لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں علاج کے لیے جنرل اسپتال آنے والےشہری پر ینگ ڈاکٹرز نے گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کردی۔
تفصیلات کےمطابق توقیر نامی شہری موٹرسائیکل سے گر کرزخمی حالت میں جنرل اسپتال کی ایمرجنسی پہنچا،جہاں علاج کے لیےاصرار کر نے پر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرں نےزخمی شہری کوبیہمانہ تشدد کا نشانہ بنادیا۔
اسپتال کی سیکورٹی پر مامورپولیس اہلکار نے زخمی مریض کو ڈاکٹرز کے چنگل سے بچایا اور پھر اسے بغیر علاج کے ہی رکشے میں بٹھاکرگھر بھیج دیا۔
یاد رہےکہ گزشتہ ماہ لاہورمیں احتجاج کرنے والے 18 ڈاکٹروں کو برطرف،31 نرسوں کو معطل اور 18 نرسوں کو شوکاز جاری کیے تھے جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے مزید ڈاکٹروں اور نرسوں کو طبی خدمات کے لیے طلب کرلیاتھا۔
واضح رہےکہ گزشتہ دنوں پنجاب کے مختلف شہروں میں نیشنل انڈیکشن پالیسی کےخلاف ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے دوران او پی ڈیز بند ہونے کے باعث مریضوں کو سخت مشکلات کا سامناکرناپڑاتھا۔
اگر آپ اپنی زندگی میں تشدد پسندی کے منفی رجحان سے بچنا چاہتے ہیں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ کو ایک صحت مند طرز زندگی اپنانے کی سخت ضرورت ہے۔
برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو ایک صحت مند طرز زندگی گزارتے ہیں، یا اپنی غیر صحت مندانہ عادات کو چھوڑ کر متوازن زندگی کا آغاز کرتے ہیں ان میں تشدد پسندی کا رجحان پیدا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ صحت مند طرز زندگی دماغی کارکردگی میں بھی اضافہ کرتا ہے اور ایسے افراد اپنی زندگی میں طے کیے ہوئے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
اس ضمن میں برطانوی ماہرین نے متوازن غذاؤں جیسے پھلوں اور سبزیوں کا استعمال، تلی ہوئی اشیا اور جنک فوڈ سے پرہیز اور ورزش پر زور دیا۔
ماہرین نے واضح کیا کہ اس معمول پر کاربند افراد کی ذہنی صلاحیتوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہے، یہ مختلف حالات میں خود پر قابو رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں، ان میں تشدد پسندی کے رجحان میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ یہ زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کو سمجھدرای سے حل کرنے کے قابل بنتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق خوش آئند بات یہ ہے کہ یہی اثرات ان افراد میں بھی نظر آتے ہیں جو عمر کے کسی بھی حصے میں غیر صحت مند طرز زندگی کو چھوڑ کر صحت مند طرز زندگی اختیار کرتے ہیں۔ ایسے افراد تا عمر صحت مند رہتے ہیں اور ان کا دماغ فعال اور چاق و چوبند رہتا ہے۔
اس حوالے سے سائنسی و طبی ماہرین نے سب سے اہم فعل جسمانی حرکت کو قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر متحرک رہنے سے نہ صرف جسم چاق و چوبند رہتا ہے بلکہ دماغ بھی اس مصروفیت میں شامل ہوجاتا ہے یوں اس کی غیر فعالیت کے باعث اس کی بوسیدگی کا امکان کم ہوتا ہے، اور یہ منفی خیالات کی طرف متوجہ ہونے سے پرہیز کرتا ہے۔
ماہرین نے تجویز کیا کہ مقررہ وقت پر ورزش کے علاوہ بھی مختلف جسمانی حرکات کو معمول بنایا جائے جیسے سیڑھیاں چڑھنا، چہل قدمی کرنا، گھر کے کام کاج کے دوران حرکت کرنا وغیرہ، یہ افعال جسم میں خون کی روانی کو معمول کے مطابق رکھیں گے یوں امراض قلب سمیت کئی بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہوسکے گا۔
دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد خواتین زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا یا جنسی طور پر ہراساں کرنا اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔
پاکستان ماہرین نے اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔ پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔
تاہم رواں سال اکتوبر میں قومی اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے خلاف بل منظور کرلیا گیا ہے جس کے تحت ان جرائم میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں طے کرلی گئی ہیں۔
تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔
ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔
خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی طور پر آگاہی و شعور اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت ایک 16 روزہ مہم کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ اس مہم کے تناظر میں چند روز قبل پاکستانی مشہور شخصیات نے بھی ایک متاثر کن ویڈیو جاری کی۔
نیویارک: اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے خواتین پر تشدد کے خلاف اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ہالی ووڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر نکول کڈمین نے بھی شرکت کی۔
یو این وومین کی جانب سے منعقد کی گئی اس تقریب کا مقصد دراصل خواتین پر تشدد کے خلاف پچھلے 20 سال سے جاری اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ تقریب کا شریک میزبان ادارہ یو این ٹرسٹ فنڈ تھا جس نے شرکا پر زور دیا کہ وہ خواتین پر تشدد کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مالی تعاون کریں۔
تقریب میں فلم ’دا آورز‘ میں بہترین اداکاری پر آسکر ایوارڈ جیتنے والی اداکارہ نکول کڈمین نے بھی شرکت کی۔ نکول اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی ہیں جو دنیا بھر میں صنفی تشدد کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
دائیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی اہلیہ، بائیں ۔ یو این وومین کی سربراہ
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 10 سال قبل اقوام متحدہ کی جانب سے سفیر مقرر ہونے کے بعد انہوں نے پہلا دورہ کوسوو کا کیا تھا۔ ’وہاں میں ایسی لڑکیوں اور خواتین سے ملی جنہوں نے بدترین تشدد کا سامنا کیا تھا لیکن وہ سروائیو کرنے میں کامیاب رہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ جنگ زدہ علاقوں میں جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئیں تاہم اقوام متحدہ نے ان ذہنی صحت اور سماجی رتبے کی کی بحالی کے لیے بہت کام کیا۔
نکول کڈمین نے ان خواتین سے ملاقات کو اپنی زندگی بدلنے والا تجربہ قرار دیا۔ ’میں سمجھتی ہوں کے اقوام متحدہ کی سفیر کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں لڑکیوں اور خواتین پر تشدد کے خاتمے کے خلاف اقدامات میں حصہ لوں‘۔
واضح رہے کہ عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمولی عمل سمجھا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔
ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔
لاہور: وارڈن گردی کا ایک اور واقع رونما ہو گیا، مال روڈ ڈیوٹی پہ معمور ٹریفک وارڈنز نے بزرگ شہری حسن محمد کو تشدد کا نشانہ بنا دیا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور کے مال روڈ ڈی ایس پی ٹریفک آفس تھری کے قریب وارڈنز نے موٹرسائیکل کے کاغزات تاخیر سے دکھانے پر شہری حسن محمد کے بیٹے پہ تشدد شروع کر دیا اور مار مار کر درگت بنا دی ۔
بزرگ شہری حسن محمد جب اپنے بیٹے کو بچانے آگے ہوا تو ٹریفک وارڈنز نے سفید داڑھی اور بزرگی کا بھی خیال نہ کیا اور بری طرح بزرگ شہری کو مارنا شروع کر دیا، بزرگ شہری حسن محمد پنجاب یونیورسٹی میں سرکاری ملازمت کرتا ہے ۔
اس موقع پر ڈولفن فورس کے اہکار پہنچے لیکن لڑائی کی گتھی سلجھانے کے بجائے بزرگ شہری کو دھکے مارنے لگے، شہری پر تشدد کے واقع کا نوٹس تاحال سٹی پولیس کے افسران نے نہیں لیا۔
واضح رہے کے لاہور میں وارڈن گردی کے ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں بزرگ شہریوں کے ساتھ ایسا بھیانک برتاﺅنہیں کیا جاتا۔
کراچی : شہر قائد میں فائرنگ اور تشدد کے دومختلف واقعات میں تین افرادجان سے گئے ۔
کراچی کے علاقے لانڈھی مانسہرہ کالونی میں فائر نگ کے واقعے میں ایک خاتو ن اور اسکا بارہ سالہ بیٹا جابحق ہوگئے۔۔۔ پولیس کے مطابق فائر نگ مقتولہ کے پڑوسی محمد جمیل نے کی ملزم کا مقتولہ کے گھر آنا جا نا تھا ۔
بلد یہ ٹاﺅن میں سفا ک بیٹے نےاپنی ماں کو ڈنڈوں کے وار کر کے قتل کر دیا پولیس نے ملزم سیلم کو گر فتا ر کے آلہ قتل بر آمد کر لیا۔
لاہور: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پنجاب اسمبلی کی جانب سے خواتین کو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے بل 2015ء کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس کے موثر نفاذ سے خواتین کو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ مجرم انصاف کے کٹہر ے سے نہ بچ سکیں۔
منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’ ایچ آر سی پی پنجاب اسمبلی کی جانب سے خواتین کو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے بل 2015ء کی منظوری کو اس حوالے سے پہلا اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔
بظاہر یہ بل خواتین پر تشدد کو روکنے اور متاثرہ خواتین کے تحفظ اور بحالی کا ایک نظام تشکیل دینے کی کسی حد تک ایک جامع کوشش ہے۔ اور اس کے لئے یہ بل متعارف کرانے والے اور اس کی حمایت کرنے والے اراکین صوبے کی خواتین کے لئے درست اقدام کرنے پر تعریف کے مستحق ہیں۔
اس بل میں تشدد کی ایک جامع تعریف، شکایات کے اندراج کو آسان بنانے کے لئے اقدامات، شکایات کی تحقیقات کے لئے ضلعی سطح پر کمیٹیوں کا قیام، اور متاثرہ خواتین کے تحفظ کے لئے محفوظ پناگاہوں کاقیام شامل ہے۔ یہ تمام ضروری اقدامات تعریف کے مستحق ہیں لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ماضی میں محض ظاہری اور قواعد و ضوابط سے متعلق تبدیلیاں موثر ثابت نہیں ہوسکیں۔ قانون میں تبدیلی صرف اسی وقت کارگر ثابت ہوسکتی ہے کہ اس کا موثر نفاذ کیا جائے اور مجلس قانون ساز اس معاملے پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی رہے اور اس کی نگرانی کو یقینی بنائے۔
بدقسمتی سے ان لوگوں کی کمی نہیں ہے جو خواتین کو تشدد اور ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفتکرتے ہیں، ان حالات میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مثبت تبدیلی، چاہے وہ معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، سے چشم پوشی نہ کرے، اورلوگوں کو مذکورہ قانون سازی سے متعلق آگہی فراہم کرے۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں اور میڈیا پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قانون، اس پر عمل درآمد کی رفتار، اور اس کے خواتین کے تحفظ پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ حالیہ اقدام کی بدولت ملک بھر کی خواتین کو تشدد سے محفوظ رکھنے کے لئے قانون کے نفاذ میں مدد ملے گی اور وفاقی دارالحکومت کی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اس مرکزی بل کی منظوری کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے جو طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے۔
کراچی : بیکری مالک کے بہیمانہ تشدد کرنے پر تیرہ سالہ ملازم بھٹی میں گرگیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے محمودآباد میں قائم المدینہ بیکری کے مالک نے اپنے 13 سالہ ملازم پر ظلم کی انتہا کردی مالک کے بہیمانہ تشدد کے باعث تیرہ سالہ ملازم بھٹی میں گرگیا۔
کراچی میں بیکری مالک کے بہیمانہ تشدد پر تیرہ سالہ ملازم بھٹی میں جا گرا ، واقع کی اطلاع پر اے آر وائی نیوز کی ٹیم محمود آباد کی المدینہ بیکری پہنچی تو لوگ جمع ہوگئے، لیکن حادثےکے بارےمیں کچھ بھی بتانے سے کتراتے رہے صورتحال دیکھ کربیکری مالک بھی پہنچ گیا۔
کراچی میں بیکری میں حادثےکاشکارہونے والے بچے کے مالک کا کہنا ہے کہ 13 سالہ ندیم اپنی غلطی سےجلاتھا میں نے علاج کرادیا تھا۔
المدینہ بیکری کے مالک کا کرایہ دار بھی کہنا تھا کہ بچے کے جلنے اورمبینہ طورپراسپتال لیجانے کی کہانی سنائی گھر کا واحد سہارا یتیم بچہ ندیم جھلس کر بستر پر پڑا ہے اور گھر کا چولہا ٹھنڈا ہے۔
اے آر وائی نیوز کی خبر پر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔
گوجرانوالہ: فیس بک پر گالیاں دینے پر استاد کا طالب علم پر تشدد،طالب علم کو طبی امداد کے لیے سول ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
فیس بک پر گالیاں دینے پر نجی سکول کے استاد اشدرمحمود کا طالب علم سترہ سالہ فیضان علی پر وحشیانہ تشدد بچے کو طبی امداد کے لیے سول ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
طالب علم کے مطابق سکول ٹیچر ارشد آج اسے راستے میں ملا اور بہانے سے سکول لے کیا جہاں جا کر اسے ڈنڈوں کے ساتھ بدترین تشدد کا نشانہ بناڈالا فیضان علی کو طبی امداد کے لیے سول ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
جہاں اس کو طبی امداد دی جا رہی ہے دوسری طرف تھانہ جناح روڈ نے واقع کی تحقیقات شروع کردی ہے۔
لاہور: گرجاگھرمیں خودکش حملوں کے بعدمشتعل افراد نےتین پولیس اہلکاروں کوتین گھنٹےتک کمرے میں قید رکھنےکےبعد تشدد کیا۔
پولیس اہلکارمبینہ طورپرچرچ پرڈیوٹی کےبجائےمیچ دیکھ رہےتھےدھماکوں کے بعد صدمے سے نڈھال مشتعل مظاہرین نے تین پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ اہلکار دھماکے کے وقت چرچ میں ڈیوٹی کےبجائےکرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔ مشتعل مظاہرین نےتینوں پولیس اہلکاروں کو پکڑ مارا پیٹا اور انہیں ایک دکان میں تین سےزائدگھنٹے تک بند رکھا۔
بعدازاں مشتعل مظاہرین نے اہلکاروں کو نکال کران پر بدترین تشدد کیا۔مارپیٹ کا شکار پولیس اہلکاروں میں ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
تینوں زخمی اہلکاروں کو مظاہرین کے غیض وغضب سے بچاکرنیم بیہوشی کی حالت میں اسپتال پہنچایا گی