Tag: تشخیص

  • اداکارہ حنا خان میں کینسر کے تیسرے درجے کی تشخیص

    اداکارہ حنا خان میں کینسر کے تیسرے درجے کی تشخیص

    بھارتی ٹیلی وژن انڈسٹری کی معروف اداکارہ حنا خان میں چھاتی کے تیسرے درجے کی کینسر کی تشخیص ہوئی ہے، اداکارہ نے دُعاؤں کی اپیل کردی۔

    بھارت کی معروف اداکارہ حنا خان نے فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر یہ افسوسناک خبر دی ہے، انہوں نے کہا کہ جو لوگ مجھ سے پیار کرتے ہیں اور مجھے ہمیشہ صحتیاب دیکھنا چاہتے ہیں، میں اُنہوں نے بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے اسٹیج تھری بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by (@realhinakhan)

    حنا خان نے کہا کہ اس موذی مرض کی تشخیص کے باوجود، میں سب کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ میں اس بیماری پر قابو پانے کے لیے پُرعزم اور مضبوط ہوں، میرا علاج شروع ہوگیا ہے، میں چھاتی کے کینسر کو شکست دینے کے لیے ہر جنگ لڑوں گی اور مجھے یقین ہے کہ میں کامیاب بھی ہوجاؤں گی۔

    حنا خان نے مداحوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے اُمید ہے کہ میرے اس مشکل وقت میں آپ میری رازداری کا احترام کریں گے، میں آپ کی محبت اور پیار کے لیے بےحد شکرگزار ہوں۔

    اداکارہ کا مزید کہنا تھا کہ میں اپنے پیاروں اور فیملی کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینسر کو شکست دے دوں گی، مجھے اللہ کی ذات پر اور اپنی مضبوطی پر بہت یقین ہے، اُنہوں نے اپنے دوستوں اور مداحوں سے اُن کی جلد صحتیابی کے لیے دُعاؤں کی اپیل بھی کی۔

  • سونگھ کر بیماریوں کا پتہ لگانا ممکن؟

    سونگھ کر بیماریوں کا پتہ لگانا ممکن؟

    بیجنگ: چین میں ایسی روبوٹک ناک تیار کرلی گئی جو سونگھ کر کسی شخص میں بیماریوں کا پتہ لگا سکے گی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چین کی سنگوا یونیورسٹی کے سائنس دان بیماریوں کی تشخیص کے لیے ایسی تکنیک پر کام کر رہے ہیں جس سے سانس، پسینہ، آنسو اور جسم سے خارج ہونے والے دیگر مواد میں موجود کیمیائی مادوں کو سونگھ کر بیماریوں کا پتہ لگایا جا سکے گا۔

    جب بھی کسی پرفیوم یا پھول کی خوشبو کو سونگھا جاتا ہے یا سانس کے ذریعے آلودگی ناک میں جاتی ہے تو در اصل جسم غیر مستحکم حیاتیاتی مرکبات کو محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ یہ مرکبات وہ کیمیکل ہوتے ہیں جن کا نقطہ ابال کم ہوتا ہے لہٰذا وہ جلدی بخارات بن جاتے ہیں۔

    تمام حیاتیاتی اشیا متعدد مقاصد کے لیے قصداً یہ مرکبات خارج کرتے ہیں جن میں دفاع، مواصلات اور افزائشِ نسل جیسے امور شامل ہیں۔

    لیکن یہ مرکبات تمام حیاتیاتی عملیات کے طور پر ویسے بھی خارج ہوتے رہتے ہیں جس میں بیماری کی شناخت شامل ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہر بیماری کا ایک مخصوص مرکب ہوتا ہے جو اس کی تشخیص کا سبب بن سکتا ہے۔

    بیماریوں سے متعلق یہ مرکبات لوگوں کو اپنے حوالے سے علم ہونے سے کافی عرصہ پہلے سے خارج ہو رہے ہوتے ہیں اور مرکبات کا یہ اخراج ڈاکٹروں کی جانب سے بلڈ ٹیسٹ یا دیگر تشخیصی تکنیک کے استعمال سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔

    وولیٹو لومکس نامی اس خیال کو لیبارٹری سے مارکیٹ تک لانے میں کئی ایسے شعبہ جات کو اکٹھا کام کرنا ہوگا جو آپس میں ذرا سی بھی مطابقت نہیں رکھتے۔

    کئی بڑی بیماریوں کی تشخیص جتنی جلدی ہوجائے ان کا علاج اتنا آسان ہوتا ہے، لہٰذا اگر ماہرین اور معالجین مل کر مختلف بیماریوں کے مخصوص مرکبات کی درجہ بندی کرلیں اور انجینیئرز ایسے آلات بنا لیں جو فوری طور پر ان مخصوص علامات کی شناخت کرلیں تو یہ ممکنہ طور پر طب کے شعبے میں انقلاب لا سکتا ہے۔

    سونگھ کر بیماری کی تشخیص کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ موجودہ تشخیص کی تکنیکوں سے مریضوں کو ہونے والی تکالیف سے چھٹکارہ حاصل ہو جائے گا۔

  • اب شہد کی مکھیاں کووڈ 19 کی تشخیص کریں گی

    اب شہد کی مکھیاں کووڈ 19 کی تشخیص کریں گی

    کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے بعد اس کی تشخیص میں کم از کم 24 گھنٹے کا وقت لگتا ہے لیکن ماہرین نے اس کے لیے نہایت آسان طریقہ دریافت کرلیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق نیدر لینڈز کے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کے ذریعے کووڈ 19 کی تشخیص میں کامیابی حاصل کی ہے۔

    اس مقصد کے لیے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کو تربیت فراہم کی جن کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے اور نمونوں میں انہوں نے سیکنڈوں میں بیماری کی تشخیص کی۔

    مکھیوں کی تربیت کے لیے نیدر لینڈز کی ویگینگن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے انہیں کووڈ 19 سے متاثر نمونے دکھانے کے بعد میٹھا پانی بطور انعام دیا جبکہ عام نمونوں پر کوئی انعام نہیں دیا گیا۔

    ان مکھیوں کو اس وقت انعام دیا جاتا جب وہ کوئی متاثرہ نمونہ پیش کرتیں۔

    سائنسدانوں نے بتایا کہ ہم نے عام شہد کی مکھیاں حاصل کی تھیں اور مثبت نمونوں کے ساتھ انہیں میٹھا پانی دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ تجربے کی بنیاد تھی کہ مکھیاں وائرس کی تشخیص پر انعام حاصل کرسکیں گی۔

    عوماً کووڈ 19 کے نتیجے کے حصول میں کئی گھنٹے یا دن لگتے ہیں مگر شہد کی مکھیوں کا ردعمل برق رفتار ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار سستا بھی ہے اور سائنسدانون کے مطابق ان ممالک کے لیے کارآمد ہے جن کو ٹیسٹوں کی کمی کا سامنا ہے۔

    اس طرح کا طریقہ کار 1990 کی دہائی میں دھماکہ خیز اور زہریلے مواد کو ڈھونڈنے کے لیے بھی کامیابی سے اپنایا گیا۔

    یاد رہے کہ شہد کی مکھیوں کو ذہین خیال کیا جاتا ہے اور اس سے قبل بھی شہد کی مکھیاں مختلف تجربات میں ذہانت کے مظاہرے پیش کرچکی ہیں۔

  • پاکستانی بہن بھائی کا کارنامہ، کرونا وائرس تشخیص کرنے والی ایپ بنالی

    پاکستانی بہن بھائی کا کارنامہ، کرونا وائرس تشخیص کرنے والی ایپ بنالی

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والے 2 بہن بھائیوں نے ایسی ایپ بنا لی جو کرونا وائرس کی تشخیص کرسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے 2 بہن بھائیوں نے ایسی اسمارٹ فون ایپلی کیشن بنائی ہے جو کرونا وائرس کی تشخیص کرسکتی ہے۔

    سافٹ ویئر انجینیئر بھائی طلعت نے بتایا کہ اس ایپ میں کسی شخص کی علامات اور مختصر میڈیکل ہسٹری ڈالی جائے تو یہ ایپ بتا سکتی ہے کہ وہ شخص کووڈ 19 کا شکار ہے یا نہیں۔

    یہ ایپ چیسٹ ایکسرے کروانے کی تجویز بھی دے سکتی ہے جبکہ اس ایکسرے کو ریڈ کر کے یہ بھی بتا سکتی ہے کہ کرونا وائرس نے پھیپھڑوں کو کس حد تک نقصان پہنچایا۔

    طلعت کا کہنا ہے کہ یہ ایپ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے تحت کام کرتی ہے۔

    بہن قمر النسا نے بتایا کہ وہ پاکستان کو ڈیجیٹل بنانا چاہتے ہیں، دونوں بہن بھائیوں نے مزید ایپس بھی بنائی ہیں جن میں سے ایک واٹس ایپ کی طرز کی میسجنگ ایپ بھی ہے۔

  • کیا کرونا وائرس کی تشخیص کھانسی کی آواز سے کی جاسکتی ہے؟

    کیا کرونا وائرس کی تشخیص کھانسی کی آواز سے کی جاسکتی ہے؟

    ریاض: کرونا وائرس کی تشخیص کیا کھانسی کی آواز سے ممکن ہے؟ سعودی عرب کی ام القری یونیورسٹی کے ماہرین اس پر تحقیق کر رہے ہیں جس سے اس مرض کی جلد تشخیص میں مدد مل سکتی ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کی ام القری یونیورسٹی میں کھانسی کی آواز کے ذریعے کرونا وائرس کی تشخیص کے پروجیکٹ پر کام کیا جا رہا ہے، یونیورسٹی کے ماتحت مصنوعی ذہانت پر اچھوتے انداز سے کام کرنے والے سینٹر سیادۃ نے بڑے پیمانے پر اس کا تجربہ شروع کردیا۔

    مکہ مکرمہ میں واقع یونیورسٹی کے سیادۃ سینٹر نے اعلان کیا ہے کہ اس کے اسکالر مصنوعی ذہانت کی مدد سے کھانسی سے نکلنے والی آواز کا تجزیہ کر کے کرونا وائرس کی تشخیص کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔

    ام القری یونیورسٹی کے ماتحت سیادۃ سینٹر کے مطابق اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے انہیں ایسے رضا کاروں کی ضرورت ہے جو کھانسی کی آواز مطلوبہ طریقے سے ریکارڈ کر کے ہمیں پہنچائیں۔

    ماہرین کے مطابق ضروری نہیں کہ وہ کرونا کے مریض ہوں یا انہیں سانس کا عارضہ لاحق ہو، کوئی بھی شخص جو کھانسی میں مبتلا ہو وہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی کھانسی کی آواز ویب سائٹ پر ریکارڈ کروا سکتا ہے۔

    سیادۃ سینٹر نے کہا ہے کہ کئی اسکالر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی مدد سے نظام تنفس کے بعض امراض مثلاً ٹھنڈ سے ہونے والے نزلے اور کالی کھانسی کی تشخیص آواز کی مدد سے کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    مرض کی تشخیص کے لیے لیباریٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں پڑی، اس کے بغیر ہی مرض کی نشاندہی کرلی گئی۔

  • صرف 15 منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص ممکن

    صرف 15 منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص ممکن

    کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کو خوفزدہ کر رکھا ہے وہیں اس سے بچاؤ اور اس کی شدت کم کرنے کا توڑ بھی تلاش کیا جارہا ہے، حال ہی میں کرونا وائرس کی جلد تشخیص کے لیے اسٹرپ تیار کرلی گئی۔

    جاپانی ماہرین نے ایسی اسٹرپ تیار کی ہے جو صرف 15 منٹ میں کرونا وائرس کو تشخیص کرسکتی ہے۔ جاپان کی نجی کمپنی نے یہ اسٹرپ چین کی ایک کمپنی سے تعاون سے تیار کی ہے اور امکان ہے کہ چین میں یہ پہلے ہی استعمال کی جارہی ہے۔

    اس اسٹرپ سے کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے مریض کے خون کے نمونے اور ایک کیمیائی محلول کی ضرورت ہوتی ہے جسے مکس کرنے کے بعد یہ اسٹرپ ایک سرخ لائن ظاہر کرتی ہے۔

    اس لائن سے کرونا وائرس کی تشخیص صرف 15 منٹ میں کی جاسکتی ہے۔ اس وقت کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے جدید ترین طریقہ 6 سے 8 گھنٹے کا وقت لیتا ہے۔

    اس سے قبل کرونا کی کم وقت میں تشخیص کے لیے ایک ماسک بھی تیار کیا جاچکا ہے۔ اس ماسک کے اندر تھری ڈی پرنٹڈ پٹیاں نصب کی گئی ہیں اور یہی پٹیاں وائرس کی تشخیص میں معاون ثابت ہوں گی۔

    یہ پٹیاں پہننے والے کی سانس کے ساتھ خارج ہونے والے چھینٹوں کو محفوظ کرتی ہیں اور بعد ازاں صرف اس ماسک کوٹیسٹ کر کے مذکورہ شخص میں کرونا وائرس کی درست تشخیص کی جاسکتی ہے۔

    2 یورو کا یہ ماسک اس سے قبل ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) بھی تشخیص کرنے کے کام آچکا ہے، ماہرین کے مطابق ماسک نے ٹی بی کے 90 فیصد کیسز کی درست تشخیص کی تھی۔

  • چند گھنٹوں میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا ماسک تیار

    چند گھنٹوں میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا ماسک تیار

    برطانوی ماہرین نے ایسا ماسک تیار کرلیا جو کم وقت میں اور بالکل درست کرونا وائرس کی تشخیص کرسکتا ہے، جان لیوا کرونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک 3 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

    برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیسسٹر کے ماہرین نے کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کی جانچ کے لیے جدید ماسک تیار کیا ہے۔ اس ماسک کے اندر تھری ڈی پرنٹڈ پٹیاں نصب کی گئی ہیں اور یہی پٹیاں وائرس کی تشخیص میں معاون ثابت ہوں گی۔

    یہ پٹیاں پہننے والے کی سانس کے ساتھ خارج ہونے والے چھینٹوں کو محفوظ کرتی ہیں اور بعد ازاں صرف اس ماسک کوٹیسٹ کر کے مذکورہ شخص میں کرونا وائرس کی درست تشخیص کی جاسکتی ہے۔

    2 یورو کا یہ ماسک اس سے قبل ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) بھی تشخیص کرنے کے کام آچکا ہے، ماہرین کے مطابق ماسک نے ٹی بی کے 90 فیصد کیسز کی درست تشخیص کی۔

    اب یہ ماسک کرونا وائرس کی بھی تشخیص کرسکتا ہے کیونکہ یہ وائرس بھی ٹی بی ہی کی طرز پر پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت کرونا وائرس کی تشخیص میں 48 گھنٹوں کا وقت لگ جاتا ہے، متاثرہ ممالک سے واپس آنے والے والے افراد کی علامات کا جائزہ لینا، اس کے بعد ان کے نمونے جمع کرنا، انہیں ٹیسٹ کے لیے بھیجنا اور وہاں سے منفی یا مثبت تصدیق ہو کر واپس آنے تک 48 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

    اس کے برعکس یہ ماسک صرف آدھے دن میں وائرس کی تشخیص کرسکتا ہے۔

    فی الوقت اس ماسک کی قیمت 2 یورو ہے تاہم اگر اسے بڑے پیمانے پر بنایا جائے تو اس کی قیمت مزید کم ہوجائے گی۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 89 ہزار 608 ہوچکی ہے جبکہ مہلک ترین وائرس کا شکار 45 ہزار 120 افراد صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔

    کرونا وائرس سے اب تک دنیا بھر میں اموات کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

  • ٹی بی کی تشخیص میں برطانوی سائنسدانوں کی اہم پیش رفت

    ٹی بی کی تشخیص میں برطانوی سائنسدانوں کی اہم پیش رفت

    لندن : برطانوی سائنسدانوں نے تپ دق کی تشخیص میں اہم پیش رفت حاصل کرلی ہے جس سے علاج مزید موثر ہو جائے گا۔

    تفصیلات کےمطابق اوکسفرڈ اور برمنگھم کے سائنس دانوں نے ٹی بی کی تشخیص میں جینوم سیکونسنگ کا طریقہ استعمال کر کے اہم پیش رفت حاصل کر لی ہے۔

    برطانوی سائنسدانوں کی اس اہم پیش رفت کےبعد جن مریضوں کو درست دوا کےانتخاب کے لیےمہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا اب ان کے اندر بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کی شناخت چند دنوں کے اندر اندر ہو سکے گی۔

    برطانوی وزیرِ صحت جیریمی ہنٹ کاکہناہے کہ اس پیش رفت سے زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔

    خیال رہےکہ برطانیہ میں ٹی بی کےمریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے،لیکن اس کے باوجود انگلینڈ میں اس مرض کی شرح یورپ کےدوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔


    مزید پڑھیں: پاکستان ٹی بی کا شکار پانچواں بڑا ملک


    سائنس دانوں کےمطابق جینوم سیکونسنگ کی مدد سے وہ ایک ہفتے میں مختلف نمونوں کے اندر ڈی این اے کی شناخت کر سکتے ہیں۔مرض کی جلد تشخیص کی بدولت مریضوں کا علاج جلد شروع کیا جا سکتا ہے۔

    مائیکرو بیالوجسٹ پروفیسر گریس اسمتھ نےکہاکہ ہم یہ معلومات دے سکتے ہیں کہ بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کون سے ہیں اور ان پر کون سی ادویات اثر نہیں کرتیں۔

    واضح رہےکہ اس وقت دنیا بھر میں تشویش ہے کہ ٹی بی کے ایسے جراثیم سامنے آ رہے ہیں جن پر اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔اس کے باعث اس مرض کو دنیا سے ختم کرنے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔

  • کینسر کی تشخیص کے لیے مفت طبی کیمپ

    کینسر کی تشخیص کے لیے مفت طبی کیمپ

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قومی ادارہ برائے امراض خون این آئی بی ڈی کے تحت خون کے امراض کی تشخیص کے لیے مفت طبی کیمپ لگایا جائے گا۔

    این آئی بی ڈی کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر طاہر شمسی کے مطابق کیمپ اتوار 5 مارچ کو این آئی بی ڈی میں لگایا جائے گا۔

    کیمپ میں کینسر کی تشخیص کا ٹیسٹ سی بی سی مفت کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں مختلف اقسام کے کینسر کی شرح تشویش ناک حد تک بلند ہو چکی ہے اور اس حوالے سے یہ ایشیا کا سر فہرست ملک ہے۔

    ملک میں لاکھوں افراد چھاتی، جگر، پروسٹیٹ، منہ، ہونٹ اور اووری کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ یہ تمام کینسر پاکستان میں نہایت عام ہیں۔

    کینسر ٹیسٹ کے علاوہ کیمپ میں مفت اسکریننگ، ہیمو گلوبن کی جانچ کا ٹیسٹ ایچ بی الیکٹرو فورسز، سیرم، بی 12، فولک ایسڈ، فیریٹن سمیت دیگر کئی ٹیسٹ مفت کیے جائیں گے جبکہ شوگر اور بلڈ پریشر بھی چیک کروایا جاسکے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ کیمپ میں امراض خون کے 20 ماہرین پر مشتمل ٹیم موجود ہوگی جو مفت اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے۔ یہ ماہرین مریضوں کے مکمل معائنے کے ساتھ انہیں مشورے بھی دیں گے۔

    کیمپ رواں ہفتے اتوار کے روز صبح 9 سے شام 6 بجے تک فعال رہے گا۔

  • نمونیا کی تشخیص کرنے والی جیکٹ تیار

    نمونیا کی تشخیص کرنے والی جیکٹ تیار

    کمپالا: افریقی ملک یوگنڈا میں انجینئرز نے ایسی اسمارٹ جیکٹ ایجاد کی ہے جس کے ذریعہ نہایت کم وقت میں نمونیا کی تشخیص کی جاسکے گی۔

    اس ایجاد ک خالق اولیویا کوبورونگو نامی طالبہ ہے جسے اس ایجاد کا خیال اس وقت آیا جب اس کی دادی اس مرض کا شکار ہوگئیں اور مرض کی درست تشخیص نہ ہونے کے باعث وہ انہیں ایک سے دوسرے اسپتال تک لے کر گھومتے رہے۔

    مزید پڑھیں: نمونیا اور اس کی علامات سے آگاہی حاصل کریں

    اولیویا نے اس خیال کا اظہار کچھ انجینئرز اور ڈاکٹرز کے ساتھ کیا اور کچھ ہی عرصہ بعد ’ماما اوپ‘ (مدرز ہوپ ۔ ماں کی امید) نامی میڈیکل کٹ تخلیق کرلی گئی۔

    اس کٹ میں ایک اسمارٹ جیکٹ اور موبائل فون ایپلی کیشن شامل ہے جو نمونیا کی تشخیص کر سکتی ہے۔

    :استعمال کا طریقہ کار

    نمونیے کی تشخیص کے لیے اس جیکٹ کو متاثرہ بچے کو پہنایا جائے گا جس کے بعد جیکٹ میں موجود سینسرز بچے کے پھیپھڑوں کی آواز، اس کے درجہ حرارت اور سانس کی آمد و رفت کی رفتار سے مرض کی تشخیص کریں گے۔

    اس کے بعد یہ سینسرز بلو ٹوتھ کے ذریعہ جمع شدہ ڈیٹا کو موبائل فون کی ایپ میں بھیجیں گے جو اسی مقصد کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ ایپ میں موصول شدہ ڈیٹا کی جانچ کے بعد مرض کی نوعیت اور اس کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔

    uganda-1

    واضح رہے کہ نمونیا، ملیریا اور ٹی بی کی تشخیص کا واحد ذریعہ اسٹیتھو اسکوپ کے ذریعہ پھیپڑوں کی آواز سننا ہے جو ان تینوں امراض میں غیر معمولی ہوجاتی ہے۔ سانس سے متعلق امراض میں پھیپھڑوں سے چرچرانے کی آوازیں آتی ہیں۔

    یکساں طریقہ تشخیص کے باعث اکثر نمونیا کو ملیریا سمجھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے اور اس دوران وہ وقت گزر جاتا ہے جس میں نمونیا کا بروقت علاج کر کے اسے جان لیوا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔ ان ممالک میں انگولا، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔

    دوسری جانب یونیسف کا کہنا ہے کہ صرف یوگنڈا میں ہر سال 24 ہزار سے زائد بچے نمونیا کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں اکثر بچوں کی درست تشخیص نہیں ہو پاتی اور ان کے نمونیے کو ملیریا سمجھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے۔