Tag: تخلیق

  • کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا نقصان

    کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا نقصان

    ہم میں سے اکثر افراد کام کرتے ہوئے موسیقی سننا پسند کرتے ہیں، بعض افراد کوئی تخلیقی کام کرتے ہوئے جیسے لکھنے پڑھنے یا مصوری کرنے کے دوران بھی موسیقی سنتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں تخلیقی کام کرتے ہوئے موسیقی سننے کا کیا نقصان ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی سنتے ہوئے تخلیقی کام کرنا آپ کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ان کے مطابق تخلیقی کام کرتے ہوئے دماغ کو مکمل طور پر اسی کام کی طرف متوجہ کیے رکھنا ضروری ہے تاکہ اپنی تخلیقی صلاحیت کا بہترین استعمال کیا جاسکے۔ لیکن موسیقی سننا دماغ کی توجہ کو تقسیم کردیتا ہے یوں آپ کی تخلیقی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    اس سے قبل بھی ایسی ہی ایک تحقیق سامنے آئی تھی جس میں تخلیقی کام اور موسیقی کے تعلق کو دیکھا گیا تھا۔

    ماہرین نے دیکھا تھا کہ مدھم اور نسبتاً اداس موسیقی نے تجربے میں شامل طلبا کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثر ڈالا اور وہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔

    دوسری طرف پرشور موسیقی نے بھی طلبا میں ہیجان انگیزی کو فروغ دیا اور وہ بھی اپنے کام پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تخلیقی کام کرتے ہوئے مکمل سکون، تنہائی اور خاموشی کا ماحول تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے میں معان ثابت ہوسکتا ہے۔

  • دماغ کی بہترین کارکردگی کا وقت کون سا ہے؟

    دماغ کی بہترین کارکردگی کا وقت کون سا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا دماغ دن کے کس حصے میں تخلیقی کام اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا جسم اور دماغ ایک گھڑی کی مانند چلتا اور وقت بدلتا ہے۔

    ان کے مطابق ہمارا دماغ مختلف اوقات میں مختلف کیفیات کا حامل ہوتا ہے اور اس دوران وہ مختلف کام سر انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس دوران ہماری کارکردگی کے معیار میں بھی فرق آجاتا ہے۔

    ایک ماہر کیمیائی حیات کے مطابق ہمارا دماغ اور جسم سب سے زیادہ چاک و چوبند اور فعال صبح کے اختتام پر ہوتا ہے۔

    ماہرین کے وقت جب ہم صبح اٹھتے ہیں تو اس وقت سے لے کر اگلے چند گھنٹوں تک ہمارا دماغ نیند کے زیر اثر ہوتا ہے۔ اس دوران ہمارے جسم کا درجہ حرارت بھی کم ہوتا ہے اور ہمیں غنودگی محسوس ہوتی رہتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    بالآخر دن کے وسط سے ذرا قبل جسم کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ یہ عمل دوپہر کے کھانے تک جاری رہتا ہے۔

    دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں شوگر کی مقدار میں کمی اور انسولین کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ہمیں تھکن اور غنودگی کا احساس دلاتا ہے اور ہم کچھ دیر آرام کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

    بعد ازاں شام کے وقت ہمارا دماغ نئے سرے سے چاک و چوبند ہوتا ہے، گو کہ یہ فعالیت صبح جیسی نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت اگر ہمیں پرسکون، آرام دہ اور اپنی پسند کا ماحول میسر آسکے تو یہ وقت تخلیقی کام کے لیے موزوں ترین ہے۔

    مزید پڑھیں: تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے والے 5 راز

    ان کے مطابق شام کے وقت کسی پر فضا مقام، ساحل سمندر یا پارک میں وقت گزارنا، ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہونا اور سبزے سے آنکھوں کو معطر کرنا تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرسکتا ہے۔

  • یہ خراب عادات ذہانت کی نشانی

    یہ خراب عادات ذہانت کی نشانی

    آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ذہین افراد عجیب و غریب عادات کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ذہانت سے جہاں بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہے ہوتے ہیں وہیں زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملوں میں نہایت لاپروا ہوتے ہیں اور ان کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو ان سے بے حد شکایات ہوتی ہیں۔

    یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ اکثر شاعر، ادیب اور مصور نہایت بد دماغ ہوتے ہیں۔ ایک عمومی خیال یہ ہے کہ کوئی تخلیق کار جتنا زیادہ شاہکار تخلیق کرتا ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ چڑچڑا اور بد مزاج ہوگا اور لوگوں سے ملنا سخت ناپسند کرتا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    اسی طرح اکثر سائنسدان بھولنے کی عادت کا شکار ہوتے ہیں۔ مشہور سائنسدان آئن اسٹائن کبھی بھی لوگوں کے نام یاد نہیں رکھ سکتا تھا۔ لوگ چاہے اس سے کتنی ہی بار ملتے، انہیں ہر بار نئے سرے سے اپنا تعارف کروانا پڑتا تھا۔

    برصغیر کے مشہور شاعر اور فلسفی علامہ اقبال بھی اسی عادت کا شکار تھے۔ وہ فکر اور مطالعہ میں اس قدر مصروف رہتے کہ کھانا کھانا بھی بھول جاتے تھے اور اس کے بعد اپنے ملازم الٰہی بخش کو آواز دے کر پوچھتے، ’کیا ہم نے کھانا کھا لیا ہے‘؟

    مزید پڑھیں: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے 10 ورزشیں

    یہاں ہم نے ذہین افراد کی کچھ ایسی ہی عادات اور ان کی وجوہات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔


    راتوں کو دیر سے جاگنا

    smart-2

    دنیا کے اکثر تخلیق کار اور ذہین افراد راتوں کو دیر تک جاگتے ہیں۔ سائنس کے مطابق رات کی تنہائی اور خاموشی ذہین افراد کے دماغ کے خلیات کو متحرک اور ان کی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرتی ہے۔

    اکثر ذہین افراد اور فنکار راتوں کو جاگ کر ہی اپنے شاہکار تخلیق کر ڈالتے ہیں۔


    خراب زبان استعمال کرنا

    smart-3

    ایک عام تصور یہ ہے کہ خراب زبان اور برے الفاظ استعمال کرنا کم علمی یا جہالت کی نشانی ہے۔ لیکن اب سائنسدانوں نے اس خیال کو مسترد کردیا ہے۔

    ان کا ماننا ہے کہ جو شخص کبھی برے الفاظ استعمال نہیں کرتا یہ اس کے کم علم ہونے کی نشانی ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس ذخیرہ الفاظ کی کمی ہے۔

    اس کے برعکس وسیع مطالعہ کے حامل افراد اپنے غصہ یا دیگر جذبات کا اظہار نہایت وسیع ذخیرہ الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف زیادہ مطالعہ کرتے ہیں بلکہ مطالعہ کر کے اسے یاد بھی رکھتے ہیں۔


    چیزیں پھیلانے کے عادی

    smart-4

    ذہین افراد کے کمرے اور کام کرنے کی جگہ عموماً بکھری ہوئی ہوتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ دراصل وہ اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔

    وہ چیزوں کی صفائی کرنے یا انہیں سمیٹنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ وقت کا ضیاع ہوتی ہیں۔


    لوگوں سے کم میل جول

    ذہین افراد لوگوں سے کم میل جول رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے کام کو دیتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا ان کے نزدیک ایک بے مقصد سرگرمی ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہین افراد کم دوست کیوں بناتے ہیں؟

    دوسری وجہ ان کی خود پسندی ہوتی ہے۔ چونکہ وہ نہایت وسیع النظر ہوتے ہیں لہٰذا وہ عام افراد کی عام موضوعات پر گفتگو برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے جیسے بلند دماغ افراد سے ہی ملنا پسند کرتے ہیں چاہے ان سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں۔

    کیا آپ میں بھی ان میں سے کوئی عادت موجود ہے؟ تو جان جائیں کہ آپ کا شمار بھی ذہین افراد میں ہوتا ہے اور آپ بھی اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام درج کروا سکتے ہیں۔

  • اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    کیا آپ آئزک اسیموو کو جانتے ہیں؟ آئزک اسیموو ایک امریکی مصنف اور پروفیسر ہیں جنہوں نے سائنس فکشن پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، جی ہاں 500۔

    آئزک کی تحریروں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر آپ ان کی تحاریر کا شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو 25 سال تک ہر دو ہفتے بعد ایک مکمل ناول لکھنا ہوگا۔ آئزک نے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس کا نام ہے، ’اچھی زندگی گزری‘۔

    شاید یہ ہمارے لیے ایک حیرت انگیز بات ہو کیونکہ ہم میں سے بہت سے افراد کتاب لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کون سا موضوع اور کون سا خیال چنیں جسے پھیلا کر ایک کتاب کی شکل دی جاسکے۔

    کچھ باعلم افراد اپنی زندگی میں ایک، 2 یا 5 کتابیں بھی لکھ لیتے ہیں لیکن 500 کتابیں لکھنے کا خیال ان کے لیے بھی کافی مشکل ہوگا۔

    لیکن فکر نہ کریں، آئزک نے اپنی سوانح میں ان رازوں سے آگاہی دی ہے جن کے ذریعہ وہ اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ آئزک کا کہنا ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کام، شاعری، مصوری، قلم کاری یا موسیقی تخلیق کرتے ہوئے تخلیق کار یکساں کیفیات و مراحل سے گزرتے ہیں۔

    آئیے آپ بھی وہ راز جانیں جنہوں نے آئزک کو ایک بڑا مصنف بنایا۔


    سیکھنا مت چھوڑیں

    آئزک اسیموو ویسے تو ایک سائنس فکشن رائٹر کے طور پر مشہور ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبیعات، قدیم تاریخ، حتیٰ کہ انجیل پر بھی ایک کتاب لکھ ڈالی۔

    تو آخر انہوں نے اتنے متنوع موضوعات پر کتابیں کیسے لکھ لیں؟

    اس بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’مختلف موضوعات پر کتابیں میں نے اس بنیادی معلومات کی بنا پر نہیں لکھیں جو میں نے اسکول میں حاصل کیں۔ میں ان تمام موضوعات پر ساری زندگی پڑھتا رہا‘۔

    آئزک کی لائبریری میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں۔ وہ تاریخی، خلائی اور سائنسی میدان میں ہونے والی اصلاحات، تحقیقات اور نئی دریافتوں سے خود کو آگاہ رکھتے تھے اور مستقل مطالعہ کرتے رہتے تھے۔


    جمود سے مت لڑیں

    آئزک کہتے ہیں کہ ہر عام انسان کی طرح اکثر اوقات وہ بھی جمود کا شکار ہوگئے اور کئی بار لکھنے کے دوران وہ خود کو بالکل خالی الدماغ محسوس کرنے لگے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ کوئی موضوع آپ کا کتنا ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، آپ اسے لکھنے کے دوران بھی جمود کا شکار ہوسکتے ہیں اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے خیالات ختم ہوگئے ہیں۔

    اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے آئزک نہایت شاندار تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسے موقع پر وہ مذکورہ کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ کسی دوسرے موضوع پر لکھنا، یا مطالعہ یا کوئی بالکل متضاد کام۔

    تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ان کے جمود کی کیفیت ختم ہوجاتی تھی اور جب وہ اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کے لیے واپس پلٹتے تھے تو اس بار ان کا دماغ توانائی اور نئے خیالات سے بھرپور ہوتا تھا۔


    رد کیے جانے کا خوف

    آئزک کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، مصور، شاعر، قلم کار، مصنف حتیٰ کہ اپنے کاروبار میں نئے نئے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے والا بزنس مین بھی اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ جب اس کا آئیڈیا حقیقت کا روپ دھارے گا تو کیا لوگ اسے قبول کریں گے؟

    لکھنے والے افراد اکثر اس تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ آیا جو انہوں نے لکھا وہ پڑھے جانے کے قابل بھی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پڑھنے والے کو یہ سب بے ربط اور غیر منطقی لگے۔

    آئزک کے مطابق یہ خوف ایک مثبت شے ہے، کیونکہ اس خوف کی وجہ سے تخلیق کار اپنی تخلیق کی نوک پلک بار بار درست کرتا ہے اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس خوف کو اس قدر حاوی نہ کیا جائے کہ تخلیق کار کا تخلیقی خیال اس کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے اور صرف اس خوف کی وجہ سے دنیا کے سامنے نہ آسکے کہ یہ پسندیدگی کا درجہ نہیں پاسکے گی۔


    معیار کو پست کریں

    اپنی سوانح میں آئزک لکھتے ہیں کہ کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مصور اپنی پہلی ہی کوشش میں مونا لیزا جیسی شہرہ آفاق پینٹنگ تخلیق کر ڈالے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب آپ اپنے تخلیقی کام کا آغاز کریں تو اسے شاہکار کی صورت پیش کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے معیارات کو نیچے لے آئیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ اپنی ابتدائی تخلیق کو سادہ لیکن اچھا پیش کریں۔ جب تک آپ کو تجربہ نہ ہوجائے اسے بہت شاندار یا شاہکار بنانے سے گریز کریں۔ یہ امر آپ کی تخلیق (شاعری، مصوری، ناول) کو بگاڑ دے گا۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مضمون لکھ رہے ہیں تو اس میں دنیا جہاں کی معلومات دینے کے بجائے صرف وہ معلومات شامل کریں جن کے بارے میں آپ 100 فیصد پریقین ہوں اور وہ ہر حال میں درست ہوں۔ اس مضمون کے پھیلاؤ کو کم کریں اور کسی ایک موضوع تک محدود کریں تاکہ آپ پوری طرح اس کا حاطہ کرسکیں۔

    یاد رکھیں کہ ایک تخلیق کار کبھی اپنی تخلیق سے نفرت نہیں کرسکتا۔ آپ کی ابتدائی تخلیق ہوسکتا ہے کہ آپ کے ہم پیشہ کسی تجربہ کار شخص کے لیے خاص نہ ہو، لیکن وہ ان افراد کے لیے ضرور دلچسپی کا باعث ہوگی جو اس موضوع کے بارے میں بہت کم یا بالکل معلومات نہیں رکھتے۔


    خیال کو طاری کرلیں

    آئزک اسیموو سے ایک بار کسی نے پوچھا، ’تم اپنی کتاب کے لیے اتنے سارے آئیڈیاز کیسے سوچ لیتے ہو‘؟

    آئزک کا جواب تھا، ’میں سوچتا رہتا ہوں، سوچتا رہتا ہوں اور ایک خیال، ایک آئیڈیے سے نئے آئیڈیاز نکلتے جاتے ہیں‘۔

    وہ بتاتے ہیں کہ تنہا راتوں میں، میں ایک خیال پر سوچتا رہتا ہوں۔ اس میں موجود خوشی کے واقعات پر خوش ہوتا ہوں، اور اداس واقعات پر روتا ہوں۔ اس طرح ایک خیال سے کئی خیالات وجود میں آجاتے ہیں۔

    تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟ آئزک اسیموو کے یہ راز آپ کی تخلیقی صلاحیت کو مہیز کرنے میں کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • موسیقی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں معاون

    موسیقی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں معاون

    گو کہ تخلیقی کام کرنے والے افراد کو ایک مخصوص اور پرسکون ماحول اور خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ یکسوئی سے اپنا کام کرسکیں، تاہم حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق تخلیقی کام کرنے کے دوران خوشگوار موسیقی سننا آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    نیدر لینڈز میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کچھ مخصوص قسم کی کلاسیکی لیکن خوشگوار موسیقی آپ کے دماغ کے ان خلیات کو متحرک کرتی ہے جو نت نئے آئیڈیاز پیدا کرتے ہیں۔

    اس ضمن میں ماہرین نے اٹھارویں صدی کے ایک اطالوی موسیقار انٹونیو ووالدی کی موسیقی کو بطور مثال پیش کیا جس کا ایک نمونہ آپ نیچے سن سکتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل آسٹریلوی شہر سڈنی میں یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر سام فرگوس کا کہنا ہے تخلیقی صلاحیت آج کے جدید دور میں ہر شعبے کے لیے ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تخلیقی صلاحیت کو اجاگر اور اسے مہمیز کرنے کے لیے مختلف تراکیب و تجاویز پر کام کرنا بھی وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے والے 5 راز

    مذکورہ تحقیق کے لیے ماہرین نے طلبا کو 5 مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور انہیں مختلف تخلیقی ٹاسک دیے گئے۔ اس دوران تمام گروہوں کے لیے مختلف اقسام کی موسیقی بجائی گئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ مدھم اور نسبتاً اداس موسیقی نے طلبا کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثر ڈالا اور وہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔

    ایک پرشور موسیقی نے طلبا میں ہیجان انگیزی کو فروغ دیا اور وہ اپنے کام پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: موسیقی سننا ملازمین کی کارکردگی میں اضافے کا سبب

    وہ گروہ جس کو انٹونیو ووالدی اور ان سے مماثلت رکھنے والی دوسری موسیقی سنائی گئی اس نے طلبا پر نہایت خوشگوار تاثر چھوڑا اور انہوں نے اپنی بہترین تخلیقی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

    ماہرین نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ تخلیقی افراد اور موسیقی کے درمیان تعلق کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے اگر کسی شخص کو موسیقی ناپسند ہو تو ایسے شخص کے لیے یہ ماحول سازگار ثابت نہیں ہوگا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خوبصورت قدرتی مناظر پیش کرتی میزیں

    خوبصورت قدرتی مناظر پیش کرتی میزیں

    آپ نے بے شمار خوبصورت میزیں دیکھی ہوں گی جو چیزیں رکھنے، آرائش اور کمرے کی خوبصورتی بڑھانے کے کام آتی ہیں۔ لیکن کیا آپ نے ایسی میز دیکھی ہے جو ایک منظر دکھاتے ہوئے اس منظر کی کہانی بیان کر رہی ہو؟

    ان منفرد میزوں کے خالق اطالوی ڈیزائنر الیگزینڈر چپلن اس بارے میں بتاتے ہیں، ’میں بچپن میں سوچا کرتا تھا کہ کھانا کھانا اتنا بورنگ کام کیوں ہے۔ کچھ ایسا کیا جائے جس سے کھانا کھانا ایک دلچسپ کام بن جائے‘۔

    یہی خیال ان انوکھی میزوں کی تخلیق کا سبب بنا۔

    6

    الیگزینڈر ان میزوں کی تخلیق میں مٹی، پتھر اور سنگ مرمر کا استعمال کرتے ہیں۔ ان چیزوں پر مختلف رنگ کر کے وہ میز پر ایک نہایت خوبصورت منظر تخلیق کردیتے ہیں جس کے بعد وہ میزیں آرٹ کا شاہکار بن جاتی ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ میز پر شاہکار تخلیق دینے سے پہلے وہ کوئی کہانی سوچتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں دیکھنے والے جب ان کی بنائی میز کو دیکھیں تو اسے دیکھتے ہی ان کے ذہن میں کوئی کہانی ابھر آئے۔

    ان کی بنائی ہوئی میزیں پہاڑوں، دریاؤں، قدرتی مناظر، اور ستاروں کا منظر پیش کرتی ہیں۔

    آپ بھی ان کی خوبصورت اور انوکھی میزیں دیکھیں۔

    1

    2

    3

    4

    10

    9

    7