Tag: توانائی

  • ساگو دانہ: درخت کے تنے سے حاصل ہونے والی غذائی جنس

    ساگو دانہ: درخت کے تنے سے حاصل ہونے والی غذائی جنس

    اکثر بڑے بوڑھے بیماری میں اور صحت یابی کے بعد بھی کچھ دنوں تک ساگو دانہ استعمال کرنے پر زور دیتے ہیں اور ڈاکٹر بھی ایسی ہی ہدایت کرتا ہے کیوں کہ یہ توانائی بخش غذائی جنس ہے۔ ساگودانہ کو ہمارے ہاں اکثر لوگ سابو دانہ بھی کہتے ہیں۔

    کچن اور کھانے پکانے کا شوق رکھنے والوں نے تو ساگو دانہ دیکھا ہوا ہو گا، مگر شاید اکثریت کے ذہن میں فورا اس کی کوئی شبیہہ نہ ابھری ہو۔

    یہ مشہور غذا ساگو نامی درخت سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ کھجور کے درخت سے مشابہت رکھتا ہے۔ فلیگا نامی جزیرہ ساگو دانہ کی کاشت اور پیداوار کے حوالے سے مشہور ہے۔ حکما اور اطبا نے ساگو دانہ کی افادیت اور بطور غذا اس کے استعمال کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

    ساگو دانہ دراصل اس درخت کے تنے سے حاصل ہوتا ہے۔ درخت پر پھل آنے سے پہلے اس کا گودا کاٹ کر الگ کر لیا جاتا ہے اور پھر اسے خشک کر کے محفوظ کرتے ہیں۔ یہ گول دانے ہوتے ہیں جو بے بُو اور سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔ اس کا ذائقہ پھیکا ہوتا ہے۔
    چوں کہ اس کا مزاج گرم تر ہے اس لیے مخصوص مقدار میں اسے خوراک کا حصہ بنانا چاہیے۔

    ساگو دانہ سے جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ طبی زبان میں یہ کاربوہائیڈریٹ فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اسے دودھ اور پانی میں پکا کر استعمال کیا جاتا ہے۔

    ساگو دانہ کے دیگر فوائد میں‌ طبی ماہرین نے معدے کے لیے اس کا مفید ہونا بتایا ہے جب کہ یہ بدن کو فربہ کرتا ہے. بخار، اسہال کے مریضوں کو جسمانی کم زوری دور کرنے اور اپنی توانائی بحال کرنے کے لیے ساگو دانہ ضرور استعمال کرنا چاہیے۔

  • وزیراعظم عمران خان سے چائنہ گیژوبہ گروپ کے چیئرمین کی ملاقات

    وزیراعظم عمران خان سے چائنہ گیژوبہ گروپ کے چیئرمین کی ملاقات

    بیجنگ: وزیراعظم عمران خان سے چائنہ گیژوبہ گروپ کے چیئرمین نے ملاقات کی، ملاقات میں چائنہ گیژوبہ گروپ نے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے چائنہ گیژوبہ گروپ کے چیئرمین نے ملاقات کی، ملاقات میں پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔

    وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سمیت دیگر افراد بھی ملاقات میں شریک تھے۔

    چائنہ گیژوبہ گروپ چائنہ انرجی انجینئرنگ گروپ کا اہم ممبر ہے، گروپ 100سے زائد ممالک کے ساتھ توانائی معاہدوں پرکام کر رہا ہے۔

    وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں چائنہ گیژوبہ گروپ نے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں تعاون پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں توانائی کے نئے ذخائر کی دریافت پر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

    وزیراعظم تین روزہ دورے پر چین پہنچ گئے

    وزیراعظم عمران خان کی چین کے دورے کے دوران معیشت اور اقتصادیات کے ساتھ مسئلہ کشمیر بھی زیربحث آئے گا، اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ دورہ چین میں ایم ایل ون کا بھی فیصلہ ہوگا، معیشت سے متعلق اہم فیصلے ممکن ہیں۔

    وزیراعظم عمران خان کی آرمی چیف کے ہمراہ چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کی چیانگ سے اہم ملاقاتیں ہوں گی، مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت پر وزیراعظم چین کی قیادت کا شکریہ ادا کریں گے۔

  • وفاقی وزیر عمر ایوب سے آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کی ملاقات

    وفاقی وزیر عمر ایوب سے آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کی ملاقات

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کی ملاقات ہوئی۔ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر نے اہداف کے حصول میں پاور ڈویژن کی کوششوں کو سراہا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر مشرق وسطیٰ و وسط ایشیا ڈاکٹر جہاد ازور کی ملاقات ہوئی۔

    آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر نے اہداف کے حصول میں پاور ڈویژن کی کوششوں کو سراہا، قابل تجدید توانائی پالیسی کی تیاری پر بھی آئی ایم ایف نے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی۔

    انہوں نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے مقامی وسائل سے پیداوار بڑھانے کی پالیسی کو سراہا۔ ڈاکٹر جہاد ازور کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاور سیکٹر کی کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔

    اس موقع پر وفاقی وزیر نے وفد کو پاور سیکٹر میں کامیابیوں سے آگاہ کیا اور پاور سیکٹر کی وصولیوں میں اضافے اور لائن لاسز میں کمی سے متعلق بتایا۔

    عمر ایوب کا کہنا تھا کہ گزشتہ مالی سال کے آخر میں ماہانہ بڑھنے والا قرضہ 38 سے 26 ارب پر لائے، جولائی میں گردشی قرضے کو مزید کم کر کے 18 ارب پر لے آئے۔

    انہوں نے کہا کہ بجلی چوروں کے خلاف مہم کے مثبت نتائج مل رہے ہیں، وفاقی وزیر نے وفد کو پاور سسٹم کی بہتری کے لیے کیے اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی چوری والے علاقوں میں اے بی سی کیبل لگائی جارہی ہے۔

  • ضلع سانگھڑ میں تیل اور گیس کا نیا ذخیرہ دریافت

    ضلع سانگھڑ میں تیل اور گیس کا نیا ذخیرہ دریافت

    کراچی: صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں گیس اور تیل کا نیا ذخیرہ دریافت ہوا ہے، او جی ڈی سی ایل کا کہنا ہے کہ ذخیرہ وِیل پانڈھی وَن میں دریافت ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) نے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویل پانڈھی وَن میں 3600 میٹر کی کھدائی کے بعد تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔

    کنوئیں سے 9 اعشاریہ 12 ملین مکعب فٹ گیس اور 520 بیرل تیل یومیہ حاصل ہوگا، کمپنی کا کہنا ہے کہ پانڈھی ون کے کنوئیں میں 95 فی صد حصص بہ طور آپریٹر او جی ڈی سی ایل کے ہیں، جب کہ 5 فی صد حصص گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ہیں۔

    او جی ڈی سی ایل نے اس حوالے سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو خط بھی لکھ کر مطلع کر دیا ہے۔

    خیال رہے کہ پانڈھی ون کے اسٹرکچر کا خاکہ، اس کی ڈرلنگ اور ٹیسٹ کے مراحل او جی ڈی سی ایل کی اپنی مہارتوں کو استعمال کر کے طے کیے گئے ہیں۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ پانڈھی ون میں تیل و گیس کی دریافت کمپنی کی طرف سے تلاش کی بھرپور حکمت عملی اور حکومت کی جانب سے مقامی تیل و گیس کی پیداوار اور تلاش کی ہدایت کا نتیجہ ہے۔

    تیل و گیس کی نئی دریافت سے ملک اور او جی ڈی سی ایل کے ہائیڈرو کاربن ذخائر میں اضافہ ہوگا۔

  • وزیر اعظم کو تھر کول ذخائر اور ان کے استعمال پر بریفنگ

    وزیر اعظم کو تھر کول ذخائر اور ان کے استعمال پر بریفنگ

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں وزیر اعظم کو تھر کول ذخائر پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیر توانائی، مشیر تجارت، معاون خصوصی برائے پیٹرولیم، سیکریٹری پاور، سی ای او حبکو، سی ای او تھل، نووا پاور اور پی پی آئی بی کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی شریک ہیں۔

    اجلاس میں تھر کوئلے کے ذخائر اور ان کے استعمال سے متعلق پالیسی پر مشاورت کی گئی۔ وزیر اعظم کو تھر کول ذخائر پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ تھر کول فیلڈ میں دنیا کا ساتواں بڑا کوئلے کا ذخیرہ ہے، تھر کول آئندہ 200 سالوں کے لیے ایک لاکھ میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے۔ تھر میں کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر موجود ہیں، یہ ذخائر 50 ارب ٹن تیل اور 2 ہزار ٹریلین کیوسک فٹ گیس توانائی کے برابر ہیں۔

    بریفنگ کے مطابق تھر کول بلاک 2 کو بروئے کار لانے کے پہلے مرحلے پر کام مکمل ہو چکا ہے، توانائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئلے کو بروئے کار لایا جائے گا۔ تھر کوئلے کو استعمال کرتے ہوئے بجلی کے کارخانے لگائے جا رہے ہیں۔

    وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ بلاک ٹو سے سنہ 2025 تک 5 ہزار میگا واٹ بجلی آئندہ 50 سالوں تک پیدا کی جا سکتی ہے، وزیر اعظم کو تھر میں کان کنی کے منصوبے پر بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

    اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تھر کوئلہ ملک کا ایک اہم اثاثہ ہے، اس اثاثے کو ماضی میں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ کوئلے کے استعمال سے توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔

    انہوں نے کہا کہ قومی مفاد کے حامل تھر منصوبے کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن مدد دیں گے۔

  • وزیر اعظم کی زیر صدارت توانائی امور سے متعلق اجلاس

    وزیر اعظم کی زیر صدارت توانائی امور سے متعلق اجلاس

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت توانائی امور سے متعلق اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر اعظم کو توانائی کے شعبے میں اصلاحات، بجلی چوری کی روک تھام اور گردشی قرضوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت توانائی امور سے متعلق اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیر توانائی عمر ایوب، مشیر تجارت حفیظ شیخ، معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر اور دیگر رہنما بشمول فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن اور یوسف بیگ مرزا شریک ہوئے۔

    اجلاس میں توانائی کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا جبکہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات، بجلی چوری کی روک تھام، بجلی کی ترسیل میں رکاوٹوں کو دور کرنے اور گردشی قرضوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

    بریفنگ کے مطابق سال 18-2017 میں گردشی قرضوں میں 450 ارب کا اضافہ ہوا، بجلی چوری کی روک تھام اور واجبات کی وصولیوں کی مہم کے مثبت نتائج آرہے ہیں۔ دسمبر 2018 سے مارچ 2019 تک 48 ارب کی اضافی رقم وصول ہوئی۔

    اجلاس میں بتایا گیا کہ وصولیوں کی رقم رواں سال کےاختتام تک 80 ارب تک پہنچ جائے گی، بجلی چوری کی روک تھام کے لیے 27 ہزار سے زائد مقدمات درج ہیں۔ 4 ہزار 225 گرفتاریاں عمل میں آئیں جن میں 433 اہلکار بھی ملوث تھے۔

    بریفنگ کے مطابق 14 سو 67 مزید اہلکاروں کو چارج شیٹ کیا گیا ہے۔ ترسیلی نظام کی 15 بڑی خامیوں کو دور کیا جا چکا ہے۔ ترسیل کے نظام کی صلاحیت میں 3000 میگا واٹ کا اضافہ ہوا۔

    اجلاس میں بتایا گیا کہ رمضان میں 80 فیصد فیڈرز پر کسی قسم کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔ 20 فیصد فیڈرز پر نقصانات کے تناسب سے لوڈ مینجمنٹ ہوگی۔

    وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ ملک بھر میں سحر و افطار میں بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے۔

    قرضوں سے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ گردشی قرضوں کو سال 19-2018 میں 293 ارب تک لایا جائے گا۔ 20-2019 تک گردشی قرضوں کو 96 ارب تک لایا جائے گا۔ گردشی قرضوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ہدف دسمبر 2020 ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان کو بجلی کے نرخوں میں اضافے پر بھی بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کے مطابق گزشتہ دور میں نیٹ ہائیڈل پرافٹس کو بجلی کے نرخوں میں شامل نہیں کیا گیا۔ صارفین کو اب اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ سابق حکمرانوں نے سبسڈی کا اعلان کیا مگر بجٹ میں رقوم مختص نہیں کیں، ناقص منصوبہ بندی کے باعث شعبہ مالی مشکلات کا شکار ہوتا رہا۔

    بریفنگ میں کہا گیا کہ قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار کی نئی پالیسی تشکیل دی جاچکی۔ پالیسی کا مقصد سنہ 2025 تک 20 فیصد قابل تجدید ذرائع سے بجلی حاصل کرنا ہے۔

    وزیر اعظم کو پیٹرولیم کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات پر بھی بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن پالیسی میں ترمیم کی جارہی ہے، ملکی تاریخ کی پہلی شیل پالیسی پر کام تیز کر دیا گیا ہے۔

    بریفنگ کے مطابق پالیسی اور ریگولیشن کے محکمہ جات کو الگ کیا جا رہا ہے۔ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کے ضمن میں 40 بلاکس کی نشاندہی کی جا چکی۔ غیر ملکی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے عالمی سطح پر روڈ شوز کا انعقاد ہوگا۔

    بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کی حامل کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی۔ تیل و گیس کے نئے ذخائر سے استفادہ حاصل کیا جا سکے گا۔

  • بجلی چوروں کے کنکشن منقطع کر دیے جائیں: وزیر خزانہ اسد عمر

    بجلی چوروں کے کنکشن منقطع کر دیے جائیں: وزیر خزانہ اسد عمر

    اسلام آباد: کابینہ کمیٹی نے بجلی چوروں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ہدایت کر دی ہے، وزیرِ خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ بجلی چوروں کے کنکشن منقطع کر دیے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرِ خزانہ اسد عمر کی زیرِ صدارت کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں کمیٹی نے بجلی چوروں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ہدایت کی۔

    کمیٹی نے وزارت پٹرولیم سے گیس چوری پر رپورٹ بھی طلب کر لی، وزیر خزانہ نے ہدایت کی کہ گیس کمپنیاں اپنے نقصانات کی ماہانہ رپورٹ پیش کریں۔

    اسد عمر نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ بجلی چوروں کے کنکشن منقطع کر دیے جائیں، بجلی چوری کے قانون پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔

    وزیرِ خزانہ نے کہا کہ گیس نقصانات پورا کرنے کے لیے دونوں کمپنیاں حکمت عملی تیار کریں، دونوں کمپنیاں مشترکہ حکمت عملی قائم کردہ ٹاسک فورس کو پیش کریں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ن لیگ دورمیں بجلی چوری روکنے کے لیے موثرپالیسی مرتب نہیں کی گئی‘ عمرایوب

    دریں اثنا، اجلاس میں آئی پی پیز کی تجزیاتی رپورٹ بھی پیش کی گئی، وزیرِ خزانہ کو بریفنگ میں کہا گیا کہ 7 میں سے 5 آئی پی پیز کی تجزیاتی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے اور اس رپورٹ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل وزیرِ توانائی عمر ایوب نے کہا تھا کہ ن لیگ کے دور میں پاور سیکٹر کے لیے غلط فیصلے لیے گئے جس سے بہت نقصان پہنچا، یکم جون 2013 کو گردشی قرضوں کا حجم 884 ارب روپے تھا، مئی 2018 تک گردشی قرضوں کا حجم 1190 ارب روپے ہو گیا۔

  • 60 میگاواٹ سے توانائی کاسفرشروع کرنے والا پاکستان آج کہاں کھڑا ہے

    60 میگاواٹ سے توانائی کاسفرشروع کرنے والا پاکستان آج کہاں کھڑا ہے

    پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی توانائی کے بحران سے نبرد آزما رہا ہے ، 60 میگاواٹ سے سفر شروع کرنے والا ہمارا یہ ملک آج 25 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے باوجود آج بھی توانائی کی کمی کا شکار ہے۔

    ورلڈ بینک کی جانب سے جنوبی ایشیا میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان سے متعلق اعداد و شمار ہماری آج کی اس رپورٹ کا موضوع ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قیامِ پاکستان یعنی سنہ 1947 میں پاکستان کی مجموعی بجلی کی پیداوار کل 60 میگاواٹ تھی ، آج وہی ملک 25 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔

    پاکستان میں توانائی کے حصول کے لیے جو ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں ان میں کوئلہ ، ہائیڈل، فاسل فیول ( تیل اور گیس)، سولر ، نیوکلیئر اور ونڈ شامل ہیں۔ ان میں بھی سب سے بڑا حصہ فاسل فیول سے چلنے والے پلانٹس سے حاصل ہوتا ہے۔ توانائی کی مجموعی پیداوار میں فاسل فیول کا حصہ 64.2 فیصد ہے ، جبکہ ہائیڈل 29 فیصد، اور نیوکلیئر 5.8 فیصد ہیں۔ فاسل فیول کی شرح کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور 64.2 فیصد میں سے 35.2 فیصد تیل سے اور 29 فیصد قدرتی گیس سے پیدا کیا جارہا ہے۔

    پاکستان میں مختلف ادوار میں توانائی کے حصول کے لیے مختلف ذرائع پر انحصار کیا گیا ہے۔ سنہ 1973 تک توانائی کے حصول کے لیے پاکستان کا انحصار ہائیڈل کے ساتھ ساتھ قدرتی گیس اور کوئلے پر تھا، جبکہ تیل، یورینیم اور اسی نوعیت کے دوسرے ذرائع سے بننے والی بجلی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے بعد حکومت نے توانائی کی ضرورتکو پوراکرنے کے لیے ملک میں تیل کی تلاش شروع کی ۔ آج ملک میں انرجی سیکٹر کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کل تیل کا محض سترہ فیصد پاکستان سے نکلتا ہے ۔

    ہائیڈل انرجی کے میدان میں بے پناہ مواقع ہونے کے باوجود سنہ 1994 ، 2002 اور 2015 میں اپنائی گئی انرجی پالیسیوں میں تھرمل ذرائع سے توانائی کے حصول کو ترجیح دی گئی ہے جس کے سبب قدرتی گیس اور تیل بجلی پیدا کرنے کے سب سے بڑے ذریعے کے طور پر سامنے آئے ، سنہ 2015 تک تیل اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی ملک کی کل پیداوار کا 65 بن چکی تھی۔

    فاسل فیول میں قدرتی گیس کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے، یہ نہ صرف یہ کہ بجلی بنانے میں کام آتی ہے بلکہ فرٹیلائز پراڈکشن ( زرعی ملک ہونے کے سبب اس کی اہمیت بے پناہ ہے)، ٹرانسپورٹیشن اور گھریلو استعمال میں بھی بے تحاشہ استعمال ہوتی ہے۔

    گزشتہ چند دہائیوں میں ملک میں گیس کی پیداوار اور کھپت میں بے دریغ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، سنہ 1955 تک پاکستان محض 9 ملین کیوبک فٹ گیس ایک دن میں پیدا کرتا تھا لیکن اب یہ پیداوار 4 ہزار ملین کیوبک فٹ تک پہنچ چکی ہے اور پاکستان گیس استعمال کرنے والے ممالک میں 19 ویں نمبر پر ہے۔ یہ مقدار ترکی کے برابر اور چین کے استعمال کا ایک چوتھائی ہے۔ گیس کے اس استعمال نے سپلائی اور ڈیمانڈ میں عدم توازن پیدا کیا ہے ، گزشتہ کچھ سالوں سے ملک میں گیس کی کھپت 6 ہزار ملین کیوبک فٹ یومیہ ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان جو کبھی گیس کی پیداوار میں خود کفیل تھا ، اب گیس بھی امپورٹ کررہا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر جلد ہی کوئی نیا ذخیرہ دریافت نہ ہوا تو سنہ 2030 تک طلب اور رسد کا یہ فرق دو ہزار سے بڑھ کر 6 چھ ہزار ملین کیوبک فٹ یومیہ تک پہنچ جائے گااور اس کے حصول کی خاطر پاکستان کو کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا ہوگا۔

    پاکستانی حکومت کی سنہ 2005 کی ایلوکیشن پالیسی کے مطابق گیس سب سے پہلے گھریلو صارفین کو فراہم کی جاتی ہے اور اس کے بعد انڈسٹریل صارفین کو ، اس کے بعد پاور سیکٹر کا نمبر آتا ہے ، اس پالیسی کے سبب گیس کی قلت کو مہنگا کروڈ آئل خرید کر پورا کیا جارہا ہے جس سے نہ صرف یہ پاکستان پر گردشی قرضوں کا انبار بڑھتا جارہا ہے بلکہ معیشت بھی سست روی کا شکار ہے۔

    سنہ 2005 کی پالیسی میں فرٹیلائزر سیکٹر کو پاور سیکٹر پر ترجیح دی گئی تھی لیکن اس کے نقصانات اور بجل ی کی قلت کو دیکھتے ہوئے سنہ 2015 میں پاور سیکٹر کو فرٹیلائزر پر ترجیح دی گئی جس کے خاطر خواہ نتائج مرتب ہوئے اور ملک سےزرمبادلہ کا اخراج بھی کم ہوا ، تاہم اصل مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے ۔

    ابھی بھی ملک میں بجلی کی قلت ہے اور حالیہ دنوں گیس کے بھی شدید ترین بحران دیکھنے میں آئے جب حکومت کو گھریلو صارفین اور کمرشل صارفین کے لیے گیس کی لوڈشیڈنگ کرنا پڑی۔ گیس کی دو کمپنیوں میں سے سوئی سدرن کےشہری گھریلو صارفین کے لیے گیس کی لوڈ شیڈنگ ایک اچھنبے کی بات ہے کہ ماضی میں اس کی روایت نہیں رہی ہے۔ انہی مسائل کے سبب بین الاقوامی انویسٹر پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے گھبراتا ہے کہ یہاں توانائی کی مسلسل فراہمی کی ضمانت تاحال میسر نہیں ہے اور بلاشبہ سرمایہ کار چاہتا ہے کہ اسے توانائی کی سپلائی ہر صورت ملتی رہے تاکہ کسی بھی صورت میں اس کی انڈسٹری کا پہیہ نہ رک سکے۔

    موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے پانچ سالوں میں ان مسائل کا تدارک کرلیں گے تاہم ابھی تک اس کے طریقہ کار کے خدوخال واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ آئندہ معاشی سال میں حکومتی پالیسیوں کے اثرات واضح ہونا شروع ہوجائیں گے۔

    اس وقت جو کام حکومت کے لیے کرنا ضروری ہیں ، ان میں سب سے اہم انرجی پلانٹس کو تیل کے بجائے گیس پر چلانا ہے اور اس کے لیے گیس کے نئے ذخیرے دریافت کرنا بے حد ضروری ہے ۔ گیس سے توانائی کے حصول میں ایک تو ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی ، دوسرے مقامی سطح پر پیدا ہونے سے ملک سے سرمائے کا انخلاء بھی رکے گا جو کہ اس وقت پاکستان کے بنیادی مسائل کی جڑ ہے۔ ہم اپنی کمائی کا بڑا حصہ تیل کے حصول میں خرچ کردیتے ہیں ، حالانکہ اس رقم سے ہم اپنے ملک میں معاشی انقلاب برپا کرسکتے ہیں ۔

    دوسرا سب سے اہم کام جس پر موجودہ حکومت اور سپریم کورٹ آف پاکستان بے حد توجہ دے رہی ہے وہ بڑے ڈیموں کی تعمیر ہے ۔ پاکستان سترہ دریاؤں والا ملک ہے اور ایک مرتبہ ڈیم کی تعمیر میں خرچ ہونے والا سرمایہ آئندہ نسلوں تک نہ صرف یہ کہ انتہائی سستی اور صاف ستھری توانائی کے حصول کا ضامن ہوتا ہے بلکہ ملک کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔


    ورلڈ بینک کی مکمل رپورٹ’ان دی ڈارک‘ پڑھیں 

  • وزیر اعظم کی زیر صدارت کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس

    وزیر اعظم کی زیر صدارت کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے جس میں وزیر پٹرولیم غلام سرور خان اور وزیر توانائی عمر ایوب خان بریفنگ دے رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے۔ اجلاس میں بجلی کے پیداواری منصوبوں، ایل این جی اور پٹرولیم سے متعلق امور پر غور کیا جارہا ہے۔

    وزیر پٹرولیم غلام سرور خان پٹرولیم سیکٹر اور وزیر توانائی عمر ایوب خان پاور سیکٹر پر بریفنگ دے رہے ہیں۔

    اجلاس میں ایل این جی کی 4 ماہ کی طلب کے منصوبے اور گیس لوڈ مینجمنٹ پلان پر بھی بات چیت کی جارہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق کابینہ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس میں ریفائنریز اور فرنس آئل لابی کے کردار پر غور کیا جارہا ہے جبکہ گیس بحران پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ توانائی کی کابینہ کمیٹی 3 ماہ قبل تشکیل دی گئی تھی جس میں وزرائے خزانہ، منصوبہ، ریلوے، مشیر تجارت و ٹیکسٹائل اور صنعت و پیداوار شامل کیے گئے تھے۔

    سیکریٹری کابینہ ڈویژن بھی توانائی کمیٹی کا حصہ ہیں۔

  • اب دیواریں بھی بجلی بنا سکیں گی

    اب دیواریں بھی بجلی بنا سکیں گی

    دنیا بھر میں اس وقت توانائی کے حصول کے لیے ماحول دوست ذرائع کو فروغ دیا جارہا ہے جس میں شمسی توانائی کا ذریعہ سرفہرست ہے۔ حال ہی میں ایک ایسا روغن تیار کیا گیا ہے جو گھر کی دیواروں کو توانائی پیدا کرنے کے ذریعے میں تبدیل کرسکتا ہے۔

    آسٹریلیا کے رائل میلبرن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے ایسا روغن تیار کیا ہے جو کم از کم ایک گھر کی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

    تجرباتی طور پر تیار کیے گئے اس روغن میں ٹائٹینیئم آکسائیڈ (جو عام روغن میں بھی استعمال ہوتا ہے) کے ساتھ ساتھ سینتھٹک مولیبڈنم سلفائیڈ نامی مرکب شامل کیا گیا ہے۔

    یہ مرکب آس پاس کی ہوا سے شمسی توانائی اور نمی کو جذب کرتا ہے، بعد ازاں یہ کیمیائی عمل کے ذریعے اس نمی سے ہائیڈروجن اور آکسیجن کو علیحدہ کردیتا ہے۔

    اب ہائیڈروجن توانائی پیدا کرسکتی ہے اور دیوار کو باآسانی توانائی کی فراہمی کے ذریعے میں تبدیل کردیتی ہے۔

    یہ روغن ہر طرح کے ماحول اور موسم میں کام کر سکتا ہے اور اس وقت اس کی کارکرگی میں اضافہ ہوجائے گا جب اسے کسی آبی ذخیرے جیسے ندی یا تالاب کے نزدیک استعمال کیا جائے گا۔

    ماہرین کا اس روغن کو فی الحال کمرشلی پیش کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ روغن دیوار کے علاوہ کسی بھی سطح جیسے کسی باڑھ، پالتو جانور کے گھر یا شیڈ کو بھی بجلی پیدا کرنے کے ذریعے میں تبدیل کرسکتا ہے۔