Tag: تحقیق

  • سورج کی روشنی کا بینائی سے کیا تعلق ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    سورج کی روشنی کا بینائی سے کیا تعلق ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    انسان کی صحت کیلئے وٹامنز بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اگر جسم کو مطلوبہ مقدار میں وٹامنز میسر نہ ہوں تو صحت کے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔

    ان وٹامنز میں ایک وٹامن ڈی بھی ہے جو زیادہ تر ہمیں سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے اور جسم میں اس کی کمی صحت کے متعدد مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ ،

    تاہم ایک نئی تحقیق میں اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی ہماری بینائی کے لیے بھی خطرات پیدا کرسکتی ہے۔

    طیی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہےکہ وٹامن ڈی کی کمی سے جہاں دیگر مسائل ہوسکتے ہیں، وہیں آنکھوں کی بیماری میکولر ڈجنریشن (macular degeneration)بھی ہوسکتی ہے۔

    مذکورہ بیماری اگرچہ زائد العمری میں عام ہوتی ہے، تاہم اس سے وٹامن ڈی کی وجہ سے ادھیڑ عمر اور یہاں تک کے نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس مسئلے کے دوران متاثرہ شخص کا وژن یا ںظر بلر ہوجاتی ہے، اسے تمام چیزیں غیر واضح یا دھندلی دکھائی دیتی ہیں اور مذکورہ مسئلہ مسلسل رہنے سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    اگرچہ میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس کا کوئی مستند علاج بھی دستیاب نہیں، تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہے اور متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وٹامن ڈی کی اچھی مقدار اس بیماری سے بچا سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار سے میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) بیماری کو ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری ہوسکتی ہے۔

    علاوہ ازیں میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) دیگر وٹامنز جن میں وٹامن ای، وٹامن اے، زنک، وٹامن سی، کوپر اور لیوٹین کی کمی سے بھی ہوسکتی ہے، تاہم وٹامن ڈی کی کمی سے اس کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

    عام طور پر وٹامن ڈی کو انسانی جسم سورج کے درجہ حرارت سے حاصل کرتا ہے لیکن اس باوجود جسم کو وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، اس لیے ماہرین صحت وٹامن ڈی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانے سمیت وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی سے بھرپور سپلیمنٹس میں ایکٹو وٹامن ڈی ہوتی ہے جو کہ اس کی کمی کو فوری طور پر مکمل کرنے میں مددگا ثابت ہوتی ہیں۔

  • چکنائی صحت کیلئے کتنی مفید ہے؟

    چکنائی صحت کیلئے کتنی مفید ہے؟

    کسی بھی بیماری سے لڑنے اور بچنے کا بہترین طریقہ اپنے طرز زندگی کو بہتر بنانا ہے، اس کیلئے اچھی غذا کا انتخاب بھی بہت اہمیت رکھتا ہے جس میں چکنائی بھی شامل ہیں۔

    اب تک یہ خیال کیا جاتا رہا کہ چکنائی یا چربی صحت کے لیے مضر ہوسکتی ہے تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں اس حوالے سے مختلف نتائج سامنے آئے ہیں۔

    جی ہاں !! چکنائی ہماری صحت کیلئے اہم ہے لیکن اس کو مقدار اور تناسب کا خیال رکھتے ہوئے اپنے روز مرہ کے کھانوں میں استعمال کرنا چاہیے۔

    امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے سائنٹیفک سیشنز 2021 میں پیش کیے گئے ایک تحقیق کے نتائج میں کہا گیا کہ چکنائی دو ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے پہلا جانوروں کا گوشت اور دوسرا پودوں سے حاصل ہونے والی چکنائی۔

    نباتاتی ذرائع سے حاصل کی گئی چکنائی جیسے زیتون، کینولا، سورج مکھی کا تیل، گریاں اور بیج فالج جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سرخ گوشت یا حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی سے فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مختلف غذائی ذرائع سے حاصل چکنائی کی اقسام دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول فالج کی روک تھام کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چکنائی کی 2 بنیادی اقسام ہے ایک حیوانی ذرائع اور دوسری پودوں سے حاصل ہونے والی چکنائی، دونوں کے درمیان مالیکیولر لیول کا فرق بڑا فرق پیدا کرتا ہے، حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی میں ان کاربن ایٹمز کے درمیان تعلق کی کمی ہوتی ہے جو فیٹی ایسڈز کو جوڑتے ہیں اس تحقیق میں ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    یہ تمام افراد تحقیق کے آغاز پر امراض قلب سے محفوظ تھے، ان افراد سے ہر 4 سال بعد غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھروائے گئے۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 16 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح جو لوگ ویجیٹیبل چکنائی کازیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ 12 فیصد تک کم ہوجاتا ہے، دودھ سے بنی مصنوعات جیسے پنیر، مکھن، دودھ، آئسکریم اور کریم فالج کا خطرہ بڑھانے سے منسلک نہیں۔

    سرخ گوشت زیادہ کھانے والے افراد میں فالج کا خطرہ 8 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جبکہ جو لوگ پراسیس سرخ گوشت کھاتے ہیں ان میں یہ خطرہ 12 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول فالج اور موٹاپا سرخ گوشت زیادہ کھانے سے جڑے ہوتے ہیں، جس کی وجہ اس میں چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہے، جو کولیسٹرول کی سطح بڑھانے اور شریانوں کے بلاک ہونے کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نباتاتی ذرائع سے حاصل چکنائی دل کی صحت کے لیے بہترین ہے، کیونکہ اس میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں جو جسم خود نہیں بناسکتا، یہ چکنائی ورم اور کولیسٹرول کو کم کرتی ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • نوجوان نسل میں ڈپریشن کے کیا اسباب ہیں؟ تحقیق میں اہم انکشاف

    نوجوان نسل میں ڈپریشن کے کیا اسباب ہیں؟ تحقیق میں اہم انکشاف

    ڈپریشن ایک مخصوص انسانی کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، بدقسمتی سے یہ مرض نوجوان نسل اس مرض کا تیزی سے شکار ہورہی ہے۔

    اس مرض سے بری طرح متاثر ہونے والوں کو علم نہیں ہو پاتا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں اگر اس مرض کی علامات کو پہچان کر فوری طور پر اس کا سدباب نہ کیا جائے تو یہ ناقابل تلافی نقصانات پہنچ سکتا ہے۔

    ڈپریشن کے شکار افراد کو دماغی اور جسمانی دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ نیند کی کمی اور ناقص نیند سے نوجوانوں میں ڈپریشن اور خودکشی کے خیالات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    سوئیڈن کے نیشنل سینٹر فار سوسائیڈ ریسرچ اینڈ پریونشن کی اس تحقیق میں اسکولوں میں زیرتعلیم 116طالب علموں کو شامل کیا گیا تھا جن سے سونے اور جاگنے کے اوقات کی تفصیلات حاصل کرکے یہ دیکھا گیا کہ عام دنوں اور تعطیلات کے دوران ان کی نیند کا دورانیہ کیا ہوتا ہے۔

    ان نوجوانوں سے یہ بھی معلوم کیا گیا کہ ان کی نیند کا معیار کیسا ہے؟ ڈپریشن کی علامات یا خودکشی کے خیالات کا سامنا تو نہیں ہوتا۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ 50فیصد نوجوان کی نیند کا دورانیہ اسکول جانے کے دوران 8 گھنٹے سے کم تھا جبکہ متعدد کا کہنا تھا کہ وہ رات گئے تک جاگنے کے عادی ہیں۔ رات گئے تک جاگنے کے باعث ان کی نیند پوری نہیں ہوتی تھی۔

    نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ڈپریشن اور خودکشی کے خیالات کو رپورٹ کرنے والے نوجوان نیند کی کمی کے شکار بھی ہوتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ نوجوانی میں نیند کی کمی سے ڈپریشن اور دیگر ذہنی مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 50 فیصد کے قریب نوجوانوں نے اعتراف کیا تھا کہ عام دنوں میں وہ 8 گھنٹے سے بھی کم وقت سوتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی نیند کو بہتر بنانے سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے جبکہ مختلف امراض سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔

  • بلڈ پریشر کو ایک نہیں دونوں بازوؤں میں جانچنا چاہیے، تحقیق

    بلڈ پریشر کو ایک نہیں دونوں بازوؤں میں جانچنا چاہیے، تحقیق

    بلڈ پریشر کو چانچنے کیلئے ایک نہیں بلکہ دونوں بازوؤں میں چیک کرنا چاہیے، یہ بات ڈیونیونیورسٹی آف ایگزیٹر کی تحقیق کے بعد بیان کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلڈ پریشر کی ریڈنگ ایک کے بجائے دونوں بازوؤں سے لی جانی چاہئے کیونکہ ہائی بلڈ پریشر یا ہائپر ٹینشن کے لاکھوں مریضوں کی درست تشخیص محض اس وجہ سے ممکن نہیں ہو پارہی ہے کہ اس وقت ڈاکٹرز مروجہ طریقہ کار کے مطابق صرف ایک بازو پر پٹا باندھ کر بلڈ پریشر کی ریڈنگ لیتے ہیں جو غلط ہوسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق انگلینڈ کے شہر ڈیون میں یونیورسٹی آف ایکسیٹر میڈیکل کے سینئر لیکچرر ڈاکٹر کرسٹوفر کلارک کا کہنا ہے کہ اگر آپ ہائی بلڈ پریشر کو بروقت اور ٹھیک طریقے سے نہیں جانچتے تو آپ اس مریض کا بھی علاج نہیں کرسکتے۔

    BLOOD

    واضح رہے کہ ہائی بلڈ پریشر سے دل کے دورے اور فالج کو تحریک ملتی ہے اور یہی وہ دو عوارض ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ لوگوں کی جان لیتے ہیں۔ 50 ہزار سے زیادہ بالغ افراد کے ایک جائزے میں یہ دیکھا گیا کہ ایک بازو کے مقابلے میں جب دونوں بازوؤں میں بلڈ پریشر کی پیمائش کی گئی تو ان میں فرق موجود تھا۔

    جب دونوں بازوؤں کی ریڈنگ لی گئی تو 12 فیصد ان مریضوں کو جنہیں ایک بازو میں بی پی کی پیمائش کے بعد نار مل قرار دیا گیا تھا، انہیں ہائی بلڈ پر یشر میں مبتلا بتایا گیا۔

    ڈاکٹر کرسٹوفر کلارک نے کہا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے میں ذراسی بھی غفلت جان لیوا ہوسکتی ہے۔ اگر دونوں بازوؤں میں بلڈ پریشر کی پیمائش نہ کی جائے تو اس سے نہ صرف یہ کہ ہائی بلڈ پریشر کی درست تشخیص نہیں ہو سکے گی بلکہ اس کا بروقت علاج بھی نہیں ہو سکے گا، اس طرح دنیا بھر میں بلڈ پریشر کی غلط تشخیص سے لاکھوں افراد کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

    یہ پیشگوئی کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ کسی شخص کا کون سا بازو اس معاملے میں بہترین ہے کہ یا وہ درست بلڈ پریشر ظاہر کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ کچھ لوگوں کا بایاں بازو دائیں کے مقابلے میں زیادہ ریڈنگ دیتا ہے اور اتنی ہی تعداد دوسرے لوگوں کی ہے جن کا دایاں بازو بائیں کی نسبت زیادہ ریڈ نگ بتاتا ہے اس لئے دونوں بازوؤں کو چیک کرنا اہم ہے۔

    ہائی بلڈ پریشر کا درست سراغ لگانا اس جانب ایک اہم قدم ہے کہ صحیح لوگوں کا صحیح علاج ہو سکے۔ یہ جائزہ طبی جریدہ ’’ہائپر ٹینشن میں شائع ہوا ہے جس میں 53 ہزار ایک سو 72، شر کاء کا تجزیہ کیا گیا۔

    ان تمام رضا کاروں کی بلڈ پریشر ریڈنگ صرف ایک کے بجائے دائیں اور بائیں دونوں بازوؤں سے لی گئی تھی۔ بلڈ پریشر کی ریڈنگ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کی شریانوں کی اندرونی دیواروں کو خون کتنی قوت کے ساتھ دھکیل رہا ہے۔

    blood pressure

    بلڈ پریشر ناپنے والے آلے پر اس کی پیمائش پارے کے ملی میٹر میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ پیمائش دو قسم کی ہوتی ہے ایک اوپر کی پیمائش ہوتی ہے جسے سائسٹولک کہتے ہیں۔ یہ نمبر دل کی اس طاقت کو ظاہر کرتا ہے جس سے وہ خون کو پورے جسم میں پمپ کرتا ہے۔

    دوسری نیچے والی پیمائش ہوتی ہے جسے ڈائسٹولک کہتے ہیں۔ یہ پیمائش اس وقت کے دبائو کو ظاہر کرتی ہے جب دل دھڑکنوں کے درمیان آرام کرتا ہے۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی ریڈنگ بہت بلند ہو تو اس سے شریانوں اور اہم اعضا پر دبائو بڑھ جاتا ہے تاہم ڈاکٹر ز زیادہ توجہ کے قابل سائسٹولک نمبر کو سمجھتے ہیں۔

    ڈاکٹر کلارک اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تحقیق میں یہ دریافت کیا ہے کہ دونوں بازوئوں کے درمیان سائسٹولک پریشر میں 6.6mmHg کا اوسط فرق تھا۔ جب دونوں بازوئوں کی ریڈنگ لی گئی تو تقریباً6 ہزار 5 سو شر کاء کو ان لوگوں میں شامل کیا گیا جو ہائپر ٹینشن کا شکار تھے اور ان کا سائسٹولک پریشر 140mmHg سے زیادہ تھا۔

    دونوں بازوئوں کی ریڈنگ میں فرق کی ایک وجہ بند شریانیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر یہ ہدایت کی گئی ہے کہ بلڈ پریشر کی جانچ دونوں بازوئوں میں کی جائے لیکن کلینکس میں عام طور پر اس ہدایت پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔

    ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کو دیکھنے کی فکر اور وقت کی کمی کی وجہ سے صرف آدھے ڈاکٹر ہی مریضوں کے دونوں بازوؤں میں بلڈ پریشر چیک کرتے ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • شادی کے بعد ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تحقیق

    شادی کے بعد ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تحقیق

    بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) عام بیماری بنتی جا رہی ہے اس بیماری کی کئی وجوہات ہیں تاہم نئی تحقیق میں حیران کن وجہ سامنے آئی ہے۔

    بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر ایک عام مگر خطرناک بیماری ہے کیونکہ اس معاملے میں لاپروائی انسان کو دیگر کئی سنگین اور جان لیوا امراض میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے کئی عوامل ہیں لیکن نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے۔

    یہ تحقیق امریکا کی مشی گن یونیورسٹی میں کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کے ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کا خطرہ غیر شادی شدہ افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ایک جوڑے کے درمیان خراب تعلق کا نتیجہ بہت خطرناک صورت میں سامنے آتا ہے کیونکہ شادی شدہ جوڑوں میں ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شادی شدہ افراد میں ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کا خطرہ دیگر افراد کے مقابلے میں 9 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کو خاموش قاتل مرض قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے شکار افراد کو اکثر اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں مردوں کو اس حوالے سے زیادہ حساس قرار دیا گیا ہے جن کی اپنی بیویوں سے تو تو میں میں کے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 1089، امریکا کے 3989، چین کے 6514 اور بھارت کے 22 ہزار 389 جوڑوں کے بلڈ پریشر کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    ان افراد سے بلڈ پریشر کی تاریخ معلوم کی گئی اور نتائج سے معلوم ہوا کہ برطانیہ کے 47 فیصد جوڑے بلڈ پریشر کے شکار تھے۔

  • دوپہر میں سونے والے خبردار

    دوپہر میں سونے والے خبردار

    اکثر افراد کو دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولے یعنی سونے کی عادت ہوتی ہے اور اب تک اسے دماغی صحت کے لیے بہترین قرار دیا جارہا تھا، تاہم اب حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے دوپہر میں سونے والوں کو خبردار کیا ہے۔

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ روزانہ 30 منٹ یا اس سے زیادہ وقت تک قیلولہ کرنے سے دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کے عارضے سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    تحقیق میں 20 ہزار سے زائد ایسے افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا جو مکمل صحت مند تھے۔

    ان افراد سے ہر 2 سال میں ایک بار سوالنامہ بھروایا گیا اور دوپہر کی نیند کے دورانیے کو پیش نظر رکھتے ہوئے 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جو دوپہر کو سوتے نہیں تھے، دوسرا 30 منٹ سے کم جبکہ تیسرا 30 منٹ سے زیادہ سونے والے افراد کا تھا۔

    تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ دوپہر کو 30 منٹ یا اس سے زائد وقت تک سونے والے افراد میں دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے، البتہ دوپہر میں چند منٹ کا قیلولہ کرنے والوں میں یہ خطرہ کم ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دوپہر کی نیند کا بہترین وقت 15 سے 30 منٹ کے درمیان ہوتا ہے، 30 منٹ سے کم وقت تک دوپہر کو سونے والے افراد میں دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا خطرہ 56 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

  • کروڑوں تنخواہیں لینے والوں نے 10 سال میں زراعت میں کیا تحقیق کی؟ رپورٹ طلب

    کروڑوں تنخواہیں لینے والوں نے 10 سال میں زراعت میں کیا تحقیق کی؟ رپورٹ طلب

    اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے گزشتہ 10 سال میں زرعی شعبے میں کی گئی تحقیق کی رپورٹ طلب کر لی، کمیٹی کا کہنا تھا کہ سالانہ کروڑوں روپے کی تنخواہیں دی جارہی ہیں لیکن کام صفر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی آڈٹ رپورٹ 22-2021 کا جائزہ لیا گیا۔

    پی اے سی نے گزشتہ 10 سال میں زرعی شعبے میں کی گئی تحقیق کی رپورٹ طلب کر لی، کمیٹی چیئرمین نور عالم خان کا کہنا تھا کہ سرکاری خزانے سے سالانہ 50 کروڑ روپے تنخواہیں دی جارہی ہیں لیکن سرکاری افسران کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔

    چیئرمین ایگری کلچر ریسرچ کونسل نے پی اے سی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسٹرابیری بھی زرعی سائنسدانوں کی تحقیق ہے۔

    پی اے سی نے اسٹرابیری کے بجائے گندم جیسی فصلوں پر توجہ دینے پر زور دیا، کمیٹی ارکان نے دریافت کیا کہ 10 سال میں گندم یا چاول کی کتنی اقسام متعارف کروائی گئی ہیں؟

    چیئرمین کا کہنا تھا کہ ملکی میں پی ایچ ڈی ہولڈرز بہت زیادہ ہیں لیکن زرعی شعبے میں تحقیق نہیں ہے۔

  • کیا آلو واقعی موٹاپے کا ذمہ دار ہے؟

    کیا آلو واقعی موٹاپے کا ذمہ دار ہے؟

    آلو کو موٹاپے اور صحت کے بیشتر مسائل کی وجہ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر سائنسی تحقیقات پر نظر ڈالی جائے تو آلو میں ایسی کوئی بات نہیں۔

    آلو بلاشبہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سبزی ہے جو کہ پوری دنیا میں کھائی جاتی ہے اور اسے فرائی، گرل یا ابال کر کئی طریقوں سے تیار کیا جا سکتا ہے۔

    صحت کے مسائل اور موٹاپے کا ذمہ دار آلو نہیں بلکہ آلو سے تیار کیے گئے تلے ہوئے اسنیکس جیسے کہ چپس اور فرنچ فرائز ہوسکتے ہیں کیونکہ ان میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں۔

    ماہرینِ صحت کے مطابق، آلو کا استعمال صحت بخش ہے کیونکہ اس میں فائبر اور دیگر غذائی اجزا جیسے کہ پوٹاشیئم، وٹامن سی، وٹامن بی 6، مینگنیز اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں اور اس میں موجود نشاستہ مزاحم قسم کا ہوتا ہے، جو آپ کی آنتوں میں موجود بیکٹیریا کو ختم کرتا ہے۔

    اس لیے اگر آپ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو کر کہ صحت کے مسائل اور موٹاپے کا ذمہ دار آلو ہے، اپنے گھر میں بنی ہوئی آلو کی سبزی پر پروسیسڈ فوڈ جیسے کہ نوڈلز کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ کے علم میں مندرجہ ذیل باتیں ضرور ہونی چاہئیں۔

    ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پروسیسڈ فوڈ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

    اس لیے اگر آپ اپنے گھر میں بنی ہوئی آلو کی سبزی پر نوڈلز کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ کا انتخاب غلط ہے کیونکہ انسٹنٹ نوڈلز میں 950 گرام سوڈیم اور دیگر کیمیکلز، ایسیڈیٹی ریگولیٹرز، اینٹی کیکنگ ایجنٹس، پرزرویٹوز، مصنوعی رنگ، اور ہیو میکٹینٹس بھی ہوتے ہیں۔

    ماہرینِ صحت نے آلو کو دوسری سبزیوں کے ساتھ ملا کر کھانےاور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانے کا مشورہ دیا کہ غذا میں کچھ پروٹینز بھی شامل ہوں۔

  • نیند نہیں آتی؟ تو یہ انوکھا طریقہ آزما کر دیکھیں

    نیند نہیں آتی؟ تو یہ انوکھا طریقہ آزما کر دیکھیں

    نیند نہ آنا، دیر سے آنا یا پرسکون نیند نہ آنا ہماری صحت کو متاثر کرتا ہے اور نیند کو بہتر بنانے کے لیے ہزاروں جتن کیے جاتے ہیں۔

    تاہم ماہرین نے اب جلدی اور پرسکون نیند لانے والا ایک انوکھا طریقہ دریافت کیا ہے جسے سن کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔

    سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پرتجسس شوز کو دیکھنے سے نیند کے معیار پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ جلد سونے میں مدد ملتی ہے۔

    اس تحقیق میں 50 افراد کو شامل کیا گیا جن کو سونے سے قبل ٹی وی پر کسی شو کی 3 اقساط دکھائی جاتی تھیں، 50 فیصد رضا کاروں کو مختلف پرتجسس شوز دکھائے گئے جبکہ دیگر افراد کو دستاویزی شوز دکھائے گئے۔

    تحقیق کے دوران ان افراد کی دل کی دھڑکن کی رفتار اور ایک ہارمون کورٹیسول کی سطح کے ذریعے تناؤ کا جائزہ بھی لیا گیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ اگرچہ پرتجسس شوز کو دیکھنے کے دوران تناؤ بڑھ جاتا ہے مگر انہیں دیکھنے والے افراد کی نیند کا معیار یا دورانیہ متاثر نہیں ہوا۔

    ماہرین کے مطابق ہم نے دریافت کیا کہ دستاویزی پروگرامز دیکھنے والوں کے مقابلے میں پرتجسس شوز دیکھنے والے بستر پر جا کر جلد سوجاتے تھے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ذہن گھما دینے والے اختتام پر مبنی پرتجسس شوز دیکھنے والے افراد بستر پر لیٹنے کے بعد اوسطاً 19 منٹ 13 سیکنڈ کے اندر سوجاتے تھے جبکہ دستاویزی شوز والے گروپ کے افراد میں یہ دورانیہ 21 منٹ 20 سیکنڈ ریکارڈ ہوا۔

    اسی طرح عام پرتجسس شوز کو دیکھنے والوں کو سونے کے لیے 18 منٹ 39 سیکنڈ درکار ہوتے تھے۔

    ماہرین کے مطابق ٹی وی شوز سے کسی فرد کے نیند کے دورانیے، گہری نیند اور دیگر عوامل پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے بلکہ وہ جلد سونے لگے۔

    ماہرین اس کی وجہ تو دریافت نہیں کر سکے مگر ان کے خیال میں پرتجسس مواد دیکھنے والوں کے لیے زیادہ دلچسپ ہوتا تھا جبکہ دستاویزی پروگرامز دیکھنے سے بیزاری کے باعث ممکنہ طور پر نیند متاثر ہوتی ہے۔

  • ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟ نئی تحقیق

    ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟ نئی تحقیق

    ہماری زمین کے سب سے قوی الجثہ جاندار ڈائنا سور تو معدوم ہوچکے ہیں، تاہم مختلف مقامات سے ملنے والے ان کے فوسلز یا رکازیات پر تحقیق جاری رہتی ہے، اب حال ہی میں ایک تحقیق نے ماہرین کے اس خیال کو مزید تقویت دی ہے کہ ڈائناسورز کی ارتقائی شکل پرندوں کی صورت میں موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈائنا سور اور پرندوں کے درمیان جینیاتی تعلق کے معمے میں اہم پیش رفت ہوئی کیونکہ ایک عجیب جاندار کے فوسل کا تجزیہ کرنے پر کچھ نئی تفصیلات ایک تحقیق میں سامنے آئی ہیں۔

    یہ فوسل ایک ایسے عجیب جانور کے ہیں جس کا جسم تو پرندے جیسا تھا مگر کھوپڑی ڈائنا سور کی تھی اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ فوسل 12 کروڑ سال پرانے ہیں۔

    ماہرین پہلے ہی کافی حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ عہد کے پرندے بنیادی طور پر بڑے گوشت خور ڈائنا سور کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

    یہ ڈائنا سور زمین پر کروڑوں سال پہلے گھوما کرتے تھے، مگر سائنسدانوں کو یہ معلوم نہیں کہ آخر اس عظیم الجثہ جاندار نے پرندوں کی شکل کیسے اختیار کرلی۔

    اب تک جو فوسل ملے وہ یا تو ڈائنا سورز کے تھے یا پرندوں کے، اس لیے ڈائنا سور کی کھوپڑی والا پرندہ بہت اہم خیال کیا جارہا ہے۔

    اس کا نام Cratonavis zhui رکھا گیا ہے اور یہ عجیب جاندار لمبی دم والے Archaeopteryx اور موجودہ عہد کے پرندوں کے اجداد سمجھے جانے والے Ornithothoraces کے درمیان کے سمجھے جاسکتے ہیں۔

    ان کو عرصے تک پرندوں اور ڈائنا سورز کے درمیان واحد تعلق سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے پر کسی پرندے جیسے تھے مگر بڑی دم اور کمر کسی ڈائنا سور کی طرح تھی۔

    مگر وقت کے ساتھ زمانہ قدیم کے پرندوں جیسے کئی جانداروں کے فوسل سامنے آئے اور 90 کی دہائی میں سائنسدانوں نے Ornithothoraces کو موجودہ عہد کے پرندوں کا جد امجد قرار دیا۔

    چین کی اکیڈمی آف سائنس نے Cratonavis کا فوسل دریافت کیا تھا جس کی جانچ پڑتال سی ٹی اسکینز سے کی گئی، اس سے انہیں جاندار کی ہڈیوں اور کھوپڑی کی اصل شکل کو دوبارہ بنانے میں مدد ملی۔

    تمام تر تجزیے کے بعد ماہرین نے تصدیق کی کہ اس جاندار کی کھوپڑی ٹی ریکس جیسے ڈائنا سور سے ہو بہو ملتی ہے، انہوں نے کہا کہ کندھوں کے اسکین سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ جاندار فضا میں خود کو مستحکم رکھ سکتا تھا اور بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ بھی کرسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولوشن میں شائع ہوئے۔

    اگرچہ نتائج سے یہ سمجھنے میں کسی حد تک مدد ملے گی کہ کس زمانے میں عظیم الجثہ ٹی ریکس نے موجودہ عہد کی مرغی یا دیگر پرندوں کی شکل اختیار کرنا شروع کی مگر اب بھی اس حوالے سے کافی کچھ جاننا باقی ہے۔