Tag: تقسیم ہند

  • اردو ادب میں تقسیمِ ہند اور ہجرت کی کہانیاں

    اردو ادب میں تقسیمِ ہند اور ہجرت کی کہانیاں

    تقسیم ہند کے اعلان اور اس کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے اور جو فضا بنی، اس نے اردو ادب پر گہرا اثر ڈالا جس کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے۔ تقسیم اور آزادی کے موضوع پر بڑے مؤثر افسانے لکھے گئے۔ تقسیمِ ہند اور لاکھوں انسانوں کی سرحد کے دونوں اطراف ہجرت ایک ایسا موضوع ہے جس نے اردو ادب کو کئی لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا ہے۔ یہ افسانے بھی ہیں اور ناول بھی جن کی کہانیاں حزنیہ اور طربیہ بھی ہیں۔ یہ انسان کی مختلف شکلوں‌ اور اس کے مختلف روپ ہمارے سامنے لاتی ہیں۔

    برصغیر کی تاریخ اور خاص طور پر تقسیم اور ہجرت کے موضوع میں‌ دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس حوالے سے چند ادیبوں‌ اور ان کی تخلیقات کا تذکرہ پیش ہے۔

    اردو ادب میں اگر اس دور سے جڑے انسانی المیوں کی حقیقی لفظی جھلکیاں‌ کسی نے پیش کی ہیں‌ تو وہ سعادت حسن منٹو ہیں۔ اس ادیب کی تحریروں کا مجموعہ ’سیاہ حاشیے‘ ان مختصر کہانیوں پر مشتمل ہے جو ظلم اور ناانصافی کے ماحول کی مؤثر تصویر کشی کرتی ہیں۔

    تقسیم کے پس منظر میں انھوں‌ نے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جیسا افسانہ لکھا جسے کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

    پاکستان کے نام ور ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے بھی اس دور کے فسادات کو موضوع بنایا۔ اسی طرح شوکت صدیقی، ڈاکٹر انور سجاد، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد نے بھی افسانے، کہانیاں اور ناولوں میں‌ تقسیم اور ہجرت کے المیوں، خوشی اور دکھ کی مختلف کہانیاں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔

    متحدہ ہندوستان اور اُس سماج کی مختلف شکلیں‌ عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ اور قرۃ العین حیدر کے ’آگ کا دریا‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں جو دراصل ہندوستان کی قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ کئی انسانی المیوں کی داستان ہے۔

    اُس زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات کی لفظی عکاسی کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات کو ہمارے سامنے پیش کرتی تخلیقات میں ’کفن دفن، فساد، اندھیرا اور اندھیرا، ہفتے کی شام، لاجونتی، پشاور ایکسپریس، امرتسر اور لال باغ‘ بھی شامل ہیں۔

  • شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ ہند کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور مذہب کی بنیاد پر فسادات میں قتل و غارت گری پر کئی افسانے اور مضامین سپردِ‌ قلم کیے ہیں جو زمین پر لکیر کھینچے جانے کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور اس وقت کے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ لرزہ خیز اور نہایت درد ناک بھی ہیں اور بعض جگہ ان واقعات کی بدولت ایک مضحکہ خیز اور دل چسپ صورتِ حال نے جنم لیا۔

    منٹو ایک مضمون میں دو ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جو اسی دور میں بلوے اور لڑائی جھگڑوں‌ کے دوران پیش آئے۔ یہ غالباً ہندوستان کے کسی شہر میں پیش آنے والے دو دل چسپ واقعات ہیں۔ منٹو لکھتے ہیں:

    ایک سڑک پر ایک انگریز اپنی موٹر میں جا رہا تھا۔ چند آدمیوں نے اس کی موٹر روک لی۔ انگریز بہت گھبرایا کہ نہ معلوم یہ سر پھرے لوگ اس کے ساتھ کس قسم کا وحشیانہ سلوک کریں گے، مگر اس کو حیرت ہوئی جب ایک آدمی نے اس سے کہا، ’’دیکھو، اپنے شوفر کو پیچھے بٹھاؤ اور خود اپنی موٹر ڈرائیو کرو۔۔۔ تم نوکر بنو اور اس کو اپنا آقا بناؤ۔‘‘ انگریز چپکے سے اگلی سیٹ پر چلا گیا۔ اس کا شوفر بوکھلایا ہوا پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بلوہ پسند لوگ اتنی سی بات پر خوش ہو گئے۔ انگریزکی جان میں جان آئی کہ چلو سستے چھوٹ گئے۔

    ایک جگہ بمبئی کے ایک اردو فلمی اخبار کے ایڈیٹر صاحب پیدل جا رہے تھے۔ بل وصول کرنے کی خاطر انہوں نے سوٹ ووٹ پہن رکھا تھا۔ ہیٹ بھی لگی تھی۔ ٹائی بھی موجود تھی۔ چند فسادیوں نے انہیں روک کر کہا، ’’یہ ہیٹ اور ٹائی اتار کر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ ایڈیٹر صاحب نے ڈر کے مارے یہ دونوں چیزیں ان کے حوالے کر دیں۔ جو فوراً دہکتے ہوئے الاؤ میں جھونک دی گئیں۔ اس کے بعد ایک نے ایڈیٹر صاحب کا سوٹ دیکھ کر کہا، ’’یہ بھی تو انگریزی ہے، اسے کیا نہیں اتروانا چا ہیے۔‘‘ ایڈیٹر صاحب سٹپٹائے کہ اب کیا ہوگا، چنانچہ انہوں نے بڑی لجاجت کے ساتھ ان لوگوں سے کہا، ’’دیکھو، میرے پاس صرف یہی ایک سوٹ ہے جسے پہن کر میں فلم کمپنیوں میں جاتا ہوں اور مالکوں سے مل کر اشتہار وصول کرتا ہوں۔ تم اسے جلا دو گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ میری ساری بزنس برباد ہو جائے گی۔‘‘ ایڈیٹر صاحب کی آنکھوں میں جب ان لوگوں نے آنسو دیکھے تو پتلون اور کوٹ ان کے بدن پر سلامت رہنے دیا۔

  • بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

    بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

    یہ بیگم انیس قدوائی کا مختصر تعارف اور ان کی اُس خود نوشت کی تحریری جھلک ہے جو ایک طرف تو متحدہ ہندوستان کے حالات اور بٹوارے کی کرب انگیز کہانیاں سناتی ہے اور دوسری طرف اسے پڑھ کر ہم اس زمانے کی کئی نمایاں شخصیات اور ان کے کارناموں سے بھی واقف ہوسکتے ہیں۔

    کتاب کی مصنّف بیگم انیس قدوائی نے اس آپ بیتی میں ایک جگہ لکھا ہے۔

    "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔”

    بیگم انیس قدوائی گاندھی اور ان کی فکر سے بہت متاثر تھیں۔ گاندھی بھی ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ انیس کے شوہر کی بٹوارے کے موقع پر ہلاکت کے بعد گاندھی جی نے دل گرفتہ اور مایوس انیس قدوائی کے نام اپنے خط میں لکھا: "تمہارا درد اتنا وزنی ہے کہ اس کو سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے، یہ درد بانٹنا مشکل ہے لیکن تم تو انیس ہو، تم ان کیمپوں میں جاؤ، جہاں ایسے ہی مایوس دلوں کی بھیڑ لگی ہے۔ جاؤ اور انہیں دلاسہ دو۔ کیوں کہ تم ہی ایسا کرسکتی ہو۔”

    انیس قدوائی نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ ایک باشعور عورت، علم و ادب کی شوقین خاتون ہی نہیں رہیں، بلکہ ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی شہرت پائی، ایک ایسی خاتون جس نے بلا تفریقِ مذہب و ملّت بٹوارے کے موقع پر فسادات سے متاثرہ خاندانوں کو سنبھالا اور ان کی باقی ماندہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ بن پڑا، وہ کیا۔

    اگر ہندوستان میں ادبی دنیا پر نظر ڈالیں تو انیسویں صدی میں خواتین نے جہاں ناول، افسانہ، مختلف موضوعات پر تحریریں‌ لکھ کر نام و مقام بنایا وہیں آپ بیتیاں بھی سامنے آئیں اور ان میں ہم متحدہ ہندوستان کے حالات، دلّی کی بربادی کا قصّہ، آزادی کی جدوجہد اور تقسیمِ ہند کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔ بیگم انیس قدوائی کی خود نوشت نے بھی قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ان کی یہ آپ بیتی ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی اور بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس میں انیس قدوائی نے اپنے فلاحی کاموں اور اس دوران ہونے والے تجربات کے ساتھ ہندوستان کی تاریخی اور سماجی تصویر بھی پیش کی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا۔ یہ خود نوشت ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں 1947 میں آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اس کے کچھ سال بعد کا احاطہ کیا گیا ہے۔

    ادیب اور سماجی کارکن انیس قدوائی بارہ بنکی کے مشہور نیشنلسٹ قدوائی خاندان کی فرد تھیں۔ وہ بھارت میں 1956 سے 1968 تک راجیہ سبھا کی رکن بھی رہیں۔ ان کے والد وکیل تھے اور معروف اخبار ’کامریڈ‘ اور ’نیو ایرا‘ میں مزاحیہ کالم بھی لکھتے تھے۔

    بیگم قدوائی 1902ء میں پیدا ہوئیں اور 1982ء تک حیات رہیں۔ ان کے خاوند کا نام شفیع احمد قدوائی تھا اور ان کے بھائی اُس وقت کے وزیرِ قانون رفیع احمد قدوائی تھے۔ خاوند کے فسادات میں مارے جانے کے بعد بیگم صاحبہ لاوارث بچّوں کو تحفظ دینے اور ان کی دیکھ بھال کے اداروں کے قیام کے لیے کوشاں رہیں۔

    یہ خود نوشت اردو نثر کی کسی بھی مصنّفہ کی سواںح اور تاریخ کی کتاب کے مقابلے میں اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ اسے ایک باہمّت، بلند حوصلہ عورت نے رقم کیا جس کا گھر بٹوارے نے چاٹ لیا تھا، لیکن اس نے اپنی زندگی کو بامقصد اور تعمیری انداز سے گزارا اور اپنے غم و اندوہ کو ایک مثبت طاقت میں تبدیل کر دیا۔

    انیس قدوائی کی اس خود نوشت میں ان کی نثر پُر زور اور شگفتہ ہے۔ وہ اپنا طرزِ تحریر خوب صورت اشعار سے اس طرح سجاتی ہیں کہ اکثر مقامات پر ان کی نثر میں اشعار کی وجہ سے معنی خیزی پیدا ہوگئی ہے۔

    اس کتاب کے پیش لفظ میں انیس قدوائی لکھتی ہیں۔ "انیسویں صدی کا صعوبت، افلاس اور افراتفری سے بھرپور دور اپنی دکھ بھری کہانیوں کی بدولت جہاں تاریخ کا جزو بنا، وہیں اس مردم خیز زمانے نے ایسی ایسی شخصیتیں بھی ہندوستان کو تفویض کیں جنہوں نے تاریخ، صحافت، علم، سیاست اور شعر و ادب کی دنیا کو بھی مالا مال کر دیا۔”

    اپنی کتاب کے مندرجات سے متعلق وہ لکھتی ہیں، "اگلے صفحات میں آپ جن قابلِ قدر ہستیوں سے روشناس ہوں گے، وہ سب انیسویں صدی کی پیداوار اور بیسویں صدی کی تاریخ ساز شخصیتیں تھیں۔ ان کی علمی قابلیت، اخلاقی کردار، تدبر، خوش ذوقی، دنیا سے محبت بھرا لگاؤ اور دینی خوش عقیدگی موجودہ دور میں شاید عجیب معلوم ہو، لیکن وہ اس وقت ہمیں آئیڈیل، موزوں اور خالص ہندوستانی پیداوار کی حیثیت سے بہت محبوب تھے۔”

    وہ مزید رقم طراز ہیں، "لکھنے کا کوئی مقصد ہونا چاہیے، لیکن ماضی کو دہراتے وقت اکثر مقصد نگاہ سے اوجھل ہو کر صرف خاکہ یا افسانہ رہ جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قارئین اس میں سے اپنی پسند کی یا ضرورت کی کوئی بات چن لیں۔ صفحاتِ کاغذ پر اجاگر ہونے والوں کی خاک مٹی میں مل چکی۔ بس یہ اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ویرانے دیوانوں کا تختۂ مشق نہ بن جائیں۔ بقول صفیؔ لکھنوی

    آج دیوانہ اڑاتا ہے جو ویرانے کی خاک
    کل اڑائے گا یونہی ویرانہ دیوانے کی خاک

    اس لیے اس خاک کو سمیٹ، عزت و احترام کے ساتھ نذرِ گلستاں کر رہی ہوں۔”

    بیگم انیس قدوائی نے اپنی اس خودنوشت میں ایک مقام پر لکھا، "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔ اقبال کا شعر پڑھا تو بہت مرتبہ تھا مگر اس کے صحیح معنیٰ سمجھ میں آنے کا شاید یہی وقت مقرر تھا اور میں قائل ہو گئی کہ واقعی؎

    نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

    دہلی میں لاکھوں آدمی دیکھے مگر ان میں اور ہندوستان کے اس قدیم مایہ ناز انسان میں کوئی مناسبت نہ تھی۔ یہ ایک نیا دور تھا جس میں ہماری شجاعت اور سورمائی بچہ کو قتل کر کے بھی اتنی ہی مطمئن اور خوش ہو سکتی تھی جتنا کہ کسی بڑے دشمن کو ختم کر کے ہوتی۔ مسلمان بے تحاشا بھاگ کر کسی کونے میں چھپ کر اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتا تھا جیسے کوئی میدان مار کر آیا ہو۔ ایک دوسرا کسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر خوشی سے ناچ جاتا تھا کہ وہ پورا سپاہی بن گیا ہے۔ ملیح چہروں والے نوجوان لڑکے کالج اور اسکولوں کو چھوڑ کر دیا سلائی، مٹی کا تیل، اینٹیں اور چاقو اکٹھا کرنا تحصیل علم سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے۔ اور پھر

    گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا

    یہ تھا سینتالیس، اڑتالیس کا ہندوستان جس کی تصویر میں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ پڑھنے والے لطف اندوز ہوں بلکہ اس لیے کہ:

    تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
    گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

    اسی کتاب میں انیس قدوائی نے اپنے شوہر سے خط کتابت کا بتایا ہے جو تقسیم کے موقع پر دوسرے شہر میں مقیم تھے، وہاں وہ کیا کررہے تھے اور جب فسادات پھوٹے تو ان پر کیا بیتی یہ سب اس کتاب میں بتایا ہے۔ یہ کتاب اپنے طرزِ تحریر کے سبب ایک تصویری کہانی بن گئی ہے جس میں کرب ہے، کڑے وقت میں انسانی رویّوں کی منظر کشی ہے اور بہت کچھ جسے پڑھ کر دل بھر آئے۔

    انیس قدوائی کو طنز و مزاح اور انشائیہ نگاری سے دل چسپی اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔ "آزادی کی چھاؤں میں” کے علاوہ ان کی تصنیف "نظرے خوش گزرے” اور "اب جن کے دیکھنے کو” کے نام سے شایع ہوئیں۔ آخرالذّکر ان کے تحریر کردہ 13 دل چسپ اور یادگار خاکوں کا مجموعہ” ہے۔

  • 75 سال پہلے بٹوارے کے ساتھ جنم لینے والی کہانیاں

    75 سال پہلے بٹوارے کے ساتھ جنم لینے والی کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان پر فوری اور شدید رد عمل فسادات کی صورت میں سامنے آیا اور قتل و غارت گری کی وہ داستان رقم ہوئی جس سے برصغیر کی تاریخ کے اوراق چھلنی ہیں۔

    متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ پیدا ہونے والے حالات کا اثر انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا۔ ہجرت کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو مذہب اور قومیت کے نام پر خوب لہو بھی بہا جس نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ نظم ہو یا نثر، ناول ہو، یا افسانہ، تقسیم اور فسادات پر لکھنے کا سلسلہ چل نکلا۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری، قرۃالعین حیدر، رام لعل، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی اور کئی ادیبوں نے اس تقسیم اور عظیم ہجرت سے جڑے واقعات اور مسائل پر کہانیاں لکھیں۔ یہاں ہم ایسے ہی چند مشہور افسانوں کے مصنّفین اور ان کی تخلیق کا چند سطری تعارف پیش کررہے ہیں جنھیں آپ انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھ سکتے ہیں۔

    ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘
    مشہور افسانوں‌ کے خالق، نام ور ادیب اور فلمی کہانی کار سعادت حسن منٹو کا یہ افسانہ نقل مکانی یا ہجرت کے کرب کو بیان کرتا ہے۔ مصنّف نے بتایا ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد جہاں ہر چیز کا تبادلہ اور منتقلی عمل میں لائی جارہی تھی اور نئی نئی بنائی گئی سرحدوں کے اطراف قیدیوں اور پاگلوں کی بھی منتقلی کا منصوبہ بنایا گیا تو ایک پاگل انسان پر کیا بیتی۔ یہ کردار فضل دین پاگل کا تھا جسے صرف اس بات سے سروکار ہے کہ اُسے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سے یعنی اس کی جگہ سے دور نہ کیا جائے۔ وہ جگہ خواہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں، اسے اس سے غرض نہیں‌ تھی۔ جب اُسے جبراً وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ایک ایسی جگہ جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جو نہ ہندوستان کا حصّہ ہے اور نہ پاکستان کا۔ اور اچانک وہ اسی جگہ پر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ اوندھے منھ گر جاتا ہے۔ وہ مَر چکا ہوتا ہے۔

    ‘لاجونتی’
    راجندر سنگھ بیدی نے اپنے اس افسانے کو اس کے مرکزی کردار کا نام ہی دیا ہے۔ یہ عورت یعنی لاجونتی خلوص کے ساتھ سندر لال کو اپنا سب کچھ مانتی ہے اور اس سے بڑی محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے، لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں۔ پھر کہانی میں وہ موڑ آتا ہے جب مہاجرین کی ادلا بدلی شروع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں لاجونتی پھر سندر لال تک پہنچ جاتی ہے، لیکن اب وہ سندر لال جو اس پر جان چھڑکتا تھا، اس پر شک کرتا ہے اور اس کا لاجونتی کے ساتھ رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ اس عورت کو کچھ سمجھ نہیں‌ آتا۔ سندر لال کے رویے سے اس کی وفاداری اور پاکیزگی خود اس کے لیے سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

    ‘ماں بیٹا’
    حیات اللہ انصاری اردو افسانہ کا اہم نام ہیں اور اپنے اسلوب کے باعث پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے افسانہ میں‌ مذہبی انتہا پسندی سے پریشان ایک ہندو بیٹے اور مسلمان ماں کو دکھایا ہے جو بالکل الگ تھے۔ ان کا ماحول، معاشرہ جدا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مذہب سے سخت بیزار اور نفرت کرنے والے تھے۔ مگر تقسیم کے موقع پر ان کا دکھ ایک ہی تھا۔ لاکھوں لوگوں کی طرح برسوں سے ایک جگہ بسے ہوئے یہ دونوں بھی بالکل اجڑ گئے تھے۔ ان کا مذہب اور رسم و رواج، تہوار اور خاندان تو بالکل الگ تھے، مگر ان کے اجڑنے کی کہانی ایک جیسی تھی۔ پھر اتفاق سے جب وہ ملتے ہیں تو ایک دوسرے کی کہانی سنتے ہیں اور پھر ان کی سوچ بدل جاتی ہے۔

    ‘جلاوطن’
    قرۃ العین حیدر نے اس میں مشترکہ تہذیب کے بکھرنے کو بیان کیا ہے۔ یہ اس مشترکہ تہذیب کی کہانی ہے جس نے برصغیر میں بسنے والوں کے صدیوں کے میل جول سے جنم لیا اور ان کے درمیان یک جہتی کی علامت تھی۔ اس کہانی میں مصنّفہ نے رشتوں کے بکھرنے، خاندانوں کی جدائی اور انسانی قدروں کے پامال ہونے کے المیے کو پیش کیا گیا ہے۔ تقسیم کے بعد جس طرح رشتوں کا بھی بٹوارہ ہوا اور ایک ہی گھر کے باپ بیٹا سرحدوں کے اطراف میں بٹ کر کیسے کرب سے اور کن مسائل سے دوچار ہوئے، یہ سب اس کہانی میں‌ پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی داستان ہے جو بٹوارہ نہیں چاہتے تھے اور اپنا گھر بار چھوڑنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ بیٹے کی پاکستان ہجرت دوسری طرف بھارت کے شہری بن جانے والے اس کے خاندان کو اپنے ہی وطن میں مشکوک بنا دیتی ہے۔ جوان اولاد کی جدائی کا غم تو مارے ہی دے رہا تھا، اس پر اپنی ہی پولیس کی تفتیش بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔

    ‘نصیب جلی’
    رام لعل کا یہ افسانہ تقسیم کے بعد ایک مسلمان اور سکھ کی محض دو سالہ دوستی اور ایک موقع پر ان کے امتحان کی خوب صورت تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ انسانیت کے عظیم جذبے کی کہانی ہے جس میں‌ مذہب کی تفریق حائل نہیں‌ ہوتی۔ یہ دو کردار موتا سنگھ اور غلام سرور کی کہانی ہے جو امرتسر میں ایک ہی ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ وہ اسی ورکشاپ کے قریب ایک بیرک میں پڑوسی کی حیثیت سے رہتے تھے۔

    سکھ اکثریت والے علاقے میں جب فسادات شروع ہوئے تو غلام سرور کو جان کے لالے پڑ گئے۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے دیواریں پھلانگتا ہوا کسی طرح موتا سنگھ کے آنگن میں کود جاتا ہے۔ موتا سنگھ کے کئی عزیز بھی عین تقسیم کے موقع پر مسلمانوں‌ کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور وہ چاہتا تو اس موقع پر ایک مسلمان کو قتل کرکے بدلہ لے بھی سکتا تھا۔ لیکن جب بھیڑ چیختی ہوئی موتا سنگھ کے دروازے پر پہنچی، تب اس نے اپنے دوست اور ایک انسان کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔ موتا سنگھ اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا جہاں ایک پلنگ پر اپنی بیوی کے ساتھ لٹا کر ان کے اوپر رضائی ڈال دی۔

    اس نے کہا، دونوں لیٹے رہو سیدھے، ایک دوسرے کے ساتھ بالکل لگ کر۔ کسی کو شک نہ ہو کہ دو سوئے ہوئے ہیں۔ ادھر فسادی گھر میں‌ داخل ہوجاتے ہیں اور گھر میں غلام سرور کا سراغ نہ پا کر واپس نکل جاتے ہیں۔

  • 1947ء: اسلامی دنیا کا قیامِ‌ پاکستان پر مسرّت کا اظہار، تہنیتی پیغامات

    1947ء: اسلامی دنیا کا قیامِ‌ پاکستان پر مسرّت کا اظہار، تہنیتی پیغامات

    تقسیمِ ہند سے قبل دنیا نے عالمی جنگیں بھی دیکھیں، ممالک نے مختلف تنازعات، سیاسی انتشار، ریاستی سطح پر عدم استحکام اور خانہ جنگی اور قدرتی آفات کا سامنا بھی کیا اور مختلف برسوں کے دوران عرب خطّہ، انڈونیشیا، فلسطین، مصر، افریقا کے ممالک، ترکی اور ایشیا میں آباد مسلمان بھی ایسے حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے۔

    قیامِ پاکستان سے قبل مسلمانانِ ہند کے سیاسی و سماجی راہ اور مذہبی قائدین دنیا کے کسی بھی خطّے سے بلند ہونے والی تحریک اور مصیبت میں ان کا ساتھ دیتے دیتے تھے۔ خصوصاً ہر اس تحریک پر ہندوستان سے حمایت میں ضرور آواز بلند کی جاتی تھی جس کا تعلق مسلمانوں کے حقوق سے ہوتا تھا۔

    تاریخی طور پر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ بانیانِ پاکستان نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ فلسطین، انڈونیشیا اور دنیا کے ہر کونے میں سامراج کی غلامی میں جکڑے ہوئے اور مظلوم طبقات کے حق کی بات کی اور ان کے لیے آواز بلند کی۔ یہی سبب تھا کہ قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد اسلامی دنیا کی جانب سے نہایت والہانہ انداز میں‌ خوشی اور مسّرت کا اظہار کیا گیا اور نہایت قریبی اور برادرانہ تعلقات کی بنیاد رکھی گئی۔

    نوزائیدہ مملکت کی قیادت اور عوام کے لیے بھی خیرمقدم کا یہ سلسلہ جہاں نہایت پُرمسرّت اور روح افزا تھا، وہیں سفارت کاری اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات کے قیام و فروغ کے حوالے سے بھی مددگار ثابت ہوا۔

    یہاں ہم ایسے چند اسلامی ممالک اور ان کی قیادت کا تذکرہ کررہے ہیں جنھوں نے نہ صرف دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی نئی اسلامی ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کیا بلکہ سفارتی تعلقات قائم کرکے اسے مضبوط شناخت دی۔

    1947ء میں جب آزاد اسلامی ریاست پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بین الاقوامی برادری بالخصوص اسلامی دنیا سے سربراہانِ مملکت اور عوام نے قائد اعظم محمد علی جناح اور عوام کے نام تہنیتی پیغامات بھیجے اور پاکستانی قیادت کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔

    اسلامی دنیا کی طرف سے بانی پاکستان اور ملک کے عوام کو ہدیہ تبریک پیش کرنے والوں میں شاہِ ایران، شاہِ یمن، ترکی کی اعلیٰ قیادت اور عوام، شاہِ شرق اردن، لبنان کے صدر، تنزانیہ کی قیادت، انڈونیشیا کے وزیرِ اعظم، لیبیا، تیونس، مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی، سعودی عرب کے شہزادہ فیصل و شاہ عبد العزیز و دیگر شامل تھے۔

    قیام پاکستان پر اسلامی دنیا نے برصغیر میں اس نئی مسلم ریاست کا شایانِ‌ شان اور مثالی خیر مقدم کیا۔

    قیام پاکستان سے قبل سعودی عرب کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ مسلمانانِ ہند کا بیتُ اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی نسبت اس خطّے اور اس کے باشندوں سے ہمیشہ عقیدت اور محبّت کا رشتہ رہا ہے جو بعد میں مزید مضبوط ہوا اور سفارتی سطح پر اس تعلق کی بنیادیں استوار کی گئیں۔

    سعودی عرب، آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والے اوّلین ممالک میں شامل تھا۔

    اس وقت سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ نے قائدِاعظم محمد علی جناح کے نام پیغامِ تہنیت بھیجا اور عوام کو مبارک باد دی۔

    ہمارے ہمسایہ اسلامی جمہوریہ ایران نے آزادی کے اعلان کے فوراً بعد پاکستان کو بطور آزاد اور خودمختار ریاست سب سے پہلے تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔

    مسلمانانِ ہند اور ترکی کے عوام پاکستان کے قیام سے قبل خلافتِ عثمانیہ کی وجہ سے ایک دوسرے سے قلبی اور برادرانہ تعلق میں بندھے ہوئے تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران ترکی کے اخبارات میں مسلمانانِ ہند کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تھی اور ان کی جدوجہد کو خاص طور پر نمایاں کیا جاتا تھا۔ ترکی نے بھی پاکستان کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک فیروز خان نون نے حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے ترکی، شام، شرقِ اردن، سعودی عرب، لبنان اور بحرین کا دورہ کیا تھا۔

  • جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    ناکام غدر کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گھناؤنے اور پُر فریب کردار کو سمیٹ کر برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا اور یہاں انگریز راج قائم ہوا تو مسلمان اور ہندو سیاسی و سماجی راہ نما اور اکابرین نے متحد ہوکر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔

    اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے نعرے نے زور پکڑا، لیکن اس سے قبل کئی واقعات اور سانحات رونما ہو چکے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔

    ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔

    1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    تاریخ سے ثابت ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں سے مسلمان حکم رانی کررہے تھے اور دہلی میں ان کا تخت سجا رہا تھا۔

    مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور ریاستوں پر انہی کی حکم رانی تھی۔

    ہندو احساسِ محرومی کا شکار بھی تھے اور خود کو مسلمانوں کا محکوم خیال کرتے تھے جب کہ انھیں مغل دور میں مذہبی اور ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں اور وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت اور انتہا پسندوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور خیال کیا کہ انگریزوں سے ساز باز اور سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔

    ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل تھی۔

    ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی ذہنیت کا کھلم کھلا اظہار شروع کردیا تھا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔

    علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات اور فسادات سمیت دیگر واقعات رونما ہوئے تو مسلمان قائدین اور اکابرین نے علیحدہ تشخص کی بات کرتے ہوئے الگ سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی کوششیں تیز کردیں اور بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا۔

  • میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    ہندوستان کی تاریخ میں‌ آزادی کی تحریک اور علیحدہ وطن پاکستان کے حصول کے لیے پہلی مرتبہ طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمان جس عظیم مدبّر، سیاست داں اور راہ برِ وقت کی ولولہ انگیز قیادت میں اکٹھے ہوئے تھے، دنیا انھیں ایک ذہین اور نہایت قابل وکیل محمد علی جناح کے نام سے پہلے ہی جانتی تھی۔

    محمد علی جناح جب مسلمانوں کے راہ بَر و قائد بنے تو ان کے رفقا اور قریبی ساتھی ان کے مثالی کردار اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے بھی واقف ہوئے۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اب منزل قریب ہے اور قائدِ‌ اعظم کی قیادت میں متحد ہوکر مسلمان جلد علیحدہ وطن حاصل کرلیں گے۔

    اس تمہید کے ساتھ ہم یہاں آزادی کے ایک متوالے کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا نام میاں بشیر احمد تھا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے معتمد رفقا میں شامل تھے۔

    میاں بشیر احمد کی تحریک اور آزادی کے لیے کوششیں اور اپنی قیادت کے ساتھ محنت، بھاگ دوڑ، قربانیاں اور مسلم لیگ کے لیے خدمات ایک الگ باب ہیں، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جن کی نظموں کے ذریعے مسلمانانِ ہند نے جانا کہ خدا نے محمد علی جناح کی صورت میں انھیں کیسا نقشِ تابندہ عطا کیا ہے جو دراصل نشانِ منزل بھی ہے۔

    میاں بشیر احمد بانی پاکستان کے وہ مخلص ساتھی تھے جنھوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کا اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔

    اُس وقت ہندوستان کے مسلمانوں سے قائدِاعظم محمد علی جناح کے کردار اور ان کی شخصیت کا نہایت خوب صورت اور منفرد انداز میں جامع تعارف کروانے والے میاں بشیر احمد کی زندگی کے چند اوراق ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔

    میاں بشیر احمد کون تھے؟
    ان کا تعلق اس خانوادے سے تھا جس نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے بہت سی خدمات انجام دیں۔ میاں بشیر احمد برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کے فرزند تھے جنھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اپنی نظم میں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ میاں شاہ دین لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے اور علاّمہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے ایک تھے۔ یوں ایک علمی و ادبی ماحول میں میاں بشیر احمد کی پرورش ہوئی اور تعلیم و تربیت کے بعد انھوں نے خود بھی شاعری کا مشغلہ اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا تھا جس کا نام ہمایوں تھا۔

    تحریکِ پاکستان اور علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع ہوئی تو میاں بشیر احمد قائدِاعظم کے قریب آگئے اور ان کے وفادار و جاں نثار ساتھیوں میں شمار کیے جانے لگے۔

    میاں بشیر احمد نے قائدِ اعظم کا تعارف کس منفرد اور شایانِ شان انداز سے کروایا؟

    میاں بشیر احمد عمدہ شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے باسیوں کو بتایا کہ ان کا قائد عزم و ارادے کا پکّا، روشن اور مضبوط کردار کا مالک ہے جس کی ولولہ انگیز قیادت میں اور مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق سے جلد ہمارا خواب پورا ہو گا۔

    یہ کلام آپ نے ضرور سنا ہوگا۔

    ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
    ملّت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

    یہ میاں بشیر احمد کی مشہور نظم کا ایک شعر ہے۔ قائدِ اعظم کی شخصیت و کردار اور ان کی قیادت کے حوالے سے میاں بشیر احمد کی ایک اور مشہور نظم کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ملّت ہے فوج، فوج کا سردار ہے جناح
    اسلامیانِ ہند کی تلوار ہے جناح

    یہ وہ نظمیں تھیں جنھیں تحریکی جلسوں میں پڑھا اور سنا گیا اور یہ اشعار ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں تک پہنچے اور ان کے دل میں‌ قائدِ اعظم کی عظمت و محبّت جگائی اور ان کی قیادت پر مسلمانوں کا یقین اور اعتماد بڑھایا۔

    قائد اور تحریکِ پاکستان کے لیے مسلمانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے اور آزادی کے متوالوں کا حوصلہ اور ہمّت بڑھانے کے لیے ان نظموں کو گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کرکے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نشر کیا گیا۔

    قیامِ‌ پاکستان سے قبل 1946ء میں یہ نظمیں ہندوستان بھر سنی گئیں اور ہر جلسے اور تقریب میں آزادی کے متوالوں کی زبان پر جاری رہیں۔ آج بھی میاں بشیر احمد کی یہ نظمیں اسی جوش و جذبے سے سنی جاتی ہیں اور یومِ‌ آزادی پر قائدِ اعظم محمد علی جناح کو خراجِ‌ تحسین پیش کرنے کا ذریعہ اور ان کے لیے قوم کے جذبات اور احساسات کی عکاس ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد میاں بشیر احمد کو ترکی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ 1971ء میں وفات پاگئے۔

  • تحریکِ‌ پاکستان: ’’مسلم لیگ کیا ہے؟ میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر‘‘

    تحریکِ‌ پاکستان: ’’مسلم لیگ کیا ہے؟ میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر‘‘

    سیّد شمسُ الحسن تحریکِ آزادی کے اُن سپاہیوں میں سے ایک ہیں جنھیں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا قرب اور رفاقت ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ وہ بانی پاکستان کے معتمد اور لائقِ بھروسا ساتھیوں میں‌ شمار ہوتے تھے۔

    ان کا ایک امتیاز اور اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے خلوص، نیک نیّتی، دیانت داری، عزمِ مصمم اور اٹل ارادوں کو دیکھ کر بانی پاکستان قائدِ‌ اعظم محمد علی جناح نے انھیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور وہ الفاظ شمسُ الحسن کو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔

    سّید شمسُ الحسن نے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کو توانا، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ وہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں اور ممتاز رہے۔

    آزادی کی تحریک کے لیے دن رات ایک کردینے والے سیّد شمسُ الحسن 1892ء میں بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1914ء سے 1947ء تک انھوں نے مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور پُرخلوص کاوشوں اور شبانہ روز محنت کو دیکھتے ہوئے قائدِ‌اعظم نے ایک مرتبہ اس مجاہد کے بارے میں فرمایا کہ ’’مسلم لیگ کیا ہے، میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر۔‘‘

    قیامِ پاکستان کے بعد شمسُ الحسن 1948ء سے 1958ء تک پاکستان مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ وہ 7 نومبر 1981ء کو وفات پاگئے تھے۔ سید شمسُ الحسن کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردَ خاک کیا گیا۔

    2007ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔