Tag: تحقیق

  • کون سا گوشت کھانا ذیابیطس کے خطرے کا سبب ہے؟

    کون سا گوشت کھانا ذیابیطس کے خطرے کا سبب ہے؟

    جب ہمارا جسم خون میں موجود شوگر کی مقدار کو جذب کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت ذیابیطس نامی مرض کو جنم دیتی ہے اس کی دوسری قسم ٹائپ ٹو ذیابیطس ہے جس میں جسم مناسب انسولین پیدا نہیں کرپاتا۔

    ذیابیطس کا شمار دائمی بیماریوں میں کیا جاتا ہے، جو اگر لاحق ہو جائے تو پھر یہ زندگی بھر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ لوگ اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے جب جسم گلوکوز (شکر) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا، جس کی وجہ سے فالج، دل کے دورے، نابینا پن اور گردے ناکارے ہونے سمیت مختلف بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    اس حوالے سے ایک نئی تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پروسیس شدہ اور سرخ گوشت کھانے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    sugar

    انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسروں نے 20 ممالک میں 31 مطالعات کے 1.97 ملین لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جن میں 18 غیر شائع شدہ مطالعات بھی شامل تھے۔ محققین نے شرکاء کی عمر، جنس، صحت سے متعلق عادات، توانائی کی مقدار اور جسمانی حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق کی۔

    اس تحقیق میں محققین نے پایا کہ روزانہ 50 گرام پروسیس شدہ گوشت کھانے سے اگلے دس سالوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا 15 فیصد سے زیادہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ روزانہ 100 گرام غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت (جیسے کہ ایک چھوٹا اسٹیک) کے ساتھ یہ خطرہ 10 فیصد زیادہ تھا، اسی طرح 100 گرام مرغی کے روزانہ استعمال کے ساتھ یہ خطرہ 8 فیصدزیادہ تھا۔

    تحقیق کی سینئر مصنف نِتا فوروہی، جو کیمبرج یونیورسٹی میں میڈیکل ریسرچ کونسل ایپیڈیمولوجی یونٹ سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق پروسیس شدہ اور غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت کھانے اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان سب سے جامع ثبوت فراہم کرتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحقیق پروسیس شدہ گوشت اور غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت کی مقدار کو کم کرنے کی حمایت کرتی ہے تاکہ ٹائپ 2 ذیابیطس کے کیسز کو کم کیا جا سکے۔

    فوروہی نے کہا کہ مرغی کے استعمال اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے درمیان تعلق ابھی تک غیر یقینی ہے اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ٹائپ 2 ذیابیطس اس وقت ہوتا ہے جب جسم مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہیں کرتا یا انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتا۔ امریکا میں 38 ملین سے زیادہ افراد تقریباً 10 میں سے 1 فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، جو ملک میں موت کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے۔

    پہلے کی جانے والی تحقیق کے مطابق روزانہ ایک سے زیادہ بار سرخ گوشت کا استعمال ٹائپ 2 ذیابیطس کے 62 فیصد سے زیادہ خطرے میں اضافہ کر سکتا ہے۔

    تاہم امریکا کے محکمہ زراعت نے روزانہ گوشت، مرغی اور انڈے کی کھپت کو 4 اونس تک محدود کرنے کی تجویز دی ہے کہ پروسیس شدہ گوشت کو ہفتے میں ایک بار سے زیادہ نہیں کھانا چاہیے۔

  • بلڈ پریشر پر قابو پانے کا آسان طریقہ

    بلڈ پریشر پر قابو پانے کا آسان طریقہ

    ہائی بلڈ پریشر یعنی بُلند فشار خون کو منظم رکھنا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا، ادویات کے استعمال سے ہی اسے کم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تاہم یہ ادویات آنتوں میں خرابی کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

    ہائی بلڈ پریشر کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، باقاعدگی سے اس کی نگرانی کرنا بہت ضروری ہے۔

    انسانی صحت کی بہتری اور اس کو برقرار رکھنے میں جڑی بوٹیوں کا استعمال بہت اہمیت کا حامل ہے، صحت پر مثبت اثرات مرتب کرنے والی جڑی بوٹیوں کے استعمال کے بے شمار فوائد ہیں۔

    ان جڑی بوٹیوں میں موجود طاقت ور قدرتی اجزا انسان کو متعدد بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں، جس کیلئے قوت مدافعت کا مضبوط ہونا لازمی امر ہے۔

    کوکو پاؤڈر یا بیج بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں کتنا مددگار ہے؟

    اس حوالے سے برطانوی ماہرین کی جانب سے محدود پیمانے پر کی جانے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ قدرتی جڑی بوٹیوں سے حاصل ہونے والے کوکو بیج یا پاؤڈر کا استعمال بلڈ پریشر کو کنٹرول سمیت شریانوں کی سختی کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

    کوکو بیج یا پاؤڈر عام طور پر چاکلیٹ، کافی، چائے کی پتی، آئس کریم، مشروبات اور ادویات بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    اسے کاکاؤ یا کاکو بھی کہا جاتا ہے مگر عام طور پر اسےکوکو کہا جاتا ہے، یہ ایک نایاب درخت کے خوردنی بیج ہوتے ہیں، جنہیں سورج کی تپش پر گرم کرکے ان سے کوکو پاؤڈر حاصل کیا جاتا ہے یا پھر ان بیجز کو جدید مشینری کے ذریعے پاؤڈر میں تبدیل کرکے ادویات سمیت غذاؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    کوکو میں 300 سے زائد مرکبات پائے جاتے ہیں اور یہ اینٹی آکسیڈینٹ کی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اس میں وٹامن کے، اِی، پروٹین، کیلشیم، سوڈیم، پوٹاشیم، زنک، فاسفورس، آئرن، اور میگنیشیم پایا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے کئی حوالوں سے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ برطانوی ماہرین نے کوکو کی خاصیت پر دوبارہ تحقیق کرکے جاننے کی کوشش کی کہ اس کے امراض قلب سمیت بلڈ پریشر پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

    ’ہیلتھ لائن‘ کے مطابق برطانوی ماہرین کی جانب سے محدود رضاکاروں پر ایک تجربہ کیا گیا، جس میں ایک درجن کے قریب افراد کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے ایک کو ’کوکو‘ دیا گیا جب کہ دوسرے گروپ کو مصنوعی کیپسول دیے گئے اور تمام افراد کا چند ہفتوں تک یومیہ متعدد بار چیک اپ کیا گیا۔

    ماہرین نے رضاکاروں کو خوراک دینے کے تین گھنٹے بعد اور پھر ہر ایک گھنٹے بعد چیک کیا اور رضاکاروں کو بھی ان ٹیسٹس تک رسائی دی۔ ماہرین نے رضاکاروں کے دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور شریانوں کی صورتحال پر نظر رکھی اور پایا کہ ’کوکو‘ لینے والے افراد میں بلڈ پریشر نارمل رہا اور ان کے شریانوں کی سختی بھی کم ہوئی۔

    ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’کوکو‘ کی اچھی مقدار والی غذائیں کھانے سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے، ساتھ ہی اس سے شریانوں کی سختی بھی ختم ہوتی ہے۔

  • رات دیر تک جاگنے کا عجیب و غریب فائدہ

    رات دیر تک جاگنے کا عجیب و غریب فائدہ

    بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ رات کو جلدی سونا اور صبح سویرے اٹھنا انسان کو صحت مند اور توانا بناتا ہے، لیکن ایک نئی تحقیق میں اس کے متضاد رات دیر تک جاگنے کے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ حیران کُن دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو لوگ رات کو دیر تک جاگتے ہیں وہ صبح سویرے اٹھنے والوں سے ذہنی طور پر بہتر ہوتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امپیریل کالج لندن کی اس تحقیق میں 26ہزار افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا اور ان کی ذہانت، منطق، ردعمل کے وقت اور یادداشت کا موازنہ کیا گیا۔

    محققین نے مذکورہ افراد کی نیند کے دورانیے، معیار اور سونے کے وقت کا تجزیہ کیا اور یہ دیکھا کہ وہ ذہنی طور پر سب سے زیادہ چوکس کب تھے؟۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ رات دیر تک جاگتے ہیں وہ صبح سویرے بیدار ہونے والوں سے ذہنی طور پر بہتر ہوتے ہیں۔

    تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نیند کا دورانیہ دماغی کام کے لیے اہم ہے اور جو لوگ رات کو دیر تک جاگنے کے بعد 7 سے 9 گھنٹے سوتے ہیں وہ ذہنی ٹیسٹوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ سونے کے وقت اور ذہنی چوکنا رہنے کو سمجھنا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے کافی نیند لینا ہے، جو صحت مند دماغ کو سہارا دیتی ہے اور دماغی افعال کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نیند کا دورانیہ براہ راست دماغی افعال کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ تحقیق کچھ حد تک محدود ہے کیونکہ اس میں تعلیمی قابلیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور چند دیگر پہلوؤں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔

    اس سے قبل اٹلی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ رات کو دیر تک جاگتے ہیں وہ زیادہ تخلیقی انداز میں سوچتے ہیں۔ تحقیق کے دوران دیر تک جاگنے والے افراد نے مختلف ٹیسٹ باآسانی پاس کیے جب کہ صبح سویرے بیدار ہونے والوں کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

    محققین کے مطابق رات گئے تک جاگنے کی عادت لوگوں میں غیر روایتی سوچ کو فروغ دیتی ہے اور وہ مختلف چیزوں کے دلچسپ حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

  • ڈراؤنے خواب دیکھنا کس مرض کی علامت ہے؟ تحقیق میں بڑا انکشاف

    ڈراؤنے خواب دیکھنا کس مرض کی علامت ہے؟ تحقیق میں بڑا انکشاف

    اکثر گہری نیند میں ڈراؤنے خواب دیکھنا معمول کی بات ہے، تقریباً سبھی لوگوں نے کبھی نہ کبھی اس قسم کا خواب دیکھ رکھا ہوگا، لیکن اگر ایسا اکثر ہونے لگے تو یقیناً باعث تشویش ہے۔

    پانی میں ڈوبنا، جنگل میں سرپٹ دوڑنا، کسی خونخوار جانور سے جان بچانے کی کوشش یا مافوق الفطرت چیزیں دکھائی دینے کے علاوہ اور بھی بہت سے مناظر ہو سکتے ہیں جو اکثر لوگوں کو خواب میں نظر آتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمیں یہ ڈراؤنے خواب کیوں آتے ہیں اور ان کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ اس حوالے سے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں اہم انکشاف کیا ہے۔

    خواب

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ درمیانی عمر یا بڑھاپے میں ڈراؤنے خواب دیکھنے والے افراد میں دماغی تنزلی اور ڈیمینشیا کے خطرے کا عندیہ ملتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امپرئیل کالج لندن کی اس تحقیق میں 605 درمیانی عمر کے افراد اور 26 سو معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کی صحت کا جائزہ 13 سال تک لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ڈراؤنے خواب دیکھنے والے افراد میں دماغی تنزلی کا خطرہ 4 گنا جبکہ ڈیمینشیا سے متاثر ہونے کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ ڈراؤنے خوابوں اور دماغی امراض کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج یورپین اکیڈمی آف نیورولوجی کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر پیش کیے گئے۔

    اس سے قبل مئی 2023 میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ دہشت زدہ کر دینے والے خواب نظر آنا جِلدی مرض لیوپس کی سب سے عام اور ابتدائی علامات میں سے ایک ہے۔

    اس تحقیق میں لیوپس کے شکار 676 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ایک تہائی نے بتایا کہ مرض کی دیگر علامات نمودار ہونے سے ایک سال قبل انہیں ڈراؤنے خواب نظر آتے تھے۔

    تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ خواب اور دماغ کا مدافعتی نظام ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔

    Dementia

    محققین نے بتایا کہ ہم کافی عرصے سے جانتے ہیں کہ خوابوں میں ہماری شخصیت میں نظر آنے والی تبدیلیاں جسمانی، اعصابی اور ذہنی صحت سے جڑی ہوتی ہیں اور کئی بار یہ کسی مرض کی ابتدائی نشانی ہوتی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اولین شواہد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈراؤنے خواب ہمیں کسی سنگین آٹو امیون مرض جیسے لیوپس پر نظر رکھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

    لیوپس ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں اور اکثر 15 سے 45 سال میں اس کا آغاز ہوتا ہے اور پھر زندگی بھر اس کا سامنا ہوتا ہے۔

  • زیادہ گوشت کون کھاتا ہے؟ مرد یا خواتین ؟ اہم انکشاف

    زیادہ گوشت کون کھاتا ہے؟ مرد یا خواتین ؟ اہم انکشاف

    گوشت کھانے پینے کے شوقین افراد کی مرغوب غذا کہلاتی ہے، ان کو کھانے میں گوشت کی ڈش نہ ملے تو ڈنر یا لنچ کا مزہ کرکرا سا ہوجاتا ہے لیکن کیا مرد و خواتین یکساں مقدار میں گوشت کھانا پسند کرتے ہیں؟

    گوشت کے انسانی صحت پر کئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جب کہ اسے کھانے سے کئی جان لیوا بیماریوں کے امکانات بھی کافی حد تک کم ہوجاتے ہیں تاہم گوشت کی ایک حد سے زیادہ مقدار کسی بھی انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہونے کے بجائے اس کے لیے مصبیت بن سکتی ہے۔

    Make mine

     

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ گوشت کھاتے ہیں۔

    گوشت کی جانب عورتوں کے کم رجحان کا تعلق انسانی معاشرے کی ارتقا سے جڑا ہے جس میں عورتوں کو گوشت کھانے سے روکا جاتا تھا، کیوں کہ ان کے خیال میں گوشت کا استعمال نسوانی ہارمونز پر منفی اثر ڈال سکتا ہے جس سے حمل اور بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

    Men Eat

    سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گوشت کھانے کی ترجیحات کا تعلق جنس سے منسوب ہے اور یہ رجحان دنیا کے ہر معاشرے دیکھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں یہ تفریق زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ اگر خواتین اور مردوں کو معاشرتی اور مالی لحاظ سے اپنی خوراک منتخب کرنے کی آزادی ہو تو خواتین کے انتخاب میں گوشت کی مقدار کم ہوگی۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ معاشرتی ارتقا کے ابتدائی ادوار میں عورتوں کو گوشت کھانے سے روکا جاتا تھا کیوں کہ ان کے خیال میں گوشت کا استعمال نسوانی ہارمونز پر منفی اثر ڈال سکتا ہے جس سے حمل اور بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

     women

    دوسری جانب مرد بڑی رغبت سے گوشت کھاتے تھے کیوں کہ وہ شکاری معاشرے کا حصہ تھے اور شکار صرف ان کی خوراک کی ضروریات ہی پوری نہیں کرتا تھا بلکہ کئی معاشرتی رسمیں اور اعزاز و افتخار بھی شکار سے ہی جڑے تھے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گوشت کی سالانہ فی کس کھپت 24 کلو گرام ہے جب کہ یو ایس ڈپارٹمنٹ آف ایگریکلچر کے مطابق امریکہ میں گوشت کا سالانہ فی کس استعمال 102 کلو گرام ہے۔

    بھارت کا شمار دنیا بھر میں سب سے کم گوشت استعمال کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں گوشت کی سالانہ فی کس کھپت ساڑھے تین کلو گرام ہے جس کی بڑی وجہ وہاں کے مذہبی عقائد اور معاشرتی روایات ہیں۔

     cultures

    دنیا بھر میں گوشت کا سب سے کم استعمال افریقی ملک برونڈی میں ہے جس کی بنیادی وجہ غربت اور قوت خرید کا کم ہونا ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر میں ہرسال مجموعی طور پر سب سے زیادہ گوشت چین میں کھایا جاتا ہے جس کا سبب اس کی ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی ہے۔

    سال 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں 10 کروڑ ٹن سے زیادہ گوشت کھایا گیا تھا جو دنیا کی کل کھپت کا 27 فیصد تھا۔

  • ناخن ’کینسر‘ سے کیسے خبردار کرتے ہیں، حیران کُن تحقیق

    ناخن ’کینسر‘ سے کیسے خبردار کرتے ہیں، حیران کُن تحقیق

    انسانی جسم کے تمام اعضاء اپنی مثال آپ اور قدرت کا عظیم تحفہ ہیں، چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جس میں ہمارے ناخن بھی شامل ہیں۔

    جی ہاں ! ناخن بظاہر تو ایک بے ضرر سی چیز نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کی رنگت میں ذرا سی تبدیلی آجائے تو یہ بہت بڑے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کسی بھی انسان کے یہ تین اعضاء، زبان، ناخن اور آنکھ بہت حساس ہوتے ہیں، اس لیے چھوٹی سے بڑی بیماری کا اثر بھی سب سے پہلے ان تینوں پر ظاہر ہوتا ہے۔

    آج ہم بات کریں گے ناخن کی ! جسم کا یہ حصہ جسے تکنیکی اصطلاح میں نیل پلیٹ بھی کہا جاتا ہے ہماری صحت کے مختلف مسائل کی نشاندہی کر سکتا ہے۔

    اپنے ناخنوں کے رنگ میں تبدیلی، ناخنوں پر دھبوں کا ظاہر ہونا اور دیگر علامات پر توجہ دینا ضروری ہے جو بہت سی بیماریوں کے لیے انتباہ کا کام کرتے ہیں۔

    جب ناخن کے اس حصے پر کوئی ضرب پہنچتی ہے تو اس جگہ پر لکیروں کا بننا معمول کی بات ہے، جس سے ناخن پر زیادہ جھریاں پڑ جاتی ہیں مگر جب یہ لکیریں زیادہ گہری اور صرف ایک انگلی پر ظاہر ہو تو یہ میلانوما کی علامات ہو سکتی ہیں جو کہ جلد کا کینسر ہے۔

    ناخنوں کا رنگ کینسر کی نشاندہی کیسے کرتا ہے؟

    ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ناخنوں کی لمبائی کے ساتھ کلر بینڈ جلد(عام طور پر سفید یا سرخ)، آنکھوں اور گردوں میں کینسر کے ٹیومر کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے سائنس دانوں نے ناخنوں میں غیر معمولی پن کی موجودگی کو دریافت کیا، جسے اونیچوپاپیلوما کہا جاتا ہے، کلر بینڈوں کے علاوہ، رنگ کی یہ تبدیلی ناخن کے موٹے ہونے پر بھی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک نادر موروثی عارضے کا سبب بن سکتا ہے، جسے بی اے پی1 ٹیومر پریڈیسپوزیشن سنڈروم کہا جاتا ہے، جس سے کینسر کے ٹیومر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جریدے جے اے ایم اے ڈرمیٹولوجی میں شائع ہونے والے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بی اے پی1 جین میں تغیرات سنڈروم کا سبب بنتے ہیں۔

    یہ حالت عام طور پر صرف ایک ناخن کو متاثر کرتی ہے۔ تاہم 35 خاندانوں سے بی اے پی1 سنڈروم والے 47 افراد کے مطالعے میں، تقریباً 88 فیصد کے ایک سے زیادہ ناخنوں میں اونیچوپیلوما ٹیومر تھے۔

    این آئی ایچ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف آرتھرائٹس اینڈ مسکولوسکیلیٹل اینڈ اسکن ڈیزیز (این آئی اے ایم ایس) میں ڈرمیٹولوجی مشاورتی خدمات کے سربراہ ایڈورڈ کوون نے کہا کہ عام آبادی میں یہ دریافت شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

    ہم سمجھتے ہیں کہ ناخنوں کی تبدیلیوں کی موجودگی جو کہ ایک سے زیادہ ناخنوں پر اونیچوپاپیلوما کی تجویز کرتی ہے، اسے بی اے پی1 ٹیومر کے شکار سنڈروم کی تشخیص پر فوری غور کرنا چاہیے۔

    جب بھی آپ کے ناخنوں پر ایسا کچھ ہوتا ہوا محسوس ہو تو بہتر ہے کہ آپ فوری طور پر ماہر امراض جلد کو معائنہ کروائیں اور اگر ضروری ہو تو اپنے خون کے ٹیسٹ یا جو ٹیسٹ ڈاکٹر تجویز کریں انہیں فوراً کروائیں۔

  • کنکھجورے کا زہر کس مرض کی دوا ہے؟ حیران کن تحقیق

    کنکھجورے کا زہر کس مرض کی دوا ہے؟ حیران کن تحقیق

    بیجنگ : دنیا بھر میں متعدد امراض کا علاج یا زہر کے تریاق کیلئے مختلف طریقوں اور نایاب اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے جو کافی حد تک شفایاب بھی ہوتی ہیں۔

    علاج معالجے کے لحاظ سے محققین بے شمار تجربات بھی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں جتنی اینٹی بایوٹکس ادویات استعمال ہورہی ہیں ان کے اجزاء کی اکثریت مٹی اور کھاد وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔

    اب اس معاملے میں مزید پیش رفت جاری ہے، طبی ماہرین نے کہنا ہے کہ کچھ حشرات الارض ایسے بھی ہیں جن کے زہر سے ادویات تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    کنکھجورا

    اس حوالے سے چین میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کنکھجورے کا زہر گردوں کی بیماریوں کے مؤثر علاج کے طور پر بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    گردوں کی متعدد بیماریاں دنیا بھر میں اموت کی بہت بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جس سے سالانہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی سائنسدانوں کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زہریلا کنکھجورا جسے ’چائنیز ریڈ ہیڈڈ سینٹی پیڈ‘ کہا جاتا ہے، گردوں کی بیماری کے علاج میں مدد فراہم کر سکتا ہے اور کئی لوگوں موت کے منہ سے بچا سکتا ہے۔

    علاج

    تحقیق جرنل آف نیچرل پراڈکٹس میں شائع ہونے والی تحقیق کی رپورٹ میں محققین نے بتایا کہ کنکھجوروں میں alkaloids نامی خصوصی کیمیکلز ہوتے ہیں جو بیماری سے لڑتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ زہریلے کنکھجورے کا کیمیائی الکلائیڈ گردوں میں سوزش اور زخموں کو کم کر سکتا ہے، سرخ کنکھجوروں میں 12 نئے الکلائیڈ مرکبات موجود ہوتے ہیں جن میں سے کچھ سوزش کے خاتمے اور اینٹی رینل فبروسس خصوصیات کے حامل ہیں۔

     

  • غصے پر کیسے قابو پایا جائے؟ محققین کی حیران کن تحقیق

    غصے پر کیسے قابو پایا جائے؟ محققین کی حیران کن تحقیق

    غصہ ایک فطری عمل ہے جو انسانوں سمیت ہر جاندار کو آتا ہے لیکن جب یہ بڑھتا ہے یا اس پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے تو یہ مزید پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔

    یہ ایک منفی جذبہ ہے جو انسان کی ذہنی وجسمانی صحت کو بری طرح متاثر بھی کرتا ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غصے کا اظہار کرنا بھی بے حد ضروری ہے، غصے کو دبائے رکھنا اور برداشت کرنا ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ غصے آنے کی صورت میں اسے ختم یا کم کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جیسے ٹھنڈا پانی پیئں، تنازعہ کی جگہ سے دور ہوجائیں، کھڑے ہو تو بیٹھ جانے یا چہل قدمی کریں اس کے علاوہ ایک عمل ایسا بھی ہے جو غصے پر قابو پانے کیلئے بہت کارآمد ہے۔

    جاپان کی ناگویا یونیورسٹی کے گریجویٹ اسکول آف انفارمیٹکس کی تحقیق کے مطابق لکھنا(رائٹنگ) وہ واحد عمل ہے جو غصے کو فوری کم کرسکتا ہے۔

    غصہ

    محققین نے طویل مطالعے کے بعد اس بات کا پتہ کیا کہ لکھنا کس طرح غصے کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے اور کس طرح جذبات کے ساتھ بات چیت کا اثر مزاج پر پڑتا ہے۔

    محققین کے مطابق غصے کے وقت جذبات کو کسی کاغذ پر تحریرکرکے پھاڑنے سے غصہ فوری ختم ہوجاتا ہے یہ سادہ سا عمل غیر معمولی اثر رکھتا ہے جس کے بعد آپ بہتر محسوس کرتے ہیں۔

    اس تحقیق کے مرکزی محقق نوبیوکی کاوائی کا کہنا ہے کہ ہمیں توقع تھی کہ ہمارا طریقہ غصے کو کسی حد تک کم کر دے گا اور تحقیق میں ہم نے یہی دیکھا کہ اس عمل کو کرنے بعد شرکاء کا غصہ تقریباً مکمل طور پر ختم ہوگیا تھا۔

    اس تحقیق میں کاوائی اور اس کے گریجویٹ طالب علم یوٹا کنایا نے مطالعہ کے شرکاء جو کہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے سے سماجی مسائل پر اپنی رائے لکھنے کو کہا جیسے کہ عوام میں سگریٹ نوشی غیر قانونی ہونی چاہیے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹریٹ کے طلباء ان کی تحریر کا جائزہ لیں گے۔

    ساتھ ہی مطالعہ میں شامل ڈاکٹریٹ کے طالب علموں کو شرکاء کے کام پر وہی توہین آمیز تبصرہ لکھنے کی ہدایت کی گئی تھی جیسے، میں یقین نہیں کر سکتا کہ کوئی تعلیم یافتہ شخص ایسا سوچے گا۔ مجھے امید ہے کہ یہ شخص یونیورسٹی میں رہتے ہوئے کچھ سیکھے پائے گا۔

    اس کے بعد شرکاء کو ان کی تحریر اس پر لکھے ہوئے اشتعال انگیز تبصروں کے ساتھ واپس کر دی گئی۔ پھر ان سے کہا گیا کہ وہ منفی تبصرہ کے جواب میں کیسا محسوس کرتے ہیں تحریر کریں۔

    محققین نے کچھ شرکاء سے کہا کہ وہ اپنے جوابات لکھنے کے بعد کاغذ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں اور دوسرے گروپ کو ہدایت کی گئی کہ وہ کاغذ کو اپنی میز پر ایک فائل میں رکھیں۔ تیسرے گروپ سے کہا گیا کہ وہ کاغذ کو پلاسٹک کے ڈبے میں پھاڑ کر ڈالیں۔

    طلباء سے کہا گیا کہ وہ منفی تبصرے موصول ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تحریری جوابات کو یا تو رکھنے یا پھاڑنے کی صورت میں کیسا محسوس کرتے ہیں نوٹ کریں۔

    تحقیق کے نتائج حیران کن تھے جن شرکاء نے اپنے جوابات پھینک دیے تھے یا کاغذ کو پھاڑ دیا تھا ان کا غصہ کم ہوگیا یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے جبکہ جن لوگوں نے ان منفی تبصروں کی فائل رکھی تھی ان کے غصے میں تھوڑی سی کمی آئی۔

    کاوائی کا کہنا ہے اس طریقہ کار کو کام کی جگہ یا دباؤ والے حالات غصے کو فوری کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

  • ہاتھ سے لکھنا دماغ کے لیے کتنا فائدہ مند ہوتا ہے؟ حیران کن تحقیق

    ہاتھ سے لکھنا دماغ کے لیے کتنا فائدہ مند ہوتا ہے؟ حیران کن تحقیق

    موجودہ دور میں ہاتھ سے لکھنے والوں کی تعداد کافی کم ہوگئی ہے تاہم ہاتھ سے لکھنا دماغ کے لیے کتنا فائدہ مند ہے اس حوالے سے نئی تحقیق سامنے آگئی۔

    پہلے کی طرح کاغذ پر لکھنے کا رواج معدوم ہورہا ہے، اب کمپیوٹر یا فون کا زمانہ ہے جس میں بہت تیزی سے ٹائپنگ ہوتی ہے جبکہ اس میڈیم میں لوگ ہاتھ سے لکھنے سے زیادہ تیز لکھتے بھی نظر آتے ہیں لیکن ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ یہ دماغ کو اتنا زیادہ متحرک نہیں کرتا۔

    ’فرنٹیئرز ان سائیکالوجی‘ نامی جریدے میں شائع نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ٹائپنگ کے بجائے لکھنا دماغ کی فعالیت کے لیے زیادہ موثر ہے۔

    نارویجین یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی (این ٹی این یو) کے محققین کی جانب سے یونیورسٹی کے طلبا پر تجربات کیے گئے۔ اس عمل کے دوران ٹائپنگ اور ہاتھ سے لکھنے والے اسٹوڈنٹس کی دماغی سرگرمی کو چیک کیا گیا۔

    تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ہاتھ سے لکھنا سیکھنے اور یادداشت کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے، یہ عمل پورے دماغ کو متحرک کرتا ہے۔

    محقق اور یونیورسٹی میں نیورو سائیکالوجی کے پروفیسر آڈرے ونڈر میر نے بتایا کہ تحقیق کے نتائج میں ہمیں پتا چلا کہ ہاتھ سے لکھنا تقریباً پورے دماغ کو متحرک کرتا ہے جبکہ ٹائپنگ دماغ کو اس سطح پر متحرک نہیں کرسکتی۔

    مطالعے سے یہ بھی پتہ چلا کہ ہاتھ سے لکھنے میں دماغ کے بصری، حسی اور حرکات کے شعبوں کے درمیان رابطہ پیدا ہوتا ہے جبکہ ٹائپنگ کے دوران دماغ اس قدر متحرک نہیں ہوپاتا۔

  • فالج سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ نئی تحقیق

    فالج سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ نئی تحقیق

    حالیہ چند سالوں کے دوران لوگوں کی زندگی میں سست روی میں مسلسل اضافہ سامنے آیا ہے، جس کی وجہ سے ماہرین اس سے ہونے والی بیماریوں اور دیگر حوالوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ ہم نے سست روی کا فالج کے خطرے سے تعلق کا اندازہ لگانے کے لیے ایک تجزیہ کیا۔ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سست رویہ قلبی بیماری اور میٹابولک بیماری کے لئے ایک خطرناک عنصر ہے۔

    ماہرین صحت کی جانب سے فالج سے بچاؤ سے متعلق تحقیقی رپورٹ جاری کردی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ سست طرز زندگی نہ صرف فالج بلکہ دیگر امراض کا بھی سبب بنتا ہے۔

    سائنس ڈائریکٹ نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کی اس تحقیق میں ساڑھے 7 لاکھ افراد پر ہونے والی 15 ایسی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں ہر قسم کی جسمانی سرگرمیوں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے یا سست طرز زندگی کو متعدد دائمی امراض بشمول موٹاپے، امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ 2 اور فالج کا خطرہ بڑھانے والا عنصر قرار دیا جاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کم از کم وقت تک ورزش کرنے سے بھی فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے، چاہے عمر جو بھی ہو۔درحقیقت بہت کم ورزش جیسے چند منٹ کی چہل قدمی یا سیڑھیاں چڑھنے سے بھی فالج کا خطرہ 10 سے 30 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

    فالج کی 2 اقسام ہیں، ایک برین ہیمرج ہے جس میں دماغی شریان پھٹ جاتی ہے جبکہ دوسری قسم میں دماغ کو خون پہنچانے والی شریان بلاک ہوجاتی ہے جس سے آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور دماغ کو نقصان پہنچتا ہے، اسے طبی زبان میں اسکیمک اسٹروک کہا جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہلکی پھلکی ورزش سے اسکیمک اسٹروک کا خطرہ 13 فیصد تک گھٹ جاتا ہے، اسی طرح معمولی ورزش سے برین ہیمرج کا خطرہ 16 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر آپ معتدل حد تک ورزش کرتے ہیں تو فالج کا خطرہ 33 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ ہم نے تحقیقی رپورٹس کا منظم جائزہ لیا اور دریافت کیا کہ بہت کم وقت تک کی جانے والی جسمانی سرگرمیوں سے بھی فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے۔