Tag: توشہ خانہ

  • بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو ہائیکورٹ سے فوری ریلیف نہ مل سکا

    بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو ہائیکورٹ سے فوری ریلیف نہ مل سکا

    اسلام آباد: توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، عدالت سے بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو فوری ریلیف نہ مل سکا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے کیس کی سماعت کی، ہائی کورٹ نے بریت کی درخواستوں پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کر دیا، اور 28 جنوری تک جواب طلب کیا۔

    بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے وکیل نے عدالت سے کیس دوسرے بنچ کو بھیجنے کی استدعا بھی کی۔ سلمان صفدر نے مؤقف میں کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اس سے پہلے اس کیس سے متعلق 5 درخواستیں سن چکے ہیں، اس لیے مناسب ہوگا کہ یہ عدالت بریت کی درخواستیں بھی اُسی عدالت میں واپس بھیج دے۔

    جسٹس جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے کہا وہ ضمانت کی درخواستیں تھیں اور یہ الگ معاملہ ہے، یہ عدالت کیس سُنے گی، آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں۔

    حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی کو 28 جنوری کو تحریری جواب دے گی، عرفان صدیقی

    بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے توشہ خانہ ٹو کیس کے ٹرائل پر حکمِ امتناعی جاری کرنے کی استدعا کی، تاہم جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے کہا کرمنل کارروائی کو اس موقع پر اسٹے کرنے کی کوئی عدالتی نظیر موجود نہیں ہے، دوسرے فریق کو آ جانے دیں، دونوں کو سن کر دیکھ لیتے ہیں۔

    جسٹس راجہ انعام امین نے کہا کہ ہم آپ کی درخواست پر نوٹس کر کے دوسرے فریق کو بھی سن لیتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کر دیا۔

  • توشہ خانہ میں موصول تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ لگانے کے لیے بولیاں طلب

    توشہ خانہ میں موصول تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ لگانے کے لیے بولیاں طلب

    اسلام آباد: توشہ خانہ میں موصول تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ لگانے کے لیے بولیاں طلب کر لی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق کابینہ ڈویژن نے توشہ خانہ میں موصول تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں کابینہ ڈویژن نے 30 ستمبر تک نجی تخمینہ کاروں سے بولیاں طلب کر لی ہیں۔

    توشہ خانہ میں موصول مختلف کٹیگریز کے تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ لگایا جائے گا، اور زیورات، گھڑیاں، کارپیٹس سمیت دیگر تحائف کی اصل قیمتیں معلوم کی جائیں گی۔

    کابینہ ڈویژن کامیاب نجی تخمینہ کاروں کے ساتھ معاہدہ کرے گا، اور تحائف کی قیمتوں سے متعلق کامیاب تخمینہ کاروں کو چارجز ادا کیے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ توشہ خانہ کے تحائف پاکستانی سیاست میں ایک نمایاں اور باعث شرم بننے والا موضوع بن چکا ہے، اگرچہ غیر ملکی سربراہان کی جانب سے ملنے والے تحائف پہلے بھی پاکستانی وزرائے اعظم کم قیمت میں گھر لے جاتے رہے ہیں، تاہم پی ٹی آئی کی حکومت میں وزیر اعظم نے جو تحائف کم قیمت میں لے کر مہنگے بیچے، اس پر یہ مسئلہ عدالتوں تک پہنچ گیا۔

  • توشہ خانہ کے نئے کیس میں جیل سماعت اور جیل ٹرائل کی منظوری دے دی گئی

    توشہ خانہ کے نئے کیس میں جیل سماعت اور جیل ٹرائل کی منظوری دے دی گئی

    اسلام آباد: توشہ خانہ کے نئے کیس میں جیل سماعت اور جیل ٹرائل کی منظوری دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی گزشتہ روز نئے نیب کیس میں گرفتاری ڈالی گئی ہے، وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں جیل سماعت اور جیل ٹرائل کی منظور دے دی، وزارت قانون و انصاف نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

    جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن نیب آرڈیننس 1999 کی سیکشن 16 بی کے تحت جاری کیا گیا ہے، وزارت قانون و انصاف کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی وجوہ پر ٹرائل جیل میں ہی ہوگا۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر امن و امان کے پیش نظر نیب عدالت ضروری سمجھتی ہے تو ٹرائل جیل میں کرے، جیل ٹرائل نوٹیفکیشن سے متعلق بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے وکلا کو آگاہ کر دیا گیا۔

    توشہ خانہ کے نئے ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی اور اہلیہ کے جسمانی ریمانڈ کے لیے اڈیالہ جیل میں آج سماعت ہوگی، احتساب عدالت کے جج محمد علی وڑائچ، بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے وکلا اڈیالہ جیل پہنچ گئے ہیں، چوہدری ظہیر عباس ایڈووکیٹ اور عثمان گل عدالت میں پیش ہوں گے۔

    ادھر جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور پولیس کے 11 افسران پر مشتمل ٹیم بھی اڈیالہ جیل پہنچ چکی ہے، لاہور پولیس کی ٹیم بانی پی ٹی آئی سے 9 مئی کے مقدمات پر تفتیش کرے گی۔

  • بشریٰ بی بی کی 12 ستمبر تک عبوری ضمانت میں توسیع

    بشریٰ بی بی کی 12 ستمبر تک عبوری ضمانت میں توسیع

    اسلام آباد: سیشن عدالت نے بشریٰ بی بی کی 12 ستمبر تک عبوری ضمانت میں توسیع کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ تحائف کی جعلی رسیدوں سے متعلق کیس میں سیشن عدالت نے 12 ستمبر تک ان کی عبوری ضمانت میں توسیع کر دی۔

    بشریٰ بی بی اپنے وکلا سلمان صفدر، انتظار پنجوتھہ اور نعیم پنجوتھہ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے، تفتیشی افسر عدالت کے روبرو پیش ہوا اور استدعا کی کہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری مطلوب ہے، ان کی آڈیو ایف آئی اے کو فرانزک کے لیے بھیجی ہوئی ہے۔

    وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش کے لیے ہمیں تین تین گھنٹے بلایا جاتا ہے اور بٹھائے رکھتے ہیں، تفتیش کے دوران بتایا بھی گیا کہ آڈیو بشریٰ بی بی کی نہیں ہے۔

    عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ توشہ خانہ کے تحائف کی جعلی رسیدوں کا ہے تو آڈیو کہاں سے آ گئی؟ ایف آئی آر کے مطابق کیس کو لے کر چلیں۔ تاہم تفتیشی افسر نے استدعا کی کہ بشریٰ بی بی کی وائس میچنگ کے لیے انھیں وقت دیا جائے، عدالت نے یہ استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 12 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

  • وزیر داخلہ نے عراق میں ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے

    وزیر داخلہ نے عراق میں ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے

    اسلام آباد: وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے عراق میں ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے دورہ عراق میں ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے، جن میں 5 قیمتی پستول اور ایک موبائل فون شامل ہے۔

    وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے حال ہی میں وفد کے ہمراہ عراق کا دورہ کیا تھا، جہاں انھیں قیمتی تحائف ملے، وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ قیمتی تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے گئے ہیں۔

    یہ تحائف عراقی وزیر داخلہ کی جانب سے جذبہ خیر سگالی کے طور پر دیے گئے تھے، وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ تحائف ملک و قوم کی امانت ہیں اس لیے انھیں قومی خزانے میں جمع کرا دیا گیا ہے۔

  • سال 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کا عدالتی فیصلہ چیلنج کردیا گیا

    سال 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کا عدالتی فیصلہ چیلنج کردیا گیا

    لاہور : وفاقی حکومت نے 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کے عدالتی فیصلے کو چیلنج کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کے عدالتی فیصلے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔

    وفاقی حکومت نے 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کے عدالتی فیصلے کو چیلنج کر دیا

    وفاقی حکومت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ذریعے اپیل دائر کی ، حکومتی اپیل پر لاہور ہائی کورٹ کا 2 رکنی بینچ سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس شاہدبلال حسن اور جسٹس رضا قریشی شامل ہیں۔

    سنگل بینچ نے 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کےتحائف کی تفصیل پبلک کرنے کا حکم دیا تھا ، عدالت نے بھی ہدایت کی تھی کہ تحائف دینے والے ممالک اور مہمانوں کےنام بھی منظر عام پر لائے جائیں، آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی شہری کا حق ہے۔

    عدالت نے قرار دیا تھا کہ قیمت ادا کیے بغیر کوئی تحفہ نہیں رکھ سکتا، جس پر اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ جو بغیر قیمت ادا کیے تحفہ لیتا ہےاس کے خلاف کاررواٸی ہوسکتی ہے۔

    عدالت نے ریکارڈ منظر عام پر نہ لانے کے وفاقی حکومت کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کوئی چیز قانونی طور پر طور پر چھپائی نہیں جا سکتی، جو بھی تحفہ مفت لے کر گیا ہے وہ سرکار کاہے، مفت تحفہ لینا غیر طور پر اعتماد کھونے کے برابر ہے، جب تک کوئی توشہ خانہ سے وصول تحائف کی قیمت نہیں دیتا وہ نہیں لے سکتا۔

  • لاہور ہائی کورٹ کا 1990 سے 2001 تک  توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کی فہرست پبلک کرنےکا حکم

    لاہور ہائی کورٹ کا 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کی فہرست پبلک کرنےکا حکم

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کی فہرست پبلک کرنےکا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کے ریکارڈ سے متعلق کیس کی سماعت کی، جسٹس عاصم حفیظ نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

    توشہ خانہ کے سیکشن افسر بن یامین خان نے ریکارڈعدالت کےروبرو پیش کیا، توشہ خانہ کا ریکارڈ سیل اور بند لفافوں میں عدالت پیش کیا گیا۔

    عدالت نے ہدایت کی کہ توشہ خانہ سے لیےگئےتحائف کی 1990 سے 2001 تک تفصیلات کو بپلک کیا جائے۔

    عدالت نے بھی ہدایت کی کہ تحائف دینے والے ممالک اور مہمانوں کےنام بھی منظر عام پر لائے جائیں، آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی شہری کا حق ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ قیمت ادا کیے بغیر کوئی تحفہ نہیں رکھ سکتا، جس پر اظہر صدیق نے کہا کہ جو بغیر قیمت ادا کیے تحفہ لیتا ہےاس کے خلاف کاررواٸی ہوسکتی ہے۔

    عدالت نے ریکارڈ منظر عام پر نہ لانے کے وفاقی حکومت کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کوئی چیز قانونی طور پر طور پر چھپائی نہیں جا سکتی، جو بھی تحفہ مفت لے کر گیا ہے وہ سرکار کاہے، مفت تحفہ لینا غیر طور پر اعتماد کھونے کے برابر ہے، جب تک کوئی توشہ خانہ سے وصول تحائف کی قیمت نہیں دیتا وہ نہیں لے سکتا۔

    اس سے پہلے گزشتہ وفاقی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ توشہ خانہ کے 1990 سے 2001 ریکارڈ منظم شکل نہیں ہے لہذا اسے پبلک نہیں کیا جا سکتا ۔

    عدالت نے ریکارڈ پبلک کرنےکا حکم دیتے ہوٸے درخواست نمٹا دی، درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ قیام پاکستان سےاب تک توشہ خانہ کے تحائف لینے والی شخصیات کی تفصیلات کی فراہم نہیں کی جا رہی ، حکومت کو یہ تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔

  • توشہ  خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    توشہ خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    ملکی سیاست میں توشہ خانہ کی بازگشت ایک سال سے سنائی دے رہی ہے. اس کے ساتھ ہم ‘گھڑی چور’ کا شور بھی سن رہے تھے، مگر کیا ان شور مچانے والوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں؟ جی نہیں۔

    توشہ خانے کا22 سالہ ریکارڈ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ یہ ریکارڈ پبلک ہوا تو عوام نے جانا کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ توشہ خانہ وہ جگہ ہے جہاں سرکاری شخصیات کو ملنے والے تحائف جمع کرائے جاتے ہیں۔ سربراہانِ وقت، اعلیٰ عہدے داروں اور سرکاری شخصیات کو بیرون ملک یا پاکستان میں جو تحائف دیے جاتے ہیں، وہ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ سرکاری حیثیت میں دیے جاتے ہیں، اس لیے انہیں‌ سرکار کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے اور توشہ خانے میں جمع کرایا جاتا ہے۔ اس توشہ خانے کے کچھ اصول، ضابطے اور قوانین ہیں جن کے مطابق کسی بھی تحفے کی اصل مالیت کا کچھ فیصد دے کر تحفہ وصول کرنے والی شخصیت اس کی مالک بن سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس تحفے کو نیلام کرکے اس سے حاصل کردہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان میں توشہ خانے سے تحائف کو نیلام کرنے کی نوبت کم ہی آئی ہے۔ زیادہ تر تحائف کو برسر اقتدار اور بااختیار افراد، جن میں بیورو کریٹس، عوامی نمائندے اور سیاسی شخصیات شامل ہیں ،انھوں نے اپنی ملکیت بنایا، اور اس کے لیے اصل قیمت کا کچھ فیصد ادا کرنے کے قانون کا سہارا لیا. ان میں سے اکثر تو تحائف کو مفت ہی میں اپنے گھر لے گئے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کسی بھی تحفے کی اصل قیمت کا تعین کیبنٹ ڈویژن مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں ذاتی فائدے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی اصول اور قاعدے پر مفاد کو ترجیح دی جاتی ہو یہ سب مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی طے پاتا ہے؟ عوام کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے۔

    پاکستان میں گزشتہ سال برسرِ اقتدار آنے والی نئی حکومت نے حسبِ روایت سابق حکم رانوں پر کئی الزامات لگائے جن میں‌ شہباز شریف اور اتحادیوں نے زیادہ زور توشہ خانہ پر لگایا اور سب سے زیادہ شور ’’گھڑی چور‘‘ کا مچایا۔ اس معاملے نے اس حد تک طول پکڑا کہ گزشتہ سال ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کو توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے نااہل بھی قرار دے دیا جس کو حکومتی اتحاد نے اپنی فتح قرار دیا تھا۔ جب کہ اسی حوالے سے ایک کیس اسلام آباد کی عدالت میں بھی زیرسماعت ہے اور اسی پس منظر کے ساتھ گزشتہ کئی روز سے لاہور کی فضاؤں میں ہنگامہ برپا ہے۔

    پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی زیرقیادت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے ہی وہ تنقید کی زد میں ہے۔ تاہم اس حکومت نے توشہ خانے کا ریکارڈ پبلک کرنے کا وہ کارنامہ انجام دیا جو اس سے قبل کوئی حکومت انجام نہ دے سکی۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے اور بعض رپورٹوں کے مطابق بھی اس ریکارڈ میں بعض باتیں مخفی اور کچھ مبہم ہیں تاہم اس کا کریڈٹ شہباز حکومت کو ضرور دینا چاہیے۔

    یوں تو گاہے گاہے توشہ خانہ عام کرنے کی آواز مختلف ادوار میں اٹھائی جاتی رہی ہے مگر اس پر شد و مد کے ساتھ آواز گزشتہ سال شہید صحافی ارشد شریف نے اٹھائی تھی. اس کے بعد نوجوان وکیل ابو ذر نیازی ایڈووکیٹ یہ معاملہ عدالت میں لے گئے اور عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کی تفصیلات عام کرنے کاحکم جاری ہوا تو حکومت نے گزشتہ 2 دہائیوں کے تحائف اور ان سے متعلق تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں۔ توشہ خانے کا یہ ریکارڈ 2002 سے 2023 تک کا ہے جو 466 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ریکارڈ کے بعدتو ملکی سیاست میں ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کی گردان ختم سمجھیے کیونکہ توشہ خانے کی بہتی گنگا میں سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔

    اس رپورٹ کے مطابق سابق اور موجودہ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزرا، اراکین پارلیمنٹ، وزرائے اعلیٰ، بیورو کریٹس، حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی افسران سمیت کون نہیں ہے جو اس سے مستفید نہیں ہوا۔ وہ بھی جو خود کو صادق و امین کہتے نہیں تھکتے اور وہ بھی جو گھڑی چور گھڑی چور کی رٹ لگائے ہوئے ہیں بلکہ گھڑی چور کا شور مچانے والوں نے تو توشہ خانے سے کئی اور بعض نے درجنوں کے حساب سے گھڑیاں حاصل کیں۔

    توشہ خانے کی رپورٹ پر نظر ڈالیں‌ تو معلوم ہوتا ہے کہ 2002 سے 2022 کے دوران سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف، آصف علی زرداری، ممنون حسین، موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین، میر ظفر اللہ جمالی کے علاوہ اسحاق ڈار، خواجہ آصف، شیخ رشید، چوہدری پرویز الہٰی سمیت کئی نام ہیں جنہوں نے سرکاری تحائف کو معمولی رقم کے عوض یا مفت میں ذاتی ملکیت بنایا۔

    ایسے میں سینیٹ اراکین نے توشہ خانہ کے تحائف کی مزید تفصیلات مانگ لی ہیں اور 1988 سے اب تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت یہ ہمّت کر لیتی ہے تو مزید نام سامنے آجائیں گے۔

    حالیہ فہرست میں کئی ایسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے ان تحائف سے نہ صرف اپنے گھر بھرے بلکہ اپنی اولادوں کو نوازنے کے ساتھ دریا دلی دکھاتے ہوئے اپنے مہمانوں کو بھی قیمتی تحائف معمولی رقم کی ادائیگی پر دلوائے۔ ایسے نام بھی سامنے آئے جنہوں نے آج تک کوئی پبلک آفس ہولڈ نہیں کیا لیکن وہ بھی ‘مالِ غنیمت’ کے حق دار ٹھہرے۔ ذاتی ملازمین، ذاتی معالج، وزیراعظم کے آفس کے ملازمین کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

    توشہ خانہ سے فیض اٹھانے والوں کے ناموں کی فہرست کے ساتھ اس ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انتہائی مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں، قیمتی گھڑیاں، ہیرے جواہرات، طلائی زیورات، انمول اور شاہکار تو ایک طرف توشہ خانہ کو ذاتی خانہ بنانے والوں نے گلدان، سیاہی، پین، بیڈ شیٹ، ڈنر سیٹ، اسکارف، کارپٹ، گلاس سیٹ، گلدان، پینٹنگ، مجسمے، پرس، ہینڈ بیگز، تسبیح، کف لنکس، صراحی، پیالے، خنجر، چاکلیٹ، خشک میوہ جات کے پیکٹ، انناس کے باکس، شہد، خالی جار، کافی اور قہوہ دان، کپڑے، پرفیومز، دسترخوان، بھینس اور اس کے بچّے کو بھی نہیں چھوڑا۔

    توشہ خانہ قوانین کے سیکشن 11 کے مطابق تحفے میں والے نوادر اور شاہکار اشیا یا گاڑی کو کوئی بھی اپنے پاس رکھنے یا لینے کا مجاز نہیں ہے۔ انٹیک آئٹم میوزیم یا سرکاری عمارات میں رکھے جائیں گے اور گاڑیوں کو کیبنٹ ڈویژن کے کار پول میں رکھا جائے گا لیکن ان قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے دو انتہائی قیمتی گاڑیاں اور سابق صدر آصف علی زرداری نے تین بلٹ پروف مہنگی ترین گاڑیاں اصل قیمت سے کہیں کم قیمت دے کر اپنی ملکیت بنا لیں جب کہ نادر و نایاب فن پاروں کی اکثریت کسی میوزیم یا سرکاری عمارت کے بجائے بڑی شخصیات کے گھروں پر سجائی گئیں۔

    ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ گھڑیوں کے سب ہی شوقین نکلے۔ چند ماہ سے جن شخصیات نے سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کا شور ڈالا ہوا تھا وہی ایک نہیں کئی کئی بلکہ بعض تو درجنوں کے حساب سے توشہ خانہ سے گھڑیاں لینے والے نکلے۔ اب یہ گھڑیاں ان کے پاس ہیں۔ فروخت کیں یا کسی اور کو دے دیں۔مستقبل میں اس حوالے سے سوالات ضرورکھڑے ہوسکتے ہیں.

    گھڑی چور، گھڑی چور کا شور مچانے والوں میں سے جن لوگوں نے خود گھڑیاں حاصل کیں ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، راجا پرویز اشرف اور ان کا خاندان، آصف زرداری، مریم اورنگزیب اور ان کی والدہ سابق ایم این اے طاہرہ اورنگزیب، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی، موجودہ چیئرمین نیب، خواجہ آصف، کئی دیگر ن لیگی اور پی پی پی راہ نما شامل ہیں جب کہ طویل فہرست میں چند صحافیوں کے نام بھی موجود ہیں۔

    توشہ خانہ کی فہرست جاری ہونے کے بعد تنقید شروع ہوئی تو اس کا زور توڑنے کے لیے وفاقی حکومت نے توشہ خانہ پالیسی 2023 جاری کرکے اس کا فوری نفاذ بھی کر دیا جس کے تحت اب توشہ خانہ سے 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی ہوگی اور صدر، وزیراعظم، کابینہ اراکین اور دیگر حکومتی نمائندے سب اس کے پابند ہیں۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف ریاست کی ملکیت ہوں گے اور نیلامِ عام کے ذریعے عوام بھی اسے خرید سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ملکی و غیر ملکی شخصیات سے نقد رقم بطور تحفہ لینے پر بھی پابندی ہو گی۔ اگر تحفے کی صورت میں مجبوراً نقد رقم وصول کرنا پڑے تو یہ فوری طور پر قومی خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ سونے اور چاندی کے سکّے اسٹیٹ بینک کے حوالے کیے جائیں گے۔ توشہ خانہ پالیسی کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

    یہ پالیسی اعلان خوش کن ہے جس کے مطابق اب کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں، زیورات، گھڑیاں و دیگر قیمتی تحائف حاصل نہیں کیے جاسکیں گے لیکن اس پالیسی میں سوائے 300 ڈالر مالیت کی حد بندی کے علاوہ نیا کیا ہے؟ جو پہلے سے توشہ خانہ قوانین میں موجود نہیں تھا۔ یہاں مسئلہ قانون یا پالیسی بنانے کا نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں قانون تو بنتے رہتے ہیں لیکن اس کا اطلاق برسر اقتدار شخصیات اور بااختیار افراد پر نہیں ہوتا یا کم ہی ہوتا ہے۔ اگر توشہ خانہ کے قوانین پر عملدرآمد ہو رہا ہوتا تو قیمتی بلٹ پروف گاڑیاں آصف زرداری اور نواز شریف اپنی ملکیت میں نہ لیتے کیونکہ اس حوالے سے توشہ خانہ قانون کا سیکشن 11 بہت واضح ہے۔ رہی بات توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی تو گاڑیاں لے کر سابق صدر اور سابق وزیراعظم پہلے ہی اس قانون کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں اور کیا موجودہ شہباز حکومت ان کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ کرنے کی ہمّت کرے گی۔

    جو لوگ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق مفت یا کم قیمت پر توشہ خانہ سے تحائف ذاتی ملکیت بناتے رہے اور اس پر قوانین کا حوالہ دیتے رہے ہیں ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے مفتیانِ کرام کا جاری کردہ فتویٰ کافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مطابق توشہ خانہ سے کم قیمت پر اشیا خریدنا جائز نہیں کیوں کہ یہ تحائف ملک اور قوم کی امانت ہیں، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ حکومتی ذمے داروں کا ان تحائف کو مفت یا کچھ رقم دے کر اپنی ملکیت میں لینا جائز نہیں۔ علما نے فتویٰ جاری کرنے کے ساتھ حل اور ایک تجویز بھی پیش کی ہے کہ اگر سربراہان اور عہدے داران ان تحائف کو اپنی ملکیت میں لانا چاہیں تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان کی پوری قیمت ادا کی جائے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ ان تحائف کو نیلام کیا جائے اور نیلامی میں ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت ہو، اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کروایا جائے کیوں کہ یہ تحائف ریاست کی ملکیت ہیں۔

    آخر میں ہم سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ نقل کررہے ہیں، جو زندگی کا نوحہ ہے، اُس زندگی کا جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جارہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں. اُس زندگی کا نوحہ جسے پاکستان کے کروڑوں بدن دریدہ عوام گھیسٹے چلے جارہے ہیں ۔ اور یہ نوحہ مفادپرستی اور من مانی کی روشنائی کے ساتھ طاقت و اختیار ، شاہانہ کرّوفر اور امارت کے قلم سے لکھا گیا ہے!

    اس پوسٹ کے الفاظ ہیں: ’’کاش ملک کے غریبوں کے لیے بھی کوئی ایسا توشہ خانہ ہوتا جہاں‌ سے وہ 150 روپے کلو والا آٹا 15 روپے کلو، 200 روپے کلو والی پیاز 20 روپے کلو اور 1000 روپے کلو والا گوشت 100 روپے میں خرید سکتا۔‘‘

    اس پوسٹ پر کچھ لوگوں کا تبصرہ تھا کہ یہ الفاظ اربابِ اختیار کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ واقعی، ہم میں سے اکثر لوگ اچھے خاصے خوش گمان ہیں۔ البتہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ غالب نے یہ شعر اس بے حس معاشرے کی بے ضمیر اشرافیہ کے لیے ہی کہا تھا،

    کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

  • توشہ خانہ : سینیٹ اراکین نے سیکرٹریٹ سے بڑا مطالبہ کردیا

    توشہ خانہ : سینیٹ اراکین نے سیکرٹریٹ سے بڑا مطالبہ کردیا

    اسلام آباد : سینیٹ اراکین نے توشہ خانہ کے تحائف کی مزید تفصیلات مانگ لیں، ان کا کہنا ہے کہ 1988سے لے کر اب تک کا ریکارڈ جاری کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کی اہم ترین شخصیات کی جانب سے توشہ خانہ سے تحائف لینے کا معاملہ ایوان بالا تک پہنچ گیا، سینیٹ میں بھی توشہ خانہ سے تحائف لینے کی گونج سنائی دی۔

    اس حوالے سے سینیٹر کہدہ بابر اور سینیٹر پرنس عمر احمد زئی نے سوالات سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیے۔ سوالات کے مسودے میں دریافت کیا گیا ہے کہ بتایا جائے 1988سے2023توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات کیا ہیں؟

    سینیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ اس وقت کون کون سے تحائف توشہ خانہ میں موجود ہیں؟ اور کتنے تحائف نیلام اور کس کس نے خریدے ایوان کو تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز حکومت نے سال 2002 سے 2022 کے دوران توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والے سرکاری عہدوں کے حامل افراد کا ریکارڈ پبلک کردیا ہے جن میں سابق صدور، وزرائے اعظم، وفاقی کابینہ کے ارکان، سیاستدان، بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جرنیل، جج اور صحافی بھی شامل ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے ہدایات جاری ہونے کے بعد توشہ خانہ کی تفصیلات کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی گئی ہیں۔

  • توشہ خانہ کی تفصیلات جاری ، سوشل میڈیا پر دلچسپ میمز کا طوفان اُمڈ آیا

    توشہ خانہ کی تفصیلات جاری ، سوشل میڈیا پر دلچسپ میمز کا طوفان اُمڈ آیا

    توشہ خانہ سے تحائف کی وصولی پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مزاحیہ میمز شئیر ہونے لگیں،ایک صارف نے مریم نواز اور نواز شریف کو اڑن کھٹولے پر بٹھا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق توشہ خانہ کی تفصیلات جاری ہوتے ہی سوشل میڈیا پر دلچسپ میمز کا طوفان امڈ آیا۔

    ایک صارف نے لکھا کہ ‘صدر عارف علوی نے توشہ خانہ سے صرف قرانِ حکیمی کا نسخہ لیا۔’

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

    بیش قیمتی قالین کی قیمت صرف پچاس روپے ادا کرنے پر ایک صارف نے مریم نواز اور نواز شریف کو اڑن کھٹولے پر بٹھا دیا۔

    ایک صارف نے مریم نواز کے انناس لینے پر دلچسپ ویڈیو شئیر کی۔

    میمز بنانے والوں نے دونوں معزز شخصیات نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان گفتگو کی مزاحیہ ویڈیو بھی شیئر کی ۔

    ایک صارف نے خواجہ آصف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بیڈ شیٹس کا کلپ شیئر کر دیا تو ایک نے احسن اقبال کو بھی گھڑی چور کا خطاب دے ڈالا۔

    کچھ صارفین نے تو مریم نواز اور مریم اورنگزیب کی گھڑیوں کی تصویریں توشہ خانہ سے لی گئی گھڑیوں کے اسکرین شاٹس سے میچ کر دیں۔

    ایک صارف نے پی ٹی آئی چئیر مین کی تصویر کے ساتھ کیپشن لکھا کہ عزت دینے والی ایک ہی زات ہے تو ایک اور صارف نے لکھا کہ آگ ایسی لگی مزا آگیا۔