Tag: تصوف

  • انسان کے باطن پر تصوف کا ساحرانہ اثر

    انسان کے باطن پر تصوف کا ساحرانہ اثر

    دوسری صدی ہجری تصوف کے لیے بے حد اہم رہی ہے۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ممالکِ اسلامیہ میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ اندرونی اور بیرونی سازشیں اپنے عروج پر تھیں۔ مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو رہے تھے۔ نئے نئے مسائل سر اٹھا رہے تھے۔ ایسے میں عابدوں اورزاہدوں کا ایک بڑا طبقہ دین داری اور تحفظِ ایمان کے تعلق سے فکر مند تھا۔ حکومتِ وقت کے خلاف اٹھنے والی کئی آوازیں خاموش کی جا چکی تھیں۔ ایسے میں کوئی مسلح جدوجہد مشکل ہی سے کام یاب ہو سکتی تھی۔

    اب حالات اور حکمت کا تقاضہ تھا کہ تحفظ دین کے لیے کوئی پرامن، غیر مسلح تحریک شروع کی جائے، جس سے عام لوگوں کی اصلاح کی راہیں ہموار ہوں اور بندگانِ خدا کو خدا کی طرف موڑا جا سکے۔ انہی حالات میں عالمِ اسلام کے دو مشہور شہروں کوفہ اور بصرہ میں اللہ والوں نے عام لوگوں کی اصلاح کا کام شروع کیا۔ ان کا زور باطنی اصلاح پر زیادہ ہوتا تھا، کیونکہ اگر باطن کی اصلاح ہوگئی تو ظاہر کی خود بخود ہو جاتی ہے۔ اسی طریقے کو بعد میں تصوف کہا جانے لگا اور اس طریقے پر چلنے والوں کو صوفی کہا گیا۔ اس کی اشاعت ایران اور عراق سے نکل کر پورے عرب و عجم میں ہو گئی اور آج دنیا کا شاید ہی کوئی خطّہ ایسا ہو جہاں تصوف کے سلاسل نہ پائے جاتے ہوں۔

    ڈاکٹر عبیداللہ فراہی لکھتے ہیں، ’’تصوف میں ایک ساحرانہ جذب اور کشش ہے۔ اس نے ناآسودہ ذہنوں کو بالخصوص متاثر کیا ہے۔ دوسرے عرفانِ حقیقت کا شوق اور ایک نئی راہ چلنے کا جذبہ، جو کچھ کم لذّت آگیں نہیں ہوتا، بہتوں کو اس راہ پر کھینچ لایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اسے پذیرائی حاصل ہوتی رہی اور وارفتگانِ شوق برابر اس کی طرف لپکتے رہے۔ اگرچہ اس کا دائرہ محدود اور مخصوص تھا لیکن تاریخ کا کوئی بھی دور اس سے خالی نہیں رہا۔‘‘

    (غوث سیوانی کے مضمون "تصوف کیا ہے اور صوفی کون ہے؟” سے اقتباس)

  • دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    بھیا احسان الحق سے، جن کے ہاں میں بستی نظام الدین (دہلی) میں مقیم تھا، میرے بزرگوں کے پرانے مراسم تھے۔ ان کا لقب فقیر عشقی نظامی تھا اور عرف عام میں انھیں‌ بھیا جی کہتے تھے۔

    ایک زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور فلسفی تخلص کرتے تھے۔ وہ میرٹھ کے مشہور بھیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے تمول اور امارت کا بہت شہرہ تھا۔ اپنے والد کی زندگی میں بھیا احسان الحق میرٹھ میں رہتے تھے، مگر 1918ءمیں ان کے انتقال کے بعد جائیداد اور بعض دوسرے امور کی دیکھ بھال کے سلسلے میں انھیں دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔

    میرٹھ سے دہلی آکر وہ اس مکان میں قیام پذیر ہوئے جو جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں سنگم تھیٹر سے متصل تھا اور انھیں اپنے والد کے ترکے میں ملا تھا۔ اس مکان کو بھیا احسان الحق نے ”اردو منزل “ کا نام دیا اور اس کا ایک حصہ دس پندرہ سال تک خواجہ حسن نظامی کے لیے وقف رہا۔

    خواجہ صاحب بستی نظام الدین میں اپنے گھر سے روزانہ صبح یہاں آجاتے، دن بھر اپنا دفتر جماتے اور کام کرتے اور رات کو اپنے گھر واپس جاتے۔ ان سے ملنے جلنے والے بھی یہیں آتے۔ اردو منزل میں اکثر و بیش تر علمی و ادبی صحبتیں جمتیں اور نشستیں برپا ہوتیں جن کے باعث اسے دہلی کے ایک اہم ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون نے 1960 میں بھیا احسان الحق کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر دس پندرہ افراد کا ہونا روز کا معمول تھا اور سارے اخراجات بھیا احسان الحق اٹھاتے تھے۔

    خواجہ حسن نظامی سے بھیا احسان الحق کی پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی تھی جب وہ کالج کے طالب علم تھے۔ یہ ملاقات تاحیات رفاقت کی بنیاد بن گئی اور بہت جلد خواجہ صاحب کے مقربین خاص میں ملا واحدی کے ساتھ بھیا احسان الحق سرفہرست ہوگئے۔

    بھیا احسان الحق کو شروع ہی سے تصوف، ادب اور صحافت سے بہت دل چسپی تھی۔ وہ وحدتُ الوجود کے قائل اور قول و فعل میں صوفیائے کرام کی انسان دوست تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور صحافت کے ذریعے قوم کے سماجی شعور کو نکھارنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔

    خواجہ حسن نظامی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے طرزِ تحریر کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ 1913میں انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کی معیت میں ہفت روزہ ”توحید“ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے خواجہ حسن نظامی کو میرٹھ بلایا۔ مسجد مچھلی بازار کانپور کی تحریک کے سلسلے میں جو اثر انگیز مضامین اس پرچے میں شائع ہوئے ان کی بنا پر حکومت نے اسے بند کردیا جب تک یہ پرچہ نکلتا رہا، خواجہ حسن نظامی میرٹھ میں بھیا احسان الحق کے مہمان رہے۔


    (معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے، یہ سطور ان کے دہلی میں قیام کے دوران اہلِ علم اور صاحبانِ کمال سے ملاقاتوں کے ایک تذکرے سے لی گئی ہیں)