Tag: ترقی پسند شاعر

  • یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    آج اردو کے نام وَر ترقّی پسند شاعر اور صحافی خالد علیگ کا یومِ وفات ہے۔ زندگی کی 83 بہاریں دیکھنے والے خالد علیگ نے 2007ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا تھا۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ ہمیشہ ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم رہے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔

    وہ ایک ایسے شاعر اور صحافی تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو آزاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی اور وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ وہ خود دار تھے اور ہمیشہ خود کو اپنے ضمیر کا قیدی رکھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے حق کے لیے شاعری اور صحافت کے ذریعے ہمیشہ آواز بلند کی اور بہت نام و مقام، عزّت اور احترام پایا۔ ساری زندگی کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں اپنے چھوٹے سے گھر میں گزار دی اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی جھیلی مگر خود داری اور اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔

    خالد علیگ کو 1988ء میں مالی امداد کا حکومتی چیک بھجوایا گیا جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل تھے تو معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے ان کا علاج سرکاری خرچ پر کروانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ جان کر وہ اسپتال سے فوری گھر منتقل ہو گئے۔

    ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’غزال دشت سگاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    اٹھارہویں صدی اردو شاعری کا انتہائی زرخیز دور رہا ہے۔

    اس دور میں مختلف لسانی اور تہذیبی عوامل کے تحت شمالی ہند میں اردو شاعری کا رواج عام ہوا۔ ریختہ گوئی کی شروعات ہوئی اور اردو شاعری کی ایک بڑی اہم تحریک ایہام گوئی کا جنم اسی عہد میں ہوا جس نے اردو شاعری کو بے حد متاثر کیا۔ اور اردو زبان نے شاعری کی حد تک فارسی زبان کی جگہ لے لی اور ایک توانا زبان کی حیثیت سے معروف و مقبول ہوئی۔

    صدیوں سے ہندوستان کی علمی اور ادبی زبان فارسی تھی اور ہندوستان کے شعرا اور ادبا نے فارسی زبان میں بے پناہ قدرت حاصل کرلی تھی لیکن اہلِ زبان ایران یہاں کے شعرا کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے جس کی وجہ سے کئی تنازعات بھی سامنے آئے، عرفی اور فیضی کا تنازع اسی دور کی پیداوار ہے۔

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی اس محاذ آرائی نے اس احساس کو اور بھی ہوا دی کہ ہندوستانی فارسی زبان میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلیں انھیں وہ پذیرائی اور اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی جو اہلِ ایران کو حاصل ہے۔ اس رویّے نے ہندوستان کے فارسی گو شعرا کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال اور فکر و خیال کے جوہر دکھانے کے لیے ایک نئے میدان کی طرف متوجہ کیا۔

    چناں چہ سراج الدّین علی خاں آرزو نے یہاں کے شعرا کو ریختہ میں شعر گوئی کی ترغیب دی اور ہر ماہ کی پندرہویں تاریخ کو ان کے گھر پر ’’مراختے‘‘ کی مجلسیں آراستہ ہونے لگیں۔ مشاعرہ کے انداز پر’’مراختہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اب نئی نسل کے بیشتر شعرا نے فارسی میں شعر گوئی ترک کر دی اور ان کی پوری توجہ ریختہ گوئی میں صرف ہونے لگی۔ یہ چیزیں اتنی عام ہوئیں کہ فارسی گو شعرا بھی رواجِ زمانہ کے مطابق منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ میں شاعری کرنے لگے۔

    اٹھارویں صدی کے دوسرے دہے میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو اس نے شمالی ہند کے ریختہ گو شعرا میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ولی کا یہ دیوان ریختہ میں تھا اور فارسی روایت کے عین مطابق حروفِ تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ شعرائے دہلی میں بھی دیوان سازی کا عمل زور پکڑنے لگا۔ اس طرح اردو شاعری ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔

    شمالی ہند میں جب اردو شاعری کا پہلا دور شروع ہوا تو اس دور کے اردو شاعر فارسی کی تہذیبی اور شعری روایت کے زیرِ سایہ پرورش پارہے تھے، لہٰذا اردو شعرا نے فارسی شعرا کے مقبول رجحانات کو ہی اپنا مشعلِ راہ بنایا اور فارسی شاعری کی جس روایت کو پہلی بار اختیار کیا گیا وہ ’’ایہام گوئی‘‘ کی روایت تھی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

    ’’دیوانِ ولی نے شمالی ہند کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا اور دکن کی طویل ادبی روایت شمال کی ادبی روایت کا حصّہ بن گئی۔ اٹھارہویں صدی شمال و جنوب کے ادبی و تہذیبی اثرات کے ساتھ جذب ہوکر ایک نئی عالم گیر روایت کی تشکیل و تدوین کی صدی ہے۔ اردو شاعری کی پہلی ادبی تحریک یعنی ایہام گوئی بھی دیوانِ ولی کے زیر اثر پروان چڑھی۔‘‘

    ایہام گوئی شمالی ہند میں اردو شاعری کی ایک بڑی تحریک تھی۔ یہ تحریک محمد شاہی عہد میں شروع ہوئی اور ولی کے دیوان کی دلی آمد کے بعد اس صنعت کو عوامی مقبولیت ملی۔ شمالی ہند میں اردو شاعری کی ترقّی کا آغاز اسی تحریک سے ہوتا ہے۔

    ایہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنٰی ہیں ’وہم میں ڈالنا‘اور ’وہم میں پڑنا یا وہم میں ڈالنا۔‘چوں کہ اس صنعت کے استعمال سے پڑھنے والا وہم میں پڑ جاتا ہے، اس لیے اس کا نام ایہام رکھا گیا۔

    ایہام کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ صنعت ہے جس سے شعر کے بنیادی لفظ یا لفظوں سے قریب اور بعید دونوں معنی نکلتے ہوں اور شاعر کی مراد معنٰی بعید سے ہو۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی ایہام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایہام کے معنٰی یہ ہیں کہ وہ لفظ ذو معنی ہو جس پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان دونوں معنٰی میں سے ایک قریب ہوں دوسرے بعید۔ اپنے شعر میں شاعر کی مراد معنی بعید سے ہو قریب سے نہیں۔‘‘

    ایہام کئی طرح کے ہوتے ہیں اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ اردوکے مشہور نقاد شمس الرّحمٰن فاروقی نے اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔

    اردو شاعری میں ایہام گوئی کی شروعات امیر خسرو سے ہوتی ہے۔ وہ سب سے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ایہام کو بطور صنعت اپنی فارسی شاعری میں استعمال کیا۔ پھر فارسی اور اردو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو میں ایسے اشعار کہے جن میں یہ صنعت استعمال ہوتی تھی۔ ان کی کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں میں ایہام کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔

    ایہام گوئی کی اس روایت کو فروغ دینے میں ولیؔ کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس صنعت کا نمایاں اظہار ہمیں ولی کی شاعری میں ملتا ہے۔ اسی لیے ولیؔ کو ہی ایہام کی تحریک کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے۔

    ایہام گوئی کی صنعت کو جس نے عروج عطاکیا وہ خان آرزوؔ ہیں۔ خان آرزوؔ اور ان کے شاگردوں نے اس صنعت کا فراوانی سے استعمال کیا۔ انھیں یقین تھا کہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ ویسے اس صنعت میں طبع آزمائی کرنے والوں کی فہرست طویل ہے، البتہ ایہام گو شعرا میں انعام اللہ خاں یقینؔ، شاہ مبارک آبروؔ، شاکر ناجیؔ، مصطفٰی خاں یک رنگ اور شاہ ظہور الدّین حاتم وغیرہ کا نام کافی اہمیت کاحامل ہے۔

    (ڈاکٹر محمد خلیق الزّماں کے علمی و ادبی مضمون سے اقتباسات)

  • جب ایک مشہور شاعر شدید بارش میں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے

    جب ایک مشہور شاعر شدید بارش میں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے

    اردو ادب میں اخترُ الایمان کو ان کی نظم گوئی اور اس صنفِ سخن کو تازگی اور جدّت کے ساتھ نئے اور منفرد تجربات سے سجانے اور نکھارنے والے شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھیں‌ ایک انسان دوست شخص بھی کہا جاتا ہے جس نے ذاتی زندگی میں بہت مشکلات اور کڑے وقت کا سامنا کیا، لیکن دوسروں کے مددگار اور معاون رہے۔ ان کی اسی خوبی سے متعلق ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے۔

    "اخترُ الایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیقُ القلب اور ہم درد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا، اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔

    میں اخترُ الایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اخترُ الایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے، مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔

    اخترُ الایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب و لہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے باز گشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔

    ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے، سوائے ایک نظم…’’ایک لڑکا‘‘ کے۔”

    (ترقّی پسند تحریک سے وابستہ اردو کے معروف شاعر رفعت سروش کے قلم سے)