Tag: تحقیق

  • بجلی سے جوڑوں کے درد کا علاج کس طرح ممکن ہے؟

    بجلی سے جوڑوں کے درد کا علاج کس طرح ممکن ہے؟

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ بجلی خارج کرنے والے ایک نظام سے اس نرم ہڈی کی افزائش بڑھائی جاسکتی ہے جو ہڈیوں اور جوڑوں کے درمیان موجود ہوتی ہے اور جوڑوں کے درد میں ٹوٹ پھوٹ اور گھساؤ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    تجربے میں اس ہڈی کا پیوند یا امپلانٹ ایسے چوہوں پر آزمایا گیا جو حرکت کرتے تھے اور اس حرکت سے ہلکی بجلی بنتی تھی جو ٹوٹی ہوئی نرم ہڈیوں تک پہنچتی تھی۔

    اس طرح ان کی ہڈیوں کی درمیان ربڑ جیسی چکنی تہہ کی افزائش ازخود شروع ہوگئی، تاہم بعض خرگوشوں میں فرضی آلہ(بلے سیبو) لگایا گیا تھا جس کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا۔

    ماہرین نے جسم کے اندر بیٹری لگانے کے بجائے ایسا مادہ لگایا جو جسمانی حرکت اور دباؤ سے بجلی بناتا ہے اور جوڑوں تک پہنچاتا رہتا ہے۔ یوں نرم ہڈی کے خلیات بڑھے اور ان میں حرکت پیدا ہوئی یوں دھیرے دھیرے ان کی تکلیف کم ہوتی گئی۔

    ماہرین نے بجلی خارج کرنے والا نرم پیوند خرگوشوں کی ان نرم ہڈیوں کے سوراخوں میں پھنسایا تھا جو گھس کر ختم ہورہی تھیں، خورد بین سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ دھیرے دھیرے اصل ہڈی کے خلیات اس جگہ کو بھرنے لگے اور یہ سب ہلکی بجلی کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

  • دل کے دورے اور فالج سے بچنے کے لیے کون سا پھل مفید؟

    دل کے دورے اور فالج سے بچنے کے لیے کون سا پھل مفید؟

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ ہارٹ اٹیک اور فالج جیسے جان لیوا امراض سے بچنے کے لیے انگور کھانے کو اپنی عادت بنا لیں۔

    کیلی فورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل رضا کاروں کو روزانہ 46 گرام انگوروں کا پاؤڈر استعمال کروایا گیا جو 300 گرام انگوروں کے برابر سمجھا جاسکتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ انگور کھانے کی عادت سے معدے میں بیکٹریا کا تنوع نمایاں حد تک بڑھتا ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ انگور کھانے سے جسم میں کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے، یعنی خون میں موجود وہ چربیلا مواد جو شریانوں کو بند کر کے امراض قلب کا باعث بنتا ہے۔

    تحقیق کے لیے 19 صحت مند افراد کو پولی فینول اور فائبر کی کم مقدار والی غذا کا 4 ہفتوں تک استعمال کروایا گیا اور اس کے بعد مزید 4 ہفتوں تک 46 گرام انگوروں کے پاؤڈر کا روزانہ استعمال کروایا گیا جبکہ پہلی والی غذا کا استعمال جاری رکھا گیا۔

    انگوروں کے سپلیمنٹس کے استعمال سے قبل اور بعد میں فضلے اور پیشاب کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے اور دریافت ہوا کہ معدے میں صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی اقسام میں اضافہ ہوا، بالخصوص ایسے بیکٹریا جو گلوکوز اور لپڈ میٹابولزم کے لیے فائدہ مند اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ رضا کاروں میں بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں مجموعی طور پر 6.1 فیصد کمی آئی جبکہ نقصان دہ سمجھے جانے والے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح میں 5.9 فیصد کمی آئی۔

    تحقیق کے مطابق بائل ایسڈز کی سطح بھی 40.9 فیصد گھٹ گئی۔ ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ انگور معدے کی صحت کے ساتھ ساتھ دل کی صحت کے لیے مفید پھل ہے۔

    اس سے قبل بھی تحقیقی رپورٹس میں انگور کھانے کی عادت اور دل کی اچھی صحت کے لیے درمیان تعلق کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔

  • کھانستے ہوئے وائرل ذرات کا پھیلاؤ کس طرح کم کیا جاسکتا ہے؟

    کھانستے ہوئے وائرل ذرات کا پھیلاؤ کس طرح کم کیا جاسکتا ہے؟

    کسی بھی شخص کے کھانسنے اور چھینکنے کے دوران وائرل ذرات فضا میں پھیلتے ہیں لیکن اب ماہرین نے بتایا ہے کہ کس طرح اس پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کھانستے ہوئے سر کو فرش کی جانب جھکا لینا ایسے وائرل ذرات کے پھیلاؤ میں کمی لا سکتا ہے جو مختلف امراض جیسے کووڈ 19 کا باعث بنتے ہیں۔

    طبی جریدے جرنل اے آئی پی ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں پتلوں کو ایک واٹر ٹنل رکھ کر اس جگہ لیزر شعاعوں کا استعمال کر کے دیکھا گیا کہ وائرل ذرات بہہ سکتے ہیں یا نہیں۔

    تحقیق کے لیے پتلوں کو مختلف زاویوں سے رکھا گیا جیسے سر اوپر اٹھا کر یا فرش کی جانب جھکا کر دیکھا گیا۔ ان پتلوں کو حرکت دینے پر دریافت کیا گیا کہ سر اوپر یا سیدھا رکھنے پر ذرات زیادہ آسانی سے پھیلتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں سر نیچے کی جانب جھکانے پر وائرل ذرات فرش کی جانب چلے جاتے ہیں اور زیادہ فاصلے تک سفر نہیں کر پاتے۔

    ماہرین نے اسے حیران کن دریافت قرار دیا۔

    انہوں نے بتایا کہ تحقیق میں وائرل ذرات کے پھیلاؤ کے 2 مختلف پیٹرنز کا مشاہدہ کیا گیا، نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہمیں کھانستے ہوئے سر کو فرش کی جانب جھکالینا چاہیئے تاکہ زیادہ تر ذرات وہاں ہی جائیں۔

    یہ تحقیق کچھ حد تک محدود تھی اور اس میں پانی سے بھرے ماحل میں لیزر کا استعمال کرکے ہوا کے بہاؤ کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ہوا دار مقام میں اس طرح کا تجربہ نہیں کیا گیا مگر ماہرین کو توقع ہے کہ وہ اس تجربے کی بنیاد پر اپنے تحقیقی کام کو حقیقی انسانوں میں کھانسی کے اثرات جاننے کے لیے بڑھا سکیں گے۔

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت کا بھی مشورہ ہے کہ کھانستے ہوئے منہ کو کہنی میں چھپا لینا چاہیئے تاکہ وائرل ذرات فضا میں پھیل نہ سکیں۔

  • کیا چکنائی نقصان کے بجائے فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

    کیا چکنائی نقصان کے بجائے فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

    اب تک کہا جاتا رہا تھا کہ چکنائی یا چربی صحت کے لیے مضر ہوسکتی ہے تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں اس حوالے سے مختلف نتائج سامنے آئے ہیں۔

    امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے سائنٹیفک سیشنز 2021 میں پیش کیے گئے ایک تحقیق کے نتائج میں کہا گیا کہ نباتاتی ذرائع سے حاصل کی گئی چکنائی جیسے زیتون، کینولا، سورج مکھی کا تیل، گریاں اور بیج فالج جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں سرخ گوشت یا حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی سے فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مختلف غذائی ذرائع سے حاصل چکنائی کی اقسام دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول فالج کی روک تھام کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چکنائی کی 2 بنیادی اقسام ہے ایک حیوانی ذرائع اور دوسری پودوں سے حاصل ہونے والی چکنائی، دونوں کے درمیان مالیکیولر لیول کا فرق بڑا فرق پیدا کرتا ہے، حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی میں ان کاربن ایٹمز کے درمیان تعلق کی کمی ہوتی ہے جو فیٹی ایسڈز کو جوڑتے ہیں۔

    اس تحقیق میں ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    یہ تمام افراد تحقیق کے آغاز پر امراض قلب سے محفوظ تھے، ان افراد سے ہر 4 سال بعد غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھروائے گئے۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 16 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح جو لوگ ویجیٹیبل چکنائی کازیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ 12 فیصد تک کم ہوجاتا ہے، دودھ سے بنی مصنوعات جیسے پنیر، مکھن، دودھ، آئسکریم اور کریم فالج کا خطرہ بڑھانے سے منسلک نہیں۔

    سرخ گوشت زیادہ کھانے والے افراد میں فالج کا خطرہ 8 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جبکہ جو لوگ پراسیس سرخ گوشت کھاتے ہیں ان میں یہ خطرہ 12 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول فالج اور موٹاپا سرخ گوشت زیادہ کھانے سے جڑے ہوتے ہیں، جس کی وجہ اس میں چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہے، جو کولیسٹرول کی سطح بڑھانے اور شریانوں کے بلاک ہونے کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نباتاتی ذرائع سے حاصل چکنائی دل کی صحت کے لیے بہترین ہے، کیونکہ اس میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں جو جسم خود نہیں بناسکتا، یہ چکنائی ورم اور کولیسٹرول کو کم کرتی ہے۔

  • دماغ کو بوڑھا ہونے سے کیسے بچایا جائے؟

    دماغ کو بوڑھا ہونے سے کیسے بچایا جائے؟

    یونان میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی تنزلی سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو پھلوں، سبزیوں، بیجوں اور دیگر غذاؤں کا استعمال معمول بنالیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ورم کش خصوصیات رکھنے والی غذاؤں کا استعمال عمر بڑھنے کے ساتھ ڈیمینشیا کا شکار ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    کاپوڈسٹریشن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ورم بڑھانے کا باعث بننے والی غذاؤں کا استعمال یادداشت سے محرومی، زبان کے مسائل، مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور سوچ سے جڑی دیگر صلاحیتوں کا امکان 3 گنا بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ورم کش غذا کا استعمال ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ غذا ممکنہ طور پر دماغی صحت پر متعدد میکنزمز کے ذریعے اثرات مرتب کرتی ہے اور ہمارے نتائج کے مطابق ورم ان میں سے ایک ہے۔

    اس تحقیق میں ایک ہزار سے زیادہ معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان سے سوالنامے بھروا کر غذائی عادات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق کے آغاز میں کسی میں بھی ڈیمینشیا کی تاریخ نہیں تھی اور 3 برسوں کے دوران 6 فیصد میں دماغی تنزلی کی تشخیص ہوئی۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مغربی طرز کی غذا کے استعمال سے ڈیمینشیا کا خطرہ 21 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں پھلوں، سبزیوں، بیجوں، دالوں، کافی یا چائے کا زیادہ استعمال دماغی تنزلی سے متاثر ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیورولوجی میں شائع ہوئے۔

  • اونٹنی کے دودھ کا حیران کن فائدہ سامنے آگیا

    اونٹنی کے دودھ کا حیران کن فائدہ سامنے آگیا

    اونٹنی کے دودھ کو نہایت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ اس میں کم چکنائی (فیٹ) اور بنیادی غذائی اجزا کی کثرت ہے۔ ایسے افراد میں جن کا جسم لیکٹوز قبول نہیں کرتا ان کے لیے اونٹنی کا دودھ عام دودھ کی نسبت زیادہ آسانی سے قابل ہضم ہے۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بائیولوجی محمد ایوب اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف فوڈ سائنس ساجد مقصود نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں میں اونٹنی کے دودھ کے انسانی صحت اور غذائیت پر فائدہ مند اثرات پر یقین رکھا جاتا ہے۔

    متعدد تحقیقی رپورٹس میں اس دودھ کو سپر فوڈ قرار دیا گیا ہے جو جراثیم کش، اینٹی آکسائیڈنٹ اور اینٹی ہائپر ٹینسو (فشار خون کی روک تھام کرنے والا) ہوتا ہے۔

    مگر محققین کی توجہ جس چیز نے اپنی توجہ مرکوز کروائی، وہ جانوروں اور انسانوں پر کلینکل تحقیقی رپورٹس میں اونٹنی کے دودھ سے ذیابیطس سے جڑے عناصر جیسے بلڈ شوگر کنٹرول سے لے کر انسولین کی مزاحمت کے حوالے سے فوائد کا ثابت ہونا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اونٹوں کو 3 سے 4 ہزار سال پہلے انسانوں نے پالتو بنایا تھا، یہ جانور متعدد منفرد خصوصیات کا مالک ہے، جیسے اپنے کوہان میں 36 کلو تک چکنائی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت، 100 میل تک چلنے اور 49 ڈگری درجہ حرارت میں بغیر پانی کے لگ بھگ ایک ہفتے تک زندہ رہنے کی صلاحیت وغیرہ۔

    اونٹ ان جانوروں میں شامل ہے جو غذا کو ہضم کرنے سے قبل خمیر بناتے ہیں اور بہت کم سے بھی بہت زیادہ حاصل کرتے ہیں۔

    یہ متعدد اقسام کے پودوں کو کھاتے ہیں اور ان کو گائے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے ہضم کرتے ہیں۔

    اونٹنی کے دودھ پر تحقیق کا سلسلہ 3 سے 4 دہائی قبل شروع ہوا تھا اور بظاہر گائے اور اس دودھ میں چکنائی، پروٹین، لیکٹوز اور کیلشیئم کی سطح قابل موازنہ ہے مگر زیادہ گہرائی میں جانے سے اس دودھ کے منفرد فوائد سامنے آئے جیسے وٹامن سی کی بہت زیادہ مقدار، اہم غذائی منرلز اور زیادہ آسانی سے ہضم ہونے کی صلاحیت وغیرہ اسے گائے کے دودھ سے زیادہ بہتر بناتے ہیں۔

    کچھ ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ جن بچوں کو گائے کے دودھ سے الرجی ہوتی ہے وہ اونٹنی کا دودھ بغیر کسی مسئلے کے استعمال کرسکتے ہیں۔

    تحقیقی رپورٹس کے مطابق اجزا کے لحاظ سے اونٹنی کا دودھ ماں کے دودھ سے کافی ملتا جلتا ہے، دونوں میں پروٹین ہوتی ہیں اور وہ اجزا نہیں ہوتے جو دودھ سے الرجی کا باعث بنتے ہیں۔

    یو اے ای میں امپرئیل کالج لندن ڈائیبیٹس سینٹر کے ماہرین نادر لیسان اور ایڈم بکلے نے بتایا کہ غذائی معیار سے قطع نظر اونٹنی کا دودھ ذیابیطس سے بچاؤ کی خصوصیات سے بھی لیس ہوتا ہے۔

    ان دونوں نے انسولین کے ردعمل پر اونٹنی کے دودھ کے اثرات کا ایک کلینکل ٹرائل بھی کیا۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بائیولوجی محمد ایوب اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف فوڈ سائنس ساجد مقصود کی ایک حالیہ لیبارٹری تحقیق میں ذیابیطس کے حوالے سے اونٹنی کے دودھ کے اثرات پر مزید روشنی ڈالی گئی۔

    تحقیقی رپورٹس کے نتائج

    ایسے ممالک جہاں یہ دودھ آسانی سے دستیاب ہے وہاں اس کے فوائد پہلے ہی نظر آرہے ہیں۔

    مثال کے طور پر شمالی بھارت میں اونٹ پالنے والی برادری پر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ باقاعدگی سے اونٹنی کا دودھ پیتے ہیں ان میں ذیابیطس کی شرح صفر فیصد ہوتی ہے۔

    عالمی سطح پر اونٹنی کے دودھ کی پروڈکشن میں 1961 سے اب تک 4.6 گنا اضافہ ہوچکا ہے جس سے روایتی خطوں سے ہٹ کر بھی اس کے استعمال کی مقبولیت کا عندیہ ملتا ہے۔

    یورپی یونین میں بھی کیمل ملک پراجیکٹ کی کوششوں کو سپوٹ کیا جارہا ہے جبکہ بحیرہ روم کے خطے میں بھی اس کے حوالے سے دلچسپی بڑھی ہے۔

    چین سے لے کر آسٹریلیا میں اونٹنی کے دودھ سے بنی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا میں مختلف کمپنیوں کی جانب سے اس کی پروڈکشن بڑھانے پر کام ہورہا ہے۔

    مگر اب بھی یہ گائے کے دودھ سے بہت مہنگا ہے اور متعدد افراد اسے روزانہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

    ابھی کمرشل پراڈکٹ کی شکل میں اونٹنی کے دودھ کے فوائد کے تسلسل کے حوالے سے بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ اس دودھ کا معیار کا انحصار مختلف عناصر جیسے لوکیشن اسٹیج، خطہ، اونٹوں کی غذائی عادات وغیرہ پر ہوتا ہے تو ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ ان سے دودھ پر کس حد تک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد ایوب اور ساجد مقصود نے اپنی حالیہ تحقیق میں کہا کہ اونٹنی کا دودھ ذیابیطس کے نئے علاج کے لیے اہم ترین ثابت ہوسکتا ہے۔

    مگر ذیابیطس کے جو مریض اس دودھ کو آزمانا چاہتے ہیں انہیں کچھ باتیں ذہن میں رکھنی چاہیئے۔

    سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اس دودھ کو ابالے بغیر پینے سے گریز کرنا چاہیئے ورنہ ای کولی اور دیگر جراثیم جسم میں جاکر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    اسی طرح اگرچہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ بلڈ شوگر کنٹرول کو بہتر اور ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں میں انسولین کی ضرورت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    مگر ماہرین نے مریضوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسے انسولین کا متبادل مت سمجھیں۔

  • گنج پن کی حیران کن وجہ سامنے آگئی

    گنج پن کی حیران کن وجہ سامنے آگئی

    ایک عمومی خیال ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بال کم ہونے لگتے ہیں اور بالآخر ختم ہوجاتے ہیں جس کے بعد گنج پن کا سامنا ہوتا ہے تاہم ماہرین نے اس حوالے سے ایک حیرن کن تحقیق کی ہے۔

    طبی ماہرین کا خیال تھا کہ ٹشوز اور اعضا بشمول بالوں کو معمول پر رکھنے والے اسٹیم سیلز عمر بڑھنے کے ساتھ بتدریج مرنے لگتے ہیں، جسے بڑھاپے کی جانب سفر کا ایک ناگزیر عمل بھی قرار دیا جاتا ہے۔

    مگر نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں ایک حیران کن دریافت سامنے آئی جس کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں کو برقرار رکھنے والے اسٹیم سیلز اس اسٹرکچر سے فرار ہوجاتے ہیں جہاں وہ مقیم ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق میں ایسے 2 جینز کو شناخت کیا گیا جو عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں پر اثرات مرتب کرتے ہیں جس سے اسٹیم سیلز کو اپنی جگہ سے منتقل ہونے کی روک تھام سے بالوں کو گرنے سے روکنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اسٹیم سیلز چوہوں اور انسانوں میں بالوں کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔

    محققین کا خیال تھا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ اسٹیم سیلز کے مرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں بال پہلے سفید اور پھر بتدریج گنج پن کا سامنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے انسانی بالوں کے غدود کو چوہوں کے کانوں میں نصب کیا اور پھر اس کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس جانچ پڑتال میں یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ جب چوہے کے بال سفید اور گرنے لگے تو اسٹیم سیلز اپنی مخصوص جگہوں سے فرار ہونے لگے۔

    ان خلیات نے اپنی ساخت تبدیل کرکے ان غدود سے فرار کو ممکن بنایا اور باہر نکل کر اپنی معمول کی ساخت پر آئے اور کہیں اور چلے گئے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے خود یہ مشاہدہ نہیں کیا ہوتا تو کبھی بھی اس پر یقین نہیں کرتے، اس عمل نے تو ہمارے ذہنوں کو گھما کر رکھ دیا تھا۔ یہ اسٹیم اپنی جگہ سے نکلنے کے بعد سیلز مدافعتی نظام میں کہیں گم ہوجاتے ہیں۔

    اس دریافت کے بعد ماہرین نے یہ شناخت کیا کہ کونسے جینز اس عمل کو کنٹرول کرتے ہیں اور انہوں نے 2 جینز کو دریافت کیا جو بالوں کے غدود کے معمر خلیات میں کم متحرک ہوجاتے ہیں۔

    اسٹیم سیلز کو اپنی جگہ مقید رکھنے کے لیے ان کا کردار گھٹنے لگتا ہے۔

  • ڈائٹ مشروبات موٹاپے میں اضافے کا سبب

    ڈائٹ مشروبات موٹاپے میں اضافے کا سبب

    عام طور پر ڈائٹ سافٹ ڈرنکس کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے کہ ان میں چینی کم ہوتی ہے اور یہ وزن میں اضافہ نہیں کرتیں تاہم حال ہی میں ایک نئی تحقیق میں اس کی نفی ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ مصنوعی مٹھاس والے مشروبات یا ڈائٹ سافٹ ڈرنکس موٹاپے سے بچاؤ میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں بلکہ جسمانی وزن میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

    سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مصنوعی مٹھاس سے بننے والے یہ مشروبات ممکنہ طور پر جسمانی وزن میں کمی کے لیے فائدہ مند نہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ چینی کی جگہ استعمال ہونے والا ایک کیمیکل لوگوں میں کھانے کی اشتہا بڑھانے کا باعث بنتا ہے، بالخصوص خواتین اور موٹاپے کے شکار افراد میں۔

    تحقیق کے لیے 18 سے 35 سال کی عمر کے 74 صحت مند افراد کی خدمات حاصل کی گئی جن میں سے 58 فیصد خواتین تھیں، کسی بھی رضا کار میں ذیابیطس، منشیات کے استعمال یا کھانے سے جڑے امراض کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔

    ہر رضاکار کو 3 سیشنز کا حصہ بنایا گیا جس سے ایک رات قبل انہیں کچھ بھی کھانے پینے سے منع کیا گیا۔ ہر سیشن میں لوگوں کو 300 ملی لیٹر ڈائٹ مشروب، ایک چینی سے بنا مشروب یا پانی (کنٹرول گروپ) کا استعمال کروایا گیا۔

    مشروب پینے کے بعد ہر فرد کے سامنے زیادہ کیلوریز والی غذاؤں کی تصاویر رکھی گئیں اور ایف ایم آر آئی اسکین سے دماغ کے ان حصوں کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کیا گیا جو کھانے کی خواہش اور اشتہا سے منسلک ہیں۔

    محققین نے بلڈ شوگر، انسولین اور میٹابولک ہارمون لیولز کی بھی مانیٹرنگ کی گئی جبکہ ہر سیشن کے اختتام پر رضا کاروں کی دعوت بھی کی گئی اور دیکھا کہ ہر فرد نے کتنی مقدار میں کھانا کھایا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ڈائٹ مشروبات زیادہ کھانے سے روکنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتے بالخصوص موٹاپے کے شکار افراد اور خواتین ہر سیشن کے بعد زیادہ کھانے پر مجبور ہوئے۔

  • ویکسی نیشن کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    ویکسی نیشن کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے بعد کووڈ 19 کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، یہ تحقیق اسکاٹ لینڈ میں کی گئی تھی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کے بعد بیمار ہونے پر سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر خواتین کے مقابلے میں مردوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    اسکاٹ لینڈ میں ویکسی نیشن کے بعد کووڈ 19 کے خطرے کے حوالے سے قومی سطح پر پہلی تحقیق کی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جزوی ویکسی نیشن کرانے والے 0.07 فیصد جبکہ مکمل ویکسی نیشن کرانے والے 0.006 فیصد افراد بریک تھرو انفیکشن (ویکسی نیشن کے بعد بیماری کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) کی تشخیص ہوئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دسمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران جزوی ویکسی نیشن کرانے والے ہر 2 ہزار میں سے ایک جبکہ مکمل ویکسی نیشن کرانے والے ہر 10 ہزار میں سے ایک فرد کو بریک تھرو انفیکشن کے بعد بیماری کی سنگین شدت (اسپتال میں داخلے یا موت) کا سامنا ہوا۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں بریک تھرو انفیکشن کے بعد بیماری کی شدت بڑھنے کا خطرہ 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے، بالخصوص 80 سال سے زائد عمر کے مردوں میں یہ خطرہ 18 سے 64 سال کے مردوں کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ایسے افراد جو پہلے سے مختلف بیماریوں کے شکار ہوں، کووڈ سے متاثر ہونے سے 4 ہفتوں سے قبل اسپتال میں داخل ہوچکے ہوں، زیادہ خطرے والا پیشہ، کیئر ہوم یا غریب علاقوں کے رہائشیوں میں بھی یہ خطرہ ویکسی نیشن کے بعد بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں زیادہ شدت والے کیسز کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال ہوئی جو کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے کے 28 دنوں کے اندر اسپتال میں داخل ہوئے یا ہلاک ہوگئے یا اسپتال میں داخلے کی وجہ کووڈ 19 قرار دی گئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین کی ایک خوراک سے بھی اسکاٹ لینڈ میں کرونا وائرس کی ایلفا قسم کے پھیلاؤ کے دوران کووڈ سے اسپتال میں داخلے یا موت کا خطرہ بہت کم ہوگیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن کے بعد سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ ان افراد میں ہی زیادہ ہوتا ہے جن میں کووڈ کی شدت زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے یعنی معمر افراد یا پہلے سے مختلف طبی امراض کے شکار افراد۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ لوگ خطرے سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ویکسین کی دوسری خوراک کا استعمال کریں۔

  • موسم گرما کرونا وائرس کا پھیلاؤ کم کرسکتا ہے؟

    موسم گرما کرونا وائرس کا پھیلاؤ کم کرسکتا ہے؟

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں اس بات کی جانچ پڑتال کی گئی کہ موسم گرما کرونا وائرس پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے، ماہرین نے دیکھا کہ کھلے اور گرم موسم میں وائرس کے پھیلنے کی شرح کم تو ہوجاتی ہے مگر یہ شرح نہایت معمولی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انگلینڈ میں حکومتی ہنگامی حالات سائنسی مشاورت گروپ نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق اپنے تحقیقی کاموں میں اس پہلو کی تحقیق کی ہے کہ آیا گرم موسم وائرس کے پھیلاؤ کو روکتا ہے یا نہیں۔

    ادارے سے منسلک پروفیسر جون ایڈمنڈز نے کہا ہے کہ موصول شواہد نے سخت گرمی کے وائرس پر منفی اثرات کو ثابت کیا ہے تاہم یہ اثرات بہت کم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کھلے ماحول میں وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہے، وائرس زیادہ تر بند مقامات سے پھیلتا ہے۔ اگر باہر سورج چمک رہا ہو تو وائرس زیادہ جلدی ہلاک ہو جاتا ہے، ہلاک نہ بھی ہو تو کم پھیلتا ہے۔

    پروفیسر کا کہنا تھا کہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعائیں وائرس کو ہلاک کر دیتی ہیں تاہم اس کی شرح نہایت کم ہوتی ہے۔