Tag: تحقیق

  • امریکا میں وائرس کی موجودگی کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    امریکا میں وائرس کی موجودگی کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    واشنگٹن: کرونا وائرس نے دنیا بھر کے طبی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، حال ہی میں امریکا میں وائرس کی موجودگی کے حوالے سے ایک پریشان کن تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    جرنل آف میڈیکل انٹرنیٹ ریسرچ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس امریکا میں دسمبر کے آخر میں پھیلنا شروع ہوچکا تھا۔ مقامی سطح پر پھیلنے والے کیسز فروری کے آخر میں سامنے آئے تھے مگر اپریل میں بتایا گیا تھا کہ یہ بیماری وہاں جنوری میں پہنچ چکی تھی۔

    امریکا میں کووڈ 19 کا پہلا مصدقہ کیس جنوری میں اس وقت آیا تھا جب ووہان سے واشنگٹن آنے والے ایک شخص میں 19 جنوری کو اس کی تشخیص ہوئی۔

    تاہم مذکورہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ درحقیقت یہ بیماری وہاں اندازے سے پہلے پھیلنا شروع ہوچکی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 22 دسمبر سے امریکا کے مختلف طبی مراکز اور اسپتالوں میں نظام تنفس کی بیماری کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔

    تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر جو آن ایلمور کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ریکارڈ کا جائزہ اس وقت لینا شروع کیا جب مارچ میں ان کے طبی مرکز کے پریشان مریضوں کی جانب سے مسلسل ای میلز کی گئیں۔

    یہ مریض مسلسل پوچھ رہے تھے کہ کیا جنوری میں جو انہیں کھانسی تھی وہ کووڈ 19 کی وجہ سے تو نہیں تھی۔ اس پر کیلیفورنیا یونیورسٹی کی وبائی امراض کی ماہر نے تحقیق کا آغاز کیا۔

    محققین نے دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے دوران نظام تنفس کے کیسز میں اضافے کو دیکھا جبکہ اس دوران کھانسی کے بارے میں انٹرنیٹ سرچز بھی بڑھ گئیں۔

    انہوں نے اس دریافت کا موازنہ گزشتہ 5 سال کے ریکارڈز سے کیا تو دریافت ہوا کہ عام معمول کے مقابلے میں کھانسی کی شکایت کے ساتھ آنے والے مریضوں کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہوا، یعنی اوسطاً عام حالات کے مقابلے میں ایک ہزار زیادہ مریض علاج کے لیے آئے۔

    اسی طرح نظام تنفس کی شکایت کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد کی تعاد کی شرح میں بھی گزشتہ 5 سال کے مقابلے میں دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ کیسز ممکنہ طور پر فلو کے تھے جبکہ دیگر کی وجوہات الگ تھیں، مگر اس دورانیے میں اتنے زیادہ میں کیسز قابل توجہ ضرور ہیں۔

    محققین کو توقع ہے کہ اس تحقیق سے کووڈ 19 کے ریئل ٹائم ڈیٹا کو دکھایا جاسکے گا اور ماہرین کے لیے مستقبل میں امراض کو پھیلنے سے روکنے یا اس کی رفتار سست کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • کرونا وائرس دماغ کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ حیران کن انکشاف

    کرونا وائرس دماغ کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ حیران کن انکشاف

    واشنگٹن: دنیا بھر میں کرونا وائرس پر تحقیقاتی کام جاری ہے، حال ہی میں کرونا وائرس کے دماغ پر اثرات سے متعلق ایک تحقیق نے ماہرین کو پریشان کردیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکا کی ییل یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس دماغ کے خلیوں کو اپنے زیر اثر لے لیتا ہے۔

    ماہرین نے اسے دماغ کے خلیوں کی ہائی جیکنگ قرار دیا ہے جس میں وائرس دماغ کے خلیوں کو ہائی جیک کر لیتا ہے تاکہ وہ خود ان کی نقول تیار کرسکے، ان کی موجودگی کی وجہ سے آس پاس کے دماغی خلیات آکسیجن کی شدید کمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    تحقیق کے دوران اس بات کے بھی واضح ثبوت ملے کہ کرونا وائرس دماغ کے حصے میں میٹا بولک تبدیلی کے ساتھ اس کے ارد گرد کے خلیات کو بھی متاثر کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انفیکشن کو اے سی ای 2 کو بلاک کر کے روکا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے چوہوں کے ایک گروہ میں ان کے صرف پھیپھڑوں میں جنیاتی طور پر اے سی ای 2 میں تبدیلی کی، جبکہ دوسرے گروہ کے صرف دماغ میں یہ عمل کیا۔

    جب وائرس ان چوہوں میں داخل کیا گیا تو جن کے دماغ میں انفیکشن کا اثر تھا، ان کے وزن میں تیزی سے کمی ہونے لگی اور 6 دن میں وہ مر گئے، اس کے برعکس پھیپھڑے متاثر ہونے والے چوہوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔

    جب پہلے گروہ کے چوہوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ وائرس کورٹیکل نیورونز تک پہنچ گیا تھا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ نیورونز، کرونا وائرس (سارس کووڈ 2) کے حملے کا ہدف بن سکتے ہیں اور اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسے میں مقامی طور پر خون کی فراہمی رک جاتی ہے اور خلیات مر جاتے ہیں۔

    اس سے قبل ڈاکٹرز کچھ وقت تک تو یہ سمجھتے رہے کہ کرونا وائرس ایک رینج تک نیورولوجیکل بے ترتیبی، دماغ کے پروٹین پر مشتمل حصے میں خرابی، مرکزی اعصابی نظام میں سوزش، خون کے جمنے کے سبب دماغ میں خون نہ پہنچنے سے ہونے والے اسٹروک، تکلیف یا کمزوری سے عضو کے مفلوج ہونے کا سبب بنتا ہے، تاہم اس کی اصل وجہ نامعلوم تھی۔

    اس کا سبب یہی براہ راست انفیکشن تھا جسے اب ماہرین نے معلوم کرلیا ہے۔

  • کرونا وائرس: "ہیپی برتھ ڈے” گانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے

    کرونا وائرس: "ہیپی برتھ ڈے” گانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے

    اسٹاک ہوم: سوئیڈن میں کی جانے والی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہیپی برتھ ڈے گانے سے کرونا وائرس ایک دوسرے میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سوئیڈن کی لیونڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں جائزہ لیا گیا کہ گلوکاروں کے مختلف گانوں پر کتنی بڑی تعداد میں ذرات منہ سے خارج ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے 12 گلوکاروں اور 2 کرونا سے متاثرہ افراد کا انتخاب کیا گیا اور انہیں گانے کا کہا گیا تا کہ معلوم ہو سکے کہ گانے کے دوران وائرس والے کتنے ذرات خارج ہوتے ہیں۔

    تحقیق کے نتائج سے پتہ چلا کہ بلند سر اور ہم آہنگ گانے جیسے ہیپی برتھ ڈے سونگ سے بڑی تعداد میں ذرات ہوا میں شامل ہوتے ہیں۔محققین نے بتایا کہ فیس ماسک کو پہننا، سماجی دوری اور ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام گانے کے دوران لوگوں میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ کم کر دیتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوکاروں کو خاموش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسے طریقے موجود ہیں جس سے کرونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    محققین نے کہا کہ لوگوں کو احتیاطی تدابیر جیسے سماجی دوری، ہاتھوں کی اچھی صفائی اور فیس ماسک پر عمل کرنا چاہیے جبکہ ہوا کی نکاسی کا نظام بہتر کیا جانا چاہیے تاکہ ہوا میں وائرل ذرات کا اجتماع کم ہوسکے۔

    جریدے جرنل ایروسول سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع تحقیق کے مطابق ہیپی برتھ ڈے گانا کو وڈ 19 کے پھیلاؤ کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ برتھ ڈے کے حروف بی اور پی کی ادائیگی کے دوران بہت بڑے ذرات منہ سے خارج ہوتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ ایسے گانے جن میں بی اور پی یا ہوں کہہ لیں ب یا پ زیادہ ہوتے ہیں، ان سے کرونا کا خطرہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ گلوکار جتنی بلند آواز میں گائے گا، اتنے زیادہ ایرول سول اور ذرات ہوا میں جمع ہوں گے۔

  • کرونا وائرس کی دواؤں کے حوالے سے اہم تحقیق

    کرونا وائرس کی دواؤں کے حوالے سے اہم تحقیق

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے کرونا وائرس کا علاج کرنے والی دواؤں کی شناخت کرلی، ماہرین کے مطابق ان کی حکمت عملی سے کرونا وائرس کے خلاف ادویات کی دریافت کو تیز کیا جاسکے گا۔

    جریدے جرنل ہیلی یون میں شائع شدہ ایک طبی تحقیق کے مطابق کیلی فورنیا یونیورسٹی میں اے آئی (مصنوعی ذہانت) ٹیکنالوجی کی مدد سے کرونا وائرس کا علاج کرنے والی ادویات کی شناخت کی گئی ہے۔

    اس مقصد کے لیے اے آئی ٹیکنالوجی پر مبنی ایک کمپیوٹر الگورتھم کی مدد لی گئی جو ٹرائل اور غلطیوں سے پیشگوئی کرنا سیکھتا اور خود کو بہتر بناتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی حالیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ادویات کی شناخت میں مدد گار حکمت عملی نہایت اہمیت رکھتی ہے، تاکہ منظم طریقے سے کووڈ 19 کے علاج کے لیے نئی ادویات کو دریافت کیا جاسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی منظور کردہ ایسی ادویات جو وائرس کے داخلے میں مدد دینے والے ایک یا زیادہ پروٹین کو ہدف بناتی ہیں، مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اضافی ادویات یا چھوٹے مالیکیولز جو وائرس کے جسم میں داخلے اور اس کی نقول بننے کے عمل میں رکاوٹ بن سکیں، کی دریافت کے لیے ان کی حکمت عملی مددگار ثابت ہوسکے گی۔

    مذکورہ تحقیق کے لیے 65 انسانی پروٹینز کی فہرست کو استعمال کیا گیا جن کے بارے میں علم ہوا کہ وہ کرونا وائرس کے پروٹینز سے رابطے میں رہتے ہیں، جس کے بعد ہر پروٹین کے لیے مشین لرننگ ماڈلز تیار کیے گئے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان ماڈلز کو وائرس کی روک تھام کرنے والے نئے چھوٹے مالیکیول اور ایکٹیویٹرز کی شناخت کی تربیت دی گئی۔

    اس کے بعد محققین نے ان مشین لرننگ ماڈلز کو ایک کروڑ عام دستیاب چھوٹے مالیکیولز کی اسکریننگ کے لیے استعمال کر کے شناخت کی کہ کونسے کیمیکلز نئے کرونا وائرس کے پروٹینز سے رابطے میں رہنے والے پروٹینز کے لیے بہترین ہیں۔

    اس کے بعد مزید پیشرفت کرتے ہوئے ایسے غذائی مرکبات اور ادویات کو شناخت کیا گیا جن کی منظوری ایف ڈی اے پہلے ہی دے چکی ہے۔

    اس طریقہ کار سے نہ صرف سائنسدانوں کو سنگل انسانی پروٹین کو ہدف بنانے والے امیدواروں کی شناخت میں مدد ملی بلکہ انہوں نے دریافت کیا کہ کچھ کیمیکلز 2 یا اس سے زائد انسانی پروٹینز کو بھی ہدف بناسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا ڈیٹا بیس کووڈ 19 اور دیگر امراض کے خلاف فوری اور محفوظ علاج کی حکمت عملیوں کی شناخت کے وسیلے کا کام کرسکے گا جو ان 65 مخصوص پروٹین سے متعلق ہوں۔

  • کرونا وائرس کے حوالے سے حوصلہ افزا تحقیق

    کرونا وائرس کے حوالے سے حوصلہ افزا تحقیق

    برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث انتہائی نگہداشت کے وارڈ یعنی آئی سی یو میں داخل مریضوں کی شرح اموات میں ایک تہائی کمی دیکھی گئی ہے۔

    جرنل اینستھیزیا میں دنیا بھر میں کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کے مشاہدات اور نتائج پر مبنی ایک تحقیق شائع کی گئی۔ تحقیق کی سربراہی انگلینڈ کے رائل یونائیٹڈ اسپتال کے ماہرین نے کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وبا کے آغاز سے لے کر اب تک کرونا وائرس کے باعث انتہائی نگہداشت کے وارڈ یعنی آئی سی یو میں داخل مریضوں کی شرح اموات میں 60 فیصد کمی دیکھ گئی ہے۔

    تحقیق کے مطابق رواں برس مارچ کے اختتام تک یہ شرح 42 فیصد تھی جو مئی کے اختتام تک 60 فیصد ہوگئی۔

    ماہرین نے اس کی کئی وجوہات پیش کیں جن میں حکومتی اقدامات اور بہتر سائنسی تحقیق شامل ہیں۔

    یہ بھی کہا گیا کہ وبا کے شروع کے دنوں میں آئی سی یوز پر بہت زیادہ دباؤ تھا جو بتدریج کم ہوا جس کے بعد ان کی کارکردگی میں بھی بہتری آئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی وجہ اس مرض کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلنا ہے، باوجود اس کے کہ مرض کی ویکسین تیار ہونا باقی ہے جبکہ علاج کے حوالے سے بھی کافی پیشرفت کی ضرورت ہے، تاہم صرف مؤثر آگاہی نے بھی اس کے پھیلاؤ میں کمی کی۔

    تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ جیسے جیسے وبا کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ہم اس سے نمٹنے کے طریقوں کے حوالے سے بھی ترقی یافتہ ہوتے جارہے ہیں۔

  • اٹلی میں کرونا وائرس کے بارے میں چونکا دینے والی تحقیق

    اٹلی میں کرونا وائرس کے بارے میں چونکا دینے والی تحقیق

    روم: اٹلی میں کرونا وائرس کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ اپریل کے مقابلے میں مئی میں جو افراد کرونا وائرس کا شکار ہوئے، ان میں وائرس کا زور کم تھا۔

    اٹلی میں چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے دیکھا کہ اپریل میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں وائرس کی شدت زیادہ تھی، ماہرین نے اسے وائرل لوڈ کا نام دیا ہے جو ان کے مطابق مئی میں کم ہوگیا۔

    اپنی تحقیق میں ماہرین اس بارے میں حتمی شواہد تو فراہم نہیں کرسکے تاہم انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اس کی وجہ بظاہر سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا جانا اور سماجی فاصلوں کو یقینی بنانا ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں اس پہلو پر غور نہیں کیا گیا کہ آیا وائرس کی جین میں کوئی تبدیلی ہوئی یا پھر مریضوں کے جسم میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی جس کی وجہ سے وائرس کم شدت سے حملہ آور ہوا۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے اٹلی کے ایک اسپتال سے 200 کرونا وائرس کے مریضوں کے، ٹیسٹ کے لیے دیے گئے نمونوں کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں نصف مریض اپریل میں سامنے آئے جب وائرس کا زور اٹلی میں عروج پر تھا، جبکہ نصف مئی میں سامنے آئے جب اس کا زور ٹوٹ چکا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اپریل میں جو مریض آئے ان میں وائرل لوڈ زیادہ تھا، ان مریضوں میں ظاہر ہونے والی علامات بھی شدید تھیں جبکہ انہیں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت بھی پیش آئی۔

    یہ بھی دیکھا گیا کہ 60 سال سے زائد عمر کے مریضوں میں وائرل لوڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ممکنہ وجوہات سماجی فاصلے رکھنا، گرم درجہ حرارت، فیس ماسک کا زیادہ استعمال، شہریوں کے بار بار ہاتھ دھونے کی عادت اور فضائی آلودگی میں کمی ہو سکتی ہیں۔

  • کرونا وائرس: اسپین میں نئی تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا

    کرونا وائرس: اسپین میں نئی تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا

    میڈرڈ: ہسپانوی ماہرین نے اسپین کے شہر بارسلونا کے سیوریج کے، مارچ 2019 میں لیے گئے نمونوں میں کرونا وائرس کی موجودگی دریافت کرلی، یہ نمونے چین میں کرونا وائرس کے آغاز اور پھیلاؤ سے 9 ماہ قبل لیے گئے تھے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یونیورسٹی آف بارسلونا کے ماہرین کی ٹیم رواں برس اپریل سے سیوریج کے پانی کے نمونوں کی جانچ کر رہی ہے تاکہ اس کے ذریعے متوقع پھیلنے والی بیماریوں کے بارے میں جانا جاسکے۔

    اس تحقیق کے دوران انہیں 15 جنوری 2020 کو لیے گئے نمونوں میں کرونا وائرس کی موجودگی کے آثار ملے، یعنی ملک میں کرونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق سے 41 دن قبل۔

    اس کے بعد ماہرین نے فیصلہ کیا کہ اس وقت سے پہلے لیے گئے نمونوں کی بھی دوبارہ جانچ کی جائے۔ ماہرین نے جنوری 2018 سے دسمبر 2019 کے درمیان لیے گئے سیوریج نمونوں کی دوبارہ جانچ کی تو انہیں 12 مارچ 2019 کو لیے گئے نمونوں میں اس وائرس کا جینوم (یا ڈی این اے) مل گیا۔

    ماہرین کی ٹیم کے سربراہ البرٹ بوش کا کہنا ہے کہ اس وقت دریافت ہونے والا کرونا وائرس اتنا زیادہ طاقتور نہیں تھا تاہم وہ موجود تھا۔

    ہسپانوی ماہرین کی اس تحقیق پر مزید جانچ کی جارہی ہے، اگر اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ بارسلونا کے سیوریج میں دریافت شدہ وائرس کرونا ہی ہے تو اس کی موجودگی ماہرین کے عام اندازوں سے بھی پہلے کی ثابت ہوجائے گی۔

    اسپینش سوسائٹی فار پبلک ہیلتھ اینڈ سیفٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جان رومن کا کہنا ہے کہ فی الحال اس بارے میں حتمی نتائج اخذ کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی نتیجہ سامنے آتا ہے تو اس کی تصدیق کے لیے مزید ڈیٹا، مزید مطالعے اور مزید نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس بات کا امکان رد کیا جاسکے کہ یہ تحقیق کے دوران ہونے والی کسی غلطی کا نتیجہ نہیں۔

    ڈاکٹر جان کا مزید کہنا تھا کہ اس وائرس کو فلو سمجھ کر جلد حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس سے یہ بری طرح دنیا بھر میں پھیل گیا۔

    خیال رہے کہ کرونا وائس کے پھیلاؤ کے حوالے سے اسپین دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے، اسپین میں کرونا وائرس کے 2 لاکھ 94 ہزار سے زائد مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ اب تک 28 ہزار 338 افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

  • کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    مریخ پر انسانی آبادی بسائے جانے کے حوالے سے مختلف ریسرچز اور تجربات پر کام جاری ہے، حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ مریخ پر انسانی آبادی شروع کرنے کے لیے 110 انسان درکار ہوں گے۔

    فرانس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولی ٹیکنیک میں کیے گئے مطالعے میں دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا گیا کہ کم از کم کتنے انسان مریخ پر زیادہ سے زیادہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ کم از کم 110 انسان ان محدود وسائل کے اندر مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ افراد ایک کالونی بنا کر رہیں گے اور ان کی کالونی آکسیجن سے بھری ایک گنبد نما جگہ ہوگی۔ ان افراد کو اپنی زراعت خود کرنی ہوگی۔

    اس تحقیق میں ایک میتھامیٹیکل ماڈل استعمال کیا گیا جس سے کسی دوسرے سیارے میں زندگی کے امکانات پر روشنی ڈالی گئی، تحقیق میں کہا گیا کہ اس کالونی میں اہم ترین عوامل میں سے ایک، ایک دوسرے سے اشتراک یا شیئرنگ کرنا ہوگا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر اس آبادی کا کسی وجہ سے (متوقع طور پر کسی جنگ کی صورت میں) زمین سے رابطہ منقطع ہوگیا یا مریخ پر رہنے والوں نے خود ہی اپنی خود مختار حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا تو 110 افراد کی آبادی محدود وسائل میں آسانی سے مریخ پر زندگی گزار سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ زمین کو خطرناک ماحولیاتی خطرات سے دو چار کرنے کے بعد اب انسانوں کو زمین اپنے لیے ناقابل رہائش لگنے لگی ہے اور اس حوالے سے دیگر سیاروں پر زندگی کے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں جن میں مریخ سرفہرست ہے۔

    امریکی ارب پتی ایلن مسک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اسپیس ایکس پروگرام پر اس امید پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں کہ جلد مریخ پر ایک انسانی آبادی آباد ہوجائے گی۔

  • کرونا کی تجرباتی دوا نے نئی امید پیدا کر دی

    کرونا کی تجرباتی دوا نے نئی امید پیدا کر دی

    لندن: نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسنز میں شائع ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرونا وائرس کی تجرباتی دوا سے دو تہائی انتہائی تشویش ناک مریضوں کی حالت بہتر کرنے میں مدد ملی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گیلیڈ سائنسز نامی کمپنی نے کرونا کی دوا ‘ریمیڈیسیور’ تیار کی ہے جسے 61 مریضوں پر آزمایا گیا۔

    نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسنز میں شائع ہونے والی تحقیق کے مصنف نے لکھا کہ اس دوا سے ایک امید پیدا ہوئی ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ بات ابھی حتمی نہیں ہے کہ اس دوا سے مکمل طور پر کرونا کے مریضوں کو صحت یاب کیا جاسکتا ہے۔

    گیلیڈ سائنسز نامی کمپنی نے گزشتہ ماہ اس دوا کے تجربے کا آغاز کیا تھا جس کے نتائج کچھ ہفتوں کے بعد سامنے آئے ہیں، چین اور امریکا کے نیشنل انسیٹیوٹ آف ہیلتھ میں بھی اس دوا پر تجربات کیے جا رہے ہیں۔

    گیلیڈ نے اس تجربے میں امریکا، یورپ کینیڈا اور جاپان کے مریضوں کو شامل کیا جنہیں اس دوا کا 10 روز کا کورس کروایا گیا۔تحقیق کے مطابق اس تجربے سے قبل 36 مریض وینٹی لیٹر پر تھے جن میں سے آدھے سے زیادہ مریضوں کا سانس بہتر ہوا، ان کا وینٹی لیٹر اتار دیا گیا، 25 مریضوں کو صحت یابی کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا اور 7 مریض ہلاک ہوگئے۔

    واضح رہے کہ کرونا وائرس سے دنیا بھر میں 1 لاکھ سے زائد لوگ ہلاک جبکہ 17 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

  • سگریٹ نوش کینسر سے بچ سکتے ہیں

    سگریٹ نوش کینسر سے بچ سکتے ہیں

    کیلیفورنیا: تمباکو نوشی کی علت میں مبتلا افراد کے لیے ایک خوشی کی خبرسامنے آگئی، اب سگریٹ نوش کینسر جیسے مہلک مرض سے بچ سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد اگر باقاعدگی سے ورزش کریں تو کینسرے جیسے ناسور سے بچا جاسکتا ہے۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا میں واقع ’اسٹینڈ فورڈ‘ نامی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے کی فٹنس ہوگی تو اُسے کینسر کا مرض لاحق ہونے کے خطرات کم ہیں۔

    تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے 2979 ایسے افراد کا استعمال کیا گیا جو سگریٹ پیتے ہیں جبکہ 1602 افراد ایسے تھے جنہوں نے تمباکو نوشی ترک کر رکھی ہے۔

    سگریٹ نوشی جسم کو کیسے تباہ کرتی ہے؟ جانیں روبوٹ اسموکر سے

    تمام افراد کو طب کے تحقیقی مراحل سے گزارنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ باقاعدگی سے روزانہ کی بنیاد پر ورزش کی جائے تو پھیپڑوں کے کینسر سے بچا جاسکتا ہے، تمباکو نوشی کرنے والے پھیپڑوں کے کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق وہ افراد جنہوں نے تمباکو نوشی ترک کردی ہے ان کے پھیپڑوں کے کینسر میں مبتلا ہونا کا خطرہ 13 فیصد کم ہے، جبکہ فٹنس کے بعد 51 سے 77 فیصد خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    اسی طرح وہ افراد جو سگریٹ نوشی کررہے ہیں ان کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ 18 فیصد ہے جبکہ فٹنس کے بعد 84 سے 85 فیصد خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ ایسوسی ایشن آف آپٹومیٹرسٹس کے ایک سروے کے مطابق ہر پانچ تمباکو نوش افراد میں سے صرف فرد اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تمباکو نوشی اندھے پن کا بھی باعث بن سکتی ہے۔