Tag: ترقی پسند تحریک

  • سجاد ظہیر کا تذکرہ جن کے طفیل اردو ادب ایک نئے عہد سے آشنا ہوا

    سجاد ظہیر کا تذکرہ جن کے طفیل اردو ادب ایک نئے عہد سے آشنا ہوا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کے دامن کو متنوع موضوعات کے ساتھ وسعتِ‌ بیان اور ہمہ گیری عطا کی تھی۔ اس تحریک نے ادب اور سماج کے ہر شعبے پر گہرے اثرات مرتب کیے، لیکن بالخصوص ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور اس کی زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا اور یہ سب سید سجاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    انھیں پاک و ہند کا نام ور ادیب، انقلابی اور مارکسی دانش ور کہا جاتا ہے جو 13 ستمبر 1973ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کا انتقال ایک ادبی تقریب کے دوران ہوا جو متحدہ روس کے شہر الماتی میں منعقد ہوئی تھی۔ اردو ادب اور ترقّی پسند تحریک کی تاریخ و تذکرہ سجاد ظہیر کے بغیر ادھورا رہے گا۔

    وہ ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے اور افسانہ نگاری، ڈرامہ اور ناول نگاری ان کا میدان رہاط سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ اس خاندان کا اپنے علاقے میں بڑا اثرو رسوخ اور مقام تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر میں مشہور اور قابلِ‌ ذکر شخصیات کی آمدورفت رہتی تھی جس نے سجاد ظہیر کو بھی علم و ادب اور سیاست کا شعور دیا۔ وہ ابتدائی عربی اور فارسی کی تعلیم کے بعد ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے مختلف سختیاں، جبر اور ہتھکنڈے اپنا لیے تھے جس نے ہر نوجوان کی طرح سجاد ظہیر کو بھی متاثر کیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے نے ہڑتال شروع کردی اور ملوں اور کارخانوں کے ملازم سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر نے اس کا گہرا اثر لیا۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی طور پر باشعور بنا دیا تھا۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔

    انھوں نے گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔ 1928ء میں اوکسفرڈ کے اسی طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    بلاشبہ سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب کو ایک نیا عہد اور اہل قلم کو ایک نئی سمت دی جس نے اردو زبان و ادب کو بلندی اور ہر سطح پر مقبولیت بخشی۔

  • نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ انھوں نے تنقید کے میدان اور شاعری میں‌ مقام بنایا اور قدیم و جدید ادب کو خوب کھنگالا، لیکن خود کسی ایک تحریک کے زیرِ اثر ادب تخلیق نہیں کیا۔ شاعری میں انھوں نے مشرقی کلاسکیت کو فوقیت دی۔ مغربی ادب کا مطالعہ بھی خوب کیا، لیکن اس سے متاثر ہو کر برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال کو رد نہیں کرسکے۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 9 ستمبر 1911ء کو ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں شعبے کے صدر رہے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ وہ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کی مخالفت کرتے رہے لیکن ادب کے اس ہنگامی اور انقلابی تصور کے خلاف رہے جس کا پرچار اس وقت میں جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سرور نے مغربی اور مشرقی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں انھوں نے ایک الگ ہی انداز اپنایا۔ اس میں مغربی تنقیدی اصولوں سے استفادہ بھی ہے اور مشرقی اقدار کا رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    تنقید نگاری کے ساتھ انھیں ایک شاعر کے طور پر دیکھا جائے تو ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں‌ ہر عہد کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    اردو ادب کے اس معروف بھارتی نقّاد اور شاعر کا انتقال 9 فروری 2002ء کو ہوا تھا۔

  • یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کو وہ وسعتِ بیان اور ہمہ گیری عطا کی جس نے سیاست اور سماج سمیت زندگی کے ہر شعبے اور دوسری تحریکوں کو بھی متاثر کیا اور ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا۔ ترقّی پسند تحریک اور اس کا فروغ سیّد سجّاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    سیّد سجّاد ظہیر آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ وہ 13 ستمبر 1973ء کو ایک تقریب میں شرکت کے لیے روس میں موجود تھے جہاں فرشتہ اجل گویا ان کا منتظر تھا۔ اردو ادب کی تاریخ، سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔

    ترقی پسند تحریک کے روح رواں اور نام ور ادیب، ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگار سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ نام وَری اور اثر و رسوخ اس خاندان کا طُرّۂ امتیاز اور اعزاز تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر کی فضا سیاسی مصروفیات اور میل جول کے باعث بہت حد تک قوم پرستانہ بھی تھی۔ سجّاد ظہیر نے ابتدائی طور پر عربی اور فارسی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔

    یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج کے لیے یہ خطرناک بات تھی، چناں چہ اس نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں سے کام لینا شروع کر دیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے میں بے چینی انتہا کو پہنچ گئی اور جگہ جگہ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء کا زمانہ تھا کہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر بھی اُس واقعے سے بے حد متاثر ہوئے۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی شعور سے آگاہی دی۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجّاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی ہوگئی۔

    گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ان کا گھر سربر آوردہ سیاست دانوں، ادیبوں، شاعروں اور دانش وَروں کی آمدورفت سے گویا بھرا رہتا تھا۔ انہی سیاسی ہنگامہ خیزیوں کے دوران سجّاد ظہیر نے کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹر میڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    1928ء میں اوکسفرڈ کے اس طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرّک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب میں ایک نئے عہد کو جنم دیا۔ ترقّی پسند تحریک نے ادب کی بہت سی اصناف کو متاثرکیا اور ادب کو نئی بلندی اور وسعتوں سے ہم کنار کرتے ہوئے تنوع دیا۔

  • جب ایک مشہور شاعر شدید بارش میں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے

    جب ایک مشہور شاعر شدید بارش میں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے

    اردو ادب میں اخترُ الایمان کو ان کی نظم گوئی اور اس صنفِ سخن کو تازگی اور جدّت کے ساتھ نئے اور منفرد تجربات سے سجانے اور نکھارنے والے شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھیں‌ ایک انسان دوست شخص بھی کہا جاتا ہے جس نے ذاتی زندگی میں بہت مشکلات اور کڑے وقت کا سامنا کیا، لیکن دوسروں کے مددگار اور معاون رہے۔ ان کی اسی خوبی سے متعلق ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے۔

    "اخترُ الایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیقُ القلب اور ہم درد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا، اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔

    میں اخترُ الایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اخترُ الایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے، مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔

    اخترُ الایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب و لہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے باز گشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔

    ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے، سوائے ایک نظم…’’ایک لڑکا‘‘ کے۔”

    (ترقّی پسند تحریک سے وابستہ اردو کے معروف شاعر رفعت سروش کے قلم سے)

  • مشہور شاعر علی سردار جعفری کی آج سولہویں برسی ہے

    مشہور شاعر علی سردار جعفری کی آج سولہویں برسی ہے

    معروف شاعر اور ادیب علی سردار جعفری کی آج سولہویں برسی ہے۔

    علی سردار جعفری اتر پردیش کے گونڈہ ضلع میں 1913 میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا۔

    علی سردار جعفری 8 سال کی عمر میں انیس کے مرثیوں میں سے 1000 اشعار روانی سے پڑھتے تھے۔ وہ صرف 15 برس کے تھے جب انہوں نے اپنا ادبی سفر افسانہ نگاری سے شروع کیا۔ 1938 میں ان کا پہلا افسانوں کا مجموعہ "منزل” شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے شاعری شروع کردی۔

    علی سردار جعفری نے انقلابی اور حب الوطنی پر مبنی شاعری کی جس کے سبب 1940 میں گرفتار ہوگئے۔ وہ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور اس کی ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں اپنی شاعری کے ذریعے سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

    شاعری کے علاوہ جعفری ڈرامے اور افسانہ نگاری میں بھی خاصا عبور رکھتے تھے۔ وہ ممبئی سے چھپنے والے سہ ماہی ’نیا ادب‘ کے مدیر تھے۔انہوں نے شیکسپیئر کی کچھ تحریروں کا اردو میں بھی ترجمہ کیا۔ ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے1967 میں انہی پدما شری کا قومی اعزاز دیا گیا تھا۔

    سن 1999 میں جب اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے تاریخی دورہ امن پر آئے، تب انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو ’سرحد‘ کے نغموں کا البم پیش کیا تھا جنہیں علی سردار جعفری نے لکھا تھا اور آواز سیما انیل سہگل کی تھی۔

    علی سردار جعفری یکم اگست 2000 میں ممبئ شہر میں انتقال کرگئے۔

    ان کی مشہور نظم ’تخلیق کا کرب‘ پڑھیئے۔

    ابھی ابھی میری بے خوابیوں نے دیکھی ہے
    فضائے شب میں ستاروں کی آخری پرواز
    خبر نہیں کہ اندھیرے کے دل کی دھڑکن ہے
    کہ آرہی ہے اجالوں کے پاؤں کی آواز
    بتاؤں کیا تجھے نغموں کے کرب کا عالم
    لہو لہان ہوا جارہا ہے سینہ ساز

    ان کا ایک اور قطعہ دیکھیئے۔

    پیاس بھی ایک سمندر ہے سمندر کی طرح
    جس میں ہر درد کی دھار
    جس میں ہر غم کی ندی ملتی ہے
    اور ہر موج
    لپکتی ہے کسی چاند سے چہرے کی طرف