Tag: تحقیق

  • کیا کینسر کی ویکسین بنا لی گئی؟

    کیا کینسر کی ویکسین بنا لی گئی؟

    مختلف اقسام کے کینسر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو اپنا شکار بناتے ہیں جبکہ اس کی وجہ سے لاکھوں افراد موت کے منہ چلے جاتے ہیں، تاہم اب ماہرین نے اس کی ویکسین بنانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینسر کی روک تھام کے لیے ایک ویکسین کا ابتدائی ٹرائل کامیاب ثابت ہوا ہے، اس ویکسین پی جی وی 001 کے کلینیکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں 13 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو ٹھوس رسولی کا شکار تھے۔

    ٹرائل کے اختتام پر 4 مریضوں میں بیماری کے آثار ختم ہوگئے تھے اور انہیں مزید کوئی اور تھراپی بھی نہیں دی گئی جبکہ 4 ایسے مریض تھے جو زندہ تھے مگر انہیں تھراپی دی جارہی تھی جبکہ 3 افراد ہلاک ہوگئے۔

    امریکا کے ماؤنٹ سینائی اسپتال کے محققین نے ٹرائل کے نتائج امریکن ایسوسی ایشن فار کینسر ریسرچ کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ کینسر کے علاج میں کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بیشتر مریض ٹھوس کلینیکل ردعمل کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پرسنلائزڈ ویکسینز سے مریضوں کے مدافعتی ردعمل کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ماہرین نے پی جی وی 001 نامی ویکسین کو تیار کیا جو ایک قسم کے امینو ایسڈ پر مشتمل ہے، جو مریضوں کو ابتدائی علاج کے ساتھ دی گئی۔

    جن 13 مریضوں کو ویکسینز دی گئی ان میں سے 6 میں سر اور گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی جبکہ 3 میں خون کے سفید خلیات، 2 میں پھیپھڑوں، ایک میں بریسٹ اور ایک میں مثانے کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔

    11 مریضوں کو ویکسین کی 10 خوراکیں دی گئیں جبکہ 2 مریضوں کو کم از کم 8 خوراکیں استعمال کرائی گئیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ویکسین سے صرف 50 فیصد مریضوں کو معمولی مضر اثرات کا سامنا ہوا، یعنی 4 میں انجیکشن کے مقام پر الرجی ری ایکشن ہوا جبکہ ایک فرد کو ہلکا بخار ہوگیا۔

    ان افراد میں ویکسین کے اثرات کا تجزیہ اوسطاً 880 دنوں تک کیا گیا جس دوران 4 مریضوں میں کینسر کے شواہد ختم ہوگئے اور انہیں مزید تھراپی کی ضرورت نہیں رہی۔

    ان میں سے ایک مریض پھیپھڑوں کے اسٹیج 3 کینسر کا مریض تھا، ایک میں بریسٹ کینسر کی چوتھی اسٹیج جبکہ ایک مثانے کے اسٹیج 2 کینسر اور ایک خون کے کینسر کا مریض تھا۔

    ٹرائل میں شامل 4 مریض اب بھی زندہ ہیں اور مختلف اقسام کی تھراپی کے عمل سے گزر رہے ہیں، جبکہ 3 کا انتقال ہوگیا، جن میں سے 2 میں کینسر پھر لوٹ آیا تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپن ویکس پائپ لائن ایک محفوظ اور پرسنلائز ویکسین کی تیاری کے لیے ایک اچھی حکمت عملی ہے، جس کو مختلف اقسام کی رسولیوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

  • کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کو خطرناک سمجھا جارہا تھا لیکن اب حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے اس کی نفی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117 سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع شدہ انفیکشیز ڈیزیز تحقیق میں اسپتالوں میں زیر علاج رہنے والے کووڈ 19 کے مریضوں کے ایک گروپ کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا ڈیٹا حقیقی دنیا پر مبنی ہے جس سے ابتدائی یقین دہانی ہوتی ہے کہ بی 117 سے متاثر مریضوں میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    تحقیق میں 496 مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو نومبر اور دسمبر 2020 کے دوران برطانیہ کے اسپتالوں میں کووڈ 19 کے باعث زیر علاج رہے تھے۔

    ان میں سے 198 مریضوں میں بی 117 قسم کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 72 میں بیماری کی شدت سنگین ہوئی جبکہ گروپ کے دیگر 141 افراد (جن میں کرونا کی دیگر اقسام کو دریافت کیا گیا تھا) میں سے 53 مریضوں کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوا۔

    بی 117 سے متاثر 31 جبکہ دیگر اقسام سے متاثر 24 مریض ہلاک ہوئے۔ جن افراد میں بیماری کی شدت زیادہ ہوئی یا ہلاک ہوئے، وہ معمر تھے یا پہلے سے کسی اور بیماری کا شکار تھے۔

    اگرچہ محققین بی 117 کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت یا موت کے نمایاں خطرے کو دریافت نہیں کرسکے تاہم ان میں وائرل لوڈ کی سطح زیادہ تھی، جس سے وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا عندیہ ملتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے سابقہ تحقیق کو توقع ملتی ہے کہ برطانیہ میں دریافت یہ قسم زیادہ متعدی ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • کیا 5 جی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے؟ اہم ترین تحقیق

    کیا 5 جی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے؟ اہم ترین تحقیق

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ 5 جی کے ریڈیو سگنلز کرونا وائرس پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، جس کے بعد لوگوں نے 5 جی کے ٹاورز پر حملہ بھی کیا، لیکن اب ماہرین نے اس حوالے سے اہم تحقیق پیش کردی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق آسٹریلین ریڈی ایشن پروٹیکشن اینڈ نیوکلیئر سیفٹی ایجنسی (اے آر پی اے این ایس اے) نے سوائن برنی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر 5 جی ریڈیو لہروں کے حوالے سے ہونے والی 138 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    اس ٹیم نے تحفظ کے حوالے سے ہونے والی مزید 107 تحقیقی رپورٹس کا بھی تجزیہ کیا، دونوں تجزیوں میں دیکھا گیا کہ 5 جی اور اس سے ملتی جلتی ریڈیو لہروں کے خلیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ 5 جی لہروں سے صحت یا خلیات پر کوئی بھی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    اے آر پی اے این ایس اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر کین کریپیڈس نے بتایا کہ ایک تجزیے کے نتائج میں ایسے کوئی شواہد نہیں مل سکے جن سے عندیہ ملتا ہو کہ کم سطح کی ریڈیائی لہریں جیسی 5 جی نیٹ ورک میں استعمال ہوتی ہیں، انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جن تحقیقی رپورٹس میں حیاتیاتی اثرات کو رپورٹ کیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر میں لہروں کے اثرات جانچنے کے غیر معیاری طریقہ کار کو استعمال کیا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 جی اثرات کی مانیٹرنگ کے لیے طویل المعیاد تحقیق پر کام ہونا چاہیئے، جس کے لیے تمام تر سائنسی پیشرفت کو استعمال کیا جائے، مگر اب تک ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جو 5 جی سے جڑے مضحکہ خیز دعوؤں کی حمایت کرتے ہوں۔

    ڈاکٹر کین نے کہا کہ ہمارا مشورہ ہے کہ مستقبل میں تجرباتی تحقیقی رپورٹس میں مخصوص امور پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے جبکہ آبادی پر طویل المعیاد طبی اثرات کی مانیٹرنگ جاری رکھی جانی چاہیئے۔

  • ناشتہ کرنے کا وقت مقرر نہیں؟ نئی تحقیق میں پریشان کن انکشاف

    ناشتہ کرنے کا وقت مقرر نہیں؟ نئی تحقیق میں پریشان کن انکشاف

    بے شمار طبی تحقیقوں میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ناشتہ نہ کرنے کی عادت انسانی جسم اور دماغ کے لیے نہایت خطرناک ہے، یہ نہ صرف جسم کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ جسم کو کئی بیماریوں کا گھر بھی بنا دیتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ناشتے کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے، بالخصوص بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے اور انسولین کی مزاحمت کا خطرہ کم کرنے کے لیے اس کا وقت نہایت اہم ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جو افراد صبح ساڑھے 8 بجے تک ناشتا کرلیتے ہیں، ان میں ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ صبح جلد ناشتا کرنے والے افراد کا بلڈ شوگر لیول کم ہوتا ہے جبکہ انسولین کی مزاحمت بھی کم ہوتی ہے، انسولین کی مزاحمت اس وقت ہوتی ہے جب جسم انسولین کے حوالے سے درست ردعمل پیدا نہیں کرپاتا اور خلیات میں داخل ہونے والی گلوکوز کی مقدار کم ہوتی ہے۔

    انسولین کی مزاحمت اور زیادہ بلڈ شوگر دونوں ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بڑھانے والے اہم عناصر ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ میٹابولک امراض جیسے ذیابیطس کی شرح میں اضافے کے باعث ضروری ہے کہ غذائی عادات پر غور کیا جائے تاکہ خطرات کو کم کیا جاسکے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے 10 ہزار سے زائد بالغ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جو امریکا کے نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سروے کا حصہ بنے تھے، ان افراد کو دن بھر میں کھانے کے مجموعی اوقات کے دوران جزو بدن بنانے کے حوالے سے 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جو دن بھر کی غذا 10 گھنٹے میں کھانے کے عادی تھے، دوسرا 10 سے 13 اور تیسرا 13 گھنٹے سے زائد وقت میں غذا کے استعمال کرنے والے افراد پر مشتمل تھا۔

    بعد ازاں ان کو مزید 6 چھوٹے گروپس میں تقسیم کیا گیا جن کی تشکیل غذا کے آغاز یعنی صبح ساڑھے 8 بجے سے پہلے یا بعد کی بنیاد ہر کی گئی۔

    اس ڈیٹا کا تجزیہ کر کے تعین کرنے کی کوشش کی گئی کہ کھانے کے مخصوص اوقات کا خالی پیٹ بلڈ شوگر لیول اور انسولین کی مزاحمت سے تعلق ہے یا نہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ دن بھر میں مجموعی غذا کے دورانیے سے کوئی نمایاں اثر مرتب نہیں ہوتا، تاہم صبح ساڑھے 8 بجے ناشتا کرنے والے افراد میں بلڈ شوگر لیول اور انسولین کی مزاحمت کی شرح کم ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ناشتہ نہ کرنے کی عادت نہ صرف موٹاپے بلکہ مختلف امراض جیسے ذیابیطس ٹائپ 2، بلڈ پریشر اور امراض قلب وغیرہ کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے اور حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 10 میں سے 3 مریض ان علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں علم ہوا کہ کووڈ سے متاثر ہر 10 میں سے ایک مریض کو 3 یا اس سے زیادہ مہینے تک کووڈ کی علامات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    ایسے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن میں بیماری کی علامات صحت یابی کے بعد بھی کئی ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) کی اس تحقیق میں متعدد تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کے اعضا پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کو بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ ممکنہ طور پر 4 مختلف سنڈرومز کا مجموعہ ہوسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان سنڈرومز میں پوسٹ انٹینسیو کیئر سنڈروم، اعضا کو طویل المعیاد نقصان، پوسٹ وائرل سنڈروم اور ایک نیا سینڈروم شامل ہے جو دیگر سے مختلف الگ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ لانگ کووڈ ایک متحرک بیماری ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے بیماری کے مختلف پیٹرنز کو سمجھنے میں مدد ملے گی، مگر ہمیں اس کی ہر وجہ کو جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 10 فیصد افراد کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا 3 ماہ بعد بھی ہوتا ہے، مگر ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا عمل محدود ہونے کے باعث ہوسکتا ہے کہ یہ شرح زیادہ ہو۔

  • امریکا: کرونا وائرس کے حوالے سے نئی تحقیق میں دردناک انکشاف

    امریکا: کرونا وائرس کے حوالے سے نئی تحقیق میں دردناک انکشاف

    امریکا کرونا وائرس سے شدید ترین متاثر ملکوں میں سے ایک ہے جہاں ایک سال میں لگ بھگ 3 کروڑ افراد وبا کی زد میں آئے، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ہر پانچویں شخص نے اپنے کسی عزیز کو وبا میں کھو دیا۔

    امریکا میں کرونا وائرس کی وبا کا ایک سال مکمل ہونے پر کی جانے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہر پانچویں امریکی شخص نے وبا میں اپنا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا انتہائی قریبی دوست کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھا۔

    یونیورسٹی آف شکاگو میں قائم سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ وبا کے باعث امریکا میں ہر پانچویں شخص نے اپنا قریبی رشتہ دار یا قریبی دوست کھویا۔

    ملک بھر میں کروائے گئے سروے سے معلوم ہوا کہ کرونا کے باعث سب سے زیادہ متاثر سیاہ فام کمیونٹی ہوئی تاہم وبا نے مجموعی طور پر پورے امریکا کو لپیٹ میں لیے رکھا اور تقریباً ہر خاندان کسی نہ کسی طرح متاثر ہوا۔

    سروے کے مطابق کرونا میں سب سے زیادہ یعنی 30 فیصد ہلاکتیں سیاہ فام افراد کی ہوئیں جب کہ 29 فیصد لاطینی امریکی و ہسپانوی نسل کے افراد کی ہوئیں، اسی طرح سب سے کم ہلاکتیں یعنی 15 فیصد اموات سفید فام افراد کی ہوئیں۔

    سروے میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ ماہانہ 30 ہزار امریکی ڈالر سے کم آمدنی والے افراد کی وبا کے باعث زیادہ اموات ہوئیں۔

    یاد رہے کہ امریکا کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سر فہرست رہا ہے، ایک سال میں امریکا میں کرونا وائرس سے لگ بھگ 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے۔

    اس عرصے میں ملک میں 5 لاکھ 30 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ فی الحال امریکا میں فعال کیسز کی تعداد 74 لاکھ سے زائد ہے۔

  • کیا ویڈیو گیمز کھیلنا واقعی نقصان دہ ہے؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    کیا ویڈیو گیمز کھیلنا واقعی نقصان دہ ہے؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    لڑکوں کا ویڈیو گیمز کھیلنا ان کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے اور عام خیال ہے کہ یہ ان کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے مضر ہے تاہم اب ایک نئی تحقیق کے نتائج اس سے کافی مختلف ہیں۔

    حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ 11 سال کی عمر میں ویڈیو گیمز کھیلنے کے عادی لڑکوں میں آنے والے برسوں میں ڈپریشن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ جو لڑکیاں اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتی ہیں، ان میں ڈپریشن کی علامات کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    دونوں کو اکٹھا کیا جائے تو نتائج سے علم ہوتا ہے کہ اسکرین کے سامنے مختلف انداز سے گزارے جانے والا وقت کس طرح بچوں کی ذہنی صحت پر مثبت یا منفی انداز سے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق اسکرینوں سے ہمیں مختلف اقسام کی سرگرمیوں کا حصہ بننے کا موقع ملتا ہے، اس حوالے سے گائیڈ لائنز یہ مدنظر رکھ کر مرتب کرنی چاہیئے کہ مختلف سرگرمیاں کس حد تک ذہنی صحت پر اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم یہ تصدیق نہیں کر سکتے کہ گیمز کھیلنے سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے، تاہم نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ اتنی نقصان دہ عادت نہیں بلکہ اس کے کچھ فوائد بھی ہیں، بالخصوص وبا کے دوران۔

    اس تحقیق میں 11 ہزار سے زائد بچوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا جن پر 2000 سے 2002 کے درمیان ایک تحقیق کی گئی تھی۔

    ان بچوں سے سوشل میڈیا، ویڈیو گیمز کھیلنے یا انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے تھے جبکہ 14 سال کی عمر میں ان میں ڈپریشن کی علامات کو جاننے کی بھی کوشش کی گئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لڑکے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں ان میں اگلے 3 برسوں میں ڈپریشن کی علامات کا خطرہ 24 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    دوسری جانب جو بچیاں 11 سال کی عمر میں اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتی ہیں، ان میں 3 سال بعد ڈپریشن کی علامات کا خطرہ 13 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

  • رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کرنے کی تحقیق کی منظوری

    رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کرنے کی تحقیق کی منظوری

    لندن: برطانوی حکومت نے ایک ایسی تحقیق کی منظوری دے دی ہے جس میں رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کیا جائے گا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانوی حکومت کی جانب سے ہیومن چیلنج ٹرائلز شروع کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے بعد ماہرین کو 18 سے 30 سال کے 90 صحت مند رضا کاروں کی تلاش ہے۔

    ٹرائلز کے دوران 90 صحت مند رضا کاروں کو کرونا وائرس کی معمولی مقدار سے دانستہ متاثر کیا جائے گا جس کے بعد وائرس کے خلاف جسم کے مدافعتی ردعمل اور وائرس کے اپنے مدافعتی نظام کا جائزہ لیا جائے گا۔

    برطانوی حکومت اس کے لیے 33.6 ملین پاؤنڈز خرچ کر رہی ہے۔ منصوبے میں حکومت کی ویکسین ٹاسک فورس، امپیریل کالج لندن، رائل فری لندن این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ اور کمپنی ایچ ویوو شراکت دار ہیں۔

    ہیومن چیلنج ٹرائلز میں عام طور پر رضا کاروں کو کسی وائرس سے متاثر کر کے ویکسین کی آزمائش کی جاتی ہے اور پھر کئی ماہ تک ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔

    کچھ ماہرین کی جانب سے رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کرنے کے حوالے سے اعتراضات کیے گئے ہیں اور اس کے اخلاقی پہلو پر سوال اٹھایا گیا ہے کیونکہ ابھی کرونا وائرس کا کوئی حتمی علاج نہیں ہے۔

    البتہ کافی افراد اس کے حق میں بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ نوجوان اور صحت مند افراد میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات ویسے بھی کم ہوتے ہیں اور اس طرح کے ٹرائلز کے فوائد معاشرے کے لیے بہت ضروری ہیں جس سے اس کے علاج میں مدد ملے گی۔

  • کوا ذہانت میں کس کے برابر ہے؟ نئی تحقیق نے حیران کردیا

    کوا ذہانت میں کس کے برابر ہے؟ نئی تحقیق نے حیران کردیا

    برلن: کوا اپنا چالاکی کے باعث بے حد مشہور ہے تاہم حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ کوا ذہانت میں بندروں کے برابر ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اوسنابرک یونیورسٹی کے سائنسدانوں اور برلن میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ برائے سائنسی ریسرچ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کوے کسی حد تک بڑے بندروں کی طرح ذہین ہوتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق کوؤں کی جسمانی اور معاشرتی صلاحیتوں کا موازنہ بندروں کی بڑی نسل اورنگٹن سے کیا جاتا ہے۔ تحقیق میں ثابت ہوا کہ چار ماہ کے کوے کی پہچاننے کی صلاحیت بالغ بندر کی طرح ہوتی ہے۔

    سائنٹفک ریسرچ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق 4 ماہ کے کوے میں پہچاننے کی وہ تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک بالغ بندر میں ہوتی ہیں۔

    تحقیقاتی ٹیم نے بندروں کے لیے تیار کیے گئے ایک تجرباتی ٹیسٹ کو پرندوں پر آزمایا، اس ٹیسٹ میں میٹھے ٹکڑے کو ایک گلاس کے نیچے چھپا کر اس کے ساتھ رکھے گلاسوں کے ساتھ اس کی جگہ بدل دی جاتی تھی۔

    اس سے یہ اندازہ لگانا تھا کہ کوا ٹکڑے والے گلاس کی پہچان رکھ سکتا ہے یا نہیں، یہ ٹیسٹ 3 کارڈ والے کھیل کی طرح تھا۔ حیران کن طور پر کوے نے ٹکڑے والے گلاس کی پہچان رکھی اور اپنی چونچ سے اس کو گرا دیا۔

    یہ تحقیق 8 کوؤں پر کی گئی جن کی عمریں 4، 8، 12 اور 16 ماہ تھیں۔

    تحقیق کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کوؤں میں اشیا کو پہچاننے اور اجتماعی رابطے کا فہم بندروں جیسا تھا، اب سائنسدانوں نے کوؤں کے لیے ایسا ٹیسٹ تیار کرنے کا عزم کی ہے جو ان کی خصوصی مہارتوں کا پتہ دے گا۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    لندن: برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پاکستان سمیت کئی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ہے۔

    امپریئل کالج لندن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم بی 117 کے نتیجے میں کووڈ کیسز ری پروڈکشن یا آر نمبر 0.4 سے 0.7 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    عام طور پر کسی وبائی مرض کے بنیادی ری پروڈکشن نمبر کے لیے ایک اعشاری نظام آر او ویلیو کی مدد لی جاتی ہے، یعنی اس ویلیو سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مرض کا شکار فرد مزید کتنے لوگوں کو بیمار کرسکتا ہے۔

    خسرے کا آر او نمبر 12 سے 18 ہے جبکہ 2002 اور 2003 میں سارس کی وبا کو آر او 3 نمبر دیا گیا تھا، اس وقت برطانیہ میں کووڈ کا آر نمبر 1.1 سے 1.3 کے درمیان ہے اور کیسز میں کمی لانے کے لیے اسے ایک سے کم کرنا ضروری ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کہ وائرس کی دونوں اقسام کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، یہ بہت بڑا فرق ہے کہ وائرس کی یہ قسم کتنی آسانی سے پھیل سکتی ہے، یہ وبا کے آغاز کے بعد سے وائرس میں آنے والی سب سے سنجیدہ تبدیلی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی شرح میں نومبر میں برطانیہ کے لاک ڈاؤن کے دوران 3 گنا اضافہ ہوا، حالانکہ سابقہ ورژن کے کیسز میں ایک تہائی کمی آئی۔

    برطانیہ میں حالیہ دنوں کے دوران کرونا وائرس کے کیسز کی شرح میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس 20 سال سے کم عمر نوجوانوں خصوصاً اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

    مگر اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی قسم ہر عمر کے گروپس میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    محققین کے مطابق ابتدائی ڈیٹا کی ایک ممکنہ وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ نومبر کے لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے جبکہ بالغ آبادی کی سرگرمیوں پر پابندیاں تھیں، مگر اب ہم نے ہر عمر کے افراد میں اس نئی قسم کے کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھا ہے۔

    تحقیق میں جو چونکا دینے والی بات دریافت کی گئی وہ یہ تھی کہ نومبر میں برطانیہ میں لاک ڈاؤن لوگوں کے لیے ضرور سخت تھا مگر اس سے وائرس کی نئی قسم کا پھیلاؤ رک نہیں سکا۔

    حالانکہ ان پابندیوں کے نتیجے میں وائرس کی سابقہ اقسام کے کیسز کی شرح میں ایک تہائی کمی آئی، مگر نئی قسم کے کیسز کی شرح 3 گنا بڑھ گئی۔

    ابھی اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ جاننا ممکن ہوسکے کہ یہ نئی قسم اتنی تیزی سے کیسے پھیل رہی ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسینز اس کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اس نئی قسم میں 14 میوٹیشنز موجود ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں ہوئیں۔

    یہ وہی پروٹین ہے جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں تبدیلیاں دنیا بھر میں گردش کرنے والے اس وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کافی نمایاں ہیں۔