Tag: ترک سلاطین

  • یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    سلطنتِ عثمانیہ میں سلیم ثالث اپنے فہم و فراست اور سیاسی تدبّر کی وجہ سے قابلِ ذکر اور مثالی سلطانوں میں سرِفہرست ہیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں کا رعب و دبدہ اپنی جگہ، لیکن وہ علم و ہنر کے قدر داں تھے جن میں سے ایک سلیم ثالث ہیں جو اس عظیم سلطنت کے 28 ویں سلطان تھے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہی جس کے حکم راں ترک مسلمان تھے۔ اس سلطنت میں 1789ء سے 1807ء تک سلیم ثالث کا دورِ حکم رانی رہا جنھیں معزول کر کے قتل کردیا گیا۔

    سلیم ثالث 1761ء میں‌ پیدا ہوئے اور 1808ء میں‌ آج ہی کے دن روح نے ان کے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ وہ 46 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوئے۔

    سلطنتِ عثمانیہ اپنے عروج کے زمانے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کا بیش تَر حصّہ اس کے زیرِ نگیں تھا۔ اس کے صوبہ جات اور باج گزار علاقے الگ تھے۔

    سلیم ثالث کے بارے میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں کہ انھوں نے سلطنتِ عثمانیہ کا زوال روکنے اور اسے ترقّی دینے کے لیے قابلِ قدر کوششیں کیں۔ وہ علم و ادب کا رسیا، فنونِ لطیفہ کا شائق و شیدا تھا اور مذہب پسند بھی جس نے اپنے دور میں تعلیم عام کرتے ہوئے جدید علوم کی سرپرستی کی۔ اس عہد میں فنِ‌ حرب کو بھی بہت اہمیت دی گئی۔ سلیم ثالث نے عسکری معاملات پر توجہ دیتے ہوئے افواج کو نئے سرے سے منظّم کیا اور جدید خطوط پر ترقّی دی۔

    سلیم ثالث نے ملک میں اصلاحات پر زور دیا اور جاگیر داری نظام کو اس راہ میں بڑی رکاوٹ پاکر اس حکم راں نے مخالفت کے باوجود جاگیر داری نظام کو ختم کیا، لیکن یہی کوششیں‌ اس کے خلاف گئیں سلیم کو ان اصلاحات کے باوجود خاص کام یابی نہ مل سکی۔ سماج اور مختلف اداروں بالخصوص فوج کو جدید خطوط پر منظّم کرتے ہوئے طاقت وَر بنانے کے لیے اس کے بعض اقدامات کو کفّار کی تقلید یا ان سے مشابہت قرار دے کر جذبات کو بھڑکایا گیا اور اس حکم راں کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کردیا گیا۔

  • یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    سلطنتِ عثمانیہ کے اٹھویں حکم راں بایزید ثانی کو مؤرخین نے سادہ و حلیم مزاج، مذہبی رجحان اور علم و فنون کا دلدادہ لکھا ہے۔ انھیں ایک ایسا نرم خُو اور صلح جُو کہا جاتا ہے جو دلیر اور شجیع تو تھے، لیکن جنگ پسند نہیں تھے۔

    بایزید ثانی آج ہی کے دن 1512ء کو وفات پاگئے تھے۔ 26 مئی کو دنیا سے رخصت ہونے والے بایزید ثانی 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کرنے والے سلطان فاتح کے بیٹے تھے۔

    بایزید ثانی کو تخت نشینی کے موقع پر بھی تنازع کا سامنا کرنا پڑا۔ بایزید ثانی کا عہدِ حکومت خانہ جنگی سے شروع ہوا اور اس کا خاتمہ بھی انتشار اور اندرونی خرابیوں اور حالات کی وجہ سے ہونے والی لڑائیوں پر ہوا۔ بایزید ثانی نے اپنے والد سلطان فاتح کی وفات کے بعد تخت سنبھالا تھا جب کہ ان کا ایک بھائی بھی تخت کا دعوے دار تھا اور یوں تخت نشینی آسان ثابت نہ ہوئی۔

    بایزید ثانی نے کسی طرح اقتدار حاصل کرلیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان کی حیثیت سے 1481ء سے 1512ء تک حکم راں رہے۔ ان کے دور میں سلطنت کی بنیادیں مستحکم ہوئیں، لیکن خانہ جنگیوں کی وجہ سے مشکلات پیش آتی رہیں۔ سلطان بایزید ثانی اپنے عہدِ حکومت میں اندرونی انتشار اور خانہ جنگیوں کے علاوہ ولی عہدی کے مسئلے پر بھی الجھے رہے۔

    بایزید ثانی 1512ء میں اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوگئے۔ مشہور ہے کہ وہ زندگی کے ماندہ ایّام ایشیائے کوچک میں گزارنے کی خواہش لیے سفر پر نکلے تھے، لیکن وہاں تک نہ پہنچ سکے اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    بایزید ثانی کا مدفن استنبول میں بایزید مسجد کے پہلو میں موجود ہے۔