Tag: تحقیق

  • سعودی عرب: کافی پر ریسرچ کے لیے اہم اعلان

    سعودی عرب: کافی پر ریسرچ کے لیے اہم اعلان

    ریاض: سعودی عرب میں کافی پر ریسرچ کے لیے گرانٹس کا اعلان کیا گیا ہے، سعودی عرب دنیا میں کافی کے سب سے بڑے صارفین میں سے ایک ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی وزارت ثقافت نے سعودی کافی کمپنی کے تعاون سے سعودی کافی ریسرچ گرانٹس کے لیے درخواستیں قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    گرانٹس کا مقصد سعودی کافی پر تحقیق کے ذریعے ثقافتی بیداری کو فروغ دینا ہے، اس سے خطے کی کافی کی صنعت بھی متحرک ہوگی۔

    یہ گرانٹس سعودی اور بین الاقوامی محققین اور کافی کے مختلف شعبوں میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین کے لیے دستیاب ہیں۔

    گرانٹس تین بنیادی تحقیقی راستوں کی حمایت کرتے ہیں، پہلا جزیرہ نما عرب میں کافی کی ابتدا اور اس سے وابستہ اہم ترین تاریخی ادوار اور واقعات کو دریافت کرتا ہے۔

    دوسرا ثقافتی ورثے کے طور پر سعودی کافی کے درمیان تعلق اور اظہار کی زبانی شکلوں جیسے شاعری، فنون لطیفہ، موسیقی، سماجی طریقوں، رسومات اور تہوار کی تقریبات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

    تیسرا راستہ مقامی کافی کی پیداوار کے فروغ سے متعلق ہے جو پائیدار اقتصادی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ یہ گرانٹ سعودی کافی سال انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب دنیا میں کافی کے سب سے بڑے صارفین میں سے ایک ہے اور مملکت کے وژن 2030 پروگرام کے منصوبوں کے مطابق گھریلو کافی کی پیداوار میں خود کفالت حاصل کرنے، کھپت اور اقتصادی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

    سعودی عرب میں کافی کی کاشت کے لیے جازان، عسیر اور الباحہ میں کافی کے درختوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ کافی کے پھل دار درختوں کی تعداد 4 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

  • کھانے کے دوران پانی پینا صحت کے لیے کتنا فائدہ مند؟ تحقیق سامنے آگئی

    کھانے کے دوران پانی پینا صحت کے لیے کتنا فائدہ مند؟ تحقیق سامنے آگئی

    طبی ماہرین ہمیشہ سے کھانے کے بعد پانی پینے کو ایک غیر صحت مند عمل قرار دیتے رہے ہیں، عموماً کہا جاتا ہے کہ پانی کھانے کے دوران پینا چاہیئے، لیکن کیا یہ واقعی صحت کے لیے فائدہ مند ہے؟

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کھانے کے دوران پانی پینا ایک غیر صحت مند طرز عمل ہے جو جسم کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج میں کہا گیا کہ کھانے کے دوران پانی پینا کسی حد تک مضر صحت ثابت ہوسکتا ہے جو کہ نظام انہضام سے متعلق کئی مسائل کا سبب بن سکتا ہے، جیسے اپھارہ، بدہضمی اور غذائی اجزا کی خرابی۔

    غذائی ماہرین کے مطابق کھانے سے کم از کم 30 منٹ پہلے اور ایک گھنٹہ بعد پانی نہ پینا بہتر ہے، اور اگر پانی پینا ضروری بھی ہو تو اس کی قلیل مقدار یعنی چند چھوٹے گھونٹ پیئں۔

    کھانے کے دوران زیادہ پانی پینا کھانے کو ہضم کرنے والے کیمیکلز اور معدے میں ہائیڈرو کلورک ایسڈ کو پتلا کرتے ہیں، یہ ایک ایسا جزو ہے جو کھانے کو مناسب انداز میں ہضم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

    اگر آپ اپنے ہاضمے کے عمل کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو کھانا آہستہ آہستہ چبا کر کھائیں، صرف اس وقت کھائیں جب آپ کو بھوک محسوس ہو اورسکون کی حالت میں کھانا کھائیں۔

    ساتھ ہی مرغن اور تیزابیت والی غذاؤں کو اعتدال میں غذا میں شامل رکھیں، ماہرین کے مطابق اس طرح کی عادات کو اپنا کر آپ بائل فلو اینزائم کی سرگرمی کو تیز کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں تاکہ جو بھی غذا کھائی جائے وہ بہتر انداز میں ہضم ہو کر جذب ہو سکے۔

  • کیا آپ بھی اپنے بچوں پر بہت سختی کرتے ہیں؟

    کیا آپ بھی اپنے بچوں پر بہت سختی کرتے ہیں؟

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ والدین کی سخت اور غصیلی طبعیت سے بچہ ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔

    جرمنی میں ہونے والی ایک تحیقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن بچوں کے والدین سخت ہوتے ہیں، ان بچوں میں ڈپریشن اور دیگر دماغی صحت کے مسائل پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    یہ تحقیق جرمنی کے شہر بیلجیئم میں کی گئی اس تحقیق میں 23 بچوں کو شامل کیا گیا ہے، جن کی عمریں 12 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔

    یہ وہ بچے تھے جنہوں نے اپنے والدین کو سخت مزاج ہونے کی شکایات کی تھیں، اس کے بعد بچوں کی ذہنی صحت کا موازنہ ان بچوں سے کیا گیا جن کے والدین نرم مزاج تھے۔

    تحقیق کے مطابق آمرانہ طرزِ فکر کے حامل والدین کے بچے دماغی و ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بن جاتے ہیں۔

    بولنے میں ہکلاہٹ یا لکنت کیوں ہوتی ہے؟

    تحقیقی ماہر ڈاکٹر ایولین وان اسشے کے مطابق وہ والدین جو اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر انہیں جسمانی و ذہنی سزائیں دیتے ہیں، ان کے بچوں کے ڈی این اے میں ایک خاص جین کا اضافی سیٹ پیدا ہوجاتا ہے جو ان سخت رویوں کے باعث بچوں کے ذہن کو متاثر کرتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ بچے جن کے والدین نرم مزاج کے ہوتے ہیں ان کے بچوں میں اس نوعیت کے مسائل کے امکانات بھی نمایاں طور پر کم ہوتے ہیں۔

    دیگر متعدد مطالعات کے مطابق چھ سال سے کم عمر کے بچوں کو درپیش ذہنی صحت کے مسائل کے پھیلاؤ کا باعث والدین کا رویہ ہے۔

    حیران کُن بات یہ ہے کہ والدین کے سخت رویوں سے بچوں کا ڈی این اے متاثر ہوا، جینوم میپنگ سے پتہ چلتا ہے کہ ان بچوں میں ’میتھیلیشن ‘کی تبدیلی میں اضافہ ہوا تھا، جس کا تعلق ڈپریشن سے ہے۔

    ’میتھیلیشن ‘ایک ایسا عمل ہے جس کے دوران ایک اضافی مالیکیول ڈی این اے میں شامل ہوجاتا ہے، جس سے اس کی ہدایات کو پڑھنے کا طریقہ بدل جاتا ہے۔

    سخت والدین کے بچے توقع سے کہیں زیادہ میتھیلیشن سے گزرتے ہیں جس کے بعد انہیں ان مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل بھی کئی دیگر مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سخت اور غصیلی طرز تربیت بچوں کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے۔

  • وائرس چالاکی سے ہمارے جسم میں حملہ کرتے ہیں

    وائرس چالاکی سے ہمارے جسم میں حملہ کرتے ہیں

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم میں موجود وائرس مناسب موقع دیکھ کر حملہ آور ہوتے ہیں، اس سے پہلے وہ جسم میں موجود رہ کر انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امراض کی وجہ بننے والے وائرس ہماری توقع سے زیادہ چالاک ہوتے ہیں اور جسم کے اندر رہتے ہوئے اطراف پر نظر رکھتے ہیں، پھر مناسب وقت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

    حالیہ تحقیق میں کہا گیا کہ وائرس یہ جانتے ہیں کہ انہیں انسان یا جانور کے جسم میں کب خاموش بیٹھے رہنا ہے اور کب اپنا خوفناک روپ اختیار کر کے بیماری پھیلانا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس تحقیق سے وائرس کے طریقہ واردات کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

    جامعہ بالٹی مور سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹیشنل ماہر حیاتیات ڈاکٹر ایوان ایرل اور ان کے ساتھیوں نے یہ تحقیق کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ وائرس کا ایک دلچسپ پہلو ہے لیکن اس سے علاج کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔

    اس کے لیے ماہرین نے ایسے وائرس پر غور کیا ہے جو بیکٹیریا کو متاثر کرتے ہیں، یہ وائرس بیکٹیریو فیجز یا صرف فیجز بھی کہلاتے ہیں۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وائرس عین اس وقت حملے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جب بیکٹیریا کے مخصوص ساختی ابھار نمودار ہوتے ہیں۔ ماہرین نے انہیں فلیجلا اور پائلی کا نام دیا ہے۔

    سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ عین یہی معاملات انسانوں میں بھی رونما ہوسکتے ہیں لیکن اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    اس تحقیق کے بعد ماہرین مزید کیمیائی اجزا اور اس عمل کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ طے ہے کہ وائرس کے اس مطالعے سے امراض کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکے گی اور کووڈ سمیت نئی ابھرتی ہوئے امراض کا علاج بھی آسان ہوگا۔

  • زمین کے ایک حصے پر غیر معمولی گرمی: ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    زمین کے ایک حصے پر غیر معمولی گرمی: ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرہ ارض پر آرکٹک کا حصہ 4 گنا رفتار سے گرم ہو رہا ہے، یہ تحقیق حال ہی میں کی گئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ 40 سالوں میں زمین کے شمالی حصے آرکٹک میں گرمی کی شرح میں تقریباً 4 گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ موسمیاتی ماڈل قطبی درجہ حرارت کی شرح کے حوالے سے غلط اندازے لگا رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے موسمیاتی سائنس پینل نے 2019 میں ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ آرکٹک ایمپلی فکیشن کے نام سے مشہور عمل کی وجہ سے شمالی علاقے عالمی اوسط سے دگنا رفتار سے گرم ہو رہے ہیں۔

    یہ اس وقت ہوتا ہے جب برف اور گلیشیئرز، سورج کی روشنی اور حرارت سے پگھل کر پانی کی شکل میں سمندر کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے اتفاق رائے ہے کہ شمالی علاقے تیزی سے گرم ہو رہے ہیں تاہم اس حوالے سے ٹائم فریم پر سب کے اندازے مختلف ہیں جبکہ اس بات پر بھی اختلاف ہے کہ آرکٹک کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ناروے اور فن لینڈ میں مقیم محققین کی ایک ٹیم نے 1979 سے آرکٹک سرکل کے سیٹیلائٹ اسٹڈیز کے ذریعے جمع کیے گئے درجہ حرارت کے ڈیٹا کے چار سیٹ کا تجزیہ کیا۔

  • مرگی کے دوروں کو روکنا ممکن ہے؟

    مرگی کے دوروں کو روکنا ممکن ہے؟

    لاعلاج مرض مرگی اپنے مریضوں کی زندگی بے حد مشکل بنا دیتا ہے، تاہم اب اس کے حوالے سے ماہرین کو امید کی نئی کرن دکھائی دی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے مرگی کے دورے روکنے اور اس کے ممکنہ نقصان سے بچنے کا ایک نیا طبی طریقہ دریافت کیا ہے۔

    ڈبلن میں واقع ٹرینٹی کالج میں جینیات کے پروفیسر ڈاکٹر میتھیو کیمبیل اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ نئی تحقیق سے ایسی ادویات بنانے میں مدد ملے گی جنہیں لاعلاج مرگی اور اس کے دوروں کے افاقے میں استعمال کیا جاسکے گا۔

    اس تحقیق میں مرگی کے پورے عمل کو سالماتی سطح پر سمجھا گیا ہے جو اس سے قبل ممکن نہ تھا۔

    دماغ کی فالتو برقی سرگرمیوں کی وجہ سے مرگی کے دورے پڑتے ہیں اوردماغ سمجھ نہیں پاتا کہ آخر وہ ان سگنلز کی کیا تشریح کرے، اس سے جسم پر دورے پڑتے ہیں اور مریض بے ہوش بھی ہوجاتا ہے۔

    اس میں بطورِ خاص ان باریک رگوں کو دیکھا گیا ہے جو بلڈ برین بیریئر (بی بی بی) کی تشکیل کرتی ہیں۔

    نئی طبی تحقیق بتاتی ہے کہ بی بی بی کا مرگی میں خاص کردار ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بی بی بی نظام میں خون کی باریک ترین رگوں یعنی کیپلریز کو سرگرم رکھ کر ہی مرگی کو روکا جاسکتا ہے۔

    اہم بات یہ ہے کہ اس تحقیق میں ماہرینِ جینیات، نیورولوجسٹ، نفسیاتی معالجین، نیوروسرجن اور دیگر شعبوں کے ماہرین بھی شامل تھے جو دیگر اداروں سے وابستہ ہیں۔

  • عمر کے ساتھ ساتھ دماغ کے حجم میں تبدیلی

    عمر کے ساتھ ساتھ دماغ کے حجم میں تبدیلی

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ دماغ کے حجم میں کمی آتی جاتی ہے، اس تحقیق کے لیے 1 لاکھ سے زائد افراد کی جانچ کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کافی عرصے سے سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسانی دماغ کے حجم میں تبدیلیاں آتی ہیں، مگر اب پہلی بار اس کی نشوونما کا مکمل چارٹ تیار کیا گیا ہے۔

    15 ہفتوں کے بچوں سے لے کر 100 سال کی عمر کے افراد کے دماغی اسکینز سے معلوم ہوا کہ زندگی کی ابتدا میں دماغ تیزی سے پھیلتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ بتدریج سکڑنے لگتا ہے۔

    برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 6 براعظموں سے تعلق رکھنے والے 1 لاکھ 25 ہزار کے قریب افراد کے دماغی اسکینز کے اس ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جو سابقہ تحقیقی رپورٹس میں اکٹھا کیا گیا تھا۔

    یہ انسانی دماغ کی نشوونما کا پہلا چارٹ بھی ہے جس کے نتائج چونکا دینے والے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ عالمی سطح پر کوشش کر کے ہم نے پوری زندگی کے دماغی نشوونما کے ڈیٹا کو اکھا کیا جس سے ہمیں ابتدائی زندگی میں تیزی سے ہونے والی دماغی تبدیلیوں کو جانچنے کا موقع ملا اور یہ بھی علم ہوا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ سست روی سے تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دماغی خلیات یا گرے میٹر کا حجم 6 برس کی عمر میں عروج پر ہوتا ہے جس کے بعد یہ بتدریج گھٹنے لگتا ہے۔

    اسی طرح وائٹ میٹر یا دماغی کنکشن کا حجم بچپن میں تیزی سے بڑھتا ہے اور 29 سال کی عمر سے قبل عروج پر ہوتا ہے جبکہ اس کے حجم میں کمی کا عمل 50 سال کی عمر میں تیز ہوجاتا ہے۔

    جسمانی افعال اور بنیادی رویوں کو کنٹرول کرنے والے دماغی حصے کا حجم 14 سال کی عمر میں عروج پر ہوتا ہے۔ اس دماغی چارٹ سے سائنس دانوں کو دماغی امراض کے شکار افراد کے دماغ میں آنے والی تبدیلیوں کو جانے کا موقع بھی مل سکے گا۔

    الزائمر امراض کے شکار افراد کے دماغی افعال تنزلی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ دماغی ٹشوز کی محرومی کا سامنا بھی ہوتا ہے، جس وجہ سے ان افراد کے دماغ کا حجم دیگر کے مقابلے میں کم ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ویسے تو عمر کے ساتھ دماغ کا حجم قدرتی طور پر گھٹنے لگتا ہے مگر الزائمر کے مریضوں میں یہ عمل بہت تیز رفتاری سے ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم ابھی بھی اپنے دماغی چارٹس کے حوالے سے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے ہیں مگر ان سے دماغی نشوونما اور ہمارے جذبات کے حوالے سے کافی کچھ معلوم ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان چارٹس کو مریضوں کی اسکریننگ کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، مثال کے طور پر ڈاکٹروں کو دماغی تنزلی کے آثار دیکھنے کا موقع مل سکے گا۔

  • ہر 5 میں سے 1 شخص ’بیٹ مین‘ ہے

    ہر 5 میں سے 1 شخص ’بیٹ مین‘ ہے

    ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ ہر 5 میں سے 1 شخص بیٹ مین کی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اور ایک خود ساختہ چوکیدار کا روپ دھار لیتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ہر 5 میں سے ایک شخص بیٹ مین کی طرح خود ساختہ چوکیدار کا روپ دھار لیتا ہے اور دوسروں کے رویوں کو روزمرہ کی بنیاد پر دیکھتا ہے اور جو اصولوں کی پیروی نہیں کرتے ان کو سزا دیتا ہے۔

    یہ خصوصیت ان خود ساختہ چوکیداروں کو مخصوص مواقع پر عمل کرنے کے لیے بڑھاتی ہے جہاں ان کا خیال ہوتا ہے کہ حکام انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور یہ ان کی انا کو تقویت بخشتی ہے۔

    یہ خود ساختہ چوکیدار دوسروں کو سوشل میڈیا پر ان کی توہین کرتے ہوئے سزا دے سکتے ہیں۔

    یونیورسٹی آف الی نوائے، یونیورسٹی آف اوٹاگو اور یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ماہرین نے یہ جاننے کے لیے کہ کون سے لوگ وجلانٹے شناخت اپناتے ہیں، ایک وجلانٹے آئیڈینٹٹی اسکیل بنایا ہے۔

    یونیورسٹی آف الی نوائے میں نفسیات میں ڈاکٹریٹ کے امیدوار فین شوان چین کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کو سزا دینے والا سمجھتے ہیں اور ماحول پر نظر رکھتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ان کے جوابات یہ بتاتے ہیں کہ انہیں مستقبل کے مجرموں کو سبق سکھانے کے لیے معصوموں کو سزا دینے سے کوئی مسئلہ نہیں اور یہ لوگ واجب العمل طریقے کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ اسکیل ان امیدواروں کی اسکریننگ کے لیے کارآمد ہوسکتا ہے جو پولیس یا ملٹری میں کام کرنا چاہتے ہوں۔

  • گوشت کا زیادہ استعمال کینسر کی وجہ بن سکتا ہے

    گوشت کا زیادہ استعمال کینسر کی وجہ بن سکتا ہے

    سرخ گوشت کھانے کے نقصانات سے انکار نہیں اور اس کا زیادہ استعمال خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گوشت خوری اور کینسر کے درمیان مزید شواہد سامنے آگئے، برطانیہ میں 5 لاکھ افراد کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ گوشت خوری سے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    سائنسدانوں کی جانب سے گوشت کے زیادہ استعمال اور کینسر کے درمیان تعلق پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے لیکن اب سائنس دانوں کو اس حوالے سے مزید شواہد ملے ہیں کہ زیادہ گوشت خوری کئی طرح کے سرطان کی وجہ بن سکتی ہے اور گوشت کم کھانے سے تقریباً تمام اقسام کے سرطان سے بچاؤ ممکن ہے۔

    برطانوی ماہرین کی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جتنا زیادہ گوشت کے استعمال میں اضافہ ہوگا اتنا ہی زیادہ کینسر کا خطرہ بھی بڑھتا جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت خوری سے سن یاس کے بعد بریسٹ کینسر، بڑی آنت اور پروسٹیٹ کینسر کا خدشہ بطورِ خاص پیدا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں برطانوی بائیو بینک میں موجود ڈیٹا بیس سے 4 لاکھ 72 ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا اور ایک عرصے تک ان پر نظر رکھی گئی جس میں لاکھوں افراد کی اوسط عمر 40 سے 70 برس تھی اور مسلسل 11 برس تک ان کی طبی کیفیات کا جائزہ لیا جاتا رہا۔

    اس تحقیقی جائزے سے معلوم ہوا کہ 2006 سے 2010 کے درمیان یہ تمام افراد کینسر سے دور اور تندرست تھے، ان میں سے 52 فیصد افراد نے ہفتے میں پانچ مرتبہ گوشت کی عادت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ مچھلی، سرخ گوشت اور خنزیر وغیرہ کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں۔

    43 فیصد افراد نے صرف مچھلی کھانے کا اعتراف کیا جبکہ 10 ہزار یعنی 2.3 فیصد افراد نے صرف سبزی کھانے کا اعتراف کیا۔

    تاہم گیارہ برس بعد ان میں سے 54 ہزار سے زائد افراد خطرناک کینسر میں مبتلا ہو چکے تھے، انہیں بڑی آنت، پروسٹیٹ، اور خواتین کو چھاتی کا سرطان لاحق ہوچکا تھا۔

    تحقیق سے یہ بھی علم ہوا کہ سبزیاں کھانے سے عددی طور پر سرطان کا خطرہ 14 فیصد کم ہوجاتا ہے جبکہ مچھلی کھانے والوں میں اس کی شرح 10 فیصد کم دیکھی گئی اور زیادہ گوشت کھانے والے افراد میں کینسر کی شرح میں اضافہ سامنے آیا۔

  • انسانی دماغ کی صلاحیت کے بارے میں ایک اور حیران کن انکشاف

    انسانی دماغ کی صلاحیت کے بارے میں ایک اور حیران کن انکشاف

    انسانی دماغ ایک عجوبہ ہے جس کے بارے میں تاحال نئی نئی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، حال ہی میں دماغ کے بارے میں ایک اور نیا انکشاف ہوا ہے۔

    ہماری آنکھیں مسلسل سامنے آنے والے مناظر کی بہت زیادہ تفصیلات حاصل کرتی رہتی ہیں اور دماغ کے لیے ان کا تجزیہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

    ایک طرف ہماری آنکھوں کے سامنے مسلسل تبدیلیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ روشنی اور دیگر عناصر ہوتے ہیں، دوسری جانب ہماری بینائی کے اندر بھی مسلسل تبدیلیاں آتی ہیں جس کی وجہ پلک چھپکنا، آںکھوں اور جسم کا متحرک ہونا ہوتا ہے۔

    اس کا ایک اندازہ لگانے کے لیے ایک فون کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں اور چلتے پھرتے اور دیکھتے ہوئے لائیو ویڈیو ریکارڈ کریں۔

    اس کا رزلٹ آپ کو عندیہ دے گا کہ ہمارا دماغ کسی طرح ہماری ہر نظر کے تجربے سے نمٹتا ہے۔

    ایسا اس ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں سفید سرکل آنکھوں کی حرکات کا عندیہ دیتا ہے جبکہ دھندلا حصہ ہر حرکت کے ساتھ بینائی کے اندرونی افعال کے بارے میں بتاتا ہے۔

    تو دماغ اس کے لیے ایک منفرد میکنزم کو استعمال کرتا ہے جو ہماری بینائی کے استحکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔

    اس میکنزم کا انکشاف ایک نئی تحقیق میں ہوا جس کے مطابق ہمارا دماغ خودکار طور پر ہماری بینائی کو مستحکم رکھتا ہے اور یہ چونکا دینے والا طریقہ ہوتا ہے۔

    درحقیقت ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ اوسطاً 15 سیکنڈ پہلے کا ہوتا ہے اس طرح دماغ تمام حصوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے تاکہ ہمیں محسوس ہو کہ بینائی ایک مستحکم ماحول میں کام کررہی ہے۔

    ماضی میں رہنے سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ کسی وجہ سے اکثر ہم وقت کے ساتھ اپنے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتے۔

    آسان الفاظ میں ہمارا دماغ ایک ٹائم مشین کی طرح کام کرتا ہے جو ہمیں چند سیکنڈ پہلے کے وقت میں واپس بھیجتا ہے تاکہ روزمرہ کی سرگرمیاں ہمارے لیے مسائل نہ بن سکیں۔

    اس کے برعکس اگر دماغ ریئل ٹائم میں سب کچھ اپ ڈیٹ کرے تو دنیا ہماری نظروں کے لیے ایک افراتفری کا مقام ہوگی جس میں روشنی، سائے اور حرکت کا مسلسل تحرک ہوگا، جو ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔

    امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہمارے دماغ کو ارگرد کے مناظر کے حوالے سے بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے تو وہ ماضی سے چپکا رہتا ہے کیونکہ وہ حال کا عندیہ دیتا ہے، اس طرح وہ تفصیلات کو ری سائیکل کرتا ہے جو زیادہ برق رفتار، زیادہ بہتر ہوتا ہے اور اسے کم کام کرنا پڑتا ہے۔