Tag: توہم پرستی

  • علم ہونے کے باوجود لوگ جعلی عاملوں کے چکروں میں کیوں پڑتے ہیں؟

    علم ہونے کے باوجود لوگ جعلی عاملوں کے چکروں میں کیوں پڑتے ہیں؟

    بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں توہم پرستی کا سب سے بڑا ذریعہ نجومی اور جعلی عامل پیر فقیر ہیں، کہیں ستاروں کے حساب سے تو کبھی جادو کے اثرات کے نام پر لوگوں کو سر عام لُوٹا جارہا ہے۔

    جعلی عاملوں نے کئی گھرانے اجاڑے، کئی عزتیں پامال کیں، اس کے باوجود جگہ جگہ ان جعلی عاملوں کے اشتہارات سے شہروں کی دیواروں کو کالا کردیا جاتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر نفسیات ڈاکٹر فاطمہ توفیق نے تفصیلی گفتگو کی اور جعلی عاملوں کی اس قسم کی خرافات سے بچنے اور اس کی وجوہات سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے معاملات ہمارے معاشرے میں کئی نسلوں سے چلے آرہے ہیں اس کو راتوں رات ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کے خاتمے کیلئے گراس روٹ لیول سے علم اور آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ اسکول سے لے کر یونیورسٹی لیول تک کے نصاب کی کتابوں میں اس طرح کے مضامین کو شامل کیا جائے۔

    ڈاکٹر فاطمہ توفیق کا کہنا تھا کہ اگر صحت کی بات کی جائے تو ہمارا دماغ بھی دیگر جسمانی اعضاء کی طرح ایک عضو ہے اگر اس میں کوئی خرابی یا بیماری پیدا ہوجائے تو لوگ اسے روحانی علامات سے جوڑ دیتے ہیں جو اس کی بنیادی وجہ ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ گھریلو یا کاروباری معاملات جیسے ساس بہو کا جھگڑا، رشتوں میں رکاوٹ، کاروبار کی بندش وغیرہ کا تعلق بھی نفسیات سے ہے، اس کے حوالے سے بھی ہمیں سینس آف کنٹرول کو سمجھنا ہوگا۔

    اس کے علاوہ کچھ لوگ دوسروں کو نقصان پہچانے کیلئے اس طرح کے عملیات کرتے ہیں وہ بے بسی کے احساس کی وجہ سے ہے ان کی مدد کرنے والا یا سمجھانے والا یا مشورہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔

    واضح رہے کہ حکومت نے جادو ٹونے کی روک تھام، کالے جادو، جعلی پیروں اور عاملوں پر پابندی اور جادوگری کی ممانعت پر غور شروع کر دیا ہے۔

    اس حوالے سے گزشتہ دنوں سینیٹ میں سینیٹر چوہدری تنویر نے جادو ٹونے کے خلاف بِل پیش کیا، جس کے بعد اسے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس کے حوالے کیا گیا۔

    مسودے میں ملک بھر میں جادو ٹونے کی روک تھام، کالے جادو پر پابندی اور جعلی پیروں و عاملوں کے خلاف سخت کارروائی کے لیے کہا گیا ہے۔ بل میں کالا جادو کرنے والے شخص کو کم از کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال تک سزا اور پچاس ہزار روپے سے دو لاکھ روپے تک جرمانہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

  • ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں؟ کیا آپ بھی اس کا شکار ہیں

    ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں؟ کیا آپ بھی اس کا شکار ہیں

    بہت سے لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ کچھ ایسی چیزیں دیکھ یا سُن رہے ہیں جو درحقیقت موجود ہی نہیں ہیں، اکثر لوگ اسے توہم پرستی میں اوپری ہوا کا اثر کہتے ہیں لیکن میڈیکل سائنس اس کے برعکس بیان کرتی ہے۔

    ایسے حالات یا تجربات درحقیقت ہماری جسمانی یا ذہنی صحت سے متعلق ہوسکتے ہیں اور بعض اوقات صحت کے سنگین مسائل کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے تجربے کو طبی زبان میں ’ہیلوسینیشن‘ کہتے ہیں۔

    Hallucinations

    ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں ؟

    کسی شخص کو کسی شے یا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو پھر بھی آوازیں سنائی دینے لگیں تو اس عمل کو ’ہیلو سینیشن‘ کہتے ہیں۔

    زیادہ تر معاملات میں ہیلوسینیشن کو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور یہ مریض کے معیار زندگی پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نشہ یا کچھ ادویات کے اثرات کو ایک طرف چھوڑ دیا جائے تو زیادہ تر معاملات میں اس کے لیے سنگین ذہنی اور دماغی صحت کی خرابیاں ہوتی ہیں۔

    اس حوالے سے بھارتی ماہر نفسیات ڈاکٹر رینا دتہ (پی ایچ ڈی) کا کہنا ہے کہ ہیلوسینیشن ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ہمارے حواس متاثر ہونے لگتے ہیں، یہ فریب کاری کئی قسم کی ہو سکتی ہے، جیسا کہ کچھ لوگوں کو بصری فریب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یعنی وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں ہیں، جبکہ کچھ لوگوں کو سماعت کے فریب کا سامنا ہو سکتا ہے، جس میں وہ ایسی آوازیں سن سکتے ہیں جو حقیقی نہیں ہیں جیسے کہ کسی کے بولنے یا گانے کی آواز وغیرہ۔

    اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو ’ٹیکٹائل ہیلوسینیشن‘ کا بھی سامنا ہوسکتا ہے یعنی ایسا محسوس ہو جیسے کوئی انہیں چھو رہا ہے اور ذائقہ یا بو سے متعلق فریب کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    Visual

    فریب کی وجوہات

    ڈاکٹر رینا دتہ بتاتی ہیں کہ ہیلوسینیشن بہت سی وجوہات کی وجہ سے ہو سکتا ہے جس میں جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق وجوہات اور مسائل کچھ بری عادتیں اور بعض اوقات تناؤ بھی شامل ہیں۔

    کچھ وجوہات جن کے اثرات میں ہیلوسینیشن بھی شامل ہے یا جنہیں فریب کی ذمہ دار وجوہات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔

    دماغی صحت کے عوارض : دماغی صحت کے عوارض جیسے شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، پی ٹی ایس ڈی، بعض دیگر فریبی عوارض، اور شدید ڈپریشن فریب کا باعث بن سکتے ہیں۔

    دماغی امراض : دماغی مسائل جیسے مرگی، پارکنسنز کی بیماری، یا دماغی ٹیومر بھی فریب کا باعث بن سکتے ہیں۔

    دواؤں کا اثر : کچھ دواؤں کے ضمنی اثر کے طور پر ہیلوسینیشن بھی ہو سکتا ہے۔

    متلی اور اضطراب: ضرورت سے زیادہ تناؤ اور اضطراب بھی انسان کو فریب کا شکار بنا سکتا ہے۔

    منشیات اور الکحل: کچھ منشیات اور الکحل کا زیادہ استعمال فریب کا باعث بن سکتا ہے۔

    نیند کی کمی: نیند کی دائمی کمی یا بے خوابی بھی فریب کا باعث بن سکتی ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ اگر دماغی یا دماغ سے متعلق وجوہات ہیلوسینیشن کی ذمہ دار ہیں تو ضروری ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر دوائیں، کچھ خصوصی تھراپی اور سائیکو تھراپی تجویز کرتے ہیں۔

    دوسری طرف اگر منشیات کا استعمال، نیند کی کمی یا دیگر رویے یا منشیات سے متعلق وجوہات اس کے لیے ذمہ دار ہیں، جس کا اثر صرف تھوڑے عرصے تک رہتا ہے تو ڈاکٹر متاثرہ شخص کو اس سے متعلقہ اچھی عادتیں اپنانے کا مشورہ دے گا۔ یعنی غذا، طرزِ زندگی اور باقاعدگی سے ورزش کرنا وغیرہ۔

  • سورج اور چاند سے جڑے دل چسپ انسانی تصوّرات

    سورج اور چاند سے جڑے دل چسپ انسانی تصوّرات

    سورج، چاند اور آگ کو ہزاروں سال پہلے بسنے اور اجڑنے والی کئی تہذیبوں اور سلطنتوں میں پوجا جاتا رہا ہے۔ مظاہرِ قدرت لوگوں کے نزدیک خدا اور ایک ایسی عظیم طاقت تصور کیے جاتے تھے جو ان کے معاملات کے ساتھ زندگی اور موت کا بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بعد میں جب انسان نے بولنا، لکھنا پڑھنا سیکھا تو ان مظاہر کا معاشروں میں مذاہب، فلسفے اور انسانی سوچ کی تشکیل میں بھی کردار نظر آنے لگا اور پھر یہ دیومالائی داستانوں کا حصّہ بنتے چلے گئے۔ لیکن ان سے جڑے مختلف عقائد اور توہمات پر آج سے ایک صدی پہلے تک بھی لوگ مکمل یقین رکھتے تھے۔

    بعض تہذیبوں اور مذاہب میں چاند کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ چاند سے متعلق بہت سے قصے، کہانیاں وابستہ ہیں۔ چاند پورا ہو یا آدھا، چودھویں کا ہو یا پھر چاند گرہن کا موقع آئے۔ قدیم دور کے لوگوں نے اسے کبھی خدا تسلیم کیا تو کہیں اس کی بدلتی ہوئی حالتوں سے خوف زدہ ہوکر غیظ و غضب اور قہر کا دیوتا مان لیا۔ جہل اور لاعلمی کے دور کے انسان نے چاند کے بارے میں کئی دل چسپ قصّے اور روایات بھی بعد میں گھڑ لیں اور یہ سب کسی نہ کسی شکل میں‌ مذاہب کا حصّہ بن گئیں۔ کسی نے چاند گرہن کو انسانوں‌ کے لیے طاقت و توانائی کا ذریعہ مان لیا تو جوتشیوں اور ساحروں نے چاند گرہن کو انسانوں سے قربانی مانگنے کی علامت مشہور کردیا۔ چودھویں کا چاند ہو تو رات کو ڈر کر دعائیں اور منتر پڑھنے بیٹھ گئے۔ الغرض طرح طرح کی باتیں‌ اور افسانے آج تک سننے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں ہم ایسے ہی چند واقعات آپ کی دل چسپی کے لیے پیش کررہے ہیں‌ جو قدیم دور کے مختلف ادوار پر تحقیقی کتب میں‌ پڑھنے کو ملتی ہیں۔

    ہپو کریٹس آف کوس کو قبل مسیح کا یونانی طبیعیات داں کہا جاتا ہے جو کہتا تھا کہ ”رات کی تاریکی میں چاند کی دیوی کی طرف منہ پھیرنے والا مسخر ہو جاتا ہے، دہشت زدہ ہو جاتا ہے، مت ماری جاتی ہے۔‘‘

    چین کی لوک کہانیوں میں چاند کو ایک دیوی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کئی قصائص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ دیوی یعنی چاند اپنے شوہر کی روشنی چھین کر اس خوب صورت شکل میں رات کو جگمگاتی ہے، ورنہ کسی زمانے میں چاند دیوی ایک چٹان میں رہتی تھی۔ چین میں دیوی چاند کو ”چینج‘‘ (Change) پکارتے تھے۔

    زیادہ تر کہانیوں میں چاند کو دیوی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ دیوی عورتوں کے تحفظ کی علامت ہے اور ان کے حقوق کی لڑائی لڑتی رہی ہے۔

    جاپانی لوک کہانیوں میں بھی ہمیں بوڑھے چاند دیوتا اور سورج کے بارے میں قصّے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کسی زمانہ میں جاپانیوں کے نزدیک سورج گرہن اس وقت ہوتا تھا جب آسمان سے زمین پر زہر کی بارش شروع ہوتی ہے، اس لیے گرہن کے لگتے ہی جاپان میں پانی کے تمام کنوئیں ڈھک دیے جاتے تھے۔

    یونانی اور رومن باشندوں نے دو دیویوں (دیوی ارتمس اور دیوی سلینی) کا رشتہ بھی چاند سے جوڑا ہے۔ ”نورس‘‘ (Norse) مائیتھولوجی میں چاند ”مانی (Mani) اور سورج (Sol) بہن بھائی تھے۔ ان دونوں نے مل کر دن رات تشکیل دیے۔ پھر یوں ہوا کہ ان کے باپ کو ان دونوں میں تکبّر کی بُو آنے لگی۔ یہ اس کے نزدیک ناقابل معافی تھا اور باپ نے اپنی طاقت سے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ یعنی سورج کو دنیا کے ایک کونے پر محدود کر دیا اور چاند کو دنیا کے دوسرے کونے پر رکھ دیا۔ یوں سورج اور چاند آسمانوں میں الگ الگ ہو گئے۔ جس کے بعد ایک بڑی جنگ ہوئی جس میں کئی دیوتا مارے گئے۔ مانی (چاند) کے پیچھے بھیڑیے لگ گئے جنہوں نے (چاند گرہن کے وقت) اسے کھا لیا۔ لیکن بعد میں بھائی ”سول‘‘ یعنی سور ج نے بچا لیا۔

    سورج گرہن پر قدیم چینیوں میں مشہور تھا کہ سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب نظروں سے اوجھل رہنے والا اژدھا سورج کو نگلنے لگتا ہے۔ وہ سورج کو جتنا کھا لیتا ہے اتنا ہی اسے گرہن لگ جاتا ہے۔

    محققین بتاتے ہیں کہ 840ء میں فرانس میں مکمل سورج گرہن ہوا اور وہ زمانہ فرانسیسی بادشاہ لویئس کا تھا۔ وہ پانچ منٹ تک حیرت اور خوف کے ملے جلے تأثر کے ساتھ سورج گرہن کو دیکھتا رہا اور یہ خیال اسے آیا کہ اس کے ملک کو کچھ ہورہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اسی تذبذب کے عالم میں وہ ابدی نیند سوگیا۔ سورج گرہن کا یہ واقعہ اس کے حواس پر سوار ہوگیا تھا اور وہ اس کی تاب نہ لاسکا۔

    محققین کے مطابق کرسٹوفر کولمبس کا ایک واقعہ بھی اسی طرح کا ہے۔ امریکہ کے سفر کے دوران کرسٹوفر کولمبس کا جہاز ایک سال جمیکا کے جزائر میں رکا رہا۔ ان کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہو گیا اور خوراک کی شدید کمی ہو گئی۔ کرسٹوفر کولمبس اور ساتھیوں نے وہاں کے باشندوں سے خوراک مانگ کر گزارہ کیا۔ وہ بھی ان سے تنگ آگئے۔ ادھر 29 فروری 1504ء کو چاند کو گرہن لگ گیا۔ کولمبس نے کہانی گھڑی اور مقامی باشندوں کو خبردار کیا کہ ” تم لوگوں نے مجھے کھانے پینے کا سامان نہیں دیا تھا اب دیکھو! خدا تم سے ناراض ہے۔‘‘ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر خوراک مہیا نہ کی تو خدا چاند کو ہی غائب کر دے گا۔ تب مقامی باشندے کولمبس کے سامنے گڑگڑائے اور التجا کی کہ ”آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ چاند واپس کر دے ہم خوراک دینے کو تیار ہیں۔‘‘یوں کولمبس کی چالاکی کام کر گئی کیوں کہ وہ ان جاہل اور توہم پرست باشندوں کے مقابلے میں ایک قابل شخص تھا اور جانتا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔

  • توہم پرستی کی انتہا، والدین نے علاج کیلئے بیٹے کو گنگا میں ڈبو ڈبو کر مار دیا

    توہم پرستی کی انتہا، والدین نے علاج کیلئے بیٹے کو گنگا میں ڈبو ڈبو کر مار دیا

    بھارت کے ہریدوار میں توہم پرستی نے پانچ سالہ بچے کی جان لے لی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت میں خون کے کینسر میں مبتلا 5 سالہ بچے کے والدین اور اس کی خالہ نے دریائے گنگا کے پانی میں بیمار بچے کو صحیح کرنے کے لیے ڈال دیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق دہلی شہر میں رہائش پذیر بچے کے والدین نے اسے معجزہ کی امید میں بار بار گنگا میں ڈبوتے رہے جس کے بعد بچے کی موت ہوگئی۔

    ٹیکسی ڈرائیور کے مطابق بچے کے ساتھ اس کے والدین اور ایک اور خاتون رشتے دار بھی تھی، بچہ کی حالت انتہائی خراب تھی بچہ کینسر میں مبتلا تھا اور دہلی کے ڈاکٹروں نے اسے جواب دیدیا تھا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بچے کو اس کی خالہ نے سرد موسم میں دریائے گنگا کے پانی میں ڈبویا جبکہ والدین اس دوران مذہبی رسومات ادا کرتے رہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بچے کو کافی دیر تک پانی کے اندر ڈبویا گیا، اس موقع پر وہاں موجود لوگوں نے بچے کے گھر والوں کو ایسا کرنے سے روکا تاہم نہ ماننے پر وہاں موجود افراد نے زبردستی لڑکے کو پانی سے باہر نکالا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بچے کی خالہ نے اس وقت ناراضگی اور غصے کا اظہار کیا اور بچے کو باہر نکالنے والوں سے ہاتھا پائی بھی کی اور کہا

    واقعے کی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون بچے کی لاش کے ساتھ بیٹھی ہے، آدھے پاگل انداز میں ہنستے ہوئے نظر آنے والی خاتون کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’یہ بچہ کھڑا ہو جائے گا، یہ میرا وعدہ ہے‘۔

    رپورٹس کے مطابق بعدازاں بچے کو اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔

  • بالی ووڈ اداکارہ کس وہم کی شکار ہے؟

    بالی ووڈ اداکارہ کس وہم کی شکار ہے؟

    عام لوگوں کی طرح بعض اداکار بھی مختلف قسم کے توہمات کا شکار ہوتے ہیں، ان ہی میں ایک بالی ووڈ کی ابھرتی ہوئی خوب صورت اداکارہ کیارا اڈوانی بھی شامل ہیں۔

    کیارا اڈوانی، جو فلم کبیر سنگھ کی دلہنیا کے نام سے مشہور ہو گئی ہیں، نے ایک شو میں شرکت کے دوران اپنے بارے میں بتاتے ہوئے اپنی توہم پرستی کا بھی ذکر کیا ہے۔

    کیارا نے انکشاف کیا کہ وہ زندگی میں صرف ایک چیز کو لے کر توہم پرست ہیں، اداکارہ نے کہا ’میں صرف ایک چیز کے حوالے سے توہم پرست ہوں کہ جب تک میں کوئی فلم سائن نہ کروں کسی کو اس بارے میں نہیں بتاتی۔‘

    خیال رہے کہ کیارا اڈوانی اپنی نئی فلم کی تشہیر کے لیے فلم کی کاسٹ کے ساتھ اسٹینڈ اپ کامیڈین کپل شرما کے شو میں سوالات کے جواب دے رہی تھیں۔

    یاد رہے کہ کیارا نے کامیڈی فلم ‘فگلی’ سے اپنی فلمی لائف کا آغاز کیا تھا، اس کے بعد بایوپک ’ایم ایس دھونی‘ میں سراہا جانے والا کردار نبھایا، اس کے بعد ان کو فلم لسٹ اسٹوریز، تیلگو پولیٹیکل تھرلر بھارت انے نینو، کبیر سنگھ اور شیر شاہ جیسی ہندی فلموں میں کام ملا۔

  • بھارت میں زخمی پرندوں کا علاج کیوں نہیں کیا جاتا؟

    بھارت میں زخمی پرندوں کا علاج کیوں نہیں کیا جاتا؟

    نئی دہلی: آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارت میں زخمی پرندوں کے علاج کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، لیکن بھارتی دارالحکومت میں دو ایسے بھائی بھی رہتے ہیں جنھوں نے خود کو زخمی پرندوں کے علاج کے لیے وقف کر رکھا ہے۔

    جب ان بھائیوں کو پہلی بار معلوم ہوا کہ کوئی بھی زخمی پرندوں کا علاج نہیں کرنا چاہتا، تو وہ حیران ہوئے، اور انھیں افسوس بھی ہوا، معلوم ہوا کہ زخمی پرندے دراصل ’بدشگونی کی علامت‘ ہیں، اور اسی لیے وہ علاج سے محروم رہتے ہیں۔

    بھارت کی راجدھانی کے آسمان پر مختلف اقسام کے شکاری پرندے اڑان بھرتے ہیں، ان کی ایک بڑی تعداد ہر ہفتے بجلی کے تاروں، پتنگوں کی ڈور، گاڑیوں کے نیچے آکر یا دیگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے زخمی ہو جاتی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ تھی کہ ان کی ’کراہیں‘ سننے والا کوئی نہ تھا۔

    لیکن کچھ عرصے سے نئی دہلی میں ندیم شہزاد اور محمد سعود نامی دو بھائی ان زخمی پرندوں کے لیے مسیحا بنے ہوئے ہیں، خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو انھیں ایک پرندہ زخمی حالت میں ملا، جس نے ان کی سوچ کو ایک راستہ دے دیا۔

    انھوں نے کہا وہ زخمی پرندے کو جانوروں کے ایک ایسے اسپتال لے گئے تھے جو صرف سبزی خور جانوروں کے لیے تھا، اسپتال پہنچنے پر انھیں مایوسی ہوئی کیوں کہ وہاں کے طبی عملے نے اس پرندے کا علاج کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد انھوں نے زخمی شکاری پرندوں کا علاج اپنے گھر ہی پر شروع کر دیا۔

    یہ دونوں بھائی ایک امدادی گروپ چلاتے ہیں جو زخمی جانوروں اور پرندوں کے لیے کام کرتا ہے، تاہم ایسا کرنے میں دونوں کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کیوں کہ زخمی جانوروں اور پرندوں کو برا شگون سمجھا جاتا ہے، اس لیے چند ہی لوگ ان کے ادارے وائلڈ لائف ریسکیو کو امداد فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

    44 برس کے ندیم شہزاد نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’انڈیا میں یہ توہم پرستی عام ہے کہ شکاری پرندے بد قسمتی کی نشانی ہوتے ہیں، انھیں زیادہ لوگ پسند نہیں کرتے بلکہ کئی تو ان سے نفرت کرتے ہیں۔‘