Tag: تعلیم و تربیت

  • تعلیم و تدریس کے عمل میں علمِ نفسیات کا حصّہ

    تعلیم و تدریس کے عمل میں علمِ نفسیات کا حصّہ

    نفسیات کی ابتدا کی بہت سی وجوہات ہیں جیسے کہ ناموافق حالات ہوں تو انسان اپنے آپ کو کم زور کیوں محسوس کرنے لگتا ہے۔ ناقابلِ برداشت بات پر غصّہ کیوں آتا ہے۔ انسان کو بعض اوقات دل چسپ یا ڈراؤنے خواب کیوں نظر آتے ہیں؟ اچھائی یا کام کا صلہ ملنے پر انسان خوش کیوں ہوتا ہے؟ یا کسی چاہنے والے یا عزیز کی موت پر کیوں روتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جنہوں نے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان سب باتوں میں کہیں نہ کہیں انسان میں چھپی ہوئی نفسیات کا ہاتھ ہے۔

    نفسیات یونانی (Greek) لفظ Psychoe Logos ہے۔ سائیکو کا مطلب ہے روح اور لوگو کا مطلب ہے سائنس۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ علمِ نفسیات انسان کے Behaviour یا برتاؤ کا علم ہے جیسا کہ واٹسن نے کہا ہے کہ: "برتاؤ ایک ایسا ردعمل ہے جو انسان کے باہری برتاؤ اور اندرونی حالات کو دکھاتا ہے۔”

    جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو تعلیم کا اصل مقصد انسان کے Behaviour یا برتاؤ کو صحیح طرح سے بدلنا ہوتا ہے۔ جب انسان نے ترقی کرنا شروع کی اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھنا شروع کیا تب تعلیمی نفسیات وجود میں آئی۔

    Herbert, Froebal, Cattell, Alfredbinet, Thormdike, Ternan, B.F. Skimmer, Pavlov وغیرہ نے علمِ نفسیات کو ترقی دینے میں بہت زیادہ تعاون دیا۔ علمِ نفسیات میں تین چیزیں بہت اہم رول ادا کرتی ہیں۔
    1۔ سیکھنے والا (learner)
    2۔ سیکھنے کا طریقہ (Process)
    3۔ اعادہ (Evaluation)

    تعلیم میں علمِ نفسیات کا حصّہ
    (1) طالبِ علموں میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔
    (2) Audio-visul طریقوں سے بچے جلدی سیکھ لیتے ہیں۔
    (3) انتظامی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
    (4) صحیح ٹائم ٹیبل بنا سکتے ہیں۔
    (5) کھیل کود Co-Curriculer Activities کے ذریعہ سکھانے کا عمل کر سکتے ہیں۔
    (6) نئے نئے سکھانے کے طریقے استعمال کرکے سیکھنے کے عمل کو Innovative بنا سکتے ہیں۔

    علم نفسیات کا مواد
    (1) نفسیات اور تعلیم
    (2) مختلف انسانی گروہ اور اس کی نشوونما
    (3) سیکھنے کا عمل یا آموزش
    (4) پرسنالٹی اور باہمی اشتراک
    (5) مختلف قسم کے انسان اور ان کی آموزش
    (6) آموزش کو ناپنا اور اس کا اعادہ

    سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں تعلیمی نفسیات کے بہت سے مقاصد ہیں اور اساتذہ کے لئے یہ ایک اہم مضمون ہے جس کے ذریعہ وہ بچوں کی نفسیات کو سمجھ کر انہیں سکھا سکتے ہیں۔ ویسے تو بہت سے مقاصد ہیں لیکن سہولت کے حساب سے انہیں ہم چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

    (1) خود شناسی
    عربی کا بہت مشہور مقولہ ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ ہر انسان میں جذبات، احساسات، تفکر، استدلال، بے چینی وغیرہ ہوتی ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور سماج میں رہتے ہوئے کہیں نہ کہیں اس کے انہیں احساسات کا رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ تعلیمی نفسیات ہماری کمیوں کو دور کر کے اور ہماری صلاحیتوں کا اندازہ کروا کے ہمیں اپنے مقصد میں کام یاب ہونے کا راستہ دکھاتی ہے۔ اکثر لوگ کام یاب زندگی بسر کرنے سے اور اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے استعمال سے اسی لئے محروم رہتے ہیں کہ وہ اپنے جسمانی، جذباتی، ذہنی اور سماجی تقاضوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ صحیح معنوں میں تعلیمی نفسیات ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے میں ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

    (2) دوسرے لوگوں کو سمجھنا
    جس طرح اپنے آپ کو سمجھنا ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح کام یاب زندگی بسر کرنے کے لئے دوسرے لوگوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ چاہے ہم اپنا گھر، اسکول، کالج، سماج یا کچھ اور اداروں کو بخوبی چلانا چاہیں تو ہمیں ہر ایک فرد کی نفسیات کا خیال رکھنا پڑے گا۔

    دوسروں کی شخصیت کی خوبیوں و احساسات کی قدر اور ان کی ضروریات تسلیم کرنا ہی باہمی تعلقات کو خوشگوار بناتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کے لئے سیکھنے اور سکھانے والے دونوں ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ ایک اچھا استاد اسی وقت اپنے طالبِ علم کو سکھا سکتا ہے جب وہ اس کی نفسیات سے پوری طرح واقف ہو۔ مثلاً کوئی بچّہ درجہ میں شرارت کرتا ہو یا خاموش رہتا ہو یا سوال جواب میں حصہ نہ لیتا ہو تو ایسے بچے کی نفسیات کا مطالعہ کر کے استاد اس کو بہتر سکھانے کا عمل کرتا ہے۔

    (3) سماجی مسائل کا حل
    سماج انسان کے رہنے سہنے اور اس کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ آج کل ہم سماج میں بہت سے ایسے مسائل دیکھتے ہیں جو خود انسان کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے انسان کی طرزِ فکر، جذبات، احساسات وغیرہ کے مکمل علم کی مدد سے ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اور اس میں تعلیمی نفسیات کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے علم سے انسان تعصب، حسد، جنگ و جدل، اقوام کی باہمی کشمکش، جرائم اور بہت سی سماجی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔

    (4) علم برائے علم
    تعلیمی نفسیات صرف زندگی کے عملی پہلوؤں سے ہی واقف نہیں کراتی بلکہ نظری تحقیقات سے بھی ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ اگر کسی بھی درجہ میں ہمیں کوئی پریشانی لاحق ہو تو ہم تحقیق کر کے اس کو حل کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک کلاس میں سبھی طالب علموں کے نمبر ہر ایک مضمون میں کم آتے ہیں تو اس تحقیقی عمل کے ذریعہ یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ جیسے ہو سکتا ہے کہ کلاس میں مکمل روشنی کی کمی ہو، تختۂ سیاہ صحیح حالت میں نہ ہو۔ صاف ہوا کی آمد و رفت نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔

    یہ کہنا غالباً مبالغہ آمیز نہ ہوگا کہ شعبۂ تعلیم میں نفسیات کا استعمال سب سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ جدید تعلیم کی بنیاد ہی نفسیاتی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ تعلیمی نفسیات ہر اس شخص کی تعلیم کا لازمی جزو ہے جو کسی مدرسہ میں مدرس بننے کا خواہاں ہوں۔ اس علم کا مقصد مدرسین کو ایسے طریقہ کار سے روشناس کرانا ہے جس کی مدد سے وہ طلبہ کی شخصیت متعین کرنے والے اعمال اور ان کی نشوونما پر اثر انداز ہونے والے اسباب کی حقیقت سے آگاہ ہو کر انہیں ضبط میں لا سکیں۔

    ماہرینِ تعلیم مدّت سے یہ محسوس کرتے چلے آئے تھے کہ طلبہ کو سمجھے بغیر تدریسی عمل کبھی بھی مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلہ میں انہیں جتنی راہ نمائی اور مدد نفسیات سے ملی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ نفسیات نہ صرف ان محرکات پر روشنی ڈالتی ہے جو کسی کردار کی پیدائش کا باعث ہیں بلکہ ان ترغیبات کے مستقل اور غیر مستقل اثرات سے بھی آگاہ کرتی ہے جنہیں تعلیم یا آموزش میں ہمیشہ استعمال کیا جانا ہے۔

    تعلیمی نفسیات کا درخشاں کارنامہ نفسیاتی آزمائشوں کا استعمال ہے جن کی مدد سے طلبہ کی ذہنی، جذباتی، معاشرتی اور تعلیمی ترقی پر روشنی پڑتی ہے۔ ان آزمائشوں کی ایجاد سے پہلے اساتذہ کے پاس کوئی ایسا معتبر ذریعہ موجود نہ تھا جس سے اس ترقی کا صحیح علم حاصل ہو سکتا ہے اور جس پر تعلیمی عمل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ معیاری آزمائشوں نے طریقِ تدریس کی ہیئت کو بالکل بدل ڈالا ہے۔ ان کی مدد سے انفرادی اختلافات کی حقیقت معلوم کی جا سکتی ہے اور پڑھانے کے طریقوں کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسیات نے تعلیم پر جو تجربے کئے ہیں اور ان سے جو اصول وضع کئے ہیں وہ اساتذہ کے لئے راہ نمائی کا کام دیتے ہیں۔ ان کی مددسے تعلیم کو زیادہ دل چسپ بنایا جا سکتا ہے۔ تحفظ اور فراموشی کے سلسلے میں جتنے تجربے کئے گئے ہیں ان کا اطلاق ہر مدرسہ میں ہو رہا ہے۔

    "تدریسی مشینوں” اور "تدریسی پروگراموں” کی ایجاد نے جو سراسر نفسیات کی مرہون منت ہیں، پڑھانے کے طریقوں کو بڑا متاثر کیا ہے۔ ان کی مدد سے مشکل سے مشکل مضامین کی تعلیم بھی بڑی آسان ہو گئی ہے۔ یہ نیا طریقۂ تعلیم ترقی یافتہ ممالک میں ہی ہر دلعزیز نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک میں بھی اس سے کام لیا جا رہا ہے۔

    مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو علم معلمین کی ہر قدم پر صحیح راہ نمائی کرتا ہے اور جو ان کے بے شمار مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے وہ علمِ نفسیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علماء مدرسہ کو ایک طرح کی نفسیاتی تجربہ گاہ قرار دیتے ہیں جس میں نہ صرف سابقہ اصولوں کو پرکھا جاتا ہے بلکہ نئے نئے اصول دریافت کئے جاتے ہیں۔

    (ماخوذ از کتاب: تعلیمی نفسیات کیا ہے، مصنّف عصمت جہاں صدیقی)

  • درس و تدریس سے جڑے مسائل پر چند متاثر کُن فلمیں

    درس و تدریس سے جڑے مسائل پر چند متاثر کُن فلمیں

    بلاشبہ استاد کسی بھی قوم اور معاشرے کا معمار ہوتا ہے جو ایک قوم کی ترقیّ و خوش حالی ہی کی کلید نہیں بلکہ تہذیبی اقدار کے حامل مضبوط معاشرے کی تشکیل میں اس کا کردار نمایاں اور بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اساتذہ اور درس و تدریس سے وابستہ شخصیات ہر شعبۂ زندگی کے لیے ماہرین اور کارپرداز تیّار کرتے ہیں۔

    درس و تدریس ایک ایسا مقدّس پیشہ ہے جس میں اساتذہ کو محنت اور لگن کے ساتھ جدید رجحانات اور تدریسی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پیشہ اساتذہ سے صبر و تحمل کا بھی تقاضا کرتا ہے کیوں کہ ہر بچّہ یا طالبِ علم دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے سگے بہن بھائیوں کی ذہنی استعداد، ان کی کارکردگی، لکھنے پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہوسکتی ہے۔ کچھ بچّے ذہین ہوتے ہیں اور زیادہ جلدی سیکھتے یا کسی بھی سوال کو سمجھ لیتے ہیں۔

    ایک اچھا استاد وہی ہے جو یہ جان لے کہ جس طرح کسی باغیچے میں طرح طرح کے پودے ہوتے ہیں، اور مالی اگر ان پر الگ الگ توجہ نہ دے اور ان کی صحیح دیکھ بھال نہ کرے تو وہ سوکھ سکتے ہیں، اسی طرح ایک استاد کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ہر طالبِ علم کی ذہنی استعداد کے مطابق اس کی راہ نمائی کرے۔

    دنیا بھر میں اس موضوع پر فلمیں‌ بھی بنائی گئی ہیں۔ فلم انڈسٹری، خاص طور پر ہالی وڈ میں درس و تدریس سے جڑے مسائل کو اجاگر کرتی فلموں میں یہ دکھایا گیا ہے کہ تعلیم دینا اور اس کا حصول آسان نہیں ہے۔ اس میں‌ بڑی توانائی اور کوشش کا دخل ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے معاشی یا نسلی و گروہی امتیاز کے ساتھ وہ مسائل پیش آتے ہیں جن کا تعلق صرف اساتذہ اور ان کے طالبِ علموں سے ہوتا ہے۔

    یہاں ہم ان فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جن میں طلبہ کے مسائل کو بہت عمدگی سے پیش کیا گیا اور یہ فلمیں اساتذہ کی ذہن سازی اور راہ نمائی کا ذریعہ ہی نہیں‌ بلکہ والدین کے لیے بھی مفید اور معلوماتی ثابت ہوئیں۔

    ٹُو سر وِد لو
    1967ء میں‌ برطانیہ میں‌ بننے والی اس فلم میں‌ نسل پرستی اور سماجی عدم مساوات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ یہ فلم یک سابق انجینئر مارک ٹھیکیرے کی کہانی بیان کرتی ہے جو لندن میں رہنے والے کم معیار کے ایک علاقے میں تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کرتا ہے۔ جلد ہی وہ محسوس کرتا ہے کہ ریاضی یا کسی دوسرے مضمون کی تعلیم دینے کے بجائے اسے اپنے طلبہ کو یہ بتانا چاہیے کہ انھیں اس معاشرے میں‌ زندہ کیسے رہنا ہے۔ یہ ایک المیے اور تکلیف دہ حالات کی عکاسی کرتی فلم تھی جس میں‌ تعلیم کے بعد طلبہ کی راہ نمائی کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔

    ایجوکیٹنگ ریٹا
    برطانیہ میں 1983ء ہلکی پھلکی کامیڈی کے ساتھ اس فلم میں‌ خود شناسی اور قوّتِ فیصلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ فلم میں‌ یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ تعلیم کے ذریعے ہی کسی فرد کو اپنے بارے میں‌ جاننے اور فیصلہ کرنے میں‌ مدد ملتی ہے۔ فلم میں‌ ایک نوجوان عورت کی زندگی اس وقت بدلتی ہے جب وہ اوپن یونیورسٹی کے تفویض کردہ پروفیسر سے شادی کرنے کی خواہش میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس کے استاد اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے سکھاتے ہیں کہ کوئی بھی اپنے خیالات کی قدر کیسے کرسکتا ہے اور اپنی کسی خواہش کی تکمیل کے لیے فیصلہ کرنا کس قدر ضروری ہے۔

    بریک فاسٹ کلب
    یہ استاد اور طالب علم کے تعلق پر مبنی ایک مختلف کہانی ہے جس میں ان کے تعلیمی نظام اور ان کی آپس میں ہونے والی اونچ نیچ کو اجاگر کیا گیا تھا۔

    اسٹینڈ اینڈ ڈیلیور
    امریکا میں 1988ء میں‌ ایک حقیقی کردار پر مبنی فلم پیش کی گئی جس میں‌ ہائی اسکول کے ریاضی کے استاد کی زندگی کا احاطہ کیا گیا تھا، جو تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی بھاری تنخواہ والی ملازمت چھوڑ دیتا ہے۔ وہ باغی اور غیر منظّم طلبہ کو ترغیب دیتا ہے کہ تعلیم کے ذریعے کس طرح وہ اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔

    ڈیڈ پوئٹس سوسائٹی
    امریکا میں‌ بننے والی 1989ء کی اس فلم نے ایک ایسے حسّاس آدمی کی کہانی بیان کی تھی جسے وہ سب کرنا پڑا جو وہ نہیں کرنا چاہتا، لیکن وہ اپنے تعلیمی ادوار میں‌ جو کچھ سوچتا تھا اور جو کرنا چاہتا ہے وہ نہیں‌ کر پا رہا تھا۔ یہ وہ المیہ ہے جس کا شکار پاکستان جیسے ممالک کے کئی طلبہ اور لوگ ہیں جو اپنی پسند کے مضامین پڑھنے اور کام کرنے سے محروم ہوگئے اور ایسی زندگی گزاری جو دراصل ان کی خواہش نہیں‌ تھی اور اسی باعچ وہ عدم دل چسپی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہ کرسکے۔

  • موجودہ دور میں‌ بی۔ اے کی ڈگری کارآمد تعویذ!

    موجودہ دور میں‌ بی۔ اے کی ڈگری کارآمد تعویذ!

    آپ چاہیں مانیں یا نہ مانیں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، مگر موجودہ دورِ جمہوریت کا یہ ایک اٹل اور متفقہ فیصلہ ہے کہ علم و ادب کے تمام مدارج طے کر لینے کے بعد بھی سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو گریجویٹ نہیں۔

    اپنی جملہ جہالتو ں کے باوجود سب سے بڑا عالمِ وقت وہ ہے جس نے کسی یونیورسٹی سے بی۔ اے کی سند حاصل کی ہے۔

    بات یہ ہے کہ اب سے چالیس برس قبل بی۔ اے کی ڈگری ایک ایسا کارآمد تعویذ اور ایک ایسی جادو کی پڑیا ثابت ہو چکی ہے کہ آپ نے ادھر اس کو استعمال کیا، اُدھر کھل جا سم سم کی آواز کے ساتھ ملازمت کے دروازے کھل گئے اور آپ نے مٹھیاں بھر بھر کر اپنے دامنِ افلاس کو رشوتوں اور مقررہ تنخواہوں سے پُر کرنا شروع کردیا۔

    بی۔ اے کی ڈگری معیارِ علم، معیارِ قابلیت اور معیارِ ذہانت تصور کی جاتی تھی۔ یہی ڈگری گھر والوں اور بزرگوں سے ہر معاملہ میں مشورہ طلب کرواتی تھی اور اسی پر سوسائٹی میں عزت و ذلت کا دار و مدار تھا۔

    والدین نے صاحبزادے کے ہاتھ میں بی۔ اے کی ڈگری دیکھی اور سمجھ گئے کہ صاحبزادے اپنی جملہ جہالتوں کے باوجود قابل ہوگئے۔ اس کے بعد اگر خاندان میں کوئی کٹھن سے کٹھن مرحلہ درپیش ہو تو سب نے آنکھ بند کر کے مشورہ دیا کہ شفاءُ الملک حکیم بی۔ اے صاحب سے رجوع کیجیے۔ اس معاملے میں صحیح مشورہ وہی دے سکتے ہیں، کیوں کہ وہ بی۔ اے پاس ہیں۔ چناں چہ ان کو بلا کر سب سے پہلے ان کی بی۔ اے پاس رائے دریافت کی جاتی تھی۔ وہ باوجود گھریلو اور شادی بیاہ کے معاملے نا تجربہ کار اور ناواقف ہونے کے معاملے کو آنکھیں بند کر کے اس طرح سنتے گویا سمجھ بھی رہے ہیں۔

    ان کی رائے کو ایک فلسفی، ایک مفکر اور ایک نجومی کی رائے سمجھ کر قبول کر لیا جاتا اور ہر شخص واہ وا اور سبحان اللہ کی آوازیں بلند کرتا۔ رفتارِ زمانہ نے اس چیز کو ایک رسم کی شکل دے دی اور اب اس دورِ جہالت میں بھی وہ جوں کی توں سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہے۔

    اور آج کل بھی بی۔ اے پاس صاحبزادے کی دستار بندی اس پرانی وضع پر ہوتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ بی۔ اے پاس لڑکیاں اور لڑکے اپنے آپ کو افلاطونِ وقت اور سقراطِ دوراں سمجھتے ہیں۔“
    (فرقت کاکوری کے قلم سے)

  • امتحان دیے بغیر، گھر بیٹھے ہی کام یابی کی سند حاصل کریں!

    امتحان دیے بغیر، گھر بیٹھے ہی کام یابی کی سند حاصل کریں!

    چند غیر ضروری اعلانات

    آپ کا اپنا اسکول
    انٹرنیشنل انگلش آکسفورڈ اسکول آپ کا اپنا اسکول ہے جو تعلیم کے جدید ترین اصولوں پر کھولا گیا ہے۔

    چند خصوصیات:
    فیس کا معیار نہایت اعلیٰ، شہر کا کوئی اور اسکول فیس کے معاملے میں ہمارے اسکول کا مقابلہ نہیں کرتا۔ انواع و اقسام کے چندے اس کے علاوہ ہیں۔ جن کی تفصیل پرنسپل صاحب کے دفتر سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
    ساتذہ، نہایت محنتی، ایمان دار اور قناعت پسند جن کو بیش قرار تنخواہوں پر رکھا گیا ہے۔ عام ٹیچر کی تنخواہ بھی ہمارے ہاں میونسپل کارپوریشن کے جمعدار سے کم نہیں اور پرنسپل کا مشاہرہ تو کسی بڑی سے بڑی غیر ملکی کمپنی کے چوکی دار کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔

    چھٹیاں:
    چھٹیوں کے معاملے میں بھی ہمارا اسکول دوسرے تمام اسکولوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ ہر ماہ فیس جمع کرانے کے دن کے علاوہ قریب قریب پورا سال چھٹی رہتی ہے۔ جو والدین سال بھر کی فیس اکٹھی جمع کرا دیں ان کے بچوں کو فیس کے دن بھی حاضری دینے کی ضرورت نہیں۔

    ماحول:
    اسکول نہایت مرکزی اور پُر رونق جگہ پر واقع ہے اور شہر کا سب سے قدیمی اوپن ایر اسکول ہے۔ یہاں طلبا کو مناظرِ فطرت سے محبت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ بالکل سامنے ایک سنیما ہے اور ایک سرکس۔ ایک بغل میں موٹر گیراج ہے اور دوسری طرف گٹر باغیچہ جس کی کھاد سارے شہر کو ہرا بھرا رکھنے کی ضامن ہے۔ پروفیسر کیوی کے اصولوں کے مطابق یہاں پڑھائی کتابوں سے نہیں کرائی جاتی بلکہ کسی اور طرح بھی نہیں کرائی جاتی تاکہ طالب علم کے ذہن پر ناروا بوجھ نہ پڑے۔

    نتیجہ:
    اسکول کا نتیجہ کم از کم سو فی صد رہتا ہے۔ کئی بار تو دو سو ڈھائی فی صد بھی ہوجاتا ہے کوئی شخص خواہ وہ طالب علم ہو یا غیر طالب علم۔ اس اسکول کے پاس سے بھی گزر جائے تو پاس ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔ طالبِ علموں پر امتحان میں بیٹھنے کی کوئی پابندی نہیں، سب کو گھر بیٹھے کام یابی کی سندیں بھیج دی جاتی ہیں۔

    (ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے خوشہ چینی۔ طنز ومزاح سے بھرپور یہ سطور تعلیم کے تجارت بننے کے رجحان کی عکاسی کرتی ہے)