Tag: تنخواہ دار طبقہ

  • پاکستان کے  تنخواہ دار طبقے نے  6 ماہ میں کتنا ٹیکس ادا کیا؟ اہم انکشاف

    پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے 6 ماہ میں کتنا ٹیکس ادا کیا؟ اہم انکشاف

    اسلام آباد : پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ برآمد کنندگان کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس دینے والا طبقہ بن گیا، رواں مالی سال کے چھ ماہ میں تین گنا زائدانکم ٹیکس ادا کیا۔

    تفصیلات کے مطابق تنخواہ دار طبقے کی جانب سے ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

    ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ برآمدکنندگان سے زیادہ ٹیکس دینے لگا، طبقے نے برآمد کنندگان کے مقابلے میں رواں مالی سال کے چھ ماہ میں 3 گنا زائد انکم ٹیکس ادا کیا۔

    ذرائع نے کہا کہ رواں مالی سال جولائی سے دسمبر تک تنخواہ دار طبقے نے 243 ارب روپے کا ٹیکس دیا ہے جو گزشتہ مالی سال میں صرف ایک سو ستاون ارب روپے اکٹھا ہوا تھا۔

    ایف بی آر ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے 5 سے 10 لاکھ روپے کمانے والوں پرانکم ٹیکس میں اضافہ کیا تھا اور حکومت تنخواہ دار طبقے سے رواں مالی سال میں پانچ سوارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف رکھا ہے۔

    ذرائع کے مطابق حکومت نے برآمد کنندگان کے انکم ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کردو فیصد کر دیا گیا تھا تاہم برآمدکنندگان کے انکم ٹیکس کی مد میں صرف 80 ارب روپےکا ٹیکس وصول ہوا ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران صرف 40 ارب روپے تھا۔

    Currency Rates in Pakistan Today- پاکستان میں آج ڈالر کی قیمت

  • تنخواہ دار طبقے سے 2023-24 میں کس قدر ٹیکس وصول کیا گیا؟ ہوشربا تفصیلات سامنے آگئیں

    تنخواہ دار طبقے سے 2023-24 میں کس قدر ٹیکس وصول کیا گیا؟ ہوشربا تفصیلات سامنے آگئیں

    تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا تیسرا بڑا شعبہ بن گیا، 2023-24 کے دوران تنخواہ دار افراد سے 368 ارب ٹیکس وصول کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنخواہ دار طبقے نے سال 2022-23 کے مقابلے 103 ارب 74 کروڑ روپے زیادہ ٹیکس دیا، ایک سال میں تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی میں 39.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    دستاویز کے مطابق کنٹریکٹس، بینک سود اور سیکیورٹیز ٹیکس ادائیگی میں ٹاپ پر رہا، کنٹریکٹس سے 496 ارب ٹیکس جمع ہوئے جبکہ 106 ارب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ ہوا۔

    ایف بی آر نے بتایا کہ بینکوں کے سود اور سیکیورٹیز کی مد میں 489 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا، بینکوں، سیکورٹیز کی مد میں سالانہ بنیادوں پر پر 52.8 فیصد اضافہ ہوا، منافع کی تقسیم پر 70 فیصد اضافے کے ساتھ 145 ارب روپے ٹیکس جمع ہوا۔

    بجلی کے بلوں پر ٹیکس وصولی میں 30 فیصد اضافہ ہوا اور 124 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا، پراپرٹی کی خریداری پر 104 ارب جبکہ فروخت پر95 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا۔

    ٹیلی فون بلز پر ٹیکس وصولی میں 14.3 فیصد اضافہ ہوا اور تقریبا 100 ارب روپے جمع ہوئے، دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ برآمدی شعبے نے 27.2 فیصد اضافے سے صرف 94 ارب ٹیکس دیا،

    اس کے علاوہ دیگر شعبے جن سے ٹیکس وصول کیا گیا ان میں ٹیکنکل فیس، کیش نکلوانے پر، کمیشن، ری ٹیلرز کی پرچیز شامل ہے۔

  • ایک تو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دیا اوپر سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد زبیر کی حکومت پر کڑی تنقید

    ایک تو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دیا اوپر سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد زبیر کی حکومت پر کڑی تنقید

    کراچی : سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ حالیہ بجٹ میں نئے ٹیکس لگنے سے سب سے برا حال تنخواہ دار طبقے کا ہوا ہے۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

    انہوں نے کہا کہ سب پر برابر کا ٹیکس لگتا تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، تنخواہ دار طبقے پر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس لگایا گیا ہے۔

    محمد زبیر نے کہا کہ ایک تو ٹیکس لگا دیا اوپر سے سرچارج بھی لگا دیا گیا، ٹیکس پر سرچارج ہی لگانا تھا تو براہ راست ٹیکس ہی بڑھا دیتے، ایگری کلچر ٹیکس کیوں نہیں لگ سکتا؟۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار یا مڈل کلاس طبقہ موجودہ حکومت کو پسند نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر تنخواہ دار یا مڈل کلاس لوگ پی پی اور ن لیگ کو پسند نہیں کرتے۔

    بجلی کی قیمتوں سے متعلق انہوں نے بتایا کہ بجلی کی قیمتوں میں20فیصد مزید اضافہ ہوگا، آج100روپے کا بل آتا ہے تو مطلب پھر120روپے کا بل آئے گا، لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ بلوں میں کس مد میں اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے۔
    ،
    ان کہنا تھا کہ جس قسم کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں میں ان کی مخالفت کرتا ہوں، ٹیکسز کی بھرمار کے بعد بھی ریونیو ویسا ہی ہے تو پھر ان کا کیا فائدہ ہے۔

    سابق گورنر سندھ نے کہا کہ یہ اس حکومت کا تیسرا بجٹ ہے، حکومت نے اپنے اخراجات کم ہی نہیں کیے اور ٹیکسز کی بھرمار کردی۔

    اصلاحات کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریفارمز کہاں ہیں، توانائی ریفارمز کہاں ہیں،اداروں کی نجکاری کے معاملات کہاں ہیں، موجودہ حکومت نے جو اپنا کام کرنا تھا وہ کہاں ہے؟

    محمد زبیر نے بتایا کہ دوسال پہلے ڈسٹری بیوشن کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں لوگوں کو لگایا گیا، ایک سال بعد پتہ چلا کہ اداروں نے مزید خسارہ کردیا ہے۔

    اب یہ کہہ رہے ہیں کہ جو بورڈ لگائے تھے اس کو تبدیل کریں گے، دوسال پہلے بورڈ لگاتے وقت میرٹ کی دھجیاں اڑا رہے تھے، جو اقدام دو سال پہلے کیا گیا آج اس کو تبدیل کررہے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

    سابق گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی سیاسی ترجیحات ہیں اسی لیے ایسے اقدامات کیے گئے جو نقصان کاباعث بنے، اقدامات ایسے کررہے ہیں جیسےابھی حکومت ملی ہے اوراقدامات کرینگے۔

    محمدزبیر نے وزیر اعظم شہبا شریف کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں شبانہ روزمحنت کرکے آگےبڑھیں گے، شبانہ روز محنت سے پہلے ایسے اقدامات اٹھاتے کہ عوام پربوجھ کم ہوتا۔

    گزشتہ دور حکومت کی بات کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ عوام پر دو سال پہلے2022کے بجٹ میں بھی بوجھ ڈالا گیا اور کہا کہ ایک سال کی بات ہے، اب سال2023کے بجٹ میں بھی کہا گیا کہ ایک سال کی بات ہے حالت بہتر ہوجائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اب2024کے بجٹ میں بوجھ ڈال رہے ہیں جبکہ معیشت کی گروتھ نہیں ہے، مڈل کلاس کی قوت خرید تو بالکل ختم ہوگئی ہے، ساڑھے10کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں اور تعداد مزید بڑھ رہی ہے۔

  • ’’تنخواہ دار طبقے کو ٹارگٹ نہ کریں جو پہلے سے ٹیکس دے رہا ہے‘‘

    ’’تنخواہ دار طبقے کو ٹارگٹ نہ کریں جو پہلے سے ٹیکس دے رہا ہے‘‘

    پی پی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ ایک طبقے کو ٹارگٹ نہ کریں جو پہلے سے ٹیکس دے رہا ہے، تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگائے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگائے گئے، تنخواہ 37 ہزار رکھی ہے تو اس پر عمل بھی کرایا جائے، یہ بجٹ بلاول بھٹو کی سربراہی میں نہیں بنا، بہتر ہوتا بجٹ میں ٹیکسز کو بیلنس کیا جاتا۔

    شازیہ مری نے کہا کہ سیاسی لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں لایا جاتا، کڑوا گھونٹ ہم نے پینا ہے یہ تو ہم نے مان لیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول پر لیوی 60 سے بڑھاکر 80 روپے کردی گئی، وزیرخزانہ نےغلط بیانی کی کہ بلاول بھٹو کو بجٹ پر اعتماد میں لیا تھا، پنجاب میں ہمارے ارکان کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔

    شازیہ مری نے کہا کہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں کو ہی ٹیکس کامزید رگڑا لگ رہا ہے، ہیلتھ سیکٹر پر 18 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے۔

    سندھ میں ہمارے پاس 10 این آئی سی وی ڈی اسپتال ہیں، این آئی سی وی ڈی سے ہر سال 23 لاکھ لوگ علاج کراتے ہیں، اس میں بڑی تعداد دوسرے صوبے سے آنے والوں کی ہے۔

    شازیہ مری نے کہا کہ بلاول نے کہا ایک این آئی سی وی ڈی جیسا اسپتال بنا کر دکھائیں، اگر بنا نہیں سکتے تو جو ہیں ان پر بوجھ نہ ڈالیں۔