Tag: ترجمہ نگاری

  • ’’خانقاہ‘‘ کی کہانی جس پر ایم۔ جی۔ لیوس کو سخت مطعون کیا گیا

    ’’خانقاہ‘‘ کی کہانی جس پر ایم۔ جی۔ لیوس کو سخت مطعون کیا گیا

    فرانس کے ادیب الیگزینڈر ڈوما اپنے عہد کے مقبول ترین ناول نگار تھے جن کے مشہور ناول دی کاؤنٹ آف مونٹے کرسٹو کا اردو ترجمہ شاید آپ نے بھی پڑھا ہو۔

    اس کے علاوہ بھی کئی زبانو‌ں میں غیرملکی ادیبوں کے ناول اور مختصر کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا جو ہمارے ادبی ذوق و شوق کی تسکین کا باعث ہیں۔

    تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں بر صغیر میں انگریزی ناولوں کے اُردو تراجم بہت مقبول ہوئے۔ اردو زبان میں انگریزی زبان کے ناولوں کے تراجم کا جو سلسلہ منشی تیرتھ رام سے شروع ہوا، اسے یہاں قارئین نے قبولیت کی سند بخشی اور تراجم کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے نہ صرف ادبی ذوق کی تسکین کی بلکہ فکر و نظر کی کایا پلٹ دی۔ اردو ادب پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

    قارئین، اردو زبان و ادب کی ممتاز شخصیات اور متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے معروف ترجمہ نگاروں نے مذہب، سائنس، فلسفہ، تاریخ، سوانح اور عالمی ادب سے اہم اور دل چسپ کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ہم تک پہنچایا ہے۔ ان میں انگریزی، فرانسیسی، ہندی، بنگلہ، روسی، اور دیگر کئی زبانوں کے ساتھ علاقائی زبانوں میں‌ شایع ہونے والی کتابوں کے تراجم شامل ہیں۔

    سید سجاد حیدر یلدرم اور متعدد ادیبوں نے تراجم کے ذریعے اپنے متنوع تجربات سے اردو زبان و ادب کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے مزیّن کیا۔

    اسی طرح مظہر الحق علوی نے انگریزی زبان کے نام ور ناول نگار ایم۔ جی۔ لیوس (Mathew Gregory Lewis) کے ناول کا ’’خانقاہ‘‘ کے نام سے اردو ترجمہ پیش کیا تو اِسے قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس مصنّف کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں پُراسرار اور ہیبت ناک ناول اپنے منفرد اسلوب میں لکھ کر اپنی تخلیقی اور اختراعی صلاحیت کا لوہا منوایا۔

    لفظی مرقع نگاری سے ماحول کو ہیبت ناک اور واقعات کو سنسنی خیز بنانے میں اس مصنّف کو کمال حاصل تھا جس سے اردو کا قاری حقیقی معنوں میں ناول کے ترجمے کے بعد ہی واقف ہوا۔ اس ناول کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں اپنے سماج کے ان تاریک اور پوشیدہ پہلوؤں پر بات کی گئی تھی جن سے اس دور کے ادیبوں کی اکثریت گریزاں رہی۔ دراصل خانقاہ میں مصنّف نے تارکُ الدنیا راہبوں، پادریوں اور گوشہ نشین مر د و خواتین کی جعل سازی، دہری شخصیت، ان کے مکر و فریب، منافقت، اور جنسی جنون کا پردہ چاک کیا ہے۔

    مصنّف نے بتایا کہ یہ بازی گر کھلا دھوکا دے کر سادہ لوح لوگوں کو اپنا عقیدت مند بنائے ہوئے ہیں اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہر وہ برائی اور شیطانی عمل کررہے ہیں جس پر وہ عام لوگوں کو مطعون کرتے اور انھیں دنیا و آخرت میں سزا کا مستحق قرار دیتے ہیں۔

    1796ء میں خانقاہ کی اوّلین اشاعت نے یورپ کے متعصب پادریوں کو مشتعل کردیا اور انھوں نے اس کے خلاف شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ اپنے بارے میں تلخ حقائق کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اس قدر سیخ پا ہوئے کہ اس ناول کے مطالعہ کرنے، اسے خریدنے کو ناجائز اور برا کہہ کر لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کی، لیکن اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اصلاحِ احوال پر توجہ نہیں‌ دی۔ یہ انگریزی زبان کے شاہ کار ناولوں میں‌ سے ایک تھا۔

    ڈپٹی نظیر احمد کے بعد غلام ربّانی آگرو، شاہد احمد دہلوی، سعادت حسن منٹو، اشفاق احمد، انتظار حسین، ظ انصاری، سیّد قاسم محمود، سبطِ حسن، احمد شاہ بخاری، سیّد عابد علی عابد اور کتنے ہی ادیب اور شاعر تھے جنھوں نے اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظر اردو کو زینہ بناتے ہوئے ہمیں غیر ملکی تاریخ و ادب پڑھنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔

  • ترجمہ نگاری: وہ دریچہ جس سے دوسری تہذیب اور اقوام کا احوال ہم پر کھلتا ہے

    ترجمہ نگاری: وہ دریچہ جس سے دوسری تہذیب اور اقوام کا احوال ہم پر کھلتا ہے

    ترجمہ نگاری اور مختلف تحریری مواد کو اس کی اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظر ایک سے دوسری زبان میں ترجمہ کر کے مطالعہ کے لیے پیش کرنے کا سلسلہ قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں کا علمی و ادبی سرمایہ اپنے وقت کے مختلف زبانوں‌ پر عبور رکھنے والے مصنّفین، ماہرِ علوم اور مترجمین کی بدولت ہی ہم تک پہنچا ہے۔

    آج تراجم کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد مترجمین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو اقوام متحدہ کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے۔ مترجمین اپنی محنت سے ایک تحریر کو کسی دوسری زبان کے قالب میں منتقل کرکے ہماری فکری و نظریاتی تربیت، علم و ادب کی تسکین کے ساتھ معلومات کا خزانہ ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔

    یہ مترجمین کی جہدوجہد اور محنت ہی ہے جس کی وجہ سے مذہب، سائنس، فلسفہ، تاریخ، سوانح اور عالمی ادب ہماری زبان میں منتقل ہو کر ہم تک پہنچا اور ہم اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

    ٹرانسلیشن، لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا ایک معنٰی منتقلی یا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا یا پار لے جانا ہے۔ اردو زبان میں ہمارے مختلف عہد کے ادیبوں اور مصنّفین نے ہر قسم کی کتابوں کا انگریزی، فرانسیسی، ہندی، بنگلہ، روسی، اور دیگر کئی زبانوں کے ساتھ علاقائی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا ہے یہ ایک نہایت مشکل اور پیچیدہ فن ہے۔

    مترجمین علم و ادب کے ساتھ تفریحی، سائنس و طب کے موضوعات اور ایسی قدیم اور صدیوں پرانی کتابوں کو بھی اردو اور دیگر زبانوں میں منتقل کرتے رہے ہیں جن کی بدولت آج ہم نے شعور و آگاہی کے مراحل طے کرنے کے علاوہ ان کی معلومات سے ترقّی کے مدارج بھی طے کیے ہیں۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں، "ترجمہ کرنا یقیناً ایک مشکل کام ہے، اس میں مترجم، مصنّف کی شخصیت فکر و اسلوب سے بندھا ہوتا ہے، ایک طرف اس زبان کا کلچر جس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے، اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر جس میں ترجمہ کیا جا رہا ہے، یہ دوئی مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے۔”

    ترجمہ کا فن کسی بھی دوسرے تخلیقی کام سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے کیوں کہ ایک خیال کو تخلیق کا جامہ پہنانے والا شاید اتنا نہیں سوچتا جتنا کہ کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں اس تخلیق کو منتقل کرنے والا سوچتا ہے۔

    ایک اچھا اور کامیاب ترجمہ وہی ہے جو معنیٰ و مفہوم اور خیال میں اپنے اصل سے قریب ہو، اگر ترجمہ مفہوم اور تاثیر میں آگے بڑھ جاتا ہے یا پیچھے رہ جاتا ہے تو یہ دونوں خامیاں ہیں۔ یقینا بہترین اور اصل سے قریب تر ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

    ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں۔
    "ترجمہ نگاری ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری اقوام کے احوال ہم پر کھلتے ہیں۔”

    ترجمہ نگاری کو ایک فن کا درجہ حاصل ہے جب کہ مترجم کو دو زبانوں اور دو اقوام کے درمیان لسانی اور ثقافتی سفیر کا نام دیا گیا ہے۔

    ترجمہ گویا انسانی تمدن، مزاج اور تاریخ کی دریافت اور شناخت کا بھرپور ذریعہ ہے۔ یہ فن بدیسی، رنگ، زبان، جغرافیائی اور سیاسی تفرقات کے باوجود بھی ایک اجنبی کو آشنائی کی منازل طے کروا دیتا ہے۔

    پاکستان جیسے کثیر لسانی ملک میں علوم ترجمہ اور ترجمہ نگاری کا فروغ لازمی ہے۔ یہاں جامعات کی سطح پر دارُ الترجمہ قائم ہیں اور ان کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے جہاں سے تراجم کا باضابطہ اور مربوط اہتمام کیا جاسکتا ہے۔