Tag: توانائی بحران

  • توانائی بحران: ’یوکرینی عوام ہمت سے موسم سرما گزارنے میں کامیاب رہی‘

    توانائی بحران: ’یوکرینی عوام ہمت سے موسم سرما گزارنے میں کامیاب رہی‘

    کیو: یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ عوام مشکل ترین موسم سرما گزارنے میں کامیاب رہی ہے، حکومت اگلے موسم کے لیے تیاری شروع کر چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ بنیادی ڈھانچے پر روسی حملوں کے دوران حکومت کی جانب سے توانائی اور گرمائش کو یقینی بنانے کی کوششوں کی وجہ سے ان کا ملک موسم سرما گزارنے میں کامیاب رہا ہے۔

    زیلنسکی نے ایک وڈیو پیغام میں کہا کہ یہ موسم سرما ختم ہوگیا ہے، یہ بہت مشکل تھا، اور مبالغہ آرائی کے بغیر ہر یوکرینی نے اس مشکل کو محسوس کیا۔ لیکن پھر بھی ہم یوکرین کو توانائی اور گرمائش فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک کے توانائی ڈھانچے کے استحکام پر ایک اجلاس منعقد کیا اور حکومت اگلے موسم کے لیے تیاری شروع کر چکی ہے۔

    روس، یوکرین کے مشرقی علاقے دونباس کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنے حملوں میں تیزی لا رہا ہے۔

    یوکرین نے ان علاقوں کو دوبارہ لینے کے لیے موسم بہار کا ایک بڑا جوابی حملہ شروع کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جن پر روس نے قبضہ کرلیا ہے۔

    یوکرین کی فوج کے خفیہ ادارے کے نائب سربراہ ویدائم اسکیبتسکی نے اتوار کے روز شائع ہوئے، جرمن ذرائع ابلاغ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ جوابی حملے کا مقصد جنوب میں کریمیا اور مرکزی سرزمینِ روس کے درمیان روسی اگلے محاذ میں فوجی صف بندی کو آگے لے جانا ہے۔

  • توانائی بحران: پنجاب کی صنعتوں کے لیے سستی بجلی لانے پر غور

    توانائی بحران: پنجاب کی صنعتوں کے لیے سستی بجلی لانے پر غور

    لاہور: ملک میں مہنگی بجلی کے پیش نظر صوبہ پنجاب میں ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ کی صنعت کے لیے سستی بجلی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ صنعت کے لیے سستی بجلی پر جانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے متعلقہ وزارتوں کو سستے متبادل منصوبے لانے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے کا مقصد موجودہ مہنگی بجلی کا بوجھ کم کرنا ہے، 10 روز میں متعلقہ وزارتیں جن میں صنعت، توانائی اور معدنیات شامل ہیں، تجاویز دینے کی پابند ہیں۔

    ذرائع کے مطابق پنجاب میں 30 سال سے سستی بجلی کے لیے کوئی کام نہیں کیا جا سکا، اس دوران مہنگے تھرمل فیول اور کمزور ٹرانسمیشن سسٹم سے بجلی لی جاتی رہی۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ جلد پنجاب میں شمسی توانائی، ہوا کی توانائی اور کوڑے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کا آغاز ہوجائے گا، پرائیویٹ سیکٹر منصوبے شروع کرے گا جبکہ نیپرا اپنے رولز میں ضروری ترمیم کرے گا۔

  • توانائی بحران: حکومت کا سولر انرجی سے متعلق پالیسی لانے پر غور

    توانائی بحران: حکومت کا سولر انرجی سے متعلق پالیسی لانے پر غور

    اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ حکومت جلد سولر انرجی سے متعلق سہولت دینے کے لیے پالیسی لا رہی ہے، سولر پینل پر اس وقت کوئی ڈیوٹی نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جلد سولر انرجی سے متعلق سہولت دینے کے لیے پالیسی لا رہی ہے، سولر کو فوسل فیول کے متبادل کے طور پر لانا چاہتے ہیں۔

    خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں ایک سے چار میگا واٹ کے سولر دینے جا رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی تمام عمارتوں کو سولر پر تبدیل کر رہے ہیں، سولر پینل پر اس وقت کوئی ڈیوٹی نہیں ہے۔

  • یورپی یونین ممالک کا توانائی بحران پرقابوپانے کیلئے اہم اقدام

    یورپی یونین ممالک کا توانائی بحران پرقابوپانے کیلئے اہم اقدام

    برسلز: یورپی یونین (ای یو) نے توانائی بحران سے بچنے کے لیے قدرتی گیس کی قیمتوں کو محدود کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کےت مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک نے توانائی کی فراہمی کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش میں بلاک میں قدرتی گیس کی قیمتوں کو 180 یورو (191 امریکی ڈالر) فی میگا واٹ گھنٹہ تک محدود کرنے  پر اتفاق کیا ہے۔

    یورپی یونین کے توانائی کے وزراء کے اجلاس کی صدارت کرنے والے جوزف سکیلا نے کہا کہ ہم گیس کی قیمت کی حد کے بارے میں ایک انتہائی اہم معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ  اس طرح یورپ کے پاس اگلے موسم سرما کی تیاری اور شہریوں و کاروباری اداروں کو قیمتوں کے انتہائی اتار چڑھاؤ سے بچانے کے لیے اقدامات کا ایک پیکج ہوگا۔

    یورپی انرجی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ وزراء نے مارکیٹ میں اصلاحات کے طریقہ کار کے لئے یورپی کمیشن کی تجویز کے  ایک سمجھوتے پر پہنچ کر توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک اور جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔

  • روشنیاں ہماری صحت کے لیے بھی نقصان دہ؟

    روشنیاں ہماری صحت کے لیے بھی نقصان دہ؟

    جرمنی نے رات کے وقت مشہور عمارات، تاریخی یادگاروں، ٹاؤن ہالز، عجائب گھروں اور لائبریریوں کی روشنیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    صرف جرمن دارالحکومت برلن میں ہی وکٹری کالم یا فتح کے ستون اور برلن کیتھیڈرل سمیت شہر کی پہچان سمجھی جانے والی تقریباً 200 عمارات غروب آفتاب کے بعد اب تاریکی میں ہی ڈوبی رہتی ہیں۔

    وسطی جرمنی کے شہر وائیمار نے تو اپنے پورے بلدیاتی علاقے میں توانائی کی بچت کے پروگرام پر اس سال موسم گرما کے ابتدائی مہینوں سے ہی عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔

    اس فیصلے کے تحت سڑکوں اور راہ گیروں کے لیے بنائے گئے راستوں پر لگی سٹریٹ لائٹس اب ہر شام آدھ گھنٹے کی تاخیر سے روشن کی جاتی ہیں اور ہر صبح آدھ گھنٹہ پہلے ہی بجھا دی جاتی ہیں۔

    اس طرز عمل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یوں بجلی اور مالی وسائل کی بچت تو ہو گی ہی لیکن ساتھ ہی تاریک شہر تحفظ ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی کئی حوالوں سے مثبت نتائج کا سبب بنیں گے۔

    لائٹس بند کرنا فضائی آلودگی کے خلاف بھی مددگار

    امریکا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ڈارک اسکائی ایسوسی ایشن کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں رات کے وقت آؤٹ ڈور جلائی جانے والی لائٹوں میں سے ایک تہائی کا کوئی فائدہ ہوتا ہی نہیں۔

    اس تنظیم کے ماہرین کے مطابق توانائی کے موجودہ بحران اور توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں حالیہ بے تحاشا اضافے سے پہلے بھی سچ یہی تھا کہ غیر ضروری لائٹیں بند کر کے سالانہ 3 بلین یورو کی بچت کی جا سکتی تھی۔

    اس کے علاوہ اسی اقدام سے فضائی آلودگی اور زہریلی کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی لاتے ہوئے تحفظ ماحول کی کوششوں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا تھا اور یہ کام اب بھی کیا جا سکتا ہے۔

    روشنیوں سے آلودہ آسمان

    آج کی دنیا میں 80 فیصد سے زیادہ انسان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں آسمان غیر ضروری روشنیوں کی وجہ سے آلودہ ہوتے ہیں۔

    یورپ اور امریکا میں تو روشنی سے آلودہ آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے والے انسانوں کا تناسب 99 فیصد بنتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کے تجربے سے گزرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا۔

    تاریکی کی ضرورت ہے

    رات کے وقت کافی حد تک تاریکی صرف ماحول ہی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی بہتر ہے۔

    اب تک کیے جانے والے کئی طبی مطالعاتی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آنکھوں کو پہنچنے والے نقصان اور مصنوعی روشنیوں کے مابین ایک باقاعدہ ربط پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ انہی روشنیوں کا بے خوابی، جسمانی فربہ پن اور کئی واقعات میں ڈپریشن سے تعلق بھی ثابت ہو چکا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ان تمام معاملات کا تعلق میلاٹونن نامی ہارمون سے ہے، جو انسانی جسم میں اس وقت خارج ہوتا ہے، جب اندھیرا چھانے لگتا ہے۔

    جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنس کے ماہر کرسٹوفر کیبا کہتے ہیں کہ جب ہمارے جسم میں یہ ہارمون پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ ہمارا سامنا اپنے گھر، کام کی جگہ یا کھلے آسمان کے نیچے بہت زیادہ روشنی سے رہتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ سارا نظام مسائل کا شکار ہو جاتا ہے، جسے حیاتیاتی کلاک سسٹم کہتے ہیں۔

    تاریکی جانوروں اور پودوں کو بھی پسند ہے

    زمین پر حیاتیاتی اقسام میں سے انسانوں کے علاوہ بھی کئی انواع ایسی ہیں، جنہیں خود کو رات کے وقت مصنوعی روشنی کا عادی بنانے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

    مثلاً کورلز یا مونگے کی چٹانیں اس وجہ سے حسب معمول اپنی افزائش نسل نہیں کر پاتیں۔

    ہجرت کرنے والے پرندوں کی اسی وجہ سے سفر کی سمت کا تعین کرنے والی حس متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے والے نئے بچے اسی وجہ سے ساحلی علاقوں سے پانی کی طرف جانے کے بجائے مزید خشکی کی طرف جانے لگتے ہیں، جہاں وہ مر جاتے ہیں۔

    جہاں تک پودوں کا تعلق ہے تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ شہری علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کے قریب لگائے گئے یا اگے ہوئے پودوں کی افزائش نسل کے لیے پولینیشن یا زیرگی بھی رات کے وقت مصنوعی روشنی کے باعث کم ہوتی ہے اور ان پر پھل بھی کم لگتے ہیں۔

    رات کے وقت مصنوعی روشنی کے اثرات تناور درخت بھی محسوس کرتے ہیں اور قدرتی شبینہ تاریکی میں رہنے والے درختوں کے مقابلے میں ان پر کلیاں جلد آنے لگتی ہیں جبکہ پتے معمول سے کافی زیادہ تاخیر سے جھڑتے ہیں۔

  • توانائی بحران: کیا دنیا پھر سے جوہری ذرائع استعمال کرے گی؟

    توانائی بحران: کیا دنیا پھر سے جوہری ذرائع استعمال کرے گی؟

    دنیا بھر میں توانائی کے بحران نے متعدد ممالک کو مجبور کردیا کہ وہ توانائی پیدا کرنے کے لیے دوبارہ جوہری ذرائع استعمال کریں، اس حوالے سے مختلف حلقوں میں منقسم آرا پائی جاتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی سطح پر توانائی کی درآمدی لاگت میں اضافے اور موسمیاتی بحران کے سبب تباہی کے پیش نظر دنیا بھر میں کئی ممالک جوہری توانائی میں دلچسپی اور متبادل ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    جاپان میں 2011 کے فوکوشیما حادثے کے بعد جوہری توانائی میں سرمایہ کاری میں کمی آئی تھی (جو 1986 میں چرنوبل کے بعد دنیا کا بدترین جوہری حادثہ تھا) کیونکہ اس کی حفاظت کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے تھے اور حکومتیں خوفزدہ ہو گئی تھیں۔

    تاہم فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد توانائی کی فراہمی میں کمی اور یورپ کی جانب سے روس کے تیل اور گیس پر انحصار میں کمی کی کوششوں کے بعد اب یہ رجحان واپس جوہری توانائی کے حق میں پلٹ رہا ہے۔

    حکومتوں کو گیس اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور قلیل وسائل کی وجہ سے مشکل فیصلوں کا سامنا ہے جن کی وجہ سے رواں سال موسم سرما میں بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    چند ماہرین کا اب بھی خیال ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جوہری توانائی کو ایک آپشن کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیئے، لیکن دیگر کا کہنا ہے کہ بہت سارے بحرانوں کے پیش نظر اسے دنیا کے توانائی کے مرکب کا حصہ رہنا چاہیئے۔

    جوہری توانائی پر نظر ثانی کرنے والے ممالک میں سے ایک جاپان ہے جہاں 2011 کے حادثے کے سبب حفاظتی خدشات کے باعث بہت سے جوہری ری ایکٹر معطل کر دیے گئے تھے۔

    رواں ہفتے جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا نے ملک کی جوہری توانائی کی صنعت کو بحال کرنے اور نئے ایٹمی پلانٹس کی تعمیر پر زور دیا۔ جوہری توانائی سے دور ہونے کے خواہاں دیگر ممالک نے بھی ان منصوبوں کو فی الحال مختصر مدت کے لیے ترک کر دیا ہے۔

    یوکرین پر روس کے حملے کے ایک ماہ سے بھی کم وقت کے بعد بیلجیئم نے 2025 میں جوہری توانائی کو ختم کرنے کے اپنے منصوبے کو ایک دہائی تک مؤخر کردیا۔

    اس وقت 32 ممالک میں استعمال ہونے والی جوہری توانائی دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کا 10 فیصد فراہم کرتی ہے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے 2011 کی تباہی کے بعد پہلی بار ستمبر میں اس حوالے سے اپنے اندازوں میں اضافہ کیا۔

    آئی اے ای اے کی جانب سے اب توقع کی جارہی ہے کہ سازگار منظر نامے کے مطابق 2050 تک موجودہ جوہری توانائی کی پیداواری صلاحیت دگنی ہوجائے گی۔

    منقسم آرا

    بجلی کی طلب میں اضافے کے پیش نظر کئی ممالک نے کوئلے کے متبادل کے طور پر جوہری انفرا اسٹرکچر تیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں چین بھی شامل ہے جس کے پاس پہلے ہی سب سے زیادہ ری ایکٹر موجود ہیں، نیز جمہوریہ چیک، بھارت اور پولینڈ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

    اسی طرح برطانیہ، فرانس اور نیدر لینڈز بھی یہی عزائم رکھتے ہیں، حتیٰ کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا سرمایہ کاری کا منصوبہ اس شعبے کی ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری توانائی کا استعمال معاشرتی ترجیحات کی وجہ سے محدود ہوسکتا ہے کیونکہ تباہ کن حادثات کے خطرے اور تابکار فضلہ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے حل طلب مسئلے کی وجہ سے اس پر رائے منقسم ہے۔

    نیوزی لینڈ سمیت چند ممالک جوہری توانائی کی مخالفت کرتے ہیں اور یورپی یونین میں بھی اس معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی ہے کہ اسے گرین انرجی کے طور پر شمار کیا جانا چاہیئے یا نہیں۔

    گزشتہ ماہ یورپی پارلیمنٹ نے ایک متنازع تجویز کی منظوری دی تھی جس میں گیس اور جوہری توانائی میں سرمایہ کاری کو پائیدار مالیاتی لیبل دیا گیا۔

    نیوکلیئر انفرااسٹرکچر کے حوالے سے دیگر مسائل بھی موجود ہیں جس میں لاگت اور تاخیر پر سختی سے قابو پاتے ہوئے نئے ری ایکٹر بنانے کی صلاحیت شامل ہے۔

  • ملک میں بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار میگا واٹ سے بھی بڑھ گیا

    ملک میں بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار میگا واٹ سے بھی بڑھ گیا

    اسلام آباد: ملک میں بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار 251 میگا واٹ ہوگیا، ملک کے مختلف علاقوں میں 6 گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار 251 میگا واٹ ہوگیا، ملک میں بجلی کی کل طلب 28 ہزار میگا واٹ اور مجموعی پیداوار 21 ہزار 749 میگا واٹ ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پانی سے 7 ہزار 950 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے، آئی پی پیز سے بجلی کی مجموعی پیداوار 9 ہزار 700 میگا واٹ ہے، جوہری ایندھن سے 2 ہزار 345 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق سرکاری تھرمل پلانٹس 800 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں، ونڈ پاور پلانٹس 730 میگا واٹ اور سولر پلانٹس سے پیداوار 142 ہے، بگاس پاور پلانٹس سے 82 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔

    ملک کے مختلف علاقوں میں 6 گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔

  • توانائی بحران : ہفتے میں ایک دن پیٹرول پمپس بند رکھنے کا فیصلہ

    توانائی بحران : ہفتے میں ایک دن پیٹرول پمپس بند رکھنے کا فیصلہ

    ڈھاکہ : بنگلادیشی حکومت نے توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے ڈیزل سے چلنے والے پاور پلانٹس بند کرنے اور ایک دن پیٹرول پمپ بند رکھنے سمیت کئے اہم فیصلے کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق بنگلادیش میں توانائی کے بحران کے باعث حکومت نے ڈیزل سے چلنے والے تمام پاور پلانٹس بند کر دیئے۔

    بنگلادیشی حکومت کی جانب سے توانائی بچت کے لیے ہفتے میں ایک دن پیٹرول پمپس بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    بجلی بچت کے لیے دفتری اوقات میں کمی ، ورک فرام ہوم، لوڈ شیڈنگ اور رات آٹھ بجے کاروبار بند کرنا ہو گا۔

    پاور ڈویلپمنٹ بورڈ کے مطابق توانائی بچت کی نئی پالیسی سے روزانہ تقریباً پندرہ سو میگاواٹ بجلی کا شارٹ فال پیدا ہونے کا امکان ہے۔

    شارٹ فال کے باعث ملک بھر میں روزانہ کم از کم دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جائے گی۔

  • سری لنکن شہری مٹی کے چولھوں پر کھانا پکانے لگے

    سری لنکن شہری مٹی کے چولھوں پر کھانا پکانے لگے

    کولمبو: سری لنکا میں توانائی کے شدید ترین بحران کے باعث شہری مٹی کے چولھوں پر کھانا پکانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بدترین معاشی و توانائی بحران سے دوچار سری لنکا میں ادویات سے لے کر گیس تک ہر چیز کی قلت ہے، ملک کے طول و عرض میں اب شہری لکڑیاں جلا کر کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق 2 کروڑ 20 لاکھ آبادی کے ملک میں زیادہ تر افراد کے گھروں میں گیس ناپید ہو چکی ہے، اور جہاں گیس دستیاب ہے وہاں اس کی قیمت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

    بعض سری لنکن شہریوں نے کھانا پکانے کے لیے مٹی کے تیل کے چولھے خرید لیے ہیں تاہم، حکومت کے پاس پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے لیے زرِمبادلہ نہ ہونے کے باعث کیروسین آئل بھی دستیاب نہیں۔

    اس صورت حال میں اب سری لنکن شہریوں نے کھانا پکانے کے لیے لکڑیوں کا استعمال شروع کر دیا ہے، اور اس کے لیے وہ مٹی کے چولھوں کا استعمال کرنے لگے ہیں۔

    سڑک کنارے کھانے پینے کی اشیا بیچنے والی ایک خاتون نے میڈیا کو بتایا کہ کاروبار بند کرنے یا دھوئیں کے ساتھ رہنے کے درمیان ایک کا انتخاب کرنا تھا، لیکن اب تو آگ جلانے کے لیے لکڑی تلاش کرنا بھی مشکل ہے اور یہ بہت مہنگی بھی ہوتی جا رہی ہے۔

    واضح رہے کہ سری لنکا کی معیشت کا دار و مدار سیاحت پر تھا، اور کرونا کی وبا کے باعث یہ شعبہ بری طرح متاثر ہوا، اب ایندھن کی درآمد کے لیے زرِمبادلہ نہ ہونا ہی دراصل سری لنکا کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

  • بجلی کی طلب اور رسد میں فرق مزید بڑھ گیا

    بجلی کی طلب اور رسد میں فرق مزید بڑھ گیا

    لاہور: ملک بھر میں بجلی کا بحران جاری ہے، بجلی کے تقسیم کار اداروں کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے طے کردہ شیڈول کے علاوہ بھی بجلی کی بندش معمول بن گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار 500 میگا واٹ ہوگیا، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ بجلی کی طلب 29 ہزار اور پیداوار 21 ہزار 500 میگا واٹ ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ لیسکو کو تقریباً 800 میگا واٹ شارٹ فال کا سامنا ہے، لیسکو کی طرف سے ساڑھے 3 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔

    تاہم سسٹم اوور لوڈ ہونے کے باعث بجلی کی غیر اعلانیہ بندش اور ٹرپنگ بھی جاری ہے، لوڈ میں کمی بیشی کی وجہ سے ٹرانسفارمرز اور میٹر جلنے کی سینکڑوں شکایات موجود ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ قصبوں، دیہات اور ہائی لاسز فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 10 گھنٹے سے تجاوز کر چکا ہے۔