Tag: ترکی

  • ترک صدر نے کرد جنگجوؤں کو سنگین نتائج کی دھمکی دے دی

    ترک صدر نے کرد جنگجوؤں کو سنگین نتائج کی دھمکی دے دی

    انقرہ: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے دھمکی دی ہے کہ معاہدے پر عمل نہ ہوا تو کردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ کردوں نے سیز فائر کے مقررہ کردہ 4 دنوں کے دوران بارڈر سے ملحق سیف زون خالی نہ کیا تو ان کے خلاف آپریشن دوبارہ شروع کردیا جائے گا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک انٹریو میں ترک صدر نے کہا کہ کرد فورسز کو سرحدی علاقہ فوری طور پر خالی کردینا چاہیے اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو کرد فورسز کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن دوبارہ شروع کردیا جائے گا۔

    ان کاکہنا تھا کہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہوئی اور وعدے پر عمل کیا گیا تو ’سیف زون‘ کا مسئلہ آسانی سے حل ہوجائے گا اور اگر معاہدے کے مطابق کردوں نے سرحدی علاقہ خالی نہیں کیا تو 120 گھنٹے مکمل ہوتے ہی کردوں کو منہ کھانا پڑے گی۔

    شمالی شام میں معمولی جھڑپ تھی جو ختم ہوگئی، اردوان کی ٹرمپ کو یقین دہانی

    خیال رہے کہ اس سے قبل امریکا اور ترکی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ترکی نے کردوں کو سرحدی علاقہ خالی کرنے کے لیے پانچ دن (120 گھنٹے) کی مہلت دی تھی۔

    واضح رہے ترکی اپنے مشرقی سرحد سے ملحقہ شامی علاقے میں 35 لاکھ شامہ مہاجرین کو بساکر ایک ’سیف زون‘ بنانا چاہتا ہے تاہم اس علاقے سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ایک بحران پیدا ہوا اور وہاں پر کردوں کی موجودگی پر ترکی نے علاقہ خالی کروانے کے لیے آپریشن شروع کردیا تھا۔

  • ترک فوجی آپریشن سے یورپ میں سیکیورٹی چیلنجز پیدا ہوں گے: جرمن چانسلر

    ترک فوجی آپریشن سے یورپ میں سیکیورٹی چیلنجز پیدا ہوں گے: جرمن چانسلر

    برلن: جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے حکم پر شام میں جاری فوجی آپریشن کو ایک بار پھر ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ شام میں ترک فوجی آپریشن کے باعث یورپ میں بھی سیکیورٹی چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے ترک صدر سے مطالبہ کیا کہ شمالی شام میں جاری فوجی آپریشن فوری طور پر بند کریں، بصورت دیگر سنگین مسائل جنم لیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ شام میں ترک عسکری کارروائی کی وجہ سے جنگ سے تباہ حال اس ملک میں لوگوں کے مصائب میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، جو مشرقی وسطیٰ کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔

    جرمن چانسلر نے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ تارکین وطن سے متعلق ترکی نے بہت مدد فراہم کی ہے، ایک اندازے کے مطابق انقرہ حکومت نے 3.6 ملین شامی مہاجرین کو پناہ دی۔

    خیال رہے کہ شمالی شام میں جنگ بندی کے لیے ترکی کے ساتھ امریکی معاہدے کے بعد ترکی نے شام میں 120 گھنٹے کے لیے جنگ بند کر دی ہے۔

    امریکا کے ساتھ معاہدہ: ترکی نے شام میں 120 گھنٹے کے لیے جنگ بند کر دی

    گزشتہ روز امریکی نائب صدر مائیک پنس کا کہنا تھا کہ امریکا اور ترکی کے درمیان شمالی شام میں عارضی جنگ بندی کا معاہد ہوا ہے، معاہدے کے تحت ترکی وائے پی جی کو انخلا کی اجازت دے گا، ترکی پر مزید پابندیاں عائد نہیں کریں گے، مستقل جنگ بندی پر حالیہ پابندیاں بھی اٹھالی جائیں گی۔

  • امریکا کے ساتھ معاہدہ: ترکی نے شام میں 120 گھنٹے کے لیے جنگ بند کر دی

    امریکا کے ساتھ معاہدہ: ترکی نے شام میں 120 گھنٹے کے لیے جنگ بند کر دی

    انقرہ: شمالی شام میں جنگ بندی کے لیے ترکی کے ساتھ امریکی معاہدے کے بعد ترکی نے شام میں 120 گھنٹے کے لیے جنگ بند کر دی، ترک وزیر خارجہ نے بھی شام میں فوجی آپریشن روکنے کی تصدیق کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترک وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ کرد فورسز 120 گھنٹے میں علاقہ چھوڑ دیں، آپریشن ختم نہیں کر رہے ہیں، عارضی طور پر روک رہے ہیں۔

    امریکی نائب صدر مائیک پنس نے کہا ہے کہ امریکا اور ترکی کے درمیان شمالی شام میں عارضی جنگ بندی کا معاہد ہوا ہے، معاہدے کے تحت ترکی وائے پی جی کو انخلا کی اجازت دے گا، ترکی پر مزید پابندیاں عائد نہیں کریں گے، مستقل جنگ بندی پر حالیہ پابندیاں بھی اٹھالی جائیں گی۔

    نائب امریکی صدر نے مزید کہا کہ ترکی اور امریکا شمالی شام سے داعش کے مکمل خاتمے پر متفق ہیں۔

    ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے شمالی شام میں ترک آپریشن روکنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی سے اچھی خبریں آ ر ہی ہیں، صدر اردوان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لاکھوں جانیں بچ جائیں گی۔

    یہ بھی پڑھیں:  طیب اردوان نے ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا

    واضح رہے کہ آج غیر ملکی خبر رساں ادارے نے کہا تھا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا، ترک صحافی کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خط ملنے کے دن ہی طیب اردوان نے آپریشن شروع کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

    امریکی صدر نے خط میں غیر سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے ترک صدر کے لیے احمق کے ساتھ ساتھ اکھڑ جیسا لفظ بھی استعمال کیا۔ امریکی صدر نے شام میں کارروائی سے روکنے کے لیے لکھا کہ اگر تم نے غلطی کی تو تاریخ تمھیں ایک شیطان کے طور پر دیکھے گی، احمق اور اکھڑ مت بنو۔

  • طیب اردوان نے ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا

    طیب اردوان نے ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا

    انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ترک صدر کو ملنے والا دھمکی آمیز خط طیب اردوان نے ردی کی ٹوکری میں پھینکا۔

    ترک صحافی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا خط ملنے کے دن ہی طیب اردوان نے آپریشن شروع کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی، خط میں امریکی صدر نے لکھا کہ آپ دنیا کو مایوس نہ کریں، ڈیل کر سکتے ہیں ، اردوان بے وقوفی نہ کریں۔

    ٹرمپ نے اردوان کو کرد ملیشیا سے مذکرات کی ڈکٹیشن دی اور احمق جیسے توہین آمیز الفاظ اس خط میں استعمال کیے، جس پر ترک صدر نے خط پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ترک صدر کے نام ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط جعلی ہے یا اصلی؟

    امریکی صدر نے خط میں غیر سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے ترک صدر کے لیے احمق کے ساتھ ساتھ اکھڑ جیسا لفظ بھی استعمال کیا۔ امریکی صدر نے شام میں کارروائی سے روکنے کے لیے لکھا کہ اگر تم نے غلطی کی تو تاریخ تمھیں ایک شیطان کے طور پر دیکھے گی، احمق اور اکھڑ مت بنو۔

    ٹرمپ نے کہا کہ ایک اچھے معاہدے کی کوشش کرتے ہیں، ترک معیشت تباہ کرنے کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتا، دنیا کو مایوس مت کرو، تم اچھی ڈیل کر سکتے ہو۔ غیر ملکی ادارے نے کہا کہ طیب اردوان نے خط ملتے ہی اسے کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیا، اور اسی دن امریکی حمایت یافتہ کرد تنظیم کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔

    خیال رہے کہ امریکا کے نائب صدر مائیک پنس ترکی کے دورے پر انقرہ پہنچ گئے ہیں۔

  • ترک صدر کے نام ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط جعلی ہے یا اصلی؟

    ترک صدر کے نام ٹرمپ کا دھمکی آمیز خط جعلی ہے یا اصلی؟

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کے نام دھمکی آمیز خط کے جعلی یا اصلی ہونے کی سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بحث چھڑ چکی ہے جس میں ٹرمپ اردوان کو ایک خطے کے ذریعے دھمکی دے رہے ہیں۔

    غیر ملکیی خبر رساں ادارے کے مطابق خط کو غیرسفارتی مندرجات پر جعلی سمجھا گیا، جبکہ امریکی ٹی وی کی اینکر نے ٹرمپ کا خط ٹوئٹ کردیا۔

    امریکی صحافی پیٹر الیگزینڈر نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ خط اصلی ہے اور وائٹ ہاؤس نے اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔

    مذکورہ خط کے متن میں ترک صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آپ کے مسائل حل کرنے کے لیے میں نے محنت کی، آپ دنیا کو مایوس نہ کریں، آپ ڈیل کرسکتے ہیں، اردوان بیوقوفی نہ کریں۔

    ٹرمپ کا شام سے امریکی فوج واپس بلانے کا فیصلہ مسترد

    خط میں امریکی صدر کی جانب سے ترکی کو ڈیل کی بھی پیشکش کی گئی، ٹرمپ نے خبردار کیا کہ ترکی ہزاروں افراد کے قتل عام کا ذمے دار نہ بنے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی بھی دھمکی دی، ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے انسانیت کے لیے کام کیا تو تاریخ آپ کو اچھے انداز میں یاد رکھے گی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ کرد ترکی سے مذاکرات کرنے اور لچک دکھانے کو تیار ہیں، ترک صدر شام کے مسئلے پر سخت مؤقف اختیار نہ کریں۔

  • ترک صدر نے شام میں آپریشن روکنے کا امریکی مطالبہ مسترد کردیا

    ترک صدر نے شام میں آپریشن روکنے کا امریکی مطالبہ مسترد کردیا

    انقرہ: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے مشرقی شام میں بڑے پیمانے پر جاری فوجی آپریشن ختم کرنے کا امریکی مطالبہ مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق صدر رجب طیب اردوان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو واضح جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں جنگ بندی نہیں کریں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اردوان کا کہنا تھا کہ امریکا کی طرف سے عائد پابندیوں سے خوفزدہ نہیں، کرد جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائیاں شام میں جاری رہیں گی۔

    انہوں نے واشنگٹن حکام کو واضح کردیا کہ ترکی اقتصادی پابندیوں کے باعث دباؤ میں نہیں آئے گا، اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنا مشن جاری رکھیں گے۔

    خبر ایجنسی کے مطابق ترکی کی جانب سے سرحد سے متصل شامی علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے کارروائی جاری ہے، ترکی اپنی سرحد سے شام کے اندر بیس میل تک محفوظ علاقہ قائم کرکے شامی مہاجرین کو بسانا چاہتا ہے۔

    ترکی کی معیشت کو فوری تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں، امریکی صدر

    خیال رہے کہ گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کے خلاف پابندیوں کا حکم نامہ جاری کیا ہے، امریکا نے ترک وزیردفاع، وزیرداخلہ اور وزیرتوانائی پر پابندی عائد کردی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ اگر انقرہ حکومت کے خلاف معاشی پابندیاں لگانی پڑیں تو لگائیں گے۔

  • امریکی فوجی مورچے کے قریب گولہ باری کے بعد حکام کی نئی حکمت عملی

    امریکی فوجی مورچے کے قریب گولہ باری کے بعد حکام کی نئی حکمت عملی

    واشنگٹن: امریکی حکام نے شام میں جاری ترک فوج آپریشن کے تناظر میں ملکی فوج کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب شام میں جاری فوجی آپریشن کے دوران بارودی گولے امریکی فوجی مورچے کے قریب گرے جہاں درجنوں فوجی اہکار تعینات تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک فوج کی جانب سے امریکی فوجی مورچے کے قریب کی جانے والی گولہ باری ایک غلطی کا نتیجہ تھی جس کی حکام نے تصدیق بھی کی۔

    امریکی وزیردفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ شام میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں، اور ہماری فوج دو جنگ کرتی افواج کے درمیان موجود ہے، جن میں ایک ترک اور دوسری کرد فوج شامل ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی ہدایت پر موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے شمالی شام سے امریکی فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام سے مکمل طور پر امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان بھی کرسکتے ہیں، تاہم اس سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔

    ایک اندازے کے مطابق شمالی شام میں امریکی فوجی اہلکاروں کی تعداد 1 ہزار ہے، جنہیں داعش کے خاتمے کے لیے شام بھیجا گیا ہے، ٹرمپ کے مطابق ہماری فوج اپنا مشن مکمل کرچکی ہے۔

    امریکا نے ترکی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا

    یاد رہے کہ گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ اگر انقرہ حکومت کے خلاف معاشی پابندیاں لگانی پڑیں تو لگائیں گے۔

    دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے عالمی دباؤ اور پابندی کی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے شام میں فوجی آپریشن جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

  • ترکی کی معیشت کو فوری تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں، امریکی صدر

    ترکی کی معیشت کو فوری تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں، امریکی صدر

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ترک حکمران خطرناک راستے پرگامزن رہے تو ان کی ملکی معیشت تباہ کردیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شام میں ترکی کے اقدام سے انسانی بحران جنم لے رہا ہے، ترک افواج کی کارروائی سے شہریوں اور خطے کے امن واستحکام کو خطرہ ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ترکی کی معیشت کوفوری تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں، ترک حکمران خطرناک راستے پرگامزن رہے تو ان کی ملکی معیشت تباہ کردیں گے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ترکی سے اسٹیل کی درآمد پرٹیرف 50 فیصد بڑھایا جائے گا۔

    دوسری جانب امریکی نائب صدر کا کہنا ہے کہ ترکی کو شام پر حملے کے لیے امریکا نے گرین سگنل نہیں دیا، امریکی صدرکی ترک ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی ہے۔

    مائیک پنس نے کہا کہ ڈونلڈٹرمپ نے طیب اردگان کو شام میں فوری جنگ بندی کا کہا ہے، شام میں ترکی کے اقدام سے داعش کو شکست دینے کا مشن متاثر ہوا۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کے خلاف پابندیوں کا حکم نامہ جاری کر دیا، امریکا نے ترک وزیردفاع، وزیرداخلہ اور وزیرتوانائی پر پابندی عائد کر دی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ اگر انقرہ حکومت کے خلاف معاشی پابندیاں لگانی پڑیں تو لگائیں گے۔

  • برطانوی وزیراعظم نے دریافت کیا ترکی کو کس طرح کی مدد چاہئے، ترک صدر اردوان

    برطانوی وزیراعظم نے دریافت کیا ترکی کو کس طرح کی مدد چاہئے، ترک صدر اردوان

    استنبول: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے دریافت کیا ہے کہ ترکی کو کس طرح کی مدد چاہئے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ کردوں سے مسئلہ نہیں ہے، دہشت گرد تنظیم کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔

    ترک صدر کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں جاری آپریشن میں اب تک 500 افراد ہلاک اور 24 گرفتار کیے جاچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ شمالی شام میں جاری ترکی کے آپریشن کے دوران شامی فوج اور ترک فوج کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

    غیرملکی میڈیا کے مطابق کرد ملیشیا سے معاہدے کے بعد شام کی سرکاری افواج ترک سرحد کے قریبی علاقے عین العیسا اور تلتمیر میں داخل ہوگئی ہیں۔

    مزید پڑھیں: امریکا نے ترکی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا

    شام کے سرکاری ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق کردوں کی سربراہی میں قائم سیریئن ڈیموکریٹک فورس سے ایک معاہدے کے بعد شامی افواج اس علاقے میں داخل ہوئی ہیں۔

    ادھر شام میں موجود کردوں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت نے ترکی کی جانب سے ان کے خلاف جاری کارروائی کو روکنے کے لیے اپنی فوج شمالی سرحد پر بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔

    یاد رہے کہ کردوں کی سربراہی میں ایس ڈی ایف نے امریکا کی حمایت اور مدد سے شمالی شام میں داعش کو شکست دی تھی لیکن گزشتہ دنوں امریکا کی جانب سے فوجیں ہٹائے جانے پرکردوں نے اسے پیٹھ میں چھرا گھونپنا قرار دیا تھا۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف ہے کہ ترک اور کرد صدیوں سے لڑتے آرہے ہیں اس لیے امریکا کو ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔

  • امریکا نے ترکی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا

    امریکا نے ترکی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا

    واشنگٹن: شام میں جاری ترک فوجی آپریشن کے تناظر میں امریکی حکام نے ترکی پر پابندی عائد کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی جانب سے ترکی پر اقتصادی پابندیاں رواں ہفتے عائد کیے جانے کا امکان ہے، جس کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی تصدیق کردی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ پابندیاں لگانے کو تیار ہے، یہ پابندیاں سرکاری سطح پرہوں گی۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ملک میں کانگریس، ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کی جانب سے ترکی پر اقتصادی پابندی عاید کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے، پابندی رواں ہفتے عاید کردی جائے گی۔

    امریکی سیکریٹری خزانہ اسٹیون میونچن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ہدایت پر ترکی پر اقتصادی پابندی عاید کی جائے گی، جس کا گہرا اثر انقرہ حکومت کی معیشت کو پہنچے گا۔

    ترک صدر نے پابندی کی دھمکیاں مسترد کردیں، فوجی آپریشن جاری رکھنے کا عزم

    یاد رہے کہ گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ اگر انقرہ حکومت کے خلاف معاشی پابندیاں لگانی پڑیں تو لگائیں گے۔

    دریں اثنا صدر ٹرمپ نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ امریکا کے ترکی کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، لیکن نہیں چاہتے تھے ترک فوج کے ہاتھوں بہت سے لوگ مارے جائیں۔

    دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے عالمی دباؤ اور پابندی کی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے شام میں فوجی آپریشن جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔