Tag: ترقی پسند ادب

  • انقلاب آفریں نظموں کے خالق علی سردار جعفری کی برسی

    انقلاب آفریں نظموں کے خالق علی سردار جعفری کی برسی

    اردو کے ممتاز ترقّی پسند شاعر، نثر نگار اور نقّاد، اشتراکی دانش وَر اور انسان دوست علی سردار جعفری یکم اگست 2000ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھیں ان کے سیاسی اور سماجی نظریات اور حقوق کے لیے جدوجہد کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    سردار جعفری نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں اپنی تخلیقات کے سبب پہچان بنائی۔ وہ نظم کے میدان میں حالاتِ حاضرہ اور زندگی کے روزمرّہ واقعات کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے رہے جب کہ ان کے قلم نے نثر کے عمدہ نمونے بھی اردو کو دیے اور فکری و ادبی رنگ لیے ان کے مضامین کو پسند کیا گیا۔

    سردار جعفری کی کتاب "ترقی پسند ادب” ان کی ناقدانہ بصیرت کا ثبوت ہے۔ انھوں نے افسانہ اور ڈراما بھی لکھا۔ انھوں نے شعر گوئی کے سفر میں اختراعات اور جدّت کا ثبوت دیا۔ ان کے اشعار میں عوامی نعرے اور محاورے پڑھنے کو ملتے ہیں جو ان کی شاعری کی مقبولیت کا سبب تھے۔ وہ زمانہ طالب علمی ہی میں اپنے نظریات اور رجحانات کے ساتھ پیش کی گئی شاعری کی وجہ سے نوجوانوں‌ میں مقبول ہوچکے تھے۔

    علی سردار جعفری 26 نومبر 1913ء کو اتر پردیش میں ضلع گونڈہ کے شہر بلرام پور میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا سفر شروع ہوا تو پندرہ سولہ سال کی عمر میں انھوں نے مرثیے لکھنے شروع کر دیے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر اور بعد میں انگریزی اسکول میں ہوئی، بعد میں اینگلو عربک کالج سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایل ایل بی اور ایم۔ اے انگلش میں داخلہ لیا۔ وہ دہلی اور لکھنؤ میں اس وقت کے گرم سیاسی ماحول میں اپنے وقت کے نام ور ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ رہے جن میں سجاد ظہیر، سبط حسن، اسرار الحق مجاز و دیگر شامل ہیں۔ سردار جعفری بھی سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہو گئے اور گرفتار بھی ہوئے، جیل میں بھی رہے۔ بعد میں ادبی پرچے نکالے اور کمیونسٹ پارٹی کے پرچم تلے سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔

    1960 کے عشرہ میں انھوں نے پارٹی کی عملی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور صحافتی و ادبی سرگرمیوں میں دل چسپی لینے لگے۔ ان کی شعری تخلیقات کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں کیے گئے اور ان کی ادبی خدمات پر بھارت میں انھیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں گیان پیٹھ نمایاں ہے۔ حکومت نے انھیں پدم شری کے خطاب سے نوازا تھا۔

    سردار علی جعفری دل کے عارضے کے سبب ممبئی میں وفات پاگئے تھے۔

  • ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    اٹھارہویں صدی اردو شاعری کا انتہائی زرخیز دور رہا ہے۔

    اس دور میں مختلف لسانی اور تہذیبی عوامل کے تحت شمالی ہند میں اردو شاعری کا رواج عام ہوا۔ ریختہ گوئی کی شروعات ہوئی اور اردو شاعری کی ایک بڑی اہم تحریک ایہام گوئی کا جنم اسی عہد میں ہوا جس نے اردو شاعری کو بے حد متاثر کیا۔ اور اردو زبان نے شاعری کی حد تک فارسی زبان کی جگہ لے لی اور ایک توانا زبان کی حیثیت سے معروف و مقبول ہوئی۔

    صدیوں سے ہندوستان کی علمی اور ادبی زبان فارسی تھی اور ہندوستان کے شعرا اور ادبا نے فارسی زبان میں بے پناہ قدرت حاصل کرلی تھی لیکن اہلِ زبان ایران یہاں کے شعرا کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے جس کی وجہ سے کئی تنازعات بھی سامنے آئے، عرفی اور فیضی کا تنازع اسی دور کی پیداوار ہے۔

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی اس محاذ آرائی نے اس احساس کو اور بھی ہوا دی کہ ہندوستانی فارسی زبان میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلیں انھیں وہ پذیرائی اور اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی جو اہلِ ایران کو حاصل ہے۔ اس رویّے نے ہندوستان کے فارسی گو شعرا کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال اور فکر و خیال کے جوہر دکھانے کے لیے ایک نئے میدان کی طرف متوجہ کیا۔

    چناں چہ سراج الدّین علی خاں آرزو نے یہاں کے شعرا کو ریختہ میں شعر گوئی کی ترغیب دی اور ہر ماہ کی پندرہویں تاریخ کو ان کے گھر پر ’’مراختے‘‘ کی مجلسیں آراستہ ہونے لگیں۔ مشاعرہ کے انداز پر’’مراختہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اب نئی نسل کے بیشتر شعرا نے فارسی میں شعر گوئی ترک کر دی اور ان کی پوری توجہ ریختہ گوئی میں صرف ہونے لگی۔ یہ چیزیں اتنی عام ہوئیں کہ فارسی گو شعرا بھی رواجِ زمانہ کے مطابق منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ میں شاعری کرنے لگے۔

    اٹھارویں صدی کے دوسرے دہے میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو اس نے شمالی ہند کے ریختہ گو شعرا میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ولی کا یہ دیوان ریختہ میں تھا اور فارسی روایت کے عین مطابق حروفِ تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ شعرائے دہلی میں بھی دیوان سازی کا عمل زور پکڑنے لگا۔ اس طرح اردو شاعری ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔

    شمالی ہند میں جب اردو شاعری کا پہلا دور شروع ہوا تو اس دور کے اردو شاعر فارسی کی تہذیبی اور شعری روایت کے زیرِ سایہ پرورش پارہے تھے، لہٰذا اردو شعرا نے فارسی شعرا کے مقبول رجحانات کو ہی اپنا مشعلِ راہ بنایا اور فارسی شاعری کی جس روایت کو پہلی بار اختیار کیا گیا وہ ’’ایہام گوئی‘‘ کی روایت تھی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

    ’’دیوانِ ولی نے شمالی ہند کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا اور دکن کی طویل ادبی روایت شمال کی ادبی روایت کا حصّہ بن گئی۔ اٹھارہویں صدی شمال و جنوب کے ادبی و تہذیبی اثرات کے ساتھ جذب ہوکر ایک نئی عالم گیر روایت کی تشکیل و تدوین کی صدی ہے۔ اردو شاعری کی پہلی ادبی تحریک یعنی ایہام گوئی بھی دیوانِ ولی کے زیر اثر پروان چڑھی۔‘‘

    ایہام گوئی شمالی ہند میں اردو شاعری کی ایک بڑی تحریک تھی۔ یہ تحریک محمد شاہی عہد میں شروع ہوئی اور ولی کے دیوان کی دلی آمد کے بعد اس صنعت کو عوامی مقبولیت ملی۔ شمالی ہند میں اردو شاعری کی ترقّی کا آغاز اسی تحریک سے ہوتا ہے۔

    ایہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنٰی ہیں ’وہم میں ڈالنا‘اور ’وہم میں پڑنا یا وہم میں ڈالنا۔‘چوں کہ اس صنعت کے استعمال سے پڑھنے والا وہم میں پڑ جاتا ہے، اس لیے اس کا نام ایہام رکھا گیا۔

    ایہام کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ صنعت ہے جس سے شعر کے بنیادی لفظ یا لفظوں سے قریب اور بعید دونوں معنی نکلتے ہوں اور شاعر کی مراد معنٰی بعید سے ہو۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی ایہام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایہام کے معنٰی یہ ہیں کہ وہ لفظ ذو معنی ہو جس پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان دونوں معنٰی میں سے ایک قریب ہوں دوسرے بعید۔ اپنے شعر میں شاعر کی مراد معنی بعید سے ہو قریب سے نہیں۔‘‘

    ایہام کئی طرح کے ہوتے ہیں اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ اردوکے مشہور نقاد شمس الرّحمٰن فاروقی نے اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔

    اردو شاعری میں ایہام گوئی کی شروعات امیر خسرو سے ہوتی ہے۔ وہ سب سے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ایہام کو بطور صنعت اپنی فارسی شاعری میں استعمال کیا۔ پھر فارسی اور اردو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو میں ایسے اشعار کہے جن میں یہ صنعت استعمال ہوتی تھی۔ ان کی کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں میں ایہام کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔

    ایہام گوئی کی اس روایت کو فروغ دینے میں ولیؔ کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس صنعت کا نمایاں اظہار ہمیں ولی کی شاعری میں ملتا ہے۔ اسی لیے ولیؔ کو ہی ایہام کی تحریک کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے۔

    ایہام گوئی کی صنعت کو جس نے عروج عطاکیا وہ خان آرزوؔ ہیں۔ خان آرزوؔ اور ان کے شاگردوں نے اس صنعت کا فراوانی سے استعمال کیا۔ انھیں یقین تھا کہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ ویسے اس صنعت میں طبع آزمائی کرنے والوں کی فہرست طویل ہے، البتہ ایہام گو شعرا میں انعام اللہ خاں یقینؔ، شاہ مبارک آبروؔ، شاکر ناجیؔ، مصطفٰی خاں یک رنگ اور شاہ ظہور الدّین حاتم وغیرہ کا نام کافی اہمیت کاحامل ہے۔

    (ڈاکٹر محمد خلیق الزّماں کے علمی و ادبی مضمون سے اقتباسات)

  • انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    کیفی اعظمی ہندوستان کے نام وَر اور مقبول قوم پرست شاعر تھے جو 10 مئی 2002ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ کیفی اعظمی نے اپنی انقلابی نظموں اور آزادی کی امنگ و ترنگ سے بھرے ترانوں سے ہندوستان کے عوام میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور ترقی پسند مصنفّین میں اپنے نظریات اور تخلیقات کے سبب ممتاز ہوئے۔

    انھوں نے ملکی اور غیر ملکی سیاسی واقعات پر پُراثر نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری میں عوام کے سکھ دکھ اور ان کی زندگی نمایاں ہوتی ہے۔ طبقاتی تصادم اور سماجی استحصال ان کی شاعری کا موضوع رہا۔ وہ انیس، حالی، شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر تھے۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے قلم کاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔

    کیفی اعظمی 1918ء میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید اطہر حسین رضوی تھا۔ انھوں نے عربی اور فارسی کی اسناد حاصل کیں اور مطالعے سے اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ کیفی اعظمی نے کم عمری میں‌ شاعری شروع کردی تھی، ابتدائی دور میں انھوں نے رومانوی نظمیں لکھیں، لیکن بعد میں ان کی شاعری پر انقلابی فکر غالب ہوگئی۔

    مطالعے کے شوق نے انھیں مارکسزم، کمیونزم اور دیگر نظریات کی طرف متوجہ کیا اور اپنے وقت کے مشہور اور نام ور ترقی پسند مصنّفین کا ساتھ نصیب ہوا تو وہ کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی کارکن بن گئے۔ اب ان پر مزدوروں اور عوام کی حالت بدلنے اور سماج کی فرسودہ و کہنہ روایات کو ختم کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی جس کا اظہار قلم کے ذریعے کرنے لگے۔ کیفی اعظمی ممبئی منتقل ہوئے تو 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ وہ ترقی پسند مصنفّین کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔

    اس زمانے میں عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصّہ اور آزادی کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور ایسے میں‌ جن ترقی پسند قلم کاروں کو مقبولیت مل رہی تھی، ان میں کیفی اعظمی بھی شامل تھے۔ ترقی پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے فلمی گیت لکھے اور نام بنایا۔ اسی دوران مکالمے اور منظر نویسی کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ فلمی دنیا میں مصروف ہوگئے۔ کیفی اعظمی نے فلم نگری کے کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔
    کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شاعری میں ممتاز اور غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری اور خاص طور پر نظمیں فکر و فن کے معیار کے اعتبار سے اردو شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    پاکستان میں‌ ترقّی پسند فکر اور ادب تخلیق کرنے والوں میں سید سبطِ حسن ایک بڑا نام ہیں‌ جو 20 اپریل 1986ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے سبطِ‌ حسن نے ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلابِ ایران، کارل مارکس اور نویدِ فکر جیسی تصانیف سے علمی و ادبی حلقوں اور اہلِ دانش کو متاثر کیا۔

    ان کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا جہاں وہ 31 جولائی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلیم مکمل کی۔ وہاں انھیں ترقّی پسند دانش وروں، ادبا اور شعرا کا ساتھ نصیب ہوا جن میں علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری و دیگر شامل تھے۔ یہ وہ نام تھے جنھوں نے سیّد سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقّی پسند تحریک کا آغاز کیا جو مقبول اور ہمہ گیر ثابت ہوئی۔

    سید سبط حسن نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے پہلے لاہور اور بعد میں کراچی کو اپنایا تھا۔ سید سبطِ حسن نے خالص علمی اور فکری موضوعات پر کام کیا اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔

    ان کا انتقال بھارت کے شہر دہلی میں ہوا جہاں وہ ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ سبطِ حسن کو کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔