Tag: ترک فوج

  • ترک فوج  نے شمالی عراق میں دہشتگردوں کے 21 ٹھکانے تباہ کردیئے

    ترک فوج نے شمالی عراق میں دہشتگردوں کے 21 ٹھکانے تباہ کردیئے

    ترک مسلح افواج کے شمالی عراق میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے جاری ہیں، ترک فوج نے دہشت گردوں کے 21 ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ترک فوج نے عراق کے شمال میں میتینا، گارا، ہاکرک، قندیل اور آسوس کے علاقوں میں فضائی آپریشن کیا۔

    ترک مسلح افواج نے کارروائی کے دوران متعدد دہشت گرد وں کو غیر فعال بنادیا۔

    ترک فوج نے غاروں، پناہ گاہوں، گوداموں اور علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم PKK کے زیر استعمال مقامات سمیت دہشت گردوں کے 21 اہداف کو تباہ کر دیا۔

    دوسری جانب فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں ترک نژاد امریکی سماجی کارکن عائشہ نور ایزگی کے قتل پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

    ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے تکبر اور دہشت گردی کو صرف اسلامی ممالک کے اتحاد سے روکا جا سکتا ہے، اس لیے اسلامی ممالک کو اسرائیل کے خلاف اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔

    روئٹرز کے مطابق طیب اردوان نے ہفتے کو استنبول کے قریب اسلامک اسکولز ایسوسی ایشن کی ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’وہ ایک قدم جو اسرائیل کے تکبر، رہزنی اور ریاستی دہشت گردی کو روک سکتا ہے، وہ اسلامی ممالک کا اتحاد ہے۔‘

    سعودی عرب: متعدد غیر ملکی گداگر گرفتار

    یہ بیان جمعہ کو اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک ترک نژاد امریکی خاتون کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے، یہ ایکٹوسٹ اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع کے خلاف احتجاج میں حصہ لے رہی تھیں۔

  • وہ معرکہ جس میں ترک فوج دشمن کے مدمقابل آئے بغیر ہی فاتح ٹھہری

    وہ معرکہ جس میں ترک فوج دشمن کے مدمقابل آئے بغیر ہی فاتح ٹھہری

    وہ ستمبر 1788ء کی ایک رات تھی جب ایک خوں ریز تصادم نے ترک فوج کے لیے وہ راستہ آسان کر دیا جس سے گزر کر وہ غالب اور فاتح رہی، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ تر فوج نے اس میں‌ دشمن کا مقابلہ نہیں‌ کیا بلکہ آسٹریا کی فوج نے غلط فہمی کے سبب آپس میں گردنیں مار کر سلطنتِ‌ عثمانیہ کی فوج کو گویا کارانسیبیش خود ہی سونپ دیا۔ یہ شہر آج یورپ میں رومانیہ کا حصّہ ہے۔

    عثمانی ترک اور آسٹریا کی فوج کے درمیان معرکے زوروں پر تھے اور ایک موقع پر جب آسٹریا کی ایک لاکھ فوج کارانسیبیش گاؤں کے قریب خیمہ زن تھی تب یہ واقعہ پیش آیا۔

    آسٹریائی فوج کے چند جاسوسوں اور قیادت پر مشتمل ایک دستہ عثمانی فوج کی نقل و حرکت اور پیش قدمی کا جائزہ لینے روانہ ہوا اور دریائے ٹیمز عبور کر کے آگے بڑھا تو انھیں راستے میں شراب فروخت کرنے والے ملے۔ یہ جاسوس بہت تھکے ہوئے تھے۔ انھوں نے شراب پینے اور کچھ دیر سستا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ بڑی بدبختی اور ذلّت و رسوائی کا سبب بن گیا۔ جاسوسوں نے کچھ زیادہ شراب پی لی اور نشے میں دھت ہو کر رہ گئے۔

    تھوڑی دیر بعد آسٹریائی پیادہ فوج کا ایک اور دستہ وہاں پہنچ گیا اور انھوں نے بھی اس محفلِ عیش میں شریک ہونا چاہا، لیکن وہاں پہلے سے موجود شراب کے نشے میں دھت جاسوسوں نے انھیں اپنے ساتھ شریک کرنے سے انکار کر دیا اور دونوں کے درمیان تکرار کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اسی جھگڑے کے دوران کسی سپاہی سے گولی چل گئی اور پیادہ دستے کے چند سپاہیوں نے یہ شور مچا دیا کہ عثمانی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ ادھر نشے میں دھت جاسوس دستے کے سپاہیوں نے یہ سن کر خیال کیا کہ عثمانی فوج پیچھے سے حملہ آور ہو گئی ہے، چنانچہ وہ گھبراہٹ اور افراتفری میں وہاں سے کچھ فاصلے پر موجود پیادہ فوج کی طرف بھاگے۔ انھیں یوں اپنی طرف آتا دیکھا تو پیادہ سپاہی بھی یہی سمجھے کہ عثمانی فوجی آگئے ہیں اور ان جاسوسوں کے پیچھے ہیں۔ الغرض رات کی تاریکی میں جو شور اور افراتفری اس مقام پر تھی، اس نے کسی کو بھی کچھ سمجھنے سوچنے کا موقع نہیں دیا اور ایک غلط فہمی نے بڑی بدحواسی کو ان کی صفوں میں جگہ دے دی تھی۔ چنانچہ اس فوج نے اپنے مرکز کی جانب راہِ فرار اختیار کی۔

    آسٹریا کی فوج میں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے سپاہی تھے۔ ان میں اکثر جرمن زبان بولتے تھے اور بعض سرب زبان اور کچھ کروشیائی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی زبان میں چیخ پکار کرنے لگا اور نشے کی حالت میں یوں بھی ان کے سوچنے سمجھنے کی طاقت پوری طرح بحال نہ تھی۔

    ادھر آسٹریائی فوج کے یہ دونوں گروہ جب اپنے گھوڑوں پر سوار اپنے فوجی پڑاؤ کی طرف بڑھے تو وہاں موجود سپاہ یہ سمجھی کہ یہ ترک ہیں اور ان پر حملہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے مورچہ بند ہو کر فائر کھول دیا اور یوں ایک ہی ملک کی فوج کے مابین جنگ شروع ہوگئی۔ وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ پوری فوج میں افراتفری اور انتشار تھا اور حقیقت کسی کو معلوم نہ تھی۔

    اس روز رات کی تاریکی میں آسٹریا کا یہ لشکر اپنے ہاتھوں ہی مٹ گیا۔ اس معرکے میں 10 ہزار سے زائد سپاہی مارے گئے جب کہ باقی جان بچانے کی غرض سے ادھر ادھر بھاگ نکلے۔

    اس تصادم کے دو روز بعد عثمانی فوج اس مقام تک پہنچی تھی۔ جہاں آسٹریائی فوج نے خیمے لگائے تھے، وہ دراصل ایک گاؤں کا نزدیکی علاقہ تھا۔ ترکی کی فوج کو یہاں مردہ اور زخمی فوجی ملے اور ان کا اسلحہ بھی ہاتھ آیا۔

    زخمی فوجیوں کی زبانی عثمانی فوج کو صورتِ‌ حال کا اندازہ کرنے میں آسانی ہوئی اور انھوں نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے کارانسیبیش شہر پر باآسانی قبضہ کر لیا۔

  • شام میں ترک فوج کی امریکی فوجی مورچے کے قریب گولہ باری

    شام میں ترک فوج کی امریکی فوجی مورچے کے قریب گولہ باری

    واشنگٹن: امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں ترک فوج نے غلطی سے امریکی فوجی مورچے کے قریب گولہ باری کی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق ترک فوج کا شام میں 20 میل تک سیف زون بنانے کے لیے فوجی آپریشن جاری ہے، اس دوران غلطی کے نتیجے میں امریکی فوجی مورچے کے قریب گولہ باری ہوئی جہاں درجنوں اہلکار تعینات تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ترک فوج نے شامی سرحدی شہر کوبانی میں توپ خانے سے گولاباری کی، فائر کیے گئے چند گولے امریکی دستوں کے قریب گرے۔

    امریکی حکام کا کہنا تھا کہ امریکی فوجی مورچے میں تعینات تھے، کوئی زخمی نہیں ہوا، واقعہ غلطی کا نتیجہ ہے اسی لیے مریکی دستوں نے جوابی فائر نہیں کیا۔

    شامی شہر کوبانی کا کنٹرول کرد عسکریت پسندگروپ کے پاس ہے، جس کے خلاف ترکی نے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کررکھا ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ دنوں ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ ترک فوج تیار ہے، شام میں کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن کسی بھی لمحے شروع ہو سکتا ہے۔

    سعودی عرب نے شام میں ترک فوجی آپریشن کی مخالفت کردی

    ادھر امریکی فوج نے بھی ترک سرحد سے انخلا شروع کر دیا تھا، وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ امریکا کی مسلح افواج آپریشن کی حمایت نہیں کریں گی نہ ہی اس کا حصہ بنیں گی۔ خیال رہے کہ آج امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں واضح کیا ہے کہ امریکا کا شام آپریشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    دوسری طرف شامی ڈیموکریٹک کونسل کے ایک سینئر رہ نما نے کہا تھا کہ ترکی کے عزائم خطرناک ہیں، وہ ایسی جنگ کو ہوا دینا چاہتا ہے جس کے ساتھ سرحد کے دونوں طرف خاص طور پر ترکی کے اندر بڑے پیمانے پر انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

  • فوج میں تبدیلیوں کے خلاف احتجاجاً ترک فوج کے پانچ جنرل مستعفی

    فوج میں تبدیلیوں کے خلاف احتجاجاً ترک فوج کے پانچ جنرل مستعفی

    انقرہ : پانچوں جرنیلوں کا استعفی ملٹری شوریٰ کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پرعمل درآمد سے انکار کے بعد دیا ،ترک وزارت دفاع مذکورہ معاملے پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسلح افواج کے پانچ جرنیلوں کے اجتماعی استعفے کی خبر نے ایک بھونچال پیدا کردیا مگر سرکاری سطح پر اس خبر کی تصدیق یا ترید نہیں کی گئی،ترک وزارت دفاع اس حوالے سے خاموش ہے۔

    ترکی کے ذرائع ابلاغ میں گذشتہ روز یہ خبر اچانک سامنے آئی کہ فوج کے پانچ جرنیلوں نے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے، انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست ملٹری شوریٰ کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پرعمل درآمد سے انکار کے بعد جاری کیا ، ان فوجی افسران نے فوجی کونسل کے فیصلوں پرعمل درآمد سے معذرت کرلی۔

    ذرائع ابلاغ کے مطابق مستعفی ہونے والوں میں شام میں ادلب میں کے علاقے میں تعینات جنرل احمد آرجان چوبارجی، کردوں کے خلاف عسکری کارروائیوں میں سرگرم عمرفاروق بوزدمیر اوررجب بوز دمیر شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اگست کے اوائل میں فوجی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں فوجی افسران کی ترقی پرغور کیا گیا، مذکورہ اجلاس میں ان افسران کو ترقی نہیں دی گئی تھی۔

    مقامی میڈیا کا کہناتھا کہ سنہ 2016ءکے وسط میں صدر طیب ایردوآن کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی گئی تو اس میں ترکی فوج کے ایک گروپ کو ذمہ دار ٹھہرانے کے ساتھ امریکا میں جلا وطن فتح اللہ گولن پر الزام عاید کیا گیا تھا۔

    ترک فوج میں جنرل کے عہدے کے پانچ افسران کااستعفیٰ حکومت کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترک فوج اور حکومت کےدرمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔

  • شام، ترک فوج کی کارروائی، 18 داعش جنگجو ہلاک

    شام، ترک فوج کی کارروائی، 18 داعش جنگجو ہلاک

    انقرہ : شام کے شہر الباب پر ترک فوج کی جانب سے فضائی اور زمینی بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں داعش کے 18 جنگجو ہلاک جب کہ 37 زخمی ہوگئے ہیں۔

    بین الاقوامی خبررساں ایجنسی کے مطابق گزشتہ رات ترک فوج کی جانب سے شام کے شہر الباب میں قائم داعش کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری اور زمینی حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں داعش کے 18 جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں جب کہ 37 جنگجوؤں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

    ذرائع کے مطابق ترک فوج نے بمباری کرکے داعش کے جنگجو ﺅں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا اور شہر کے بڑے حصے سے دہشت گردوں کا قبضہ ختم کروانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جو چا ر ماہ سے جاری آپریش میں ایک بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رسان ایجنسی کا دعوی ہے کہ ترک فوج کی جانب سے داعش کے خلاف کیے گئے اس آپریشن میں فضائی اور زمینی دستوں نے حصہ لیا اور داعش جنگجوﺅں کے کئی ٹھکانوں کو تباہ کردیا گیا جب کہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ شام کے شہر الباب میں کی گئی کارروائی میں روسی طیاروں نے بھی حصہ لیا تھا۔

    شام میں جاری کشیدگی میں متاثرہ ترین شہروں حلب اور الباب میں بشار الاسد اور اتحادی فوجوں نے مسلسل زمینی اور فضائی کارروائیاں کر کے اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ہے جب کہ امن مذاکرات کی وجہ سے تاحال جنگ بندی کا عمل جاری ہے۔

    الباب میں ترک فوج کی کامیاب کارروائی اپنی جگہ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں فضائی کارروائیاں امن مذاکرات اور عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر کس طرح اثر انداز ہو تی ہیں؟

  • ترکی کا شام میں داعش کے خلاف آپریشن

    ترکی کا شام میں داعش کے خلاف آپریشن

    انقرہ : ترکی نےدولت اسلامیہ کہلانے والی دہشت گرد تنظیم کے خلاف آپریشن کے لیے شمالی شام میں مزید ٹینک بھیجے ہیں.

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے ٹینک شمالی شام میں ترکی کے سرحدی گاؤں کیلیس سے داخل ہوئے.ٹینکوں کے داخلے کے بعد شام کے علاقے میں سے دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں اور دھوئیں کے بادل دیکھے گئے.

    اس علاقے میں ترک فوج کی پیش قدمی کے بعد شہریوں کو انخلا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا.جبکہ ٹینکوں کی معاونت ترکی کی آرٹلری کر رہی ہے جو داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہی ہے.

    رپوٹس کے مطابق شمالی شام میں ترکی کے20 ٹینک،پانچ بکتر بند گاڑیاں آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں.ترک فوج کی یہ کارروائی جرابلس سے 55 کلومیٹر جنوب مغرب میں کی جا رہی ہے.

    *ترکی کی شامی قصبے جرابلس میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری

    ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ ترکی کے آپریشن کا مقصد دولت اسلامیہ پر مشرق اور مغرب دونوں جانب سے دباؤ ڈالنا ہے اور اب تک انہوں نے کم ازکم آٹھ گاؤں دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے واپس حاصل کیے ہیں.

    *ترکی کی شامی علاقے میں داعش پر بمباری

    ترکی کی جانب یہ آپریشن ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب تین روز قبل ہی ترکی نے شامی بحران میں امریکی کردار پر تنقید کی تھی.

    ترکی کی فوج شام میں دولت اسلامیہ کو نشانہ بنا رہی ہے لیکن ساتھ ساتھ کرد جنگجوؤں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے.

    *شام میں ترکی کے فضائی حملے،35 شدت پسند ہلاک

    یاد رہے گزشتہ دنوں جرابلس کے جنوب مغرب میں 55 کلومیٹر کے فاصلے پرترکی نے شام میں اپنی پہلی کارروائی کی تھی.

    واضح رہے کہ برطانیہ سے شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے سریئن آبرزرویٹری نامی گروہ کا کہنا ہے کہ باغیوں نے جرابلس اور مغربی علاقے دونوں کے اطراف میں موجود گاؤں دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے واپس لے لیے ہیں.

  • انقرہ : ترک فوج اور جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ،35کردجنگجو ہلاک

    انقرہ : ترک فوج اور جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ،35کردجنگجو ہلاک

    انقرہ : ترک فوج نے ملک کے شمال مشرقی علاقے میں ایک فوجی اڈے پر دھاوا بولنے والے 35 کرد جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا.

    تفصیلات کے مطابق یہ حملہ عراقی سرحد کے قریب صوبہ ہکاری کے ضلع چوکورجا میں ترک فوجیوں اور جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے چند گھنٹے بعد کیا گیا جس میں آٹھ فوجی ہلاک ہوگئے تھے.

    یاد رہے کہ گذشتہ سال جولائی میں ترکی کی فوج اور کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہوگیا تھا.

    فوج کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعے میں پی کے کے کے جنگجوؤں کی رات کے وقت فضائی نگرانی کے ذریعے نشاندہی ہوئی جب وہ فوجی اڈے کی جانب بڑھ رہے تھے.

    فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دوران فضائی کارروائی کی گئی جس میں 23 جنگجوہ ہلاک ہوگئے، اور مزید 12 جنگجؤ زمینی لڑائی میں مارے گئے.

    یاد رہے کہ پی کے کے نے سنہ 1984 میں ترک حکام کی جانب سے کردوں کے ساتھ مبینہ امتیازی سلوک اور ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا اغاز کیا تھا.

    واض رہے کہ گذشہ سال جنگ بندی کے معاہدے کے اختتام کے بعد شمال مشرقی علاقوں میں فوجی آپریشن اور پی کے کے کے حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں.

  • انقرہ : کرد باغیوں کے حملوں میں ترکی کے چھ فوجیوں سمیت 7افراد ہلاک

    انقرہ : کرد باغیوں کے حملوں میں ترکی کے چھ فوجیوں سمیت 7افراد ہلاک

    انقرہ :عراق کی سرحد کے قریب کرد باغیوں کے حملوں میں ترکی کے چھ فوجیوں سمیت سات افراد جاں بحق،جبکہ حملوں میں پندرہ افراد زخمی ہوگئے.

    تفصیلات کےمطابق ترکی میں عراقی بارڈر سے متصل صوبے ہکاری میں کرد باغیوں کے دو مختلف حملوں میں چھ فوجیوں سمیت سات افراد جان کی بازی ہار گئے،حملوں میں دس فوجیوں سمیت پندرہ افراد زخمی ہوگئے ،زخمیوں میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے.

    ترک آرمی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے پہلے واقعے میں گشت پر مامور فوجی گاڑی سڑک کنارے نصب بم سے ٹکراگئی جس کے نتیجے میں پانچ فوجی جان کی بازی ہار گئے.

    دوسرے واقعے میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں ایک فوجی اہلکار سمیت مقامی گارڈ مارا گیا،واقعے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری طلب کرکے علاقے میں آپریشن شروع کردیا گیا ہے.

    یاد رہے کہ ترک افواج 1984 سے باغیوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں.

    واضح رہے کہ گزشتہ سال جولائی سے فوج اور باغیوں کے درمیان جاری لڑائی شدت اختیار کرگئی ہے جس کے باعث چارسو کے قریب سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوچکےہیں.