Tag: توجہ

  • کام کے دوران توجہ مرکوز کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیئے؟

    کام کے دوران توجہ مرکوز کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیئے؟

    دفتر میں یا کوئی اور کام کرتے ہوئے اکثر ہمیں بے توجہی کی شکایت رہتی ہے اور ہم اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے، تاہم توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک آسان طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔

    ہمارا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو ایک وقت آتا ہے کہ ذہن تھکن کی وجہ سے کسی بھی کام پر توجہ نہیں دے پاتا، جب ذہن مستقل کام کی صورت میں تھک جاتا ہے تو مزید توجہ سے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور اگرکام کر بھی لیا جائے تو غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    تاہم کچھ تدابیر اختیار کر کے آپ کام کے دوران اپنے ارتکاز اور توجہ کو بڑھا سکتے ہیں، اس کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اسے پومو دورو کہتے ہیں، پومو دورو اطالوی زبان میں ٹماٹر کو کہتے ہیں۔

    یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں آپ کام کو وقت کے حساب سے ترتیب دیتے ہیں اور مقررہ وقت پر تمام کام کو چھوڑ کر کچھ وقت کے لیے وقفہ لیتے ہیں، اس طرح ذہن سکون کی حالت میں کچھ لمحے گزار کر دوبارہ بھرپور توجہ سے کام کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔

    اس کے لیے دن کے آغاز پر ایک فہرست بنائیں اور ان تمام کاموں کو تحریر کریں جو دن بھر میں انجام دینے ہیں۔

    سب سے پہلا جو کام انجام دینا ہے اس کے لیے 25 منٹ کے لیے ٹائمر سیٹ کریں، اور کام پر لگ جائیں۔ وقت ختم ہونے پر، 5 منٹ کا وقفہ لیں۔

    اس طرح کے چار سیشنز کے بعد ایک طویل وقفہ لیں، جو عام طور پر آدھے گھنٹے یا اس سے زیادہ کا ہو، اس وقفے میں چہل قدمی کریں یا پھر چائے یا کافی کا ایک کپ لیں۔

    اس عمل کو پھر دوبارہ شروع کریں، اس طریقہ کار پر عمل کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے کام نہ صرف وقت پر مکمل ہوگئے بلکہ ان کے توجہ دینے کی استعداد بھی برقرار رہی۔

  • ویڈیو گیمز کھیلنے کا یہ فائدہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ویڈیو گیمز کھیلنے کا یہ فائدہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    بچوں اور نوجوانوں کا ویڈیو گیمز کھیلنا بڑوں کے لیے ناپسندیدہ عادت ہوسکتی ہے لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوجائیں گے کہ یہ عادت ہمارے مطالعے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف سیسکچیوان کے ماہرین کے مطابق ویڈیو گیمز کھیلنا ممکنہ طور پر توجہ دینے کی صلاحیت کو بہتر کر سکتا ہے، جو پڑھنے کی صلاحیت کے لیے ضرورتی ہوتی ہے۔

    تحقیق کی سربراہ شیلین کریس کا کہنا ہے کہ توجہ کامیاب مطالعے کا ایک اہم حصہ ہے، آپ کی آنکھیں پورے صفحے پر ایک منظم انداز میں اسکین کرتی ہیں تاکہ درست طریقے سے الفاظ اور جملوں کو دیکھ سکیں۔

    انہوں نے کہا کہ وہ سرگرمیاں جو توجہ کے عمل پر اثر ڈالتی ہیں جیسے کہ ویڈیو گیمز کھیلنا وغیرہ، ان کا مطالعے پر بھی اثر ہوتا ہے۔

    تحقیق میں ماہرین نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ کس طرح گیمنگ مطالعے کی صلاحیت پر اثرات مرتب کرتی ہے، ماہرین کو امید ہے کہ ان کی ہونے والی دریافت بہتر ویڈیو گیم ڈیزائن تک لے جا سکے گی جو صحت مند عادات کو فروغ دے گا۔

  • بچوں کے ٹچ اسکرین استعمال کرنے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    بچوں کے ٹچ اسکرین استعمال کرنے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    آج کل کے بچے اپنا زیادہ تر وقت مختلف اسکرینز کے سامنے گزارتے ہیں، اس کے بے شمار نقصانات کے ساتھ ایک نقصان یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹچ اسکرین استعمال کرنے والے بچوں میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی لندن یونیورسٹی، کنگز کالج لندن اور باتھ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں کہا گیا کہ جب بچے زیادہ وقت ٹچ اسکرین ڈیوائسز کے ساتھ گزارتے ہیں، تو ان میں ڈیوائسز سے دور رہنے والے بچوں کے مقابلے میں کسی کام کے دوران دھیان بھٹکنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج سے بچوں کی نشوونما پر اسکرین پر گزارے جانے والے وقت کے اثرات کی اہمیت سامنے آتی ہے، خاص طور پر کووڈ 19 کی وبا کے دوران بچوں میں ٹچ اسکرین ڈیوائسز کا استعمال زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے 12 ماہ کے بچوں میں ٹچ اسکرین ڈیوائسز کے مختلف دورانیے کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔ تحقیق میں ان بچوں کا جائزہ ڈھائی سال تک لیا گیا اور انہیں لیبارٹری میں 3 بار یعنی پہلے 12 ماہ، پھر 18 ماہ اور آخری بار ساڑھے 3 سال کی عمر میں بلایا گیا۔

    ہر بار ان بچوں کی توجہ کو جانچنے کے لیے کمپیوٹر ٹاسکس میں ایک آئی ٹریکر کو استعمال کیا گیا۔

    ان ٹاسکس میں اشیا اسکرین کے مختلف حصوں میں رکھ کر دیکھا گیا کہ بچے کتنی تیزی سے ان اشیا کو دیکھتے ہیں اور کس حد تک توجہ بھٹکانے والی اشیا سے خود کو بچاتے ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ٹچ اسکرین پر زیادہ وقت گزارنے والے بچے اشیا کو بہت تیزی سے دیکھتے ہیں مگر توجہ بھٹکانے والی اشیا کو نظرانداز نہیں کرپاتے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم یہ حتمی نتیجہ نکالنے سے قاصر ہیں کہ ٹچ اسکرین کا استعمال توجہ کی صلاحیت پر اثرات مرتب کرتی ہے، کیونکہ جن بچوں کی توجہ جلد بھٹک جاتی ہے، وہ ٹچ اسکرین کے توجہ کھینچنے والے فیچرز کو بھی بہت پسند کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم تحقیق کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ کیا حقیقی دنیا میں بھی بچوں کی توجہ آسانی سے بھٹک جاتی ہے یا نہیں۔

  • سعودی عرب میں کھجوروں کا 200 سال پرانا باغ سیاحوں کی توجہ کا مرکز

    سعودی عرب میں کھجوروں کا 200 سال پرانا باغ سیاحوں کی توجہ کا مرکز

    ریاض : ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر منصور المشطی کا کہنا ہے کہ باغ میں بڑی تعداد میں شہری دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے یا ان سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے شہر بریدہ میں واقع کھجوروں کا ایک تاریخی باغ مقامی میلے کے شرکاءکی توجہ کا خاص مرکز بن گیا،تاریخی ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ کھجوروں کا یہ باغ 200 سال پرانا ہے۔ اس میں کھجور کے سیکڑوں فلک بوس پھل دار درخت موجود ہیں۔

    عرب ٹی وی کے مطابق جنوبی الصباخ کالونی میں واقع یہ باغ 70ہزار مربع میٹر پرپھیلا ہوا ہے، اس باغ کو مقامی لوگوں کی پبلک بیٹھک بھی قرار دیا گیا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ علاقے کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

    بریدہ کھجور میلے میں بڑی تعداد میں لوگ کھجوریں خریدنے آتے ہیں،یہ میلہ سعودی عرب میں کھجوروں کے شہر کہلاتا ہے۔

    عرب خبر رساں ادارے کے مطابق میلے میں کجھوروں کی خریدو فروخت کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ثقافتی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں، ان سرگرمیوں کو حکومت، فلاحی اداروں اور سماجی بہبود کی تنظیموں کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔

    میلے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر منصور المشطی نے کہا کہ بریدہ میلے میں کھجوروں کے خریداروں کے علاوہ بڑی تعداد میں شہری دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے یا ان سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔

  • دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    ہماری دنیا جیسے جیسے ترقی یافتہ ہورہی ہے ویسے ویسے ہماری زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں کئی فوائد دیے ہیں وہیں بیماریوں اور نقصانات کی شکل میں ایسے تحائف بھی دیے ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔

    انہی میں ایک تحفہ ذہنی امراض کا بھی ہے جن کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔

    ایک عام تصور یہ ہے کہ ذہنی امراض کا مطلب پاگل پن اور خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کا صرف پریشان ہونا یا الجھن کا شکار ہونا بھی دماغی مرض ہے اور اس کے لیے کسی دماغی امراض کے ماہر سے رجوع کیا جانا چاہیئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دل کی بیماریوں کے لیے امراض قلب کے ماہر، یا جلدی بیماریوں کے لیے ڈرماٹولوجسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں تبدیلی لائیں

    ترقی پذیر ممالک میں 85 فیصد دماغی امراض کے شکار افراد کو کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں، یا وہ شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اپنا علاج نہیں کرواتے۔ وجہ وہی، کہ دماغی مرض کا مطلب پاگل پن ہی لیا جاتا ہے۔

    یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    یہاں ہم آپ کو دماغی امراض کے بارے میں قائم کچھ مفروضات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ بھی ان مفروضوں کو درست سمجھتے ہوں، اور ان کی بنیاد پر دماغی امراض کا شکار افراد کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوں، ایسی صورت میں مندرجہ ذیل حقائق یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

    :پہلا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد تشدد پسند ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    :حقیقت

    درحقیقت دماغی امراض کا شکار افراد کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے وہ کسی بڑے سانحے سے گزرے ہوں، اور انہیں زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

    :دوسرا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کم پائے جاتے ہیں۔

    :حقیقت

    ہم میں سے ہر 4 میں سے ایک شخص کسی نہ کسی دماغی عارضہ کا شکار ہوتا ہے۔

    :تیسرا مفروضہ

    بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کی دماغی کیفیت میں تبدیلی آتی ہے اور یہ ایک عام بات ہے۔

    :حقیقت

    یہ واقعی ایک نارمل بات ہے لیکن یہ 10 میں سے 1 نوجوان کی دماغی صحت میں ابتری کی طرف اشارہ ہے۔ اگر ان تبدیلیوں کو درست طریقے سے ہینڈل  کیا جائے تو یہ ختم ہوسکتی ہیں بصورت دیگر یہ دماغی مرض کی شکل میں نوجوان کو سختی سے جکڑ لیں گی اور تاعمر اپنا نشانہ بنائے رکھیں گی۔

    :چوتھا مفروضہ

    نوجوانوں کے لیے آسان عمل ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اپنے جذبات بیان کریں۔

    :حقیقت

    درحقیقت نوجوان افراد اپنے خیالات بتانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں ان کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ دونوں صورتوں میں یہ چیز ان کی دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

    :پانچواں مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کی واحد جگہ نفسیاتی اسپتال ہیں۔

    :حقیقت

    دماغی امراض کا شکار افراد اگر اپنا مناسب علاج کروائیں، اور ان کے قریبی افراد ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں تو وہ ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، آگے بڑھ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔

    :چھٹا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد بعض اوقات برے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ رویہ مستقل ہوتا ہے۔

    :حقیقت

    ایسے وقت میں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ برے رویے کی وجہ ان کا مرض ہے، اور یہ رویہ عارضی ہے۔

    :ساتواں مفروضہ

    دماغی امراض ساری عمر ساتھ رہتے ہیں اور ان کا شکار شخص کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا۔

    :حقیقت

    مناسب علاج اور دیکھ بھال کے بعد یہ افراد ایک صحت مندانہ زندگی جی سکتے ہیں۔