Tag: تحقیق

  • لانگ کووڈ سے متعلق ایک اور انکشاف

    لانگ کووڈ سے متعلق ایک اور انکشاف

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک اس کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے، حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 کا سامنا کر کے اس سے صحت یاب ہونے والی ایک چوتھائی سے زائد مریضوں میں بیماری کی طویل المعیاد علامات یا لانگ کووڈ کا امکان ہوتا ہے۔

    زیورخ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 2020 میں عام آبادی میں کووڈ 19 سے بیمار ہونے والے بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ایک چوتھائی سے زائد نے بتایا کہ وہ ابتدائی بیماری کے 6 سے 8 مہینے بعد بھی مکمل طورپر صحت یاب نہیں ہوسکے۔

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں محققین کی زیادہ تر توجہ کووڈ 19 کے بوجھ میں کمی لانے پر مرکوز تھی۔ مگر حالیہ مینوں میں ایسے شواہد مسلسل سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ بیماری طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرسکتی ہے۔

    ان طویل المعیاد اثرات کے لیے پوسٹ کووڈ 19 سنڈروم یا لانگ کووڈ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ اس تحقیق میں 431 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص فروری سے اگست 2020 کے دوران ہوئی تھی۔

    ان افراد سے بیماری کی تشخیص کے 7.2 ماہ بعد صحت کے بارے میں ایک آن لائن سوال نامہ بھرنے کے لیے کہا گیا۔

    بیماری کی تشخیص کے وقت 89 فیصد افراد میں بیماری کی علامات موجود تھیں جبکہ 19 فیصد کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، ان افراد کی اوسط عمر 47 سال تھی۔

    مجموعی طور پر 26 فیصد افراد نے بتایا کہ کووڈ 19 کی ابتدائی تشخیص کے 6 سے 8 ماہ بعد بھی وہ مکمل طور پر بیماری کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔

    ان میں سے 55 فیصد افراد نے تھکاوٹ کی علامات کو رپورٹ کیا، 25 فیصد کو کسی حد تک سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ 26 فیصد کو ڈپریشن کی علامات نے پریشان کیا۔

    مجموعی طور پر 40 فیصد افرد نے بتایا کہ انہیں کم از کم ایک بار کووڈ 19 سے متعلق کسی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق آبادی پر کووڈ 19 کے اثرات پر مبنی تھی جس سے معلوم ہوا کہ 26 فیصد افراد تشخیص کے 6 سے 8 ماہ بعد بھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکے جبکہ 40 فیصد کو کم از کم ایک بار طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا۔

  • چاکلیٹ وزن میں کمی کر سکتی ہے؟

    چاکلیٹ وزن میں کمی کر سکتی ہے؟

    چاکلیٹ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وزن بڑھا سکتی ہے لیکن حال ہی میں ایک تحقیق میں اس کے بارے میں ایک اور بات سامنے آئی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے مخصوص دنوں کے بعد ملک چاکلیٹ کا صبح کے وقت استعمال ان کے جسم میں موجود چربی کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ چاکلیٹ کا صبح کے وقت استعمال بلڈ شوگر کی سطح کو کم کرتا ہے البتہ صبح کے علاوہ دن کے کسی بھی حصے میں ملک چاکلیٹ کھانے سے وزن بڑھنے کے امکانات ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے ایسی خواتین پر تجربہ کیا جنہوں نے حیض کے بعد صبح چاکلیٹ کا استعمال کیا تو ان میں مذکورہ بالا نتائج سامنے آئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے چاکلیٹ کا صبح کے وقت استعمال نہ صرف وزن میں کمی کرتا ہے بلکہ یہ دماغی کارکردگی کے لیے نہایت بہترین ہے۔

  • کرونا وائرس سے یادداشت متاثر ہوتی ہے؟

    کرونا وائرس سے یادداشت متاثر ہوتی ہے؟

    کرونا وائرس کی ایک اہم علامت سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہوجانا ہے، کچھ کیسز میں کرونا وائرس مریضوں کو غیر حقیقی ناخوشگوار بو کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، ایسی کیفیت کو پیروسمیا یا اولفیکٹری ہیلوسینیشنز کہا جاتا ہے۔

    ان میں سے کسی ایک کا بھی شکار ہونے والا شخص افسردگی یا ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق یادداشت کے کھو جانے سے جذبات اور یادیں بھی متاثر ہوتی ہیں، خاص طور پر طویل مدتی یادیں متاثر ہوتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ کے سامنے والے حصے میں موجود اولفیکٹری بلب کے ذریعے کسی بھی قسم کی بو کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔ یہاں پر موجود اعصابی ریسیپٹرز کے ذریعے بو دماغ کے ان حصوں کو پہنچتی ہے جن کا تعلق جذبات اور یادداشت سے ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی چیز کی بو سے لوگوں کی یادیں بھی وابستہ ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مخصوص بو کسی ایسی یاد کو جنم دے جو کچھ لوگوں کے لیے خوشگوار نہیں ہوتیں۔ اس سب سے یہ نتیجہ نکلا کہ سونگھنے کی حس ہمارے جذباتی تجربات سے وابستہ ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سونگھنے کی حس اور افسردگی کے مابین ایک باہمی رشتہ ہے کیونکہ سونگھنے کے احساس سے محروم ہونا افسردگی کے جذبات کو تیز کرتا ہے اور یہ افسردگی سونگھنے کی حس کے احساس کے کھو جانے کا باعث بن سکتی ہے۔

    اس تحقیق میں 322 کرونا متاثرین شامل تھے جن کی سونگھنے کی حس مکمل یا جزوی طور پر غائب تھی، ان میں سے 56 فیصد نے بتایا کہ سونگھنے کی حس متاثر ہونے سے انہوں نے زندگی میں خوشی کھو دی ہے جبکہ 43 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔

    کرونا وائرس کا نہ صرف ہمارے جذبات پر اثر ہوتا ہے بلکہ یہ ہماری یادوں کو بھی ابھارتا ہے۔ تصور کریں کہ جذبات اور یادوں سے بھر پور زندگی سے اچانک یہ سب ختم ہو جائے۔

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے دو ماہ بھی اگر سونگھنے کی حس بحال نہیں ہوئی تو وہ چند ترکیبیں اپنائے جس سے اپنی حس کو واپس لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تیز خوشبو جیسے لیموں اور لونگ کو بیس سیکنڈ کے لیے مسلسل سونگھیں۔ ویسے تو عمر کے ساتھ ساتھ بھی سونگھنے کی حس متاثر ہوتی ہے لیکن اس ترکیب سے یہ حس بحال رہ سکتی ہے۔

  • کرونا وائرس کا پہلا کیس کب سامنے آیا تھا؟

    کرونا وائرس کا پہلا کیس کب سامنے آیا تھا؟

    کرونا وائرس کا آغاز سنہ 2019 کے اختتام پرا ہوا تھا تاہم یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والا دنیا کا پہلا شخص کون تھا اور کہاں سے تعلق رکھتا تھا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے سائنسی طریقوں کی مدد سے کووڈ 19 کے پہلے کیس کے دورانیے کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس تخمینے کے مطابق دنیا میں کووڈ کا پہلا کیس چین میں اوائل اکتوبر سے نومبر 2019 کے وسط میں سامنے آیا ہوگا۔

    درحقیقت ان کا اندازہ ہے کہ دنیا میں پہلا فرد ممکنہ طور پر17 نومبر 2019 کو کووڈ 19 سے متاثر ہوا ہوگا۔ یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ کینٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج میں کرونا وائرس کی وبا کے ماخذ کے حوالے سے بات کی گئی۔

    دنیا میں کرونا وائرس کا پہلا باضابطہ کیس دسمبر 2019 کے شروع میں شناخت ہوا تھا، تاہم ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس سے پہلے بھی اس بیماری کا شکار ہورہے تھے۔

    وبا کے آغاز کے دورانیے کو سامنے لانے کے لیے ماہرین نے ریاضیاتی ماڈل کو استعمال کیا جو اس سے پہلے مختلف حیاتیاتی اقسام کے معدوم ہونے کی مدت کا تعین کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

    تحقیق کے لیے ماڈل کو ریورس کر کے جاننے کی کوشش کی گئی کہ کب کووڈ انسانوں میں پھیلنا شروع ہوا اور اس کے لیے 203 ممالک کے ابتدائی کیسز کا ڈیٹا لیا گیا۔

    اس تجزیے سے عندیہ ملا کہ کووڈ کا پہلا کیس 2019 میں اکتوبر کے آغاز سے نومبر کے وسط میں چین میں سامنے آیا ہوگا۔ تحقیق کے مطابق ممکنہ طور پر پہلا کیس 17 نومبر کو نمودار ہوا ہوگا اور یہ بیماری جنوری 2020 میں دنیا بھر میں پھیل گئی۔

    نتائج سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ یہ وبا جلد نمودار ہوئی اور باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے سے قبل ہی تیزی سے پھیل گئی۔ تحقیق میں یہ بھی شناخت کی گئی کہ کب کووڈ 19 چین سے باہر اولین 5 ممالک میں پہنچا اور دیگر براعظموں تک پہنچا۔

    مثال کے طور پر ان کا تخمینہ ہے کہ چین سے باہر پہلا کیس جاپان میں 2 جنوری 2020 کو سامنے آیا ہوگا جبکہ یورپ میں پہلا کیس 12 جنوری 2020 کو اسپین میں آیا ہوگا۔ شمالی امریکا میں پہلا کیس 16 جنوری 2020 میں سامنے آیا ہوگا۔

    محققین کے مطابق ان کا یہ نیا طریقہ کار مستقبل میں دیگر وبائی امراض کے پھیلاؤ کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کے آغاز کے بارے میں معلومات سے اس کے مسلسل پھیلاؤ کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکے گی۔

  • کرونا وائرس سونگھنے اور چکھنے کی حس کیوں ختم کردیتا ہے؟

    کرونا وائرس سونگھنے اور چکھنے کی حس کیوں ختم کردیتا ہے؟

    سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کووڈ 19کی چند عام ترین علامات میں سے ایک ہے اور اب ماہرین نے اس حوالے سے ایک نئی تحقیق کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس ممکنہ طور پر دماغ پر طویل المعیاد اثرات مرتب کرسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کووڈ کے کچھ مریض سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

    تحقیق میں کرونا وائرس کی وبا سے قبل 40 ہزار افراد کے دماغی امیج ٹیسٹنگ کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی۔ اگلے برس ان میں سے سیکڑوں افراد کو ایک بار پھر دماغی اسکینز کے لیے مدعو کیا گیا اور 800 نے اسے قبول کرلیا۔

    ان میں سے 404 افرد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 394 افراد کے وبا سے قبل اور بعد کے دماغی اسکینز قابل استعمال تھے۔

    پہلے اور بعد کے دماغی اسکینز کے موازنے سے کووڈ 19 کے متاثرین کے دماغ کے گرے میٹر کے ان حصوں پر نمایاں اثرات کو دریافت کیا گیا جو سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے دماغ کو منسلک کرتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق نتائج سے دماغ کے بائیں حصے میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں والے حصوں میں نقصانات کو دریافت کیا گیا۔

    سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کووڈ کی چند عام ترین علامات میں سے ایک ہے اور اب تک کی تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ مریضوں میں اس کا دورانیہ 5 ماہ تک بھی برقرار رہ سکتا ہے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کی معمولی شدت بھی دماغ کے گرے میٹر کے مختلف حصوں کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے مریضوں میں ہونے والا دماغی نقصان دیگر حصوں تک تو نہیں پہنچتا اور کیا یہ واقعی وائرس کا نتیجہ ہے یا اس کی وجہ کوئی اور ہے۔

  • بچوں کو کیا چیز کرونا وائرس سے محفوظ رکھتی ہے؟

    بچوں کو کیا چیز کرونا وائرس سے محفوظ رکھتی ہے؟

    کرونا وائرس کے آغاز سے ہی بچے کم اس کا شکار ہوئے اور اب ماہرین نے اس کی وجہ دریافت کرلی ہے، نئی تحقیق نے ثابت کیا کہ کرونا وائرس بچوں پر اس شدت سے حملہ آور کیوں نہیں ہوسکتا جس شدت سے بالغ افراد میں ہوتا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق بچوں کو کرونا وائرس سے کافی حد تک تحفظ حاصل ہوتا ہے کیونکہ ان کے جسم اس کے خلاف مضبوط مدافعتی ردعمل پیدا کرتا ہے۔

    برسٹل یونیورسٹی اور برسٹل رائل ہاسپٹل فار چلڈرن کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ننھے بچوں میں ایسی اینٹی باڈیز اور مدافعتی خلیات کی تعداد بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جو وائرس سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ دریافت سے وضاحت ہوتی ہے کہ بچوں کو کووڈ 19 کے سنگن اثرات سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ آخر وائرس سے بچوں کو بیماری کی معمولی شدت کا سامنا کیوں ہوتا ہے بالخصوص شیرخوار بچوں میں، جن میں دیگر نظام تنفس کے امراض جیسے فلو کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیقی ٹیم نے 3 ماہ سے کم عمر 4 بچوں کے مدافعتی ردعمل کا جائزہ لیا جن میں وبا کے آغاز میں مارچ 2020 میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔

    ان بچوں کے مدافعتی ردعمل کا موازنہ ان کے والدین اور دیگر بالغ مریضوں سے کیا گیا جو اس وائرس کو شکست دے چکے تھے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ایسی ویکسین دریافت کرنے میں مدد مل سکے گی جو بچوں کو ملنے والے تحفظ کی نقل کرسکے گی۔

    انہوں نے کہا کہ شیر خوار بچے جن کو کووڈ 19 کی سنگین شدت سے تحفظ حاصل ہوا تھا، پر تفصیلی تحقیق سے ہم نے ثابت کیا کہ تحفظ فراہم کرنے والی امیونٹی کیسی ہوتی ہے، جو مخصوص اینٹی باڈیز اور مدافعتی خلیات پر مبنی ہوتی ہے جو کرونا وائرس کے خلاف متحرک ہوتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت کارآمد معلوم ہے جو مستقبل میں کووڈ ویکسینز کو ڈیزائن کرنے میں مددگار ثابت ہوسکے گی۔

  • دنیا بھر میں پاسپورٹ بنوانے کے لیے کتنا خرچ اور وقت لگتا ہے؟

    دنیا بھر میں پاسپورٹ بنوانے کے لیے کتنا خرچ اور وقت لگتا ہے؟

    پاسپورٹ ایک اہم دستاویز ہے جو بین الاقوامی سفر کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاسپورٹ کی پرنٹنگ کی لاگت تقریباً تمام ممالک میں یکساں ہے، لیکن ایک پاسپورٹ حاصل کرنے پر کتنا خرچ آتا ہے؟ یا پھر مقامی قوت خرید کے لحاظ سے پاسپورٹ بنوانا کتنا سستا یا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات کے جن کے جوابات سیونگ اسپاٹ نے اپنی ایک دلچسپ تحقیق میں دیے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں پاسپورٹ حاصل کرنے پر آنے والا اوسط خرچ 74 ڈالرز ہے۔

    جنوری 2021 میں ڈالر کی شرح تبادلہ کو دیکھتے ہوئے سیونگ پوسٹ نے ہر ملک کے لیے دستیاب ڈیٹا کا استعمال کیا تاکہ وہاں پاسپورٹ بنوانے کی لاگت کا اندازہ لگایا جا سکے۔

    تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے مہنگا ترین پاسپورٹ شام کا ہے، جہاں مقامی باشندوں کو پاسپورٹ بنوانے پر 800 ڈالرز خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

    صرف ایک دہائی قبل شام کا پاسپورٹ 9 ڈالرز سے بھی کم میں بن جاتا تھا، لیکن اب گمبھیر سیاسی صورتحال، بدعنوانی، سرحدی گزرگاہوں کا تباہ ہو جانا اور مغرب میں مہاجرین کا خوف، یہ تمام عوامل ایسے ہیں جو عام شامیوں کے لیے سفر کو مشکل اور مہنگا بنا رہے ہیں۔

    شام کے بعد سب سے زیادہ مہنگا پاسپورٹ لبنان کا ہے جو 331 ڈالرز کا پڑتا ہے اور اتنے زیادہ پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی لبنانی باشندوں کو صرف 40 ممالک میں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔

    اس تحقیق میں یہ اندازہ بھی لگایا گیا کہ ہر ملک کے عوام کے لیے پاسپورٹ حاصل کرنا کتنا آسان ہے، مثلاً شمالی امریکا میں ایک ڈالر کی جو اہمیت ہے، وہ وسطی افریقہ میں بالکل مختلف ہے۔ اس لیے فی گھنٹہ تنخواہ کو معیار بناتے ہوئے اندازہ لگایا گیا کہ پاسپورٹ کے لیے درکار رقم اکٹھی کرنے کے لیے کتنے گھنٹے کام کرنا پڑے گا؟

    اس لحاظ سے افریقہ کا ملک ملاوی سب سے آگے ہے کہ جہاں پاسپورٹ پر آنے والی لاگت 118 ڈالرز ہے، لیکن محض اتنے پیسے کمانے کے لیے بھی کسی شخص کو 983 گھنٹے کام کرنا پڑے گا۔ ملاوی کے بعد کانگو، اینٹی گا و باربوڈا، برونڈی، سیرا لیون، روانڈا، موزمبیق، بینن، یمن اور ہیٹی کے نام سب سے آگے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق پاکستان میں پاسپورٹ بنوانے کی لاگت 34 ڈالرز ہے، لیکن اسے کمانے کے لیے 33 گھنٹے کام کرنا پڑے گا، جو پڑوسی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

    بھارت میں 20 ڈالرز کے پاسپورٹ کو حاصل کرنے کے لیے 7.8 گھنٹے جبکہ چین میں پاسپورٹ بنانے کی لاگت 18 ڈالرز ہے جو محض 3.7 گھنٹے کی محنت سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

    بنگلہ دیش میں 35 ڈالرز کے پاسپورٹ کو حاصل کرنے کے لیے 40 گھنٹے سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔

    دنیا کا سستا ترین پاسپورٹ افریقہ کے ملک مڈغاسکر کا ہے، جو بالکل مفت ہے۔ اس کے بعد دنیا کا سب سے سستا پاسپورٹ آرمینیا کا ہے، جو صرف 2 ڈالرز میں بن جاتا ہے۔

    متحدہ عرب امارات میں پاسپورٹ بنوانے پر محض 14 ڈالرز لاگت آتی ہے، یعنی کوئی بھی اماراتی ایک گھنٹے سے بھی کم کی اوسط آمدنی سے پاسپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔

    گو کہ امریکی پاسپورٹ کی لاگت بہت زیادہ ہے یعنی 145 ڈالرز، لیکن تنخواہیں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک اوسط امریکی کارکن محض آدھے دن کے کام سے ہی پاسپورٹ کے پیسے حاصل کر سکتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں یورپی ممالک میں یکسانیت نظر آتی ہے جہاں تقریباً تمام ہی یورپی یونین کی ریاستوں میں پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے 10 گھنٹے سے بھی کم کام کرنا پڑتا ہے۔ واحد استثنیٰ رومانیہ کو حاصل ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ یورپی یونین کے کئی شہریوں کے پاس پاسپورٹ ہے ہی نہیں، کیونکہ انہیں یونین کے ممالک میں محض اپنے شناختی کارڈ پر ہی سفر کرنے کی اجازت مل جاتی ہے، جو پاسپورٹس سے کہیں سستا بن جاتا ہے۔

    لاگت اور اس کے نتیجے میں ملنے والے پاسپورٹ کی قدر و اہمیت کا اندازہ لگائیں تو شام کے بعد بدترین پاسپورٹ لبنان کا ہے، جہاں 331 ڈالرز کی بڑی رقم پر پاسپورٹ ملنے کے بعد بھی آپ کو صرف 40 ممالک میں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔

    دوسری جانب آرمینیا کا 2 ڈالرز کا پاسپورٹ بہترین ہے، جو ملتے ہی آپ کو 63 ممالک میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے پاسپورٹ زیادہ پرکشش ہیں جہاں 14 ڈالرز میں پاسپورٹ حاصل کر کے 170 ممالک تک براہ راست رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

    امریکی پاسپورٹ کے ساتھ 15 مزید ممالک کا سفر بغیر ویزے کے کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی کوریا کا پاسپورٹ بھی صرف 32 ڈالرز میں حاصل کیا جا سکتا ہے جو ایک کوریائی باشندہ 1.6 گھنٹے کی اوسط آمدنی کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے، اور مل جانے پر یہ پاسپورٹ اسے 189 ممالک تک رسائی دے سکتا ہے۔

    جاپان اور سنگاپور ایسے ممالک ہیں جن کے پاسپورٹ اس سے زیادہ بالترتیب 191 اور 190 ممالک تک رسائی دیتے ہیں۔

  • یادداشت کو متاثر کرنے والے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے نیا انکشاف

    یادداشت کو متاثر کرنے والے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے نیا انکشاف

    بڑھاپے میں ذہن و یادداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمینشیا کے بڑھاپے سمیت کئی عوامل ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ذہنی صحت اور یاداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمنشیا کے لاحق ہونے کے خطرات مرد و خواتین میں یکساں ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں علم ہوا کہ مردوں میں یہ بیماری ہائی بلڈ پریشر اور لو بلڈ پریشر یعنی دونوں صورتوں میں لاحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن خواتین میں یہ مرض صرف ہائی بلڈ پریشر کے باعث ہوتا ہے۔

    ماہرین نے وسط زندگی میں ہونے والے امراض قلب کے خطرات پر مبنی فیکٹرز اور ڈیمنشیا کا دونوں جنس پر تجزیہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ مرد و خواتین میں بیماری لاحق ہونے کے امراض قلب پر مبنی خطرات یکساں تھے۔

    یہ تحقیق جارج انسٹی ٹوٹ کے ماہرین نے 5 لاکھ سے زائد افراد پر کی۔ تحقیقی ٹیم کی سربراہ جسیکا گونگ کا کہنا ہے کہ ابھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان نتائج کی تصدیق ہوسکے تاکہ اس کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھ کر مستقبل میں اس مرض سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد میں کئی ماہ تک کووڈ 19 کی علامات کو دیکھا گیا جسے لانگ کووڈ کا نام دیا گیا ہے، اب ماہرین نے اس حوالے سے ایک نئی تحقیق کی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر مریض ہوں بلکہ 65 سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، سینے میں درد، کھانسی، ذہنی تشویش، ڈپریشن اور تناؤ جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق 57 ہزار سے زائد کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں کمپیوٹیشنل ماڈل کی مدد لی گئی اور لانگ کووڈ کی علامات کو مریضوں میں بیماری کی تشخیص کے 2 یا اس سے زیادہ مہینوں بعد ریکارڈ کیا گیا۔

    بعد ازاں 6 ماہ بعد بھی کچھ مریضوں میں علامات کا جائزہ لیا گیا اور 57 ہزار مریضوں میں سے 11 ہزار 400 میں وائرس کی موجودگی کو دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے ان افراد میں 3 سے 6 ماہ بعد اور 6 سے 9 ماہ بعد نئی علامات کو کووڈ کے نیگیٹو اور مثبت ٹیسٹوں والے افراد میں دریافت کیا۔

    3 سے 6 ماہ کے دوران 65 سال سے کم عمر افراد میں بال جھڑنے کا امکان ساڑھے 3 گنا زیادہ دریافت ہوا جبکہ 65 سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ امکان 4 گنا زیادہ تھا جبکہ 6 سے 9 ماہ کے دوران خطرے میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

    3 سے 6 ماہ کے دوران سینے میں تکلیف کا سامنا ہونے کا امکان 65 سال کی عمر کے 35 فیصد افراد میں دیگر سے ڈھائی گنا زیادہ دریافت کیا گیا۔

    اسی طرح 3 سے 6 ماہ کے دوران 65 سال سے کم عمر مریضوں میں پیشاب سے پروٹین کی زیادہ مقدار کے اخراج کا امکان 2.6 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

    6 سے 9 ماہ کے عرصے میں کووڈ کا سامنا کرنے والے 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں ناخنوں کے امراض کو بھی دریافت کیا گیا۔

    اسی عرصے میں 65 سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ذہنی تشویش اور سر چکرانے جیسے مسائل کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے جبکہ کم عمر خواتین کو مخصوص ایام کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    مجموعی طور پر دونوں ٹائم پیریڈ میں 65 سال سے کم عمر خواتین میں لانگ کووڈ کی علامات کا خطرہ ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے والا ورم ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کی مختلف علامات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔

  • بھارت میں کرونا وائرس سے خوفناک تباہی، ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس سے خوفناک تباہی، ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر نے تباہی مچا رکھی ہے، روزانہ 3 لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہورہی ہیں۔ حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے نیا انکشاف کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بھارت میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم بی 117 کی دریافت کے بعد حکومتی سطح پر ملٹی لیبارٹری نیٹ ورک (آئی این ایس اے سی او جی) کا قیام عمل میں آیا تھا۔

    24 مارچ کو اس نیٹ ورک نے ایک ڈبل میوٹنٹ قسم دریافت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    ویسے تو اس قسم کا اعلان مارچ 2021 میں ہوا مگر یہ اکتوبر 2020 میں کووڈ سیکونسنگ کے علامتی ڈیٹا بیس میں دریافت ہوچکی تھی، مگر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ نئی قسم ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہی 60 فیصد سے زیادہ کیسز اس کا نتیجہ ہیں۔

    زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اقسام کا ابھرنا عالمی سطح پر نگرانی کے محدود نظام کی جانب نشاندہی کرتا ہے جو دور دراز علاقوں میں کام نہیں کر رہا۔

    آئی این ایس اے سی او جی کی جانب سے توقع تھی کہ تمام ریاستوں کے مثبت کیسز کے 5 فیصد کے جینیاتی سیکونسز تیار کرے گی مگر 15 اپریل تک محض 13 ہزار سیکونس ہی تیار ہوسکے۔

    ڈبل میوٹنٹ کیا ہے؟

    وائرسز میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ جگہ جگہ میوٹیشن ہوتی ہے۔

    نیا کرونا وائرس، ایچ آئی وی اور انفلوائنزا وائرسز سب میں جینیاتی انسٹرکشنز کے لیے مالیکیول آر این اے کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں دیگر وائرسز کے مقابلے میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں، جس کی وجہ میزبان خلیات میں وائرسز کی نققول بنانے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہوتی ہیں۔

    عالمی پبلک ڈیٹا بیس میں نئے کرونا وائرس کے لاکھوں جینیاتی سیکونسز موجود ہیں، جن میں متعدد میوٹیشنز پر توجہ نہیں دی جاسکی، مگر کچھ میوٹیشنز سے امینو ایسڈز میں تبدیلی آئی، جو وائرل پروٹیکشن کی تیاری کی بنیاد ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی خصوصیات بدل گئیں۔

    جب ایک یا زیادہ میوٹیشن برقرار رہتی ہیں تو ایک ایسی نئی قسم تشکیل پاتی ہے جو دیگر اقسام سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت میں دریافت نئی قسم کو بی 1617 کا نام دیا گیا ہے جس میں 2 میوٹیشنز موجود ہیں۔ پہلی میوٹیشن اسپائیک پروٹین 452 میں ہوئی اور دوسری پروٹین 484 میں۔

    ویسے اس نئی قسم میں صرف 2 میوٹیشنز نہیں ہوئیں بلکہ مجموعی طور پر 13 تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں موجود ہیں۔

    یہ وائرس اسپائیک پروٹین کو پھیپھڑوں اور دیگر انسانی خلیات کی سطح پر موجود ایس 2 ریسیپٹر پروٹین سے جڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور پھر بیمار کرتا ہے۔ وائرس میں 8 ویں میوٹیشن ناپختہ اسپائیک پروٹین کے وسط میں ہوئی جو وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کا باعث ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بھارتی قسم میں موجود میوٹیشنز پر الگ الگ تو تحقیقی کام ہوا ہے مگر اجتماعی طور پر ایسا نہیں ہوا، اہم بات یہ ہے کہ اس کے اسپائیک پروٹین میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔

    میوٹیشنز کی تعداد نہیں ان کا مقام اہمیت رکھتا ہے

    ماہرین کے مطابق وائرسز میں ایسا اکثر ہوتا ہے، سرفیس پروٹینز بہت تیزی سے ارتقائی مرحال سے گزرتا ہے بالخصوص کسی نئے وائرس میں، تاکہ وہ خلیات کو زیادہ بہتر طریقے سے جکڑ سکے۔

    چونکہ اسپائیک پروٹین نئے کرونا وائرس کی سطح پر ہوتا ہے تو یہ مدافعتی نظام کا بنیادی ہدف ہوتا ہے، مدافعتی خلیات ایسی اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں جو اسے شناخت کر کے وائرس کو ناکارہ بنادیں۔

    یہی وجہ ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسین میں اسپائیک پروٹین کو استعمال کر کے جسم کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ بیماری سے بچا جاسکے۔

    اسپائیک پروٹین میں آنے والی تبدیلیاں اس کی شکل اور ساخت کو بدل دیتی ہیں جس سے وائرس کو اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد ملتی ہے، اس سے وائرس کی بقا اور نقول بنانے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اسپائیک پروٹین میں کسی بھی میوٹیشن سے وائرس کے افعال، پھیلاؤ اور دیگر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایل 452 آر نامی میوٹیشن سے وائرس کی خلیاات کو متاثر کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے یعنی وہ تیزی سے اپنی نقول بناتا ہے اور ایس 2 ریسیپٹر کو زیادہ سختی سے جکڑتا ہے۔

    اسی طرح ای 484 نامی میوٹیشن وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    بھارت میں دریافت قسم بی 1617 میں یہ دونوں میوٹیشنز موجود ہیں اور اس وجہ سے یہ ممکنہ طور پر بہت زیادہ مشکل میں ڈال دینے والی قسم ہوسکتی ہے، جس پر زیادہ تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔

    عالمی سطح پر پھیلاؤ

    بی 1618 بہت تیزی سے دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچی ہے اور اب تک 1 ملک میں اسے دریافت کیا جاچکا ہے۔

    چونکہ اس میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں تو اس وقت بھارت میں وبا کی لہر میں تیزی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے مگر اس حوالے سے فی الحال حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

    کچھ ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ ویکسینز اس نئی قسم کے خلاف مؤثر ہیں جبکہ احتیاطی تدابیر یعنی فیس ماسک، سماجی دوری اور ہاتھوں کو اکثر دھونا بھی اس سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہیں۔