وہ ہلکے رنگ کی طرف جھپٹنے سے گریز کرتے ہیں۔


    جڑی بوٹیوں کا تیل

    مختلف جڑی بوٹیوں سے کشید کیا ہوا تیل مچھروں کو دور بھگانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ان میں پودینہ، لیونڈر، یوکلپٹس، لیمن گراس وغیرہ کا تیل شامل ہے۔ ان اجزا کو ملا کر بنایا جانے والا تیل بھی یکساں نتائج دے گا۔


    لمبے آستین پہننا

    مچھر کھلے بازوؤں کو سب سے پہلے نشانہ بناتے ہیں۔ اگر آپ ان کے کاٹے سے بچنا چاہتے ہیں تو لمبی آستینوں کا استعمال کریں۔


    کھڑے پانی سے حفاظت

    اپنے گھر میں، یا گھر کے آس پاس کھڑے پانی سے پہلی فرصت میں چھٹکارہ حاصل کریں۔ یہ مچھروں کی افزائش کا سب سے موزوں مقام ہے۔ گھر میں ذخیرہ کیے گئے پانی کو ڈھانپ کر رکھیں۔


    باہر نکلنے سے گریز

    مچھروں کے سیزن میں اندھیرا ہونے کے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں۔ یہ وقت مچھروں کے حملے کا ہوتا ہے۔ گھر کے اند رہیں اور گھر میں جالی دار دروازوں اور کھڑکیوں کا اضافہ کریں۔


    ہوا کی آمد و رفت میں اضافہ

    گھر کو ہوا دار بنائیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت میں آسانی ہو۔ دن کے وقت کھڑکیاں کھلی رکھیں، پردے ہٹا دیں، تاکہ دھوپ اندر آسکے۔ بند جگہوں پر مچھر گھس آئیں تو انہیں باہر نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔


     

  • پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول: پاکستان کتنا کامیاب ہے؟

    پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول: پاکستان کتنا کامیاب ہے؟

    آج اقوام متحدہ کا دن منایا جارہا ہے۔ آج سے 71 سال قبل آج ہی کے دن اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا منشور نافذ العمل کیا گیا۔

    رواں برس یہ دن پائیدار ترقیاتی اہداف کے نام کیا گیا ہے۔ نئی صدی کے آغاز میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی۔

    یہ مدت ختم ہونے کے بعد گزشتہ برس سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔ اب یہ تمام شعبوں اور اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    ان اہداف کو انگریزی حرف تہجی کے 5 ’پیز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں آسانی ہو۔ یہ ’پیز‘ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک پر مشتمل ہیں۔

    اس میں کل 17 اہداف شامل ہیں جن میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے۔ دیگر اہداف یہ ہیں۔

    بھوک کا خاتمہ

    بہتر صحت

    معیاری تعلیم

    صنفی برابری

    پینے اور صفائی کے لیے پانی کی فراہمی

    قابل برداشت اور صاف توانائی کے ذرائع

    باعزت روزگار اور معاشی ترقی

    صنعتوں، ایجادات اور انفراسٹرکچر کا فروغ اور قیام

    ہر قسم کے امتیاز کا خاتمہ

    sdg
    پائیدار شہری ترقی

    اشیا کا ذمہ دارانہ استعمال

    موسمیاتی (بہتری کے لیے کیا جانے والا) عمل

    آبی حیات کا تحفظ

    زمین پر پائی جانے والی حیات (درخت، جانور، پرندے) کا تحفظ

    امن، انصاف اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اقدامات

    اہداف کی تکمیل کے لیے عالمی تعاون

    آج کے دن کا مقصد عام لوگوں میں ان تمام اہداف کے بارے میں آگاہی اور حکومتوں پر ان کی تکمیل کے لیے زور دینا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان کو ان اہداف کی تکمیل کے لیے خطیر سرمایے، ان تھک محنت اور خلوص نیت کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔

    اگر صرف پہلا ہدف یعنی غربت کا خاتمہ دیکھا جائے تو پاکستان اب تک اس کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں بری طرح ناکام ہے اور ملک کی 38 فیصد سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے۔

    یہی حال تعلیم کا ہے۔ پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔

    اسی طرح پاکستان کے نوجوان، جو کہ ملک کی آبادی کا 63 فیصد ہیں، میں سے نصف بے روزگار ہیں جو باعزت روزگار اور معاشی ترقی کے ہدف میں ہماری ناکامی کا ثبوت ہیں۔

    صنفی امتیاز میں بھی پاکستان بہت آگے ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق پاکستان صنفی امتیاز کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے جہاں صنفی بنیادوں پر تفریق اپنے عروج پر ہے۔

    جہاں تک بات ماحولیات اور جنگلی و آبی حیات کے تحفظ کی ہے، خوش قسمتی سے پاکستان ان ممالک میں تو شامل نہیں جو زہریلی اور مضر صحت گیسوں کا اخراج کر کے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کر رہے ہیں، البتہ ان 12 ممالک میں ضرور شامل ہے جو اس اضافے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت پر پڑھیں تفصیلی رپورٹ

    ملک میں جنگلی حیات کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں تاہم ملک میں سرگرم عمل عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات آئی یو اسی این، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور حکومتی کوششوں سے اس شعبہ میں کچھ بہتری نظر آتی ہے۔

  • چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

    چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

    چترال: جنگلی حیات کے واچرز اور مقامی لوگوں کے لیے وائلڈ لائف رولز ریگولیشن اینڈ حیاتیاتی تنوع پر 6 روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ کامیاب شرکا میں اسناد تقسیم کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلی حیات چترال کی جانب سے ضلع بھر میں کام کرنے والے جنگلی حیات کے واچرز (محافظ) اور مقامی افراد کے لیے جنگلی حیات کی قانونی اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے استعداد کار بڑھانے کے موضوع پر 6 روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں 50 شرکا نے حصہ لیا۔ اس پروگرام میں 3 روزہ ورکشاپ اور 3 روزہ فیلڈ وزٹ شامل تھا۔

    ورکشاپ کے احتتام پر کامیاب شرکا میں اسناد بھی تقسیم کیے گئے۔ اس سلسلے میں ڈویژنل فارسٹ آفیسر برائے جنگلی حیات (ڈی ایف او وائلڈ لائف)کے دفتر میں تقسیم اسناد کی ایک تقریب بھی منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ مہمان خصوصی تھے۔

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت *

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈی ایف او چترال ڈویژن امتیاز حسین لال نے کہا کہ چترال واحد خطہ ہے جہاں قومی جانور مارخور، قومی پھول چنبیلی، قومی پرندہ چکور اور قومی درخت دیار یہاں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگلی حیات کو فروغ دیا جائے تو ماحولیات اور سیاحت کو خود بخود ترقی ملے گی اور دنیا بھر سے سیاح یہاں کا رخ کریں گے جس سے یقینی طور پر چترال کی معیشت پر مثبت اثرات پڑے گی۔

    ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے تمام واچرز (محافظین جنگلی حیات) پر زور دیا کہ اپنے فرض منصبی کو عبادت سمجھ کر کریں۔ اگر وہ بے زبان جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرے تو اس سے نہ صرف جنگلی حیات کو ترقی ملے گی بلکہ اس سے معاشی فائدے بھی لیے جاتے ہیں کیونکہ یہاں مار خور کے ہنٹنگ ٹرافی کے لیے ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ان جنگلی حیات کی حفاظت میں کسی کا بھی لحاظ نہ کریں اور جو بھی ان قومی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے ان کے خلاف بلا امتیاز قانونی کاروائی کریں۔

    انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے وائلڈ لائف اینڈ حیاتیاتی تنوع ایکٹ 2015 نافذ کیا ہے اس سے ان کے کام میں مزید بہتری آئے گی اور جنگلی حیات کو بھی تحفظ ملے گا۔

    ڈی ایف او جنگلی حیات امتیاز حسین، ڈی ایف او محکمہ جنگلات سلیم خان مروت اور چند واچروں نے اے آر وائی نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہو ئے بتایا کہ اس تربیت سے جنگلات کو بھی تحفظ ملے گا کیونکہ زیادہ تر جنگلی حیات جنگلوں میں رہتے ہیں اور ان جانوروں کی حفاظت پر مامور واچر یقینی طور پر جنگلات کی بھی حفاظت کریں گے اور ان کو غیر قانونی طور پر کٹائی سے روکنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

    chitral-2

    chitral-1

    chitral-3

    chitral-4

    آخر میں کامیاب شرکاء میں اسناد تقسیم کیے گئے۔ اس تقریب میں محکمہ جنگلی حیات کے واچروں کے علاوہ مقامی لوگوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سماجی کارکنان نے بھی بھر پور شرکت کی۔

  • عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر بیمار

    عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر بیمار

    ہونو لولو: ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا عمل یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو ’بیمار‘ بنا رہا ہے جس سے سمندری جاندار اور سمندر کے قریب رہنے والے انسان بھی بیمار ہو رہے ہیں۔

    یہ تحقیق امریکی ریاست ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس میں پیش کی گئی۔ ورلڈ کنزرویشن کانگریس جانداروں کے تحفظ پر غور و فکر کرنے کے لیے بلایا جانے والا اجلاس ہے جس کا میزبان عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این ہے۔

    ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج
    ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    اجلاس میں دنیا بھر سے 9 ہزار لیڈرز اور ماہرین ماحولیات نے شرکت کی۔

    ایونٹ میں شرکا کی آگاہی کے لیے رکھی گئی سمندری حیات کی ایک قسم ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج
    شرکا کو کچھوے کی لمبائی، وزن اور عمر ناپنے کی تکنیک بتائی گئی ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ *

    آئی یو سی این کے ڈائریکٹر جنرل انگر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ سمندر ہماری کائنات کی طویل المعری اور پائیداری کا سبب ہیں۔ سمندروں کو پہنچنے والے نقصان سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

    پاکستان سے سابق وزیر ماحولیات ملک امین اسلم ایونٹ میں شریک ہیں ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    مذکورہ تحقیق کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق سمندروں پر کی جانے والی اب تک کی تمام تحقیقی رپورٹس سے سب سے زیادہ منظم اور جامع ہے۔

    رپورٹ کے مطابق 1970 سے اب تک دنیا بھر کے سمندر 93 فیصد زائد درجہ حرارت برداشت کر چکے ہیں جس کی وجہ سے سمندری جانداروں کی کئی اقسام کا لائف سائیکل تبدیل ہوچکا ہے۔

    seas-2

    ماہرین کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت کچھوؤں کی پوری ایک جنس کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ مادہ کچھوؤں کی زیادہ تر افزائش گرم مقامات، اور گرم درجہ حرارت میں ہوتی ہے جبکہ نر کچھوؤں کو افزائش کے لیے نسبتاً ٹھنڈے درجہ حرارت کی ضرورت ہے۔

    کچھوے اور انسان کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟ *

    رپورٹ میں شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ کس طرح گرم سمندر جانوروں اور پودوں کو بیمار کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گلوبل وارمنگ کا عمل، تیزی سے بدلتے دنیا کے موسم جسے کلائمٹ چینج کہا جاتا ہے، دنیا کے لیے بے شمار خطرات کا سبب بن رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشت، زراعت اور امن و امان کی صورتحال پر شدید منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی، جبکہ کئی زرعی فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوجائے گی جس سے دنیا کی ایک بڑی آبادی بے روزگار ہوجائے گی۔

    کلائمٹ چینج کے خطرے میں کسی حد تک کمی کرنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • حکومت چھوٹے تاجروں کو تحفظ فراہم کرے، کراچی چیمبر

    حکومت چھوٹے تاجروں کو تحفظ فراہم کرے، کراچی چیمبر

    کراچی : کے سی سی آئی کی کمیٹی برائے اسمال ٹریڈرز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چھوٹے تاجروں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

    ان خیالات کا اظہاراسمال ٹریڈرز کے چیئر مین عبدالمجید  نےگارڈن مارکیٹ میں تاجروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےکیا،انہوں نے کہا کہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کیخلاف آپریشن کے باوجود کراچی میں بھتہ ،پرچی اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

     اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عبدالمجید میمن کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی شہ رگ کو ایک سازش کے تحت جرائم کی آماجگاہ بنا کر کاروبار کرنا مشکل بنادیا گیا ہے۔

    ملزمان آئے روز دکان داروں سے بھتہ طلب کررہے ہیں اور نہ دینے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں،انہوں نے کہا کہ مارکیٹوں کی صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات اور گٹر کے پانی کا جگہ جگہ جمع ہونا بھی عوام اور تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    انہوں نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ مارکیٹوں میں ہنگامی بنیادوں پر صفائی ستھرائی کے انتظامات کئے جائیں۔