Tag: ترقی یافتہ ممالک

  • ترقی یافتہ ممالک کے مضحکہ خیز قوانین! جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں

    ترقی یافتہ ممالک کے مضحکہ خیز قوانین! جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں

    دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنی مثالی ترقی معاشی استحکام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں مگر ان ہی ممالک میں کچھ مضحکہ خیز قوانین بھی لاگو ہیں۔

    امریکا، برطانیہ، جاپان، اٹلی، آسٹریلیا، سنگاپور سمیت دیگر کئی ممالک کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ ان ممالک کی مثالی ترقی، معاشی استحکام، شہریوں کا معیار زندگی، عوام کو سہولتوں کی فراہمی اور صفائی ستھرائی جیسے اقدام انہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔

    تاہم ان ہی ممالک میں کچھ ایسے عجیب وغریب اور مضحکہ خیز قوانین بھی نافذ ہیں جن کو جان کر کوئی بھی حیران رہ جائے گا اور کچھ تو مسکرا اٹھیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض ممالک میں تو ان قوانین کی خلاف ورزی کو ملک سے غداری قرار دیا گیا ہے۔

    آئیے جانتے ہیں کہ کس ترقی یافتہ ملک میں کون سا مضحکہ خیز قانون نافذ ہے۔ تو
    شروعات کرتے ہیں دنیا کے واحد سپر پاور ملک امریکا سے۔

    امریکا:

    امریکی ریاست ایریزونا میں گدھے کو رات کے بعد باتھ ٹب میں بٹھانا غیر قانونی ہے اور اگر کوئی یہ کام کرے گا تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔

    برطانیہ:

    ایک وقت تھا کہ برطانیہ کی راج دہانی میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ یعنی برطانیہ کی حکومت دنیا کے اتنے طول وعرض پر محیط تھی کہ اگر کہیں سورج غروب ہوتا تو اسی راجدھانی میں کہیں اور جگمگا رہا ہوتا تھا۔

    برطانیہ کا دنیا پر راج تو ختم ہو گیا اور اب وہ ایک جمہوری ملک ہے۔ تاہم وہاں رسمی طور پر بادشاہت کا نظام قائم ہے، اور اسی شاہی قانون کے تحت برطانیہ میں ملکہ (اب بادشاہ) کے ڈاکٹ ٹکٹ کو الٹا لگانا غداری کے زمرے میں بھی آ سکتا ہے۔

    جاپان:

    امریکی ایٹمی حملوں کے بعد تیزی سے ترقی کر کے دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ملک جاپان میں اگر آپ نے قانون کے دائرے میں رہنا ہے تو اپنی کمر کو مقررہ حد میں رکھنا ہوگا۔

    جی ہاں! جاپان میں مٹاپے کی حد مقرر ہے اور 40 سال سے زائد عمر کے افراد کی کمر کا سائز اگر مخصوص حد سے بڑھ جائے تو کمپنی یا مقامی حکومت اس شخص کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے۔

    اٹلی :

    مسکرانا ایک اچھی عادت ہے اور انسان کی خوش اخلاقی کو ظاہر کرتی ہے۔ مسکراہٹ نفرتیں ختم کرنے اور محبتوں کو کے فروغ کا سبب بھی بنتی ہے۔ مگر کوئی بھی شخص ہر وقت مسکرا نہیں سکتا۔

    لیکن ٹھہریے! اٹلی کے شہر میلان میں ایسا قانون ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص جو عوامی جگہ پر موجود ہو اس کے لیے ہمیشہ مسکرانا قانونی طور پر ضروری ہے۔ مسکراہٹ سے استثنیٰ صرف جنازوں اور اسپتالوں کی حد تک ہے۔

    آسٹریلیا:

    ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی پسند کا لباس پہنے لیکن آسٹریلیا کے شہر وِکٹوریا میں اتوار کے دن گلابی پینٹس پہن کر عوامی مقامات پر جانا اور سیر سپاٹے کرنا خلاف قانون ہے۔ (اطلاعات کے مطابق اب اس پر عمل نہیں ہوتا)۔

    سنگاپور:

    سنگاپور کا شمار دنیا کے خوبصورت ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں چیونگم چبانے پر پابندی ہے۔ حکام اس کی وجہ طبی مقاصد کے علاوہ عوامی مقامات کو گندگی پھیلانے سے روکنے کا اقدام قرار دیتے ہیں۔

    تو جو لوگ چیونگم کھانے کے شوقین ہیں وہ سنگاپور جاتے وقت ہوشیار رہیں کہ کہیں ان کا شوق انہیں قانون شکن نہ بنا دے۔

    روس:

    روس میں گندی یا دھول بھری گاڑی چلانا قابلِ جرمانہ جرم ہے۔ تو اگر آپ روس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنی گاڑی کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں ورنہ دھول بھری گاڑی آپ کی جیب کی صفائی کرا سکتی ہے۔

    ڈومینیکن ری پبلک:

    دنیا بھر میں والدین کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کا نام اپنی مرضی کے مطابق رکھیں۔ اکثر والدین تو بچے کی پیدائش سے قبل ہی ان کے رکھے جانے والے نام سوچ لیتے ہیں۔

    تاہم جزیرائی ملک ڈومینیکن ری پبلک میں ایک نام رکھنے پر سرکاری طور پر پابندی ہے۔ آپ اس ملک میں سرکاری طور پر کسی بچے کا نام ’’اسامہ بن لادن‘‘ نہیں رکھ سکتے۔

    کس ملک کا قانون آپ کو سب سے زیادہ مضحکہ خیز لگا، کمنٹ سیکشن میں اپنی رائے دیں۔

  • جاپان میں افراطِ زر کی شرح چالیس سال کی بلند ترین سطح پر

    جاپان میں افراطِ زر کی شرح چالیس سال کی بلند ترین سطح پر

    ٹوکیو: ترقی یافتہ ممالک میں مہنگائی کا بحران بڑھنے لگا، جاپان میں افراطِ زر کی شرح چالیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق جاپان میں افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا۔ جاپان میں مہنگائی میں سالانہ تین اعشاریہ چھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا،  اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والے اس ہوش ربا اضافے کا تعلق یورپ میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق جاپان میں خوارک اور توانائی کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، جاپانی کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدی اشیا کی لاگت میں اضافہ ہو گیا۔

    دوسری جانب یونان میں مہنگائی نے شہریوں کے ہوش اڑا دیئے مہنگائی سے تنگ آئے شہریوں کا دارلحکومت ایتھنز میں مارچ کیا، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نعرے لگاتے رہے۔

    مظاہروں کی قیادت طلبا یونینز نے کی، طلبا نے انیس سے تہتر کی فوجی آمریت کے خلاف پرچم تھام کر احتجاج کیا۔

  • وبا کو قابو کرنے کی صلاحیت، ترقی یافتہ ممالک کی چین سے متعلق رائے

    وبا کو قابو کرنے کی صلاحیت، ترقی یافتہ ممالک کی چین سے متعلق رائے

    واشنگٹن: ایک سروے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں چین کی جانب سے کووِڈ 19 سے نمٹنے کے حوالے سے مثبت خیالات میں اضافہ ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی مسائل اور عوامی رائے سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے امریکی تھنک ٹینک پیو مرکز تحقیق (Pew Research Center) نے ایک سروے کے نتائج کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں چین کے بارے میں مثبت خیالات میں اضافہ ہو گیا ہے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اب یہ خیال ہے کہ چین نے بہتر طور سے وبا کو قابو کیا۔

    یہ سروے مارچ سے مئی کے دوران کیا گیا تھا، جس کے نتائج ایک رپورٹ میں شائع کیے گئے، اس میں کہا گیا ہے کہ 49 فی صد افراد کا کہنا ہے کہ چین نے عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے بہتر کام کیا ہے، جب کہ 43 فی صد نے کہا کہ اس کی کارکردگی ناقص رہی ہے۔

    سال 2020 اور 2021 کے موسم گرما میں یہ سروے 12 ترقی یافتہ ممالک میں کیا گیا، جس میں معلوم ہوا کہ ترقی یافتہ دنیا کے اب زیادہ لوگ وبا کے خلاف چینی رد عمل کو سراہتے ہیں، دیکھا گیا کہ بیلجیم، اسپین اور نیدرلینڈ جیسے مقامات میں اس میں کم از کم 15 فی صد کا اضافہ ہوا۔

    جن ممالک میں یہ سروے کیا گیا ان میں بیلجیم، اسپین، نیدرلینڈز، اٹلی، کینیڈا، سویڈن، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔

    ان ممالک میں بالغ افراد سے چین کے حوالے سے استفسار کیا گیا کہ وہ وبا کی روک تھام کے سلسلے میں چین کے رد عمل کو کیسے دیکھتے ہیں، ان کی رائے میں چین نے کیا مؤثر طریقے سے وبا کو قابو کیا۔

    واضح رہے کہ کروبا وبا کے خلاف چین کے ابتدائی رد عمل کو عالمی سطح بالخصوص امریکا میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، اور چین پر اس سلسلے میں معلومات چھپانے کے بھی الزامات لگائے گئے، تاہم اس کے باوجود لوگوں کے چین کے بارے اس سلسلے میں مثبت خیالات میں اضافہ ہوا، لوگوں کا سروے میں کہنا تھا کہ بیجنگ نے وبا کو قابو کرنے کے لیے اچھا کام کیا۔

  • ترقی یافتہ ممالک کی سفری پابندیوں کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات ہیں،وزیراعظم

    ترقی یافتہ ممالک کی سفری پابندیوں کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات ہیں،وزیراعظم

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی سفری پابندیوں کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ڈی جی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈاکٹر ٹیڈروس اذانوم کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں کرونا وائرس کی روک تھام میں پاکستان کی جانب سے پیشرفت پر غور کیا۔ڈبلیو ایچ او نے کرونا کے خلاف جنگ میں حکومت پاکستان کے اقدامات کو سراہا۔

    اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ معیشت اور نظام زندگی میں توازن سے مثبت نتائج برآمد حاصل ہوئے،بین الاقوامی برادری کی مدد کرنے پر عالمی ادارہ صحت کے کردار کو سراہتے ہیں۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہیلتھ کیئر سہولتوں کے؛ لیے سائنسی بنیاد پر اعداد وشمار پر مبنی حکمت عملی پرعمل پیرا ہیں۔

    وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی سفری پابندیوں کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات ہیں،عالمی ادارہ صحت پاکستان و دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے سفری پابندیوں کے خاتمے میں کردار ادا کرے۔

    عوام کو سستی اور ماحول دوست بجلی فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، وزیراعظم

    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے سستی بجلی پیدا کرنے میں مدد ملےگی، حکومت عوام کوسستی اور ماحول دوست بجلی فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

  • ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کہاں کھڑا ہے؟

    ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کہاں کھڑا ہے؟

    ریاض: اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب نے افرادی قوت کے حوالے سے بے حد ترقی کی ہے اور اس حوالے سے یہ دنیا بھر میں 36 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

    سعودی اخبار کے مطابق اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ برائے افرادی قوت میں سعودی عرب کو 189 ممالک میں 36 ویں نمبر پر رکھا ہے، جبکہ عرب دنیا میں سعودی عرب دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام برائے 2019 کی فروغِ افرادی قوت کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب افرادی قوت کے لحاظ سے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔

    سعودی عرب جی 20 ممالک میں ترقی کے حوالے سے دسویں نمبر پر آگیا ہے۔ اس سے قبل سنہ 2018 میں سعودی عرب 3 درجے پیچھے تھا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق فروغ افرادی قوت، کسی ملک میں مساوات، انصاف اور خوشحالی کا ثبوت ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے سنہ 1990 سے 2018 کے دوران افرادی قوت کے حوالے سے غیر معمولی ترقی کی ہے۔

    فروغ افرادی قوت کی رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک کو 4 گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک گروپ میں وہ ممالک ہیں جن کے یہاں افرادی قوت کا فروغ 0.550 سے کم ہوتا ہے۔

    دوسرا گروپ متوسط فروغ افرادی قوت والے ممالک کا ہے جن کا گراف 0.550 سے لے کر 0.699 کے درمیان پایا جاتا ہے۔

    تیسرے گروپ کے ممالک اعلیٰ فروغ افرادی قوت والے ممالک کہلاتے ہیں جن میں افرادی قوت کے فروغ کا گراف 0.700 سے 0.799 کے درمیان ہوتا ہے۔

    چوتھا گروپ بے حد ترقی یافتہ افرادی قوت والے ممالک کا ہے۔ ان میں ترقی کا گراف 0.800 اور اس سے زائد کا ہوتا ہے۔

  • پاکستان مہاجرین کی بڑی تعداد رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، وزیراعظم

    پاکستان مہاجرین کی بڑی تعداد رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، وزیراعظم

    جنیوا: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان مہاجرین کی بڑی تعداد رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، پاکستان گزشتہ 40 سال سے افغان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران نے مہاجرین کے مسائل سے متعلق ویڈیو بیان میں کہا کہ دنیا بھرمیں مہاجرین کے مسائل دو گنا بڑھ چکے ہیں، 70فیصد سے زائد مہاجرین خواتین اور بچے ہیں۔

    وزیراعظم نے کہا کہ 80 فیصد سے زائد مہاجرین ترقی پذیرممالک میں ہیں، ترقی یافتہ ممالک کو اس ضمن میں مدد کرنے کی ضرورت ہے، ترقی یافتہ ممالک تنازعات کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں، ایسے تنازعات روکنا ہوں گے جس سے مہاجرین جنم لیتے ہیں۔

    وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان مہاجرین کی بڑی تعداد رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، پاکستان گزشتہ 40 سال سے افغان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاندار مہمان نوازی پر پاکستانی عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، پاکستانیوں نے مہاجرین کو پناہ دینے میں بڑے دل کا مظاہرہ کیا۔

    مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ ہے: وزیر اعظم

    واضح رہے کہ جنیوا میں گلوبل ریفیوجی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ ہے،عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے، 80 لاکھ کشمیریوں کو قید کر دیا گیا۔

  • ترقی پذیر ممالک کی 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو کمپیوٹر تک رسائی

    ترقی پذیر ممالک کی 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو کمپیوٹر تک رسائی

    دنیا بھر میں آج کمپیوٹر شناسی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کو ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی کمپیوٹر تک پہنچ، اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی کمپیوٹر سے محرومی کے فرق سے آگاہ کرنا ہے۔

    عالمی ادارے انٹرنیٹ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی 95 فیصد سے زائد آبادی کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے باقاعدہ استعمال کی سہولت میسر ہے۔ اس ضمن میں پہلے نمبر پر آئس لینڈ ہے جہاں کی 96 فیصد سے زائد آبادی انٹرنیٹ کی باقاعدہ استعمال کنندہ ہے۔

    آئس لینڈ کی بقیہ 3 سے 4 فیصد آبادی انٹرنیٹ کے استعمال کو پسند نہیں کرتی اور ان میں زیادہ تعداد معمر افراد کی ہے۔

    انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 3 ارب سے تجاوز *

    دوسری جانب ادارے کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر افریقی ملک نائجر ہے جہاں کی پونے 2 فیصد آبادی کو جدید دور کی یہ سہولیات میسر ہیں۔

    africa

    ادارے کی فہرست کے مطابق پاکستان کی 10.9 فیصد آبادی جبکہ بھارت کی 15.1 فیصد آبادی کو کمپیوٹر تک رسائی حاصل ہے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے درمیان کمپیوٹر کے استعمال میں بھی فرق پایا جاتا ہے جس کے باعث کئی طبی، نفسیاتی اور سماجی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

    جیتا جاگتا انٹرنیٹ *

    ایک بین الاقوامی ادارے او سی ای ڈی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں امیر ممالک اور غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے بچے انٹرنیٹ کو مختلف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق وہ بچے جو خوشحال اور آسودہ گھرانوں اور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر خبریں پڑھتے ہیں اور ایسی چیزیں سرچ کرتے ہیں جس سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوسکے۔

    europe

    اس کے برعکس کم خوشحال یا غریب گھرانوں اور ممالک کے بچے اپنا زیادہ وقت انٹرنیٹ پر گیم کھیلتے اور دوستوں سے چیٹنگ کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ وہ فرق ہے جس سے ان بچوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے اور وہ اپنی پڑھائی اور دیگر معاملوں میں بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ استعمال امیر بچوں کے بہتر مستقبل کی بھی ضمانت ثابت ہوسکتا ہے۔

    انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال صحت کے لیے خطرناک *

    اس کے برعکس غریب بچے انٹرنیٹ پر بے مقصد چیزوں میں وقت ضائع کرنے کے عادی بن جاتے ہیں جس کے باعث ان کی صحت اور ذہنی توجہ متاثر ہوتی اور پڑھائی کے دوران ان کی کارکردگی میں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ یہ عادت آگے چل کر خاص طور پر نوکری کے حصول کے لیے ان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔