Tag: تراجم

  • تیرتھ رام:‌ ایک کام یاب مدیر، بہترین مترجم

    تیرتھ رام:‌ ایک کام یاب مدیر، بہترین مترجم

    کسی زبان کے پھلنے پھولنے میں ترجمہ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اردو ادب کی بات کی جائے تو کئی نئی اصنافِ ادب سے ہم ترجمے کی بدولت ہی آشنا ہوئے اور بعد میں تخلیق کاروں نے ان اصناف کو اپنایا بھی اس سے دنیا کی مختلف زبانوں سے کسی زبان میں ترجمہ کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے۔ یہاں ہم تذکرہ کریں گے منشی تیرتھ رام فیروز آبادی کا جو اپنے دور کے ایک ناول و افسانہ نگار، مدیر اور بہترین مترجم تھے۔

    منشی صاحب کے حالاتِ‌ زندگی اور ترجمہ کے میدان میں ان کے کام پر بات کرنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ متحدہ ہندوستان میں جدید عہد میں اردو زبان میں ترجمے کا کام وسیع پیمانے پر فورٹ ولیم کالج کی سرپرستی میں ہوا۔ ترجمہ کی روایت ہمارے یہاں مغرب سے داخل ہوئی اور برطانوی دور میں مستحکم ہوتی چلی گئی۔ منشی صاحب اسی زمانے کے آدمی تھے جب ہندوستان میں اردو کے بڑے بڑے نثر نگار اور شعرا بھی عالمی ادب سے تراجم کا کام کررہے تھے۔

    اس دور میں ماہرینِ لسانیات اور نثر نگاروں نے ترجمہ کے حوالے سے اصول اور طریقے بھی بیان کیے تاکہ آنے والے دور میں مترجمین کو آسانی ہو جائے اور ترجمے کا کام ایک منظم شکل میں ہوسکے۔ ترجمہ کو طبع زاد کی ضد بھی کہا جاتا ہے اور اکثر اس کے مقابلہ میں یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے، لیکن دوسرے فنون کی طرح ترجمہ نگاری ایک فن ہے اور ادب میں اس کی حیثیت مسلم ہے۔ ترجمہ ہی وہ فن ہے جس کے ذریعے سے ایک قوم دوسری قوم کے ذخیرۂ علم و ادب سے آشنا ہوتی رہی ہے۔ ناول نگار، افسانہ نگار، مدیر اور مترجم منشی تیرتھ رام فیروز آبادی کا سنہ پیدائش 1885 بتایا جاتا ہے جب کہ وفات کا سنہ 1954ء ہے۔ تاہم اس پر اختلاف بھی ہے۔ وہ غیرمعمولی شخصیت تھے جس نے واجبی تعلیم کے باوجود اپنے علم اور زورِ قلم سے طبع زاد تخلیقات کے ساتھ ترجمہ کے میدان میں اعلیٰ پائے کا کام کیا۔ منشی تیرتھ رام فیروز آبادی نے 40 سال سے بھی کم عرصے کے دوران 155 سے زائد کتابوں پر پھیلے ہوئے ہزاروں صفحات پر مشتمل ترجمہ شدہ نثری افسانے تیار کیے۔

    وہ تقسیم سے قبل لاہور میں رہے، لیکن اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ فیروز پوری جوڑا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ منشی صاحب فیروز پور، پنجاب کو اپنا اصل مقام سمجھتے تھے۔ ان کی فارسی اور بعض عربی بھی بتاتی ہے کہ انھوں نے کسی مقامی مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ فیروز پور، جو اس وقت ایک چھوٹا تجارتی مرکز تھا لیکن آہستہ آہستہ ایک فوجی چھاؤنی کے طور پر جانا گیا، اس میں کئی مدرسے اور ایک سرکاری ہائی اسکول تھا۔ چوں کہ منشی صاحب کے درست حالاتِ زندگی یا ان کے تعلیمی سفر کا علم پوری طرح نہیں تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منشی صاحب نے میٹرک کے دوران انگریزی سیکھی تھی اور ان کا افسانوں کی جانب رجحان بڑھا تھا۔ وہ اسکول کی لائبریری اور بک اسٹال سے کتابیں پڑھ کر سیکھتے رہے اور کالج تک نہیں جاسکے۔

    1902 یا 1903 کے آس پاس میٹرک کے بعد منشی صاحب لاہور چلے گئے۔ وہاں بہت سے اشاعتی ادارے اور پرنٹنگ پریس تھے۔ اس شہر میں منشی صاحب نے ابتدائی چند سال کس طرح گزر بسر کی، اس کا بھی کچھ علم نہیں ہوسکا۔ لیکن پھر وہ ایک مدیر اور مترجم کے طور پر مشہور ہوئے۔ غالباً انھوں نے اپنے جریدے کے لیے لکھنا شروع کیا اور مضمون نگار کے طور پر جگہ بناتے ہوئے تراجم بھی شروع کردیے۔ ادیب (الہ آباد) وہ رسالہ تھا جس میں ان کے مضامین 1910 اور 1913 کے درمیان شائع ہوتے رہے۔ وہ مختلف موضوعات پر لکھتے تھے جن میں اخذ کردہ اور تراجم پر مبنی معلومات شامل ہوتی تھیں۔

    منشی صاحب کی بطور مترجم پہچان 1915 میں اس وقت ہوئی جب ان کے ناشر، لال برادرز، نولکھا، لاہور نے ترجمان شروع کیا، جو فلسفے، سائنس، اور ادب پر ماہ نامہ تھا اور اس کے مدیر منشی تیرتھ رام تھے۔ انھوں نے یہاں کئی ناولوں اور مضامین کا ترجمہ کرکے شایع کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے ہزاروں صفحات ترجمہ کرکے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی اور یہ حیرت انگیز تھا کہ صرف میٹرک پاس شخص اتنے بہترین تراجم کس طرح کرسکتا ہے، لیکن یہ منشی صاحب کا جنون اور وہ شوق تھا جس نے انھیں اس مقام پر پہنچایا۔

    منشی تیرتھ رام فیروز آبادی نے ایسے ناولوں کا ترجمہ کیا جو سادہ اور معیاری انگریزی میں لکھے گئے تھے۔ 1947 میں منشی صاحب کا ہندوستان جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن حالات نے ان کو لاہور چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہ جالندھر میں آباد ہو گئے اور جلد ہی اشاعتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ لیکن پھر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔ کہتے ہیں کہ ان کا انتقال دلّی میں ہوا تھا۔ شہر لاہور کے علمی اور ادبی ماحول میں رہتے ہوئے معمولی تعلیم کے باوجود تیرتھ رام نے انگریزی سے خوب تراجم کیے اور لاہور چھوڑنے کے بعد ان کا دل نہ لگتا تھا۔

    تیرتھ رام نے اس دور کے تقریباً تمام مشہور انگریزی جاسوسی اور سنسنی خیز کہانیوں اور پراسرار واقعات پر مبنی ناولوں کا ترجمہ اس انداز میں کیا تھا کہ قاری کو پڑھتے وقت کہیں بھی اس کے ترجمہ ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے زیادہ تر ناول لاہور کے نرائن دت سہگل اینڈ سنز نے شائع کیے تھے۔ تیرتھ رام کے تراجم کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ناشر کے پاس ان کے مستقل خریداروں کی ایک فہرست تھی جنھیں ہر مہینے اشاعت کے بعد بذریعہ ڈاک ناول ارسال کیا جاتا تھا۔

  • معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اردو زبان و ادب میں ’پطرس بخاری‘ کے قلمی نام سے خوب لکھا اور بطور مزاح نگار اس قلمی نام سے ان کی منفرد پہچان بنی۔ علمی و ادبی حلقے اور باذوق قارئین انھیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ پطرس بخاری کی ہمہ گیر شخصیت کا تعارف بیک وقت مزاح نگار، نقّاد، مترجم، صحافی، براڈ کاسٹر، ایک ماہرِ تعلیم، اور سفارت کار کے طور پر ہم سے ہوتا ہے۔

    پطرس بخاری کی اپنے دور کے ادب، ادبی سرگرمیوں اور اہلِ قلم کی بعض کم زوریوں پر نظر رہی۔ اس کا اندازہ ان کے ایک انگریزی مقالہ سے ہوتا ہے۔ یہ مقالہ پطرس مرحوم نے ۱۹۴۵ء میں پی ای این کے جے پور میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں پڑھا تھا۔ اس میں ان کا موضوع اردو ادب کا جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔ مظفر علی سیّد نے اس کا ترجمہ کیا تھا جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم و بصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع و عریض حقیقت سے اس کو موافقت پیدا کرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بڑے پُر جوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بنا کے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کے تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں، انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہ ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ’’کل‘‘ کو پا لے اور چونکہ برونِ خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا، اس کو درونِ خانہ میں تلاش و تجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے۔ زندگی کا رس خشک ہو جاتا ہے۔