Tag: تصدق سہیل

  • تصدّق سہیل اور پرندے

    تصدّق سہیل اور پرندے

    مارک ٹوئن نے کہا تھاکہ فکشن کو ناقابلِ یقین ہونا چاہیے، زندگی کی طرح ناقابلِ یقین نہیں۔ زندگی میں بعض‌ کردار ایسے ہوتے ہیں جو کسی افسانے یا ناول کے کردار نظر آتے ہیں۔ معروف مصوّر تصدّق سہیل یقیناً ایک افسانوی کردار تھے۔

    ان کے دوست اور اردو زبان کے صفِ اوّل کے ناول نگار عبداللہ حسین کے افسانوی مجموعے ‘ نشیب’ کے افسانے ‘جلا وطن’ کے مرکزی کردار کے مزاج سے تصدّق سہیل کا اندازِ زیست خوب مماثل تھا۔ وہ مرکزی کردار اکیلا رہتا ہے، گھر میں پرندے پالے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنے جداگانہ طرزِ زندگی کے باعث عام روزمرّہ زندگی بسر کرنے والوں کے طنز و مزاح کا نشانہ بنتا ہے۔

    تصدّق حسین بھی تنہا رہتے تھے۔ گھر میں‌ پرندے پالے ہوئے تھے اور اپنے مخصوص اندازِ حیات، اپنی زندگی کو مرضی کے مطابق، نہ کہ معاشرے کی خواہش کے مطابق بسر کرنے کے باعث عامیوں کے مذاق کا نشانہ بن جاتے تھے۔

    میری ان سے قریباً پندرہ برس سے ہر ہفتے، اتوار کے روز ملاقات ہوتی تھی۔ عجب آدمی تھے، بے لوث اور سراپا فن کار۔

    وہ پچھلے پچاس برس سے سرِشام سو جاتے تھے، صبح تین بجے اٹھتے تھے۔ فریج سے گوشت نکال کر اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں‌ بہت احتیاط اور توجہ سے کاٹتے، تاکہ اس میں کوئی ہڈی یا کوئی ٹکڑا بڑا نہ رہ جائے۔ ایک بڑے تھال میں‌ گوشت رکھ کر پڑوس میں‌ نکل جاتے۔ اطراف کی سڑکوں پر پرندے ان کے منتظر ہوتے تھے۔ یہ کووں، چیلوں اور دیگر پرندوں کو بہت محبت سے گوشت کھلاتے اور لوٹ آتے۔

    انہوں نے انگلینڈ میں‌ ساری جوانی، ادھیڑ عمری اور ابتدائی بڑھاپا گزارا۔ برطانیہ میں ان کا چار دہائیوں سے بڑھ کر قیام تھا تو قریبی جنگل میں‌ جنگلی لومڑوں اور دیگر جانوروں کو کھانا دیتے تھے۔

    ایک مرتبہ میں‌ نے ان سے گوشت کاٹنے پر اتنا وقت صَرف کرنے کی وجہ پوچھی تو بولے” پرندوں کے حلق چھوٹے ہوتے ہیں۔ ابتدا میں‌ بڑے ٹکڑے ڈالتا تھا تو چند ایک بار دیکھا کہ دل اور گوشت کے دوسرے حصّے پرندوں کے حلق میں اٹک جاتے ہیں اور ان کا دم گھٹ جاتا ہے۔ چناں چہ میں نے جب انہیں‌ زمین پر تڑپتے دیکھا تو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے لگا۔”

    (معروف مصوّر تصدّق سہیل سے متعلق عرفان جاوید کی کتاب "سرخاب” سے ایک پارہ)

  • معروف مصور، قصہ گو اور افسانہ نگار تصدق سہیل انتقال کر گئے

    معروف مصور، قصہ گو اور افسانہ نگار تصدق سہیل انتقال کر گئے

    کراچی: پاکستان کے ممتاز مصور اور افسانہ نگار تصدق سہیل کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی کے علاقے کلفٹن کے ایک اسپتال میں کافی عرصے سے زیر علاج تھے۔

    تصدق سہیل سنہ 1930 میں بھارتی شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے وقت وہ لاہور آبسے، بعد ازاں اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں مقیم ہوگئے۔

    کراچی اس وقت فن و ادب کا مرکز تھا۔ جا بجا فن و ادب اور شاعری کی محفلیں سجتی تھیں۔ تصدق سہیل نے ان محفلوں میں جانا شروع کیا اور یہیں سے ان کا فن قصہ گوئی سامنے آیا۔

    سنہ 1961 میں وہ لندن چلے گئے اور یہاں سے انہوں نے مصوری کا آغاز کیا۔

    غالب کے مصرعے ’سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری‘ کے مصداق شروع میں انہوں نے اپنے دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے مصوری شروع کی، بعد ازاں مصوری ان کا جنون بن گئی۔

    انہوں نے اپنی زندگی میں بے تحاشہ فن پارے تخلیق کیے اور ان کی بے شمار نمائشیں منعقد ہوئیں، تاہم ان کے فن پاروں کا باقاعدہ ریکارڈ نہ رکھا جاسکا۔

    ان کی مصوری متنوع موضوعات پر مشتمل تھی اور انہوں نے برہنہ اجسام سے لے کر فطرت کے مناظر تک تخلیق کیے۔

    تصدق سہیل مصوری میں مغربی مصوروں پکاسو اور وان گوگ سے متاثر تھے جبکہ پاکستانی مصوروں میں کولن ڈیوڈ، صادقین اور بھارتی مصورہ امرتا شیر گل سے متاثر تھے۔

    تصدق سیل نے تجرد کی زندگی گزاری۔ وہ اس سے قبل اسلام آباد کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں سے ان کی حالت مزید خراب ہونے پر انہیں کراچی منتقل کیا گیا جہاں وہ کل شام 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔