فیصل آباد: رانا ثنا اللہ کے گھر پر حملے کے کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 109 ملزمان میں سے 59 کو 10،10 سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ 16 ملزمان کو 3،3 سال قید کا حکم دیا گیا ہے۔
فیصل آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) فیصل آباد نے رانا ثنا اللہ کے گھر پر حملے کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
فیصلہ اے ٹی سی کے جج جاوید اقبال نے تحریر کیا، جو 73 صفحات پر مشتمل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے 109 ملزمان میں سے 59 کو 10،10 سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ 16 ملزمان کو 3،3 سال قید کا حکم دیا گیا، پی ٹی آئی کے 17 قائدین کو 2 دفعات کے تحت 10 سال قید کی سزا دی گئی، جن میں ایم پی اے اسماعیل سیلا سمیت 42 ملزمان کو 16 مختلف دفعات کے تحت سزائیں سنائی گئیں۔
اسی طرح ایم پی اے شاہد جاوید سمیت 16 ملزمان کو 4 دفعات کے تحت 3 سال قید کی سزا سنائی گئی، عدالت نے سزا یافتہ 75 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ فواد چوہدری اور زین قریشی سمیت 34 ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اشتہاری ملزمان قاسم ستی، سمیع اللہ، دلاور، فیصل اور نبیل کی گرفتاری تک شواہد محفوظ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اڈیالہ جیل میں قید اعظم سواتی اور سمابیہ طاہر پیش نہ ہو سکے، جس کے باعث دونوں کا عدالتی ٹرائل ملتوی کر دیا گیا۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے مخصوص نشستوں کے کیس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کا عمل منصب کے منافی قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے دو ججوں کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججوں کے منصب کے منافی قرار دیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا دونوں ججوں نے بارہ جولائی کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا، اکثریتی فیصلے پر جس انداز میں اختلاف کیا گیا وہ سپریم کورٹ کےججوں کو زیب نہیں دیتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ حکم نامہ میں ہم نے مینڈیٹ کو نظرانداز کیا، وہ وجوہات بھی بتائیں کہ دوسرےججوں کی رائے میں غلط کیا ہے۔۔ دونوں ججوں کا اختلاف کا انداز سپریم کورٹ کے ججوں کیلئے درکار شائستگی اور تحمل سے کم ہے۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اختلافی نوٹ میں دونوں ججوں نے اسّی کامیاب امیدواروں کو وارننگ دی، رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کرگئے۔۔ دونوں ججوں کا یہ عمل عدالتی کارروائی اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے
GFX
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، آئین وقانون کسی شہری کوانتخاب لڑنےسےنہیں روکتا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔
جس میں کہا گیا ہے کہ پشاورہائیکورٹ کےمخصوص نشستوں سےمتعلق فیصلےکوکالعدم قراردیتےہیں، الیکشن کمیشن کایکم مارچ کوفیصلہ آئین سےمتصادم ہے، الیکشن میں بڑااسٹیک عوام کاہوتاہے، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلےکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ اردومیں بھی جاری کرنے کا حکم دیا اور فیصلے میں کہا کہ آئین یاقانون سیاسی جماعت کوانتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، انتخابی نشان نہ دیناسیاسی جماعت کےانتخاب لڑنےکےقانونی وآئینی حق کو متاثر نہیں کرسکتا۔
تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے2024کےانتخابات میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتیں، الیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی کے80 میں سے39 ایم این ایز کوپی ٹی آئی کاظاہرکیا اور الیکشن کمیشن کوحکم دیاکہ باقی41 ایم این ایز کے 15روز کے اندر دستخط شدہ بیان لیں۔
عدالت نے کہا کہ عوام کی خواہش اورجمہوریت کےلیےشفاف انتخابات ضروری ہیں، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتاہے، یہ سمجھنےکی بہت کوشش کی کہ اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں تاہم اس سوال کاکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کےامیدوارتھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ دیا۔
عدالت نے بتایا کہ 8 ججز نے تفصیلی فیصلے میں 2 ججز کے اختلافی نوٹ پرتحفظات کااظہاربھی کیا اور جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان نے12جولائی کےفیصلےکوآئین سے متصادم قرار دیا، جس انداز میں 2 ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق ساتھی ججزدوسرےججزکی رائےپرکمنٹس دےسکتےہیں، رائے دینے کیلئے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرےججزکی رائےمیں کیاغلط ہے، جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان کاعمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ بھاری دل سےبتاتےہیں 2 ساتھی ججز نے ہمارے فیصلےسےاتفاق نہیں کیا، بطوربینچ ممبران قانونی طورپرحقائق اورقانون سےاختلاف کرسکتےہیں، جس طریقے سے ججز نے اختلاف کیا وہ سپریم کورٹ کے ججز کے تحمل اورشائستگی سے کم ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 2ججزکایہ عمل عدالتی کارروائی اورفراہمی انصاف میں رکاوٹ ڈالنےکی کوشش ہے، 2ججز نے80 کامیاب امیدواروں کووارننگ دی اور پریشان کن بات یہ ہےکہ ججز اپنی رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کرگئے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کاضامن اورحکومت کاچوتھاستون ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پرپی ٹی آئی کےامیدواروں کونوٹیفائی کرے، پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدارہے، آئین وقانون کسی شہری کوانتخاب لڑنےسےنہیں روکتا۔
فیصلے کے مطابق عوام کی خواہش اور جمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ اپنانے کا اختیار دیتاہے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کیلئےاہم ہے، پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طورپرفریق بننےکی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے ن لیگ کی رہنما مریم نواز کی عام انتخابات میں کامیابی کے خلاف درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
انتخابی نتائج کے خلاف درخواست کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کی جاتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کا فارم 47مرتب کرتے وقت آراو کے پاس موجود ہونا ضروری نہیں، درخواست گزار الیکشن کمیشن سے رجوع کرسکتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن مذکورہ درخواست پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے مذکورہ تفصیلی فیصلہ آزاد امیدوار شہزاد فاروق کی درخواست پرجاری کیا، جس میں این اے 119 لاہور سے مریم نواز کی کامیابی کو چیلنج کیا گیا۔
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں این اے 119 سے مریم نواز کی کامیابی کے انتخابی نتائج روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی عدالت میں آزاد امیدوارشہزاد فاروق کےوکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز فارم 45 کے مطابق ہار چکی ہیں، ریٹرنگ افسر نے مبینہ طور پر مریم نواز کو فاتح قرار دیا ہے۔
اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کا تفصیلی فیصلہ آگیا، فیصلہ 30 صفحات پر مشتمل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا، ایڈیشنل سیشنزجج ہمایوں دلاورنے 30 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کےوکلاکوگواہان پر جرح کرنے کیلئےمتعددموقع فراہم کیےگئے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کو گواہان پرجرح مکمل کرنےمیں4 دن لگے۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ وکیل الیکشن کمیشن نے 26 جولائی کو تمام شہادتیں اور شواہد مکمل کرلیے تھے، 10 مئی کو گرفتار کر کے چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت لایا گیا اور فرد جرم عائد کی گئی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ 24 جولائی کو چیئرمین پی ٹی آئی 50 سے زائد وکلاکے ہمراہ عدالت پیش ہوئے، ان کے وکیل انتظارپنجوتھا نے نعرے بازی سےعدالتی کارروائی پراثراندازہونےکی کوشش کی اور عدالتی کارروائی کوچیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا نے پریشان کیا جس پر عدالت نے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ خواجہ حارث کی زبانی معافی پر عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی 31جولائی کو عدالت پیش ہوئے، یکم اگست کو 342بیان ریکارڈ کروایا۔
عدالتی فیصلے میں کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکشن 340 کے تحت حلف پر جرح کیلئے پیش نہ ہونے کا انتخاب کیا اور چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی طرف سے عدالت میں گواہان پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
عدالت نے کہا کہ 2 اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی کو اپنے گواہان عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیاگیا تو بیرسٹر گوہرعلی خان 2اگست کو عدالت پیش ہوئے، گواہان کی لسٹ دی اور سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دی، 4 گواہان کےبیان قلمبند کرنے کی درخواست کیس سےغیرمتعلقہ ہونے کےباعث مستردکی۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے سوالنامے کا جواب دیتے ہوئےکہا کیس سیاسی بنیادوں پر درج کیاگیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق کیس پی ڈی ایم کے کہنے پر درج کیاگیا اور دونوں گواہوں کو سرکار نے استعمال کیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق انہیں کیسزاورقاتلانہ حملوں کےذریعےانتخابات سے باہر کرنا چاہتی ہے۔
کراچی: شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان شاہ رخ جتوئی سمیت 4 ملزمان سپریم کورٹ کےحکم پر آج رہا ہونگے۔
تفصیلات کے مطابق 10سال قبل نوجوان شاہ زیب کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا، مقتول کے والدین کی جانب سے دیت عوض ملزمان کومعاف کردیا گیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے انسداددہشت گری دفعات کو لعدم قرار دیکر ملزمان کورہا کرنےکا حکم دیا ہے۔
شاہ زیب قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ فریقین کے درمیان صلح ہو چکی ہے اس لیے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور سمیت دیگر ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔
عدالت کے مطابق صلح کے بعد سزا ختم ہونے سے متعلق متعدد عدالتی فیصلے موجود ہیں جبکہ مقدمے میں دہشتگردی کا کوئی عنصر نہیں ہے، ذاتی رنجش اور جھگڑے میں دہشت گردی کی دفعات نہیں لگائی جاسکتیں ہیں اس لیے انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت ملزمان کی سزا ختم کی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کے وکلا اور والدین آج رہائی کا آرڈر جیل حکام کودیں گے۔
اسلام آباد: سابق صدر و آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کےخلاف آئین شکنی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ 169 صفحات پر مشتمل ہے۔
عدالت نے فیصلے کی کاپی میڈیا کو نہ دینے کا حکم دیا، بعد ازاں پرویز مشرف اور وزارت داخلہ کے نمائندوں کو فیصلے کی کاپی فراہم کردی گئی۔ دونوں نمائندے تفصیلی فیصلے کی کاپی لے کر خصوصی عدالت سے روانہ ہوگئے۔
پرویز مشرف کو سزا سنانے والے خصوصی عدالت کا بینچ جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل تھا۔
تفصیلی فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟
تفصیلی فیصلے میں خصوصی عدالت کے جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ موجود ہے، جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں پرویز مشرف کو بری کر دیا۔
اپنے اختلافی نوٹ میں انہوں نے لکھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔
بینچ کے بقیہ 2 ججز جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ سزائے موت کا حکم 3 میں سے 2 ججز کی اکثریت پر دیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جمع کروائے گئے دستاویزات واضح ہیں کہ ملزم نے جرم کیا۔ ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبے کے بغیر ثابت ہوتے ہیں۔ ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدر و سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور شدید علیل ہیں۔ وہ اپنے کیس کی پیروی کے لیے ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
گزشتہ روز ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے پرویز مشرف نے فیصلے پر رد عمل میں کہا تھا کہ مجھے ان لوگوں نے ٹارگٹ کیا جو اونچے عہدوں پر فائز اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو مشکوک سمجھتا ہوں، ایسے فیصلے کی مثال نہیں ملتی جہاں دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔ کیس میں قانون کی بالا دستی کا خیال نہیں رکھا گیا۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ وہ جج جنہوں نے میرے زمانے میں فوائد اٹھائے وہ کیسے میرے خلاف فیصلے دے سکتے ہیں۔ اس کیس کو سننا ضروری نہیں تھا، اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد کروں گا۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اضافی نوٹ دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آنے والے وقت کے لیے معاملہ پارلیمان کے سپرد کر رہے ہیں، پارلیمان کو سپرد کرنے کا مقصد ہے کہ مستقبل میں غلطیاں نہ ہوں، پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت ملازمت کو یقینی بنائے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوران سماعت 26 نومبر2019 کو حکومت نے راتوں رات ایکسٹینشن کا لفظ شامل کیا، قانون میں جنرل کی مدت ملازمت، ریٹائرمنٹ کی عمر نہ ہونے پر طریقہ کار کا فائدہ نہ تھا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت پر حکومت نے ریگولیشن255 کے تحت 3 سال تک محدود کیا، پھر آرٹیکل 243(4) کے تحت دوبارہ تین سال کے لیے تعیناتی کی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے 6 ماہ میں قانون سازی کی یقین دہانی کرائی، اس بات کو ٹھیک سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کو فی الحال 6 ماہ کی توسیع دی جائے، نئی قانون سازی مدت ملازمت میں توسیع اور دیگر معاملات کا تعین کرے گی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں آرمی چیف کے تقرر کا طریقہ درج ہے، مدت ملازمت میں توسیع یا دوبارہ تقررکا کوئی تذکرہ نہیں ہے، آرمی ایکٹ میں دیگر افسران کی ریٹائرمنٹ کی مخصوص حالات میں معطلی کا قانون ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون موجود نہیں ہے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع محدود مدت کے لیے دی گئی۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ اگر قانون نہ بن سکا تو 6 ماہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ ہوجائیں گے، مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے بے ضابطہ نہیں چھوڑیں گے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 6 ماہ میں فیصلہ نہ ہوسکا تو صدر پاکستان نیا آرمی چیف مقرر کریں گے، آرمی ایکٹ میں موجود سقم آرمی ایکٹ فوج کے لوازمات کو پورا نہیں کرتا، صدر کو تعیناتی آرٹیکل 243 کی شق 4 کے تحت کرنی ہوتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر موجود نہیں ہے، روایت رہی کہ 3 سال میں جنرل ریٹائر ہو جاتا ہے، روایت سے آرمی چیف کے عہدے پرغیر یقینی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی تاریخ موجود ہے، سماعت کے پہلے دن درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوا، پہلی بار یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں آیا، ہمارے سامنے مقدمہ تھا کیا مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ 3 سال کی توسیع کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، قانون وآئین میں مدت ملازمت میں توسیع کی گنجائش موجود نہیں ہے، وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ وزیراعظم کو ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے، ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا موثر متبادل نہیں ہوسکتی، پہلے مرحلے میں آرمی چیف معاملے کو قانون سازی سے منضبط کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ صدر کی جانب سے وزارت دفاع کی سمری بھی بے نتیجہ دکھائی دیتی ہے، وفاقی کابینہ کی منظوری بے معنی اور بے نتیجہ دکھائی دیتی ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ،عملدرآمد انتظامیہ اور تشریح عدلیہ کا کام ہے، آرمی چیف کی توسیع سےمتعلق قانون خاموش ہے۔
اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری کی عبوری ضمانت منسوخی کے تفصیلی فیصلہ میں کہا نیب کی آصف زرداری کو گرفتار کرنے میں کوئی بدنیتی نہیں، نیب نے تحقیقات کا ریکارڈ پیش کیا اور تمام پہلودیکھنے کے بعد ضمانت خارج کی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری کی عبوری ضمانت منسوخ کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ 7صفحات پرمشتمل ہے، فیصلے پر جسٹس عامرفاروق اورجسٹس محسن اخترکیانی کےدستخط ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعلی عدلیہ کے فیصلوں کے مطابق گرفتاری میں بدنیتی ہوتو عبوری ضمانت دی جا سکتی ہے، اور غیر معمولی حالات بھی ہونے چاہیئں، نیب کی آصف زرداری کو گرفتار کرنے میں کوئی بدنیتی نہیں، سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق نیب نے اتھارٹی استعمال کی۔
فیصلے میں مزید کہاگیاکہ وائٹ کالر کرائم کی آسانی سے نشاندہی نہیں کی جاسکتی،نیب نے ملزم سے تفتیش کرنا تھی ۔۔نیب نےآصف زرادری کی تحقیقات سے متعلق ریکارڈ پیش کیا ، منی لانڈرنگ اور دیگر معاملات پردستاویزات جمع کرائی گئیں اور تمام پہلودیکھنے کے بعد آصف زرداری کی عبوری ضمانت خارج کردی۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق آرٹیکل 91 کےتحت تفتیش کرنے کیلئے گرفتاری کی استدعا کی گئی، آصف زرداری کی درخواست میرٹ پرنہ ہونے کے باعث خارج کر دی گئی۔
یاد رہے 10 جون کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی اور گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد نیب ٹیم نے سابق صدر آصف زرداری کو بلاول ہاؤس سے گرفتار کرلیا تھا۔
بعد ازاں سابق صدرآصف زرداری کو آج احتساب عدالت میں پیش کیا گیا ، جہاں عدالت نے آصف زرداری کو 21 جون تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔
خیال رہے کیس میں آصف زرداری،فریال تالپورکی عبوری ضمانت میں 6 بار توسیع کی گئی، آصف زرداری اور فریال تالپور پر جعلی اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کاالزام ہے جبکہ جعلی اکاؤنٹس کا مقدمہ احتساب عدالت میں زیر التوا ہے۔
اسلام آباد : عدالت عظمیٰ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے تفصیلی فیصلہ میں کہا ہے کہ نئےچیف جسٹس نیب رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے عمل درآمد بینچ تشکیل دیں ، نیب مراد علی شاہ، بلاول بھٹو اور دیگر کےخلاف تحقیقات جاری رکھے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کاتحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے،25صفحات پرمشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز الحسن نے تحریر کیا۔
فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی اپنی تحقیقات مکمل کرکے فوری طور پر نیب کو بھجوائے گی، جے آئی ٹی کے تمام ممبران نیب کو مزید تحقیقات میں معاونت کریں گے، جے آئی ٹی نامکمل معاملات کی تحقیقات جاری رکھے گی، نیب جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں اپنی تحقیقات مکمل کرے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر تحقیقات میں جرم بنتا ہو تو احتساب عدالت میں ریفرنس فائل کئے جائیں، نیب ریفرنس اسلام آباد نیب عدالت میں فائل کئے جائیں، چیئرمین نیب مستند ڈی جی کو ریفرنس کی تیاری اور دائر کرنے کی ذمہ داری دیں، مستند افسران پر مشتمل ٹیم ریفرنسز کی پراسیکیوشن کے لئے تشکیل دی جائے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق نیب اپنی 15روزہ تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی، نیب رپورٹ کا جائزہ سپریم کورٹ کا عمل درآمد بینچ لے گا، نئےچیف جسٹس نیب رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے عمل درآمد بینچ تشکیل دیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں رکھنے سے ان کے کام میں مسائل پیدا ہوں گے، ان کی نقل وحرکت میں رکاوٹ ہوگی، لہٰذا بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کا نام فی الحال ای سی ایل سے نکالا جائے۔
نیب کو بلاول بھٹو، مراد علی شاہ کے خلاف تحقیقات میں رکاوٹ نہیں ہوگی تاہم نیب مراد علی شاہ، بلاول بھٹو اور دیگر کےخلاف تحقیقات جاری رکھے، دونوں رہنماؤں کے خلاف شواہد ہیں تو ای سی ایل میں نام کیلئے وفاق سے رجوع میں رکاوٹ نہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ کرپشن، منی لانڈرنگ، کمیشن اور سرکاری خزانے میں بے ضابطگیوں کا ہے، شواہد، مختلف دستاویز پر مبنی جے آئی ٹی رپورٹ پر کیس بنتا ہے، جے آئی ٹی کے مطابق یہ معاملہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا بھی ہے، جے آئی ٹی کی سفارشات پر نیب کارروائی کرے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے وکلاء عدالت کو متاثر کن دلائل نہیں دے سکے، چند وکلاء نے تسلیم کیا کہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، جے آئی ٹی نے تحقیقات میں سنگین جرائم کی نشاندہی کی ہے، نیب کو جعلی منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کیلئے دو ماہ کا وقت دیاجاتا ہے۔
تفصیلی فیصلہ کے مطابق فاروق ایچ نائیک ان کے بیٹے انورمنصوراور ان کے بھائیوں کے نام رپورٹ میں ہیں، متعلقہ افراد کے نام صرف فیس کی وجہ سے ہیں تو نیب تحقیقات کرے۔
نیب متعلقہ افراد سےمتعلق جےآئی ٹی کے شواہد پر تحقیقات کرے، جرم ثابت نہ ہونے پر ہی نام جے آئی ٹی اور ای سی ایل سے نکالے جائیں، شواہد ملنے پر نیب ان افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔