Tag: تحقیق

  • کووڈ 19 کی نشانیاں اس ترتیب سے ظاہر ہوسکتی ہیں

    کووڈ 19 کی نشانیاں اس ترتیب سے ظاہر ہوسکتی ہیں

    گزشتہ ایک سال میں کووڈ 19 کی مختلف علامات سامنے آچکی ہیں، کچھ ماہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں کووڈ 19 کی مختلف علامات کی ترتیب بیان کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چند ماہ پہلے سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کے مائیکلسن سینٹرز کنورجنٹ سائنس انسٹیٹوٹ ان کینسر نے ایک تحقیق کی جس میں ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں میں سامنے آنے والی علامات کی ترتیب بیان کی تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کی کون سی علامت پہلے نمودار ہوتی ہے اور کون سی بعد میں ہوتی ہے۔

    سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ان 55 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو عالمی ادارہ صحت نے چین میں 16 سے 24 فروری کے دوران اکٹھا کیا تھا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کی علامات دیگر امراض جیسے فلو سے ملتی جلتی ہیں مگر ان میں فرق پیدا کرنے والا عنصر علامات کی ترتیب ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق بخار ہی ممکنہ طور پر وہ پہلی علامت ہے جو کووڈ 19 کے بالغ مریضوں میں سب سے پہلے نظر آتی ہے۔

    محققین کے مطابق مریض کو 104 یا اس سے زیادہ کا بخار ہوسکتا ہے، مگر کئی مریضوں کو کبھی بخار کا سامنا ہی نہیں ہوتا، اس لیے دیگر علامات کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق بخار کے بعد کھانسی اور مسلز میں کھنچاؤ اور تکلیف کا سامنا ہوسکتا ہے، کھانسی عموماً خشک ہوتی ہے، جس میں بلغم نہیں بنتا، جس کے ساتھ جسم یا مسلز میں تکلیف کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

    بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کووڈ 19 کی روایتی علامات ہیں، مگر اس کے ساتھ نظام ہاضمہ کے مسائل کا سامنا بھی مریضوں کو ہوتا ہے، جیسے متلی اور قے۔

    عام طور پر لوگ ان علامات کو نظر انداز کردیتے ہیں اور تحقیق کے مطابق نظام تنفس کی اوپری نالی کی علامات کے ساتھ ساتھ متعدد مریضوں کے اندر کھانے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے، قے اور متلی جیسی شکایات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

    عام طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہیضے کی علامت سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہے۔

    تاہم کووڈ 19 کو شکست دینے والے کچھ مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف مسائل جیسے تھکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے، جس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے، اس کو جاننے کے لیے ابھی تحقیقی کام جاری ہے۔

    کووڈ 19 کی ایک اور عام علامت بھی ہے مگر انفرادی طور پر اس کا تجربہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوسکتا ہے۔

    یعنی روایتی علامات بخار، کھانسی، قے اور سانس لینے میں مشکلات سے ہٹ کر اس مرض کی ایک سب سے غیر معمولی علامت چکھنے اور سونگھنے کی حس ختم ہوجانا ہے، جو نظام تنفس کی علامات سے پہلے بھی نمودار ہوسکتی ہے یا سب سے آخر میں بھی نظر آسکتی ہے۔

    فلو کے مریضوں کو کبھی اس علامت کا سامنا نہیں ہوتا اور اس طرح یہ کووڈ 19 کی ایک منفرد نشانی ہے۔

    یعنی اگر اوپر درج اکثر علامات کا سامنا ہو تو یہ کووڈ 19 کا اشارہ ہوسکتا ہے، جس کی تصدیق کے لیے ٹیسٹ کروا لینا چاہیئے یا ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔

  • دنیا کو ایک اور وبا سے بچانے کے لیے سائنسدانوں کی مشترکہ کوشش شروع

    دنیا کو ایک اور وبا سے بچانے کے لیے سائنسدانوں کی مشترکہ کوشش شروع

    دنیا بھر کے ماہرین نے کرہ ارض کو ایک اور عالمی وبا سے بچانے کے لیے چمگادڑوں پر تحقیق شروع کردی، ماہرین کے مطابق چمگادڑ انسانوں اور مویشیوں میں مہلک وائرس منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث سائنسدانوں نے اگلی عالمی وبا سے بچاؤ کے لیے چمگادڑوں پر توجہ مرکوز کردی ہے اور برازیل کے سائنسدان بھی اسی تحقیق کی دوڑ میں شامل ہیں۔

    برازیل کے دوسرے بڑے شہر ریو ڈی جینیرو کے پیڈرا برانکا اسٹیٹ پارک میں رات کے وقت چمگادڑوں کی تلاش کی گئی، نومبر کے مہینے میں رات کے وقت انجام دی جانے والی سرگرمی برازیل کے ریاستی فیوکرز انسٹی ٹیوٹ کے پروجیکٹ کا حصہ تھی جس کا مقصد جنگلی جانوروں بشمول چمگادڑوں کو جمع کرنا اور ان میں موجود وائرسز پر تحقیق کرنا تھا۔

    کئی سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کا تعلق چمگادڑوں سے ہے۔

    اب اس تحقیق کا مقصد دیگر وائرسز کی نشاندہی کرنا ہے جو انسانوں کے لیے انتہائی جان لیوا اور مہلک ثابت ہوسکتے ہیں اور ان معلومات کو ایسا پلان مرتب کرنے میں استعمال کرنا کہ لوگوں کو ان کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے، یعنی ممکنہ عالمی مرض کے پھیلاؤ کو روکنا ہے اس سے قبل کہ وہ شروع ہوجائے۔

    برازیل کی یہ ٹیم دنیا بھر کی کئی ٹیمز میں سے ایک ہے جو اسی صدی میں دوسری عالمی وبائی کے خطرے کو کم کرنے کی دوڑ میں شامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ کسی مداخلت کے بغیر ایک اور نوول وائرس جانور سے انسان (ہوسٹ) میں منتقل ہوگا اور جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کا موقع تلاش کرے گا۔

    یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چمگادڑ متعدد وائرسز کے اصل یا انڈرمیڈری ہوسٹس (یعنی کسی اور چیز سے منتقل ہو کر وائرس بعد میں چمگادڑ کے ذریعے انسانوں میں پھیلا) ہے، جو حال ہی میں کووڈ 19، سارس، مرس، ایبولا، نیپاہ وائرس، ہیندرا وائرس اور مار برگ وائرس کی وبا کی وجہ بنی۔

    خیال رہے کہ چمگادڑ ایک متنوع گروہ ہے، جس کی انٹارکٹیکا کے سوا ہر براعظم میں 1400 سے زائد اقسام موجود ہیں لیکن اکثر میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ انسانوں اور مویشیوں میں مہلک وائرس منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ خود چمگادڑوں میں ان بیماریوں کی علامات ظاہر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔

  • موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    لندن: برطانوی ماہرین کی حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کسی شخص میں موٹاپے کا شکار رہنے کا دورانیہ امراض قلب اور میٹابولک امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

    برطانیہ کی لوفبرو یونیورسٹی کی حال ہی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپا کسی فرد کی صحت کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے مگر ہر ایک میں مختلف جان لیوا امراض کا خطرہ یکساں نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں محققین نے اس حوالے سے جائزہ لیا کہ موٹاپے کی مدت یعنی کچھ ماہ، سال یا دہائیوں سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے 10 سے 40 سال کی عمر کے 20 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی 3 تحقیقی رپورٹس کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں جسمانی وزن، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور بلڈ شوگر میں اضافے کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ کسی فرد میں موٹاپے کا طویل عرصہ اس میں جان لیوا امراض کے خطرے کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی وزن کو کنٹرول رکھنا کتنا ضروری ہے، تاہم اگر کوئی موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے تو جسمانی وزن میں جلد کمی لا کر جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرنا ممکن ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر کسی فرد کا جسمانی وزن بڑھ جاتا ہے اور وہ اسے وہاں پر ہی روک لیتا ہے تو بھی اس میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یعنی صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

    محققین کے مطابق خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب جسمانی وزن میں اضافہ مسلسل ہوتا چلا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن بڑھنے سے روکنے کے لیے پروٹین سے بھرپور ناشتا، میٹھے مشروبات اور فروٹ جوسز سے گریز، جسمانی وزن میں کمی لانے میں مددگار غذاﺅں کا استعمال، چائے یا کافی کا استعمال کم کرنا اور اچھی نیند لینا معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

  • خواتین کے مقابلے میں مرد کرونا وائرس کا زیادہ شکار کیوں ہورہے ہیں؟

    خواتین کے مقابلے میں مرد کرونا وائرس کا زیادہ شکار کیوں ہورہے ہیں؟

    کرونا وائرس خواتین کے مقابلے میں مردوں پر زیادہ شدت سے کیوں اثر انداز ہوتا ہے، ماہرین نے اس کی وجہ تلاش کرلی ہے۔

    کرونا وائرس کے آغاز سے ہی متعدد تحقیقات میں ثابت ہوا کہ اس کا شدید اثر اور موت کا خدشہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہوتا ہے۔

    اس وقت سے طبی ماہرین اس کی وجہ جاننے کے لیے کام کر رہے ہیں اور ابتدا میں قیاس لگایا گیا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد زیادہ تمباکو نوشی کرتے ہیں، مگر اب ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں، جن سے عندیہ ملتا ہے کہ خواتین کے مخصوص ہارمونز اس حوالے سے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خواتین میں پائے جانے والے تولیدی ہارمونز ایسٹروجن اور پروجسٹرون کووڈ 19 کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ ان کی ورم کش خصوصیات اور مدافعتی نظام پر مثبت اثرات مرتب کرنا ہے۔

    طبی جریدے جرنل ٹرینڈز اینڈ اینڈوکرونولوجی اینڈ میٹابولزم میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سے ممکنہ طور پر وضاحت ہوتی ہے کہ مرد کووڈ 19 سے خواتین سے زیادہ متاثر کیوں ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیگر بیماریوں کے مقابلے میں کرونا وائرس سے حاملہ خواتین میں ہلاکت کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    امریکا کی الی نوائس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گی کہ بڑی تعداد میں حاملہ خواتین میں کووڈ 19 کی علامات حمل کے دوران ظاہر نہیں ہوئیں، مگر بچے کی پیدائش کے بعد اچانک بدترین علامات نمودار ہوئیں۔

    زچگی کے بعد خواتین میں مخصوص ہارمونز کی سطح میں نمایاں کمی آتی ہے جو ان علامات کے نمودار ہونے کا باعث بنتی ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ حمل کو مستحکم رکھنے والے ہارمونز جیسے پروجسٹرون حمل کی تیسری سہ ماہی کے دوران سو گنا زیادہ ہوتے ہیں، یہ سب ہارمونز ورم کش افعال کے حامل ہوتے ہیں اور مدافعتی نظام پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد زیادہ سنگین بیماری کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ ان ہارمونز کی سطح میں ڈرامائی کمی آتی ہے۔

    تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ خواتین کے مخصوص ہارمونز کووڈ 19 کی سنگین شدت کو ٹالنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ ہارمونز وائرس سے متاثر ہونے پر پھیپھڑوں کے خلیات کی مرمت کا عمل تیز کرتے ہیں اور وائرس کو خلیات میں داخل ہونے میں مدد دینے والے ایس ٹو ریسیپٹر کو بھی روکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں یہ ہارمونز ممکنہ طور پر مدافعتی نظام کے شدید ردعمل کی روک تھام میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔

  • کیا وٹامن ڈی کرونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

    کیا وٹامن ڈی کرونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی تحقیقات جاری ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کرونا وائرس کے حملے کو شدید بنا سکتی ہے جبکہ اس وٹامن کی مناسب سطح کرونا وائرس کے حملے کو کمزور کرسکتی ہے۔

    امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے بائیو میڈیکل انجنیئرنگ پروفیسر ویڈم بیکہم کا کہنا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وٹامن ڈی کووڈ 19 کی پیچیدگیوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، اگرچہ کہ اب تک اس کی وجہ اور اثرات کو دریافت یا ثابت نہیں کیا جاسکا۔

    اس سے قبل اسپتالوں میں زیر علاج کووڈ 19 کے 200 سے زائد مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ 80 فیصد کرونا مریض وٹامن ڈی کی کمی کے شکار تھے۔

    تحقیق میں پتہ چلا کہ وٹامن ڈی کے کمی کے شکار مریض کے خون میں ورم کا باعث بننے والے عناصر کی شرح بھی زیادہ ہے، تاہم محققین وٹامن ڈی کی کمی اور بیماری کی شدت میں کوئی تعلق دریافت نہیں کر سکے۔

    اسپین میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسم میں وٹامن ڈی کی شرح کووڈ 19 سے لوگوں کے اسپتال میں داخلے پر اثرانداز ہوتی ہے۔

    اس تحقیق میں 50 مریضوں کو وٹامن ڈی کا استعمال کروایا گیا تو ان میں سے صرف ایک کو آئی سی یو میں داخل ہونا پڑا جبکہ کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، جبکہ 26 ایسے مریض جن کو یہ وٹامن استعمال نہیں کروایا گیا، ان میں سے 13 کو آئی سی یو میں داخل کروانا پڑا اور 2 ہلاک ہو گئے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی اسپتالوں میں زیر علاج 235 کووڈ 19 کے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی اور پھر ان کی حالت کا جائزہ لیا گیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ جن مریضوں کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح معمول پر تھی، ان میں کووڈ سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس کی مکمل تصدیق کے لیے ایک بڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • آپ کی پالتو بلی ہر وقت سوتی کیوں رہتی ہے؟ کہیں اس کی وجہ خود آپ تو نہیں؟

    آپ کی پالتو بلی ہر وقت سوتی کیوں رہتی ہے؟ کہیں اس کی وجہ خود آپ تو نہیں؟

    پالتو بلیاں نہایت پیاری ہوتی ہے اور ان کی معصوم شرارتیں ہر کسی کا دل موہ لیتی ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق میں ان کے بارے میں ایک اور حیران کن اور پیارا انکشاف ہوا ہے۔

    انگلینڈ کی یونیورسٹی آف لنکن میں کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ پالتو بلیوں کے مالکوں کی شخصیت و عادات ان کی بلی پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے 3 ہزار کے قریب بلیوں اور ان کے مالکان کا تجزیہ کیا۔

    نتائج میں دیکھا گیا کہ جس طرح کوئی بچہ اپنے والدین کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے اور بالکل اپنی والدین جیسی عادات و فطرت رکھتا ہے، بالکل ویسے ہی بلیاں بھی اپنے مالک کی عادات اپنا لیتی ہیں۔

    تحقیق میں شامل ایک ماہر کا کہنا ہے کہ پالتو جانور کسی بھی گھر کا حصہ بن جاتا ہے اور گھر والے اس سے ایک فیملی ممبر ہی کی طرح برتاؤ کرتے ہیں، چانچہ یہ حیران کن نہیں کہ پالتو جانور اپنے ارد گرد موجود افراد کی عادات کو اپنا لیتے ہیں۔

    یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر آپ کی پالتو بلی سست ہے یا بہت ایکٹو ہے، ہر وقت سونے کی عادی ہے یا شرارتیں کرتی ہے، چالاک ہے یا بہت بھولی بھالی ہے، تو یہ عادات یقیناً آپ میں بھی ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر میں پالتو جانور رکھنا بے شمار جسمانی و ذہنی فوائد کا باعث بنتا ہے، پالتو جانور سے آپ کے ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    طویل عرصے تک گھر میں پالا جانے والا جانور گھر میں موجود مریضوں کے لیے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے جیسے کسی قریبی عزیز یا اپنے کی موجودگی۔ علاوہ ازیں گھر میں جانور پالنا بچوں کی بہترین تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

  • کوے کی ذہانت آپ کو حیران کردے گی

    کوے کی ذہانت آپ کو حیران کردے گی

    آپ نے اس پیاسے کوے کی کہانی تو ضرور پڑھ رکھی ہوگی جو پیاس بجھانے کے لیے مٹکے کو کنکروں سے بھر دیتا ہے، جس کی وجہ سے پانی اوپر آجاتا ہے، کوے کی ذہانت کی سائنس نے بھی تصدیق کردی ہے۔

    جرمن ماہرین کی جانب سے حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا کہ کوے شعور بھی رکھتے ہیں یعنی اپنے ارد گرد کی دنیا کے حوالے سے کافی با خبر ہوتے ہیں، یہ ایک حیران کن دریافت ہے کیونکہ اب تک صرف انسان اور چند ممالیہ جانداروں کو ہی اس صلاحیت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق جانوروں میں شعور کی نشاندہی مشکل ہوتی ہے کیونکہ وہ بات نہیں کر سکتے، جس سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے ارگرد کی دنیا کا کس قدر شعرو رکھتے ہیں۔

    حالیہ تحقیق سے علم ہوا کہ کوے اپنی معلومات کے بارے میں جانتے ہیں، سوچتے ہیں، اور اس سے اپنے مسائل حل کرتے ہیں۔

    طبی زبان میں اسے پرائمری کونشیس نیس کہا جاتا ہے جو شعور کی سب سے بنیادی قسم ہے یعنی حال، مستقبل قریب اور ماضی کا شعور۔ اس کا تعلق سیربل کورٹیکس سے ہوتا ہے جو ممالیہ جانداروں کے دماغ کا ایک پیچیدہ حصہ ہوتا ہے۔

    تاہم پرندوں کی دماغی ساخت بالکل مختلف ہوتی ہے، ممالیہ جانداروں کے دماغوں میں جہاں تہیں ہوتی ہیں، وہاں پرندوں کے دماغ بالکل ہموار ہوتے ہیں، البتہ کوے بہت چالاک ہوتے ہیں اور ان میں ممالیہ جانداروں جیسی ذہنی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں لہٰذا ماہرین یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا ان کے اندر شعور پایا جاتا ہے یا نہیں۔

    اس کے لیے جرمن محققین نے 2 کووں پر مختلف تجربات کیے۔

    سب سے پہلے انہیں اسکرینوں پر روشنی دکھائی گئی اور دریافت ہوا کہ وہ انہیں دیکھ سکتے ہیں، مگر کچھ روشنیوں کو دیکھنا بہت مشکل تھا اور ان میں کئی بار وہ کوے دیکھنے کا سگنل دیتے، کئی بار نہیں دیتے۔

    ہر کوے نے درجنوں سیشنز کے دوران 2 ہزار سگنلز دیے جبکہ اس دوران الیکٹروڈز ان کے دماغ میں نصب تھے تاکہ دماغی سرگرمیوں کو ریکارڈ کیا جاسکے۔

    ماہرین نے بتایا کہ تجربات سے علم ہوا کہ کوے کے دماغ میں اعصابی خلیات بہت زیادہ پراسیسنگ کی سطح رکھتے ہیں جو کہ شعور کا اثر ہوتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے تصدیق ہوئی کہ اس طرح کا شعور صرف انسانوں یا چند ممالیہ جانداروں تک محدود نہیں، اور اس قسم کے شعور کے لیے ممالیہ دماغ جیسی پیچیدہ تہہ کی بھی ضرورت نہیں۔

    ایک اور تحقیق میں کبوتروں اور الوؤں پر مختلف تجربات کے دوران یہ بھی دریافت کیا گیا کہ دونوں پرندوں کی دماغی ساخت حیران کن حد تک ممالیہ جانداروں کی سیربل ساخت سے ملتی جلتی ہے۔

    اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس قسم کا بنیادی شعور پرندوں اور ممالیہ جانداروں میں ہماری توقعات سے بھی زیادہ عام ہو۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ تحقیق کے نتائج سے ہمیں شعور اور اس کے دماغی اثرات کے ارتقا کے بارے میں جاننے کا موقع مل سکے گا۔

    اس سے قبل تحقیقات میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کوا چیزیں بنانے، ذخیرہ کرنے، اپنے ٹولز کی نگہداشت کرنے اور انہیں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ گنتی بھی کر سکتا ہے، علاوہ ازیں کوا سخت کینہ پرور ہوتا ہے جو اپنے دشمن کو چالاکی سے چاروں خانے چت کردیتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل نیشنل جیوگرافک نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کوا اپنی خوراک کس ذہانت سے حاصل کرتا ہے۔ کوا اپنا شکار حاصل کرنے کے لیے پودوں کی شاخوں کو بطور آلہ استعمال کرتا ہے۔

    کوے شاخ کو چھیل کر نہ صرف اس کے اگلے سرے کو نوکیلا بناتے ہیں بلکہ بعض اوقات اسے موڑ کر ہک کی شکل بھی دیتے ہیں تاکہ خوراک کو اپنی طرف کھینچ سکیں۔

    یہ ذہانت کم ہی دیگر پرندوں میں پائی جاتی ہے۔

  • کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    کرونا وائرس کے بارے میں نئی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، حال ہی میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ایک نئی تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں کرونا وائرس کے 5 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونسز کا تجزیہ کیا گیا، تجزیے میں نکشاف ہوا کہ وائرس میں ایسی تبدیلیاں آرہی ہیں یا ایسی اقسام بن رہی ہیں جو اسے زیادہ متعدی بنا رہی ہیں۔

    یہ اقسام مریضوں میں زیادہ وائرل لوڈ کا باعث بنتی ہیں۔ تحقیق میں یہ دریافت نہیں ہوا کہ یہ نئی اقسام پہلے سے زیادہ جان لیوا ہوں گی یا نہیں۔

    اس سے قبل ستمبر کے شروع میں برطانیہ میں کرونا وائرس کے جینیاتی سیکونسز کی بڑی تعداد پر ہونے والی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ان اقسام میں اسپائیک پروٹین کی ساخت پہلے سے تبدیل ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیگر وائرسز کے مقابلے میں کرونا وائرسز جیسے سارس کووڈ 2 جینیاتی طور پر زیادہ مستحکم ہیں جس کی وجہ اس کا نقول بنانے والا پروف ریڈنگ میکنزم ہے تاہم روزانہ لاکھوں نئے کیسز کے ساتھ اس وائرس کو اپنے اندر تبدیلی لانے کے مواقع مل رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر مختلف تبدیلیوں جیسے ماسک پہننے اور سماجی دوری کے اقدامات کے ساتھ اپنی اقسام بنا رہا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ فیس ماسک پہننے، ہاتھوں کو دھونے اور دیگر احتیاطی تدابیر وائرس کی منتقلی کے خلاف رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں، مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے ساتھ یہ وائرس بھی زیادہ متعدی ہوگیا ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحتیاب افراد کے حوالے سے پریشان کن انکشاف

    کرونا وائرس سے صحتیاب افراد کے حوالے سے پریشان کن انکشاف

    کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی تحقیقات اور تجربات سامنے آرہے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد کو صحتیاب ہونے کے بعد بھی مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد مریضوں میں کوویڈ 19 بیماری کے طویل المعیاد اثرات کا مشاہدہ کیا ہے، ایسے مریضوں میں بنیادی علامت سانس لینے میں مشکل ہونا ہے جبکہ انہوں نے ذہن میں دھند چھائے ہونے کی شکایت بھی کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد ایسے مریض جن میں پہلے کوویڈ 19 کی تصدیق ہوئی تھی اور بعد میں لیبارٹری ٹیسٹوں میں انہیں بیماری سے کلیئر قرار دیا گیا تھا، مگر وہ تاحال علامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

    ان کے مطابق کچھ مریضوں کی علامات نظام تنفس سے منتعلق تھیں یعنی سانس لینے میں مشکلات، مسلسل کھانسی، جبکہ دیگر کی علامات الگ تھیں جیسے دماغی دھند اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، جبکہ کچھ مریضوں کی سونگھنے یا چکھنے کی حس تاحال کام نہیں کر رہی۔

    ماہرین میں شامل ڈاکٹر مائیکل بیکلس کا کہنا ہے کہ مریضوں کو ذہنی الجھنوں کا بھی سامنا ہے کیونکہ بیماری کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ سب کچھ معمول پر آجائے گا مگر علامات اب بھی برقرار ہیں۔

    ڈاکٹر مائیکل کے مطابق کچھ ایسے مریض بھی ہیں جو کوویڈ 19 سے متاثر ہونے سے پہلے ہر ہفتے 3 سے 4 گھنٹے جم میں گزارتے تھے، مگر اب ان کے لیے ورزش کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔

    علاوہ ازیں ایسے مریض بھی ہیں جن کے لیے گھر میں سیڑھیاں چڑھنا اترنا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے حالانکہ پہلے انہیں کبھی ایسا مسئلہ نہیں ہوا تھا۔

    چند دن قبل آئر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کوویڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے لاتعداد افراد کو تاحال شدید تھکاوٹ کا سامنا ہے۔

    تحقیق میں زور دیا گیا کہ صحتیاب مریضوں کی مناسب نگہداشت کی جانی چاہیئے اور سنگین حد تک بیمار افراد پر مزید تحقیق کرکے دیکھنا چاہیئے کہ انہیں کس طرح کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس کتنی مزاحمت کرسکتا ہے؟ نئی تحقیق نے ماہرین کو پریشان کردیا

    کرونا وائرس کتنی مزاحمت کرسکتا ہے؟ نئی تحقیق نے ماہرین کو پریشان کردیا

    کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی تحقیقات جاری ہیں، حال ہی میں وائرس کی مزاحمت کی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جس نے ماہرین کو پریشان کردیا۔

    یورپی ملک ہنگری میں ہونے والی ایک تحقیق میں محققین نے کرونا وائرس کو ایک سوئی کے سرے سے دبا کر جاننے کی کوشش کہ کتنی طاقت سے یہ کسی غبارے کی طرح پھٹ سکتا ہے، انہوں نے دریافت کیا کہ ایسا ہوتا ہی نہیں۔

    تحقیق کے دوران سارس کووڈ 2 کے ایک ذرے کو لیا گیا جو کہ محض 80 نینو میٹرز چوڑا تھا اور نینو سوئی کو استعمال کیا گیا جس کا سرا اس سے بھی چھوٹا تھا۔ اس سرے سے وائرس کو دبایا گیا اور دریافت ہوا کہ وہ کسی الاسٹک کی طرح کام کرتا ہے یعنی دبانے کے بعد جب چھوڑا جاتا ہے تو وہ ایک بار پھول جاتا ہے۔

    محققین نے 100 بار ایسا کیا اور ہر بار یہ ذرہ اپنی شکل برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ وائرس حیران کن حد تک مزاحمت کرتا ہے۔

    اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس اب تک کے واقف وائرسز میں سب سے زیادہ لچکدار ہے اور اس کی شکل کو بگاڑنے سے اس کی ساخت اور اندر موجود مواد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

    رواں ہفتے ایک چینی یونیورسٹی کی جانب سے اس وائرس کی ساخت کا سب سے تفصیلی خاکہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ اس میں بڑی مقدار میں نیوکلک ایسڈ کی مقدار ہوتی ہے جو بہت تنگ جگہ میں جینیاتی ڈیٹا کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ وائرس کی مکینیکل اور خود کو ٹھیک کرنے کی خصوصیات ممکنہ طور پر اسے مختلف ماحولیاتی عناصر میں ڈھلنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔