Tag: تنویر نقوی

  • تنویر نقوی: لازوال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    تنویر نقوی: لازوال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے مقبول اور سدا بہار نغمات کے خالق تنویر نقوی کو تقسیمِ ہند سے قبل ہی بحیثیت فلمی شاعر شہرت مل چکی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد تنویر نقوی نے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں شان دار گیت لکھے اور فلمی صنعت میں نام و مقام بنایا۔

    ‘آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے…’ یہ وہ نغمہ ہے جو سرحد پار بھی مقبول ہوا اور آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہا ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی گیت تنویر نقوی کے قلم کی نوک سے نکلے۔ فلمی دنیا کے معروف شاعر تنویر نقوی نے یکم نومبر 1972ء میں وفات پائی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل 1946ء میں معروف ہدایت کار محبوب اور موسیقار نوشاد علی کی مشہور نغماتی فلم انمول گھڑی ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بیشتر گیت تنویر نقوی نے لکھے تھے۔ اس فلم کا مقبول ترین نغمہ میڈم نور جہاں اور سریندر کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول ہم اوپر نقل کرچکے ہیں۔

    نغمہ نگار تنویر نقوی لاہور میں 6 فروری 1919ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ فلمی دنیا میں وہ تنویر نقوی مشہور ہوئے۔ 15 سال کی عمر میں‌ تنویر نقوی نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ 1938ء میں تنویر نقوی فلم ‘شاعر’ کے لیے بھی گیت نگاری کرچکے تھے۔ اس زمانے میں بمبئی فلمی صنعت کا مرکز تھا اور تنویر نقوی نے وہاں تقریباً آٹھ سال بحیثیت شاعر کام کیا۔

    تنویر نقوی ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی بھی شاعر تھے اور نوا نقوی کے نام سے مشہور تھے۔ تنویر نقوی نے 1940ء میں اپنا پہلا شعری مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع کروایا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ہی انھوں‌ نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کا رُخ کیا تھا۔

    قیامِ‌ پاکستان کے بعد تنویر نقوی کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ تھی۔ تنویر نقوی نے 1959ء میں بننے والی فلم ‘کوئل’ کے گیت لکھ کر خوب شہرت پائی۔ یہ گیت تقسیم سے قبل اور پاکستان میں آنکھ کھولنے والی دو نسلوں کے لیے ہمیشہ باعثِ کشش رہے ہیں اور ان گیتوں نے اپنے وقت میں مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کیے۔ ان میں‌ ‘رم جھم رم جھم پڑے پھوار’ ، ‘مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں، تیرے لیے ہیں…. اور ‘دل کا دِیا جلایا میں نے دل کا دیا جلایا….’ شامل ہیں۔

    1960ء میں فلم ‘ایاز’ ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں تنویر نقوی کا تحریر کردہ گیت ‘رقص میں ہے سارا جہاں…’ شامل تھا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ بعد کے برسوں میں فلم ‘انار کلی’ کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں… یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے… اور کئی دوسرے نغمات نے دھوم مچا دی۔ تنویر نقوی کو بہترین شاعر اور نغمہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ فلم نگری اور ادب کی دنیا میں انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    جنگِ ستمبر (1965ء) کا یہ نغمہ ‘رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو….’ اور شوخی و جذبات سے بھرا ہوا یہ گیت ‘چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے…’ کس نے نہیں‌ سنا۔ یہ بھی تنویر نقوی کے لکھے نغمات ہیں جو لازوال ثابت ہوئے۔

    ایک زمانہ تھا جب فلمی کہانیوں میں ضرورت کے مطابق قوالی اور حمد و نعت بھی شامل کی جاتی تھی۔ تنویر نقوی کا نعتیہ کلام بھی پاکستانی فلموں میں شامل کیا گیا۔ ‘نورِ اسلام’ ایک کام یاب ترین فلم تھی جس میں یہ بے حد خوب صورت نعتیہ کلام بھی شامل تھا: شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ یہ وہ کلام تھا جسے بعد میں اور آج بھی مذہبی مجالس، محفلِ نعت وغیرہ میں پڑھا جاتا ہے۔ گلی گلی سوالی بن کر پھرنے والے باآوازِ بلند یہ نعت پڑھ کر لوگوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ تاہم یہ بھی مشہور ہے کہ یہ نعت نعیم ہاشمی کی تخلیق تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نعیم ہاشمی نے چونکہ اسی فلم میں ایک کردار بھی ادا کیا تھا اس لیے فلم میں اس نعت کا کریڈٹ ان کو نہیں دیا گیا اور فلم کے نغمہ نگار تنویر نقوی تھے، اس لیے یہی سمجھا کیا گیا کہ نعت بھی تنویر نقوی نے لکھی ہوگی۔ فلم ‘نورِ اسلام’ 1957ء میں‌ یکم نومبر ہی کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور یہی تنویر نقوی کی تاریخِ وفات بھی ہے۔۔

    فلمی نغمہ نگاری کے علاوہ تنویر نقوی نے مختلف اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب صورت غزلیں، قطعات اور حمدیہ نعتیہ کلام بھی لکھا جو ان کے شعری مجموعوں میں شامل ہے۔ انھیں فلمی شاعری پر تین مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔

  • سدا بہار گیتوں‌ کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    سدا بہار گیتوں‌ کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    تنویر نقوی کا نام پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور گیت نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے کئی کے لیے یادگار اور لازوال گیت تخلیق کیے۔ آج اردو کے اس مشہور شاعر کی برسی ہے۔ وہ یکم نومبر 1972ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

    تنویر نقوی کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ 6 فروری 1919ء کو لاہور کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے تنویر نقوی نے 15 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور وہ 21 سال کے تھے جب ان کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ 1938ء میں تنویر نقوی نے اپنے وقت کے مشہور ہدایت کار نذیر کی ایک فلم کے لیے نغمہ نگاری سے فلمی صنعت میں‌ خود کو متعارف کروایا۔

    تنویر نقوی کو ان کے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بعد ہدایت کار اے آر کار دار نے بمبئی بلوا لیا تھا جہاں آٹھ برس قیام کے دوران انھوں نے دس سے زائد فلموں کے نغمات تحریر کیے جن میں ایک بے حد مقبول نغمہ "آواز دے کہاں ہے تو” بھی شامل ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد 1950ء میں تنویر نقوی پاکستان آئے اور یہاں‌ کی فلمی صنعت میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں‌ کے سبب خوب نام کمایا۔ تنویر نقوی کے مقبول نغمات کی فہرست میں "جان بہاراں، رشکِ چمن ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں، رم جھم رم جھم پڑے پھوار شامل ہیں۔

    1965ء کی جنگ ہوئی تو تنویر نقوی کا نغمہ "رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو” محاذِ جنگ پر لڑنے والے سپاہی سے لے کر ہر شہری کی زبان پر تھا۔ تنویر نقوی کو ان کی گیت نگاری پر تین نگار ایوارڈز دیے گئے۔ انھوں‌ نے نعتیہ کلام بھی لکھا جن میں‌ فلم نورِ اسلام کی نعت "شاہِ مدینہ، یثرب کے والی” بھی شامل ہے۔