Tag: تقریب رونمائی

  • "کتاب کی تقریبِ رونمائی اور میں!”

    "کتاب کی تقریبِ رونمائی اور میں!”

    کل مجھے ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی میں جانا پڑا۔ لفظ ”پڑا“ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اب ایسی تقریبات میں جانے کو دل بالکل نہیں چاہتا کہ یہ اپنے مقررہ وقت سے تین چار گھنٹے بعد شروع ہوتی ہیں۔

    رونمائی خواہ دلہن کی ہو یا کتاب کی۔ تقریب کا تاخیر سے شروع ہونا معمول کی بات ہے۔ چوں کہ میرے لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ سرِ شام دفتر سے پہلے گھر جاؤں اور پھر بعد مغرب نکل کر کتاب کی تقریبِ رونمائی کے لئے آؤں، لہٰذا۔۔۔ ان تقریبات میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے لیکن اس کا کیا علاج کہ بعض لوگوں کے منہ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر مروّت سے کام لینا پڑتا ہے۔ یعنی منہ دیکھے کی مروّت میں ماری جاتی ہوں۔ مروّت واقعی بُری چیز ہے۔

    بہرکیف۔۔۔ ذکر ہورہا تھا ایسی ہی ایک تقریبِ رونمائی کا جہاں منہ دیکھے کی مروّت میں جانا پڑا۔ تقریب کا وقت ساڑھے چار بجے شام مقرر تھا۔ میں ساڑھے پانچ بجے پہنچی تو مہمانِ خصوصی اور دیگر مقررین کا ذکر تو کجا خود صاحبِ کتاب یعنی ”میزبانِ خصوصی“ اور حاضرینِ محفل کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ گنتی کے چار لوگ بیٹھے تھے۔ محاورتاً نہیں حقیقتاً، میں بھی انہی ”مجبوروں“ میں شامل ہوگئی، جنہیں وقت پر پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ ساڑھے پانچ سے چھ اور ساڑھے چھ بھی بج گئے۔ حاضرین کی تعداد تو بتدریج بڑھتی رہی مگر میزبان، مقررین سب غائب۔ پونے سات بجے میزبان کی صورت نظر آئی۔ سات بجے، جب میں نے واپسی کی راہ لی، تقریب شروع ہونے کے دور دور تک آثار نہ تھے۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق مہمانِ خصوصی ”ٹھیک“ ساڑھے سات بجے تشریف لائے۔ دیگر مقررین پروگرام کے اختتام تک نہ آسکے۔ آخر آٹھ بجے کچھ ”فی البدیہہ مقررین“ کی موجودگی کو غنیمت جان کر پروگرام شروع کیا گیا۔

    اس قسم کی تقریبات میں جا کر مجھے یہ احساس شدت سے ستاتا ہے کہ آخر ہم لوگ وقت کی پابندی کرنا کب سیکھیں گے؟ اس سلسلے میں منتظمین کی جانب سے ہمیشہ یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ چوں کہ ”لوگ“ وقت پر نہیں آتے لہٰذا پروگرام میں تاخیر ہوتی ہے۔ آخر یہ ”لوگ“ کون ہیں۔ مہمانِ خصوصی، مقررین یا حاضرین؟ جہاں تک حاضرین کا تعلق ہے تو ان کی سو فی صد حاضری ضروری نہیں۔ ایک مرتبہ آپ جی کڑا کر کے دس حاضرین کی موجودگی میں تقریب شروع کرا دیں، آئندہ لوگ وقت پر نہ آئیں تو میرا ذمہ۔ اتنی بڑی ذمہ داری اتنی آسانی سے میں اِس لئے لے رہی ہوں کہ یہ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ جو لوگ وقت کے پابند ہیں ان کی تقریبات میں حاضرین بھی وقت کی پابندی کرتے ہیں لیکن جہاں خود میزبانِ خصوصی کا یہ عالم ہو کہ تقریب کے وقت سے دو گھنٹے تاخیر سے پہنچے، وہاں ہما شما حاضرین سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟

    سوال یہ ہے کہ آخر پابندیٔ وقت کی عادت کیسے ڈالی جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس مسئلے کا سب سے آسان اور موزوں حل یہ ہے کہ ان ”تقریب کاروں“ یعنی منتظمین کو تربیت کی خاطر صرف ایک ہفتے کے لئے ”تخریب کاروں“ کے حوالے کر دیا جائے۔ کراچی کے رہنے والوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ یہ تخریب کار وقت کے کتنے پابند ہیں۔ ان کا کوئی آپریشن ہو، مجال ہے کہ ایک منٹ تو کجا ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر ہوجائے۔ اگرچہ کراچی کے باہر کے لوگوں کا ان تخریب کاروں سے اتنا واسطہ نہیں پڑتا۔ تاہم، جتنا بھی پڑتا ہے وہ یہ باور کرانے کے لئے کافی ہے کہ یہ تخریب کار وقت کی کتنی قدر کرتے ہیں۔ انہیں بس اسی ایک چیز کی تو قدر ہے ورنہ یہ تو وہ برین واشڈ، بے نیاز لوگ ہیں کہ انسانی جان بلکہ انسانیت تک کی پروا نہیں کرتے اور اسے ہر دم اپنی ٹھوکروں میں رکھتے ہیں۔

    سیانوں کا قول ہے کہ وقت کی قدر کرو، ایسا نہ ہو کہ پھر کل وقت خود تمہاری قدر نہ کرے۔ لگتا ہے کہ ان تخریب کاروں نے اس قول کو نہ صرف خوب پڑھا ہے بلکہ اپنی گرہ میں بھی باندھ لیا ہے۔ لہٰذا وقت سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ وقت کی قدر کرنے کا ہی فیض ہے کہ آج تک ان کا کوئی ”آپریشن“ ناکام نہیں ہوا۔ ورنہ اس ملک میں جتنے آپریشن کئے گئے ہیں ان میں ماسوائے آپریشن ”فیئر پلے“ کے اور کوئی آپریشن شاید ہی کامیاب ہوا ہو۔ اس اکلوتے آپریشن کی کامیابی کی وجہ بھی پابندیٔ وقت ہے۔ اگر جنرل ضیاالحق (مرحوم) اُس رات اتنی پھرتی نہ دکھاتے تو صبح ذوالفقار علی بھٹو(مرحوم) اُن کا دھڑن تختہ کر چکے ہوتے۔

    خیر یہ بات تو یونہی برسبیلِ تذکرہ نکل آئی۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ اس ملک میں حکیم محمد سعید کے بعد اگر کوئی اور وقت کا پابند ہے تو وہ یہ تخریب کار ہی ہیں۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ اچھی عادت حکیم صاحب سے ہی سیکھی ہے یا۔۔۔ اگر سیکھی بھی ہے تو کیا بُرا کیا۔ اچھی عادت کہیں سے ملے اسے اپنانا ہی چاہیے۔

    (سینئر صحافی اور مصنّف حمیرا اطہر کے 1992ء کے ایک مطبوعہ کالم سے اقتباس)

  • اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کو کیسے خطرہ ہو سکتا ہے؟ رضا ربانی

    اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کو کیسے خطرہ ہو سکتا ہے؟ رضا ربانی

    اسلام آباد : چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ تمام ادارے آئین کے دائرے میں رہ کر اپنا کام کریں و گرنہ خاکم بدہن اداروں کے درمیان محاز آرائی وفاق کے لیے نقصان دہ ہوگی.

    وہ سینیئر سیاست داں جاوید ہاشمی کی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے، رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے اور 80 فیصد لوگ مسلمان ہیں چنانچہ جوملک اسلام کی بنیاد پر بنا اس میں اسلام کو کیسے خطرہ ہوسکتا ہے؟ لیکن بدقسمتی سے مذہب کو سیاسی ایجنڈا بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے.

    انہوں نے کہا کہ ضیاء دور میں منصوبے کے تحت طلبہ تنظیموں کو کالعدم کیا گیا اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ طلبہ تنظیموں کو بحال کیا جائے آئین میں ہے ریاست کا مذہب اسلام ہے آرٹیکل 31 کو آرٹیکل 2 کے ساتھ پڑھا جائے تو بات اور واضح ہوجاتی ہے پاکستان کےعوام کی محبت دین کے ساتھ ہے.

    چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ آئین کہتا ہے کہ پرائیویٹ لشکر نہیں بن سکتے اور وہ بن رہے ہیں لیکن یہاں آئین کی خلاف ورزی ہمیں نظرنہیں آتی ہے اور ہم سب چپ سادھے بیٹھے ہوتے تھے یہ دہرا معیار ختم کرنا ہوگا.

    انہوں نے کہا کہ جاوید ہاشمی صاف و شفاف اور قابل تقلید سیاست دان ہیں جنہوں نے ہمیشہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کی ہے اور جو آج بھی جاری ہے جس پر انہیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے.

  • ورلڈ کپ 2015 کی ٹرافی کی تقریب رونمائی لاہورمیں منعقد

    ورلڈ کپ 2015 کی ٹرافی کی تقریب رونمائی لاہورمیں منعقد

    لاہور: ورلڈ کپ دو ہزار پندرہ کی ٹرافی کی تقریب رونمائی لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی، تقریب رونمائی میں مصباح الحق سمیت معین خان سمیت سی او او سبحان احمد نے شرکت کی۔

    ورلڈ کپ کرکٹ اگلے برس فروری میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مشترکہ طور پر منعقد ہورہا ہے، اسی سلسلے میں ورلڈ کپ کی ٹرافی دنیا کا چکر لگارہی ہے، عالمی کپ کی ٹرافی آج افغانستان سے پاکستان پہنچی تو پی سی بی کے آفیشلز ٹرافی کا استقبال کیا۔

    اس سے قبل ٹرافی نے سری لنکا، بھارت ، بنگلادیش ، انگلینڈ ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کا دورہ کیا۔

    ورلڈ کپ ٹرافی کا مینارِ پاکستان کے سائے تلے بھی ایک تقریب کا انعقاد کیا جائے گا، جہاں عام شہری بھی ٹرافی کو دیکھ سکیں گے۔

    عالمی کپ کی ٹرافی پاکستان میں تین دن قیام کے بعد جنوبی افریقہ روانہ ہوگی۔